0
Tuesday 24 Jan 2017 02:46

سانحہ کوئٹہ پہ جوڈیشل کمشین کے بعد انسانی حقوق کمیشن کی رپورٹ

سانحہ کوئٹہ پہ جوڈیشل کمشین کے بعد انسانی حقوق کمیشن کی رپورٹ
رپورٹ: آئی اے خان

سانحہ کوئٹہ پر جسٹس قاضی عیسٰی کمیشن کی رپورٹ کے بعد انسانی حقوق کمیشن نے بھی اپنی رپورٹ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے سامنے پیش کر دی ہے۔ انسانی حقوق کمیشن کی رپورٹ اداروں کی کارکردگی کے حوالے سے جسٹس قاضی عیسٰی کمیشن کی رپورٹ سے میل کھاتی ہے۔ قائمہ کمیٹی کے سامنے یہ رپورٹ ہیومن رائٹس کمیشن کے ڈائریکٹر جنرل علی نواز چوہان نے پیش کی۔ انسانی حقوق کمیشن کی رپورٹ میں دبے لفظوں چیف سیکرٹری بلوچستان کے مستعفی ہونے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔ قائمہ کمیٹی نے رپورٹ کے بعد چیف سیکرٹری کو سمن کے ذریعے آئندہ اجلاس میں پیش ہونے کے احکامات جاری کر دیئے ہیں۔ مذکورہ سانحہ کوئٹہ میں گذشتہ برس آٹھ اگست کو پیش آیا تھا، جب بلال انور کاسی ایڈووکیٹ کو اہدافی قاتلوں نے پہلے قتل کیا اور جب ان کی میت کو ہسپتال لایا گیا تو وہاں خودکش حملے کے نتیجے میں کم و بیش 72 افراد جان کی بازی ہار گئے، جن میں زیادہ تر وکیل تھے۔ بلال انور کاسی بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے صدر تھے۔ ان دونوں حملوں کی ذمہ داری لشکر جھنگوی، طالبان کے لشکر احرار اور داعش نے قبول کی تھی۔ ان سانحات کے بعد سپریم کورٹ نے سپریم کورٹ کے جج قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں ایک کمیشن قائم کیا اور اسے تحقیق کی ذمہ داری سونپی۔ جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے اس خدشے کے پیش نظر کہ اس انکوائری رپورٹ کو بھی دبا دیا جائے گا، لہذا انہوں نے یہ رپورٹ باقاعدہ ویب سائٹ پر جاری کر دی۔

جسٹس قاضی عیسٰی کمیشن رپورٹ میں جو حقائق سامنے لائے گئے، وہ کسی بھی ذی شعور پاکستانی کیلئے باعث فکر ضرور ہیں کہ انکے ٹیکسز سے چلنے والے ادارے ان کی حفاظت کیلئے کس قدر ’’مخلصی‘‘ سے کیا کردار ادا کر رہے ہیں۔ قاضی عیسٰی کمیشن کی رپورٹ پر بجائے حکومت سانحہ کے ذمہ داران اور اپنے فرائض منصبی سے غفلت برتنے والوں کیخلاف کوئی کارروائی کرتی، چہ جائیکہ وفاقی وزیر داخلہ نے نہ صرف اس رپورٹ پر تحفظات اور خدشات کا اظہار کرکے اسے متنازعہ کرنے کی کوشش کی بلکہ عملی طور پر ان دہشت گرد گروہوں کیخلاف کارروائی میں بھی رکاوٹ ڈالی، جنکی نشاندہی اس رپورٹ میں کی گئی تھی۔ جسٹس قاضی عیسٰی رپورٹ میں صوبائی حکومت کی لاپرواہی اور فرانزک لیب، جدید آلات کی کمیابی کا ذکر کیا گیا۔ خودکش حملہ آور اور اس کے ساتھیوں کی شناخت سامنے لائی گئی۔ اس رپورٹ میں پولیس کی فہم و فراست اور ہسپتال انتظامیہ کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا گیا۔ رپورٹ میں کوئٹہ شہر کے سکیورٹی پلان کو سرے سے ناقص قرار دیا گیا۔ رپورٹ میں حکومت پاکستان پر بھی انسداد دہشت گردی ایکٹ کی خلاف ورزی ثابت کی گئی اور کہا گیا کہ کالعدم تنظیمیں اپنی غیر قانونی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وزیر داخلہ جو امن و امان اور قانون کے نفاذ نیز دہشت گردی کے خلاف اقدامات کے حوالے سے سب سے زیادہ ذمہ داری رکھتے ہیں، پر احساس ذمہ داری کے فقدان کا انکشاف کیا گیا اور بتایا کہ وزیر داخلہ ایک کالعدم جماعت کے سربراہ سے بھی کھلم کھلا ملتے ہیں (یہ کالعدم سپاہ صحابہ، کالعدم اہل سنت والجماعت کے سربراہ لدھیانوی سے ملاقات کے متعلق بیان کیا گیا تھا)۔ کمیشن رپورٹ نے بتایا کہ دہشت گردی کی وجہ سے ملک کو زبردست مالی نقصان ہو رہا ہےو مگر دہشت گردی کو روکنے، ختم کرنے کیلئے اور اس کے اثرات کو کم کرنے کیلئے بہت کم خرچ کیا جا رہا ہے۔ کمیشن رپورٹ نے دہشت گردوں کی کوریج اور دہشت گردی کے متاثرین تک میڈیا کی بہت کم رسائی کو بھی ہدف تنقید بنایا۔

