0
Tuesday 24 Jan 2017 23:30

شام میں جنگ بندی کی متفقہ مصالحتی دستاویز

شام میں جنگ بندی کی متفقہ مصالحتی دستاویز
تحریر: سید اسد عباس

ایران، ترکی اور روس کے مابین شام میں جنگ بندی کے عمل کو موثر بنانے کے طریقہ کار پر مشتمل متفقہ دستاویز کی تیاری۔ یہ ایک نہایت خوش آئند اور توجہ طلب خبر ہے، جو آج ایران کے پریس ٹی وی کی انگریزی سائٹ پر شائع ہوئی۔ خبر کے مطابق اس اہم ملاقات میں ان تین اہم ممالک کے علاوہ میزبان ملک قزاقستان اور شام سے حکومت اور اپوزیشن اراکین کے وفود نے بھی شرکت کی۔ شام کے قضیے سے متعلق ہونے والی اس اہم ملاقات کی میزبانی قزاقستان نے کی۔ یہ ملاقات International meeting on syrian settlemnet کے زیر عنوان ہوئی۔ قزاقستان کے وزیر خارجہ Kairat Abdrakhmanov نے دارالحکومت آستانہ میں ہونے والی اس اہم ملاقات کی حتمی دستاویز پڑھ کر سناتے ہوئے شام کی قومی خود مختاری کے تحفظ کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ نشست میں اس بات پر زور دیا گیا کہ شام کے مسئلے کا کوئی فوجی حل موجود نہیں ہے۔ یہ مسئلہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 2254 کی روشنی میں سیاسی ذرائع سے حل ہونا چاہیے۔

قضیہ شام کے فریقوں کے مابین طے پایا کہ شام میں ہونے والی حالیہ جنگ بندی کو یقینی بنانے کے لئے تینوں ممالک ناظر کا کردار ادا کریں گے، تاکہ حالیہ جنگ بندی کی کوئی خلاف ورزی نہ ہوسکے۔ قزاقستان کی ملاقات کی حتمی دستاویز میں تینوں ممالک نے شام کی مسلح اپوزیشن کی مذاکرات کے عمل میں شمولیت کی تائید کی۔ یاد رہے کہ اقوام متحدہ کے تحت شام کے مسئلے پر آئندہ مذاکرات سوئزرلینڈ کے شہر جنیوا میں اگلے ماہ 8 فروری کو منعقد ہوں گے۔ اطلاعات کے مطابق شام کی اپوزیشن نے حتمی مسودے پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم جمہوریہ شام کی خود مختاری، آزادی اور علاقائی سالمیت پر کوئی سودے بازی نہیں کریں گے۔ اس اہم ملاقات میں شریک شامی اپوزیشن کے وفد کے راہنما الوش نے کہا کہ اپوزیشن کے حتمی دستاویز کے بارے میں تحفظات ہیں، ہم نے جنگ بندی کا مختلف مسودہ پیش کیا تھا۔ اس اہم ملاقات میں خطے کے اہم ممالک سعودیہ اور قطر نے شرکت نہیں کی، جو آخری جنیوا کی ملاقات میں موجود تھے۔ شامی حکومت کا کہنا تھا کہ ان دو ممالک کو اس گفتگو میں شامل نہیں ہونا چاہیئے، کیونکہ ان ممالک کی مسلح گروہوں کو امداد کے سبب ایک عرب ملک بدامنی کا شکار ہوا ہے۔

اس اہم گفتگو میں امریکہ بھی شریک نہیں ہوا، کیونکہ ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے اس ملاقات میں امریکہ کی شرکت کی مخالفت کی۔ ذرائع کے مطابق امریکہ کو اس سلسلے میں دعوت جاری نہیں کی گئی۔ رسمی دعوت جاری نہ ہونے کے سبب امریکہ سے کوئی وفد ان مذاکرات میں شریک نہ ہوا، بلکہ قزاقستان میں تعینات امریکی سفارت کار نے اس ملاقات میں مبصر کی حیثیت سے شرکت کی۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ گذشتہ ماہ روس، ترکی اور ایران نے حلب سے سول آبادی اور جنگجووں کے انخلا کے حوالے سے امور کو طے کیا۔ یہ معاہدہ حلب پر قبضے سے قبل طے پایا۔ اسی معاہدے کے سبب شام کے اکثر علاقوں میں جنگ بندی کا اعلان ہوا، جو تاحال جاری