جسٹس قاضی عیسٰی کمیشن کی رپورٹ کے بعد انسانی حقوق کمیشن نے بھی اپنی رپورٹ میں انہی نقائص کی نشاندہی کی اور ساتھ ہی ذمہ داران کے رویوں کو بھی ناقابل قبول قرار دیا۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی انسانی حقوق کا اجلاس چیئرمین بابر نواز خان کی صدارت میں ہوا۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی انسانی حقوق کے اجلاس کو بریفنگ دیتے ہوئے ڈی جی ہیومن رائیٹس کمیشن جسٹس ریٹائرڈ علی نواز چوہان نے بتایا کہ انسانی حقوق کمشن نے حکومت اور تمام اداروں سے تمام اٹھائے گئے سوالات کے جواب طلب کئے ہیں، ہمارے پاس سول کورٹ کے اختیارات ہیں، اگر سوالوں کے جواب نہ ملے تو اپنا آزادانہ فیصلہ سنائیں گے۔ علی نواز چوہان نے کہا کہ کمیشن نے سانحہ کوئٹہ کے بعد علاقے کا دورہ کیا، شہداء کے لواحقین اور حکام سے ملے۔ علی نواز چوہان نے کہا کہ کوئٹہ سانحہ انٹیلی جنس فیلیئر تھا، جس پیٹرن پر حملہ ہوا وہ بہت کامن پیٹرن تھا، یہ پیٹرن ہزارہ قبیلے پر حملوں میں استعمال ہوا، ان کے متعدد لوگ شہید ہو چکے ہیں۔ انسانی حقوق کمیشن کی رپورٹ پر بریفنگ میں علی نواز چوہان نے بتایا گیا کہ اگر ایک پیٹرن پر پتہ چل جائے تو اس کو روکنے کے اقدامات کئے جا سکتے تھے، اس پر اسٹڈی تک نہیں کی گئی۔ یہ بھی تحقیقات میں پتہ چلا تھا کہ چمن کے لوگ اس طرح کے واقعات میں ملوث ہیں، جن کا پتہ تک نہیں لگایا گیا۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ کوئٹہ سانحہ میں پہلے بار کے صدر کو شہید کرکے لوگوں کو اکٹھا کیا گیا اور پھر بڑا حملہ کیا گیا۔

وی وی آئی پیز کی موومنٹ کے باعث شدید زخمیوں تک ہسپتال میں خون نہیں پہنچایا جا سکا۔ سانحہ کے بعد ہسپتالوں میں ڈاکٹرز تھے نہ عملہ، ٹراماسنٹر میں سرجنز نہیں تھے، سی ایم ایچ چھوٹا ہے، وہاں بھی صرف تین سرجن تھے۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ کمیٹی نے چیف سیکرٹری بلوچستان کو پیش ہونے کی تین مرتبہ ہدایت کی، انہوں نے آنا گواراہ نہیں کیا۔ کوئٹہ سانحہ سمیت گڈانی سانحہ اور پولیس ٹریننگ سنٹر پر حملے کی رہورٹ مانگی گئی۔ کمیٹی کو کچھ فراہم نہیں کیا گیا۔ کمیٹی ارکان نے کہا کہ چیف سیکرٹری کو اتنے بڑے واقعات پر استعفٰی دینا چاہئے۔ وہ حیلے بہانے کرکے واقعات پر پردے ڈالنے پر لگے ہیں۔ کمیٹی نے چیف سیکرٹری کو سمن کے ذریعے آئندہ اجلاس میں پیش کرنے کے احکامات جاری کر دیئے۔ اجلاس میں قومی اسمبلی کا میسیجنگ سسٹم خراب ہونے کا انکشاف ہوا۔ اجلاس حال میں داخل ہوتے ہی ممبر کمیٹی منزہ حسن نے بر وقت اطلاع نہ ملنے پر احتجاج کیا۔ جس پر سیکرٹری کمیٹی نے کہا کہ میڈم معزرت چاہتا ہوں قومی اسمبلی کا کمیٹیوں کے لئے بنایا گیا میسیجنگ سسٹم چند روز سے خراب ہے۔ منزہ حسن نے کہا کہ برائے مہربانی قومی اسمبلی کے مسیجنگ سسٹم کو ٹھیک کر دیا جائے، تاکہ کمیٹی ممبران کنفیوژن سے نکل سکیں۔ کمیٹی ممبران نے دفتر خارجہ پر برہمی کا اظہار کیا۔ چیئرمین کمیٹی بابر نواز خان نے دفتر خارجہ حکام کو ہدایت کی آئندہ کوئی بھی بیرونی معاہدہ ہو تو عوامی نمائندوں کو ضرور بریفینگ دی جائے۔ قوانین عوامی نمائندے بناتے ہیں، معاہدے دفتر خارجہ کے حکام کرکے مقننہ کو بتاتے تک نہیں۔ بابر نواز خان نے کہا کہ ایم این ایز اور سینیٹرز کو بیرونی معاہدات کے بارے تمام معاہدات سے متعلق آگاہی کے بعد بہتر قانون سازی کی جاسکتی ہے۔ آئی سی سی پی آر کے حوالے سے رپورٹ کمیٹی ممبران کو بروقت نہ بھیجنے پر کمیٹی ممبران برہم تھے۔

منزہ حسن نے کہا کہ اقوام متحدہ میں انسانی حقوق سے متعلق تیار کردہ رپورٹ دفتر خارجہ تاحال تیار نہ کرسکی، انسانی حقوق کمیٹی اور ہیومین رائٹس کمیشن سے کام کیوں نہیں لیا جاتا، ممبر منزہ حسن نے کہا کہ ٹیکس پئیر پر چلنے والی دفتر خارجہ کیوں اپنے ٹاسکس میں ناکام ہے۔ اگر آپ دفتر خارجہ نہیں چلا سکتے یا کوئی تعاون نہیں کر رہا تو ہمیں بتا دو، قوم کو دھوکے میں کیوں رکھیں۔ دفتر خارجہ حکام نے کہا کہ ہم نے وزارت انسانی حقوق سے رابطہ کیا ہے لیکن کوئی جواب نہیں ملے۔ ڈی جی وزارت انسانی حقوق حسن منگی نے کہا کہ ہمارے ساتھ وزارت داخلہ کوئی تعاون نہیں کر رہی۔ ایک درجن سے زائد خطوط وزارت داخلہ کو لکھے لیکن کوئی جواب کی زحمت نہیں کرتا، سوائے کے پی کے کے تمام صوبے تعاون کرتے ہیں۔ اجلاس میں دفتر خارجہ اور انسانی حقوق کمیشن کے درمیان ڈیوٹیز ایند رائٹس پر دلچسپ مکالمہ ہوا۔ ڈی جی دفتر خارجہ نے کہا کہ میری نطر میں نیشنل کمیشن آف ہیومین رائٹس اپنے آپ کو ایک عام این جی او نہ سمجھیں۔ نیشنل کمیشن فار ہیومین رائٹس ریاستی سطح پر بنایا گیا ادارہ ہے، چیئرمین نیشنل کمیشن آف ہیومین رائٹس علی نواز چوہان نے کہا کہ ہم جو بھی کر رہے ہیں، وہ قانون کے مطابق کر رہے ہیں۔

گذشتہ برس کوئٹہ میں پیش آنے والے اس سانحہ کے بعد ملک میں دہشت گردی کے مزید کئی واقعات رونما ہوچکے ہیں۔ ان تمام واقعات میں وہی غلطیاں، وہی خامیاں اور انہی چہروں کی وہی غفلت واضح طور پہ کارفرما ہے، جن کی نشاندہی ان کمیشنز نے اپنی رپورٹس میں کی ہے۔ سوال یہ ہے کہ پھر ان رپورٹس سے حکومت، اداروں نے کتنا سبق حاصل کیا ہے اور عوام کے جان و مال کے تحفظ کو مقدم رکھتے ہوئے اپنی کارکردگی کو کتنا بہتر بنایا ہے۔؟ موجودہ حالات و واقعات اس سادہ سے سوال کا جواب صفر بتاتے ہیں۔ قومی اسمبلی میں لیڈر آف دی اپوزیشن نے آج ہی بیان فرمایا ہے کہ یشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد میں سب سے بڑی رکاوٹ چوہدری نثار ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف اپنے وزیر داخلہ کے سامنے بے بس ہیں۔ دوسری خبر یہ بھی ہے کہ آج ہی لال مسجد کے خطیب مولوی عبدالعزیز آخری عدالتی مقدمے سے بھی باعزت بری ہوگئے ہیں۔ یہ وہی مولوی عبدالعزیز ہیں کہ جنہوں نے نہ صرف پاکستان میں داعش کو ویلکم کیا بلکہ دہشتگردی کی کسی بھی کارروائی یا دہشتگردوں کی مذمت سے یکسر انکار کیا تھا۔ خورشید شاہ کے بیان کو لحظہ بھر کیلئے سچ مان لیں تو جس ملک میں وزیراعظم اپنے وزیر داخلہ کے سامنے بے بس ہو، وہاں وزیر داخلہ کا کالعدم دہشت گرد گروہوں کے سامنے بے بس ہونا، کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہونی چاہیئے۔
خبر کا کوڈ : 602936
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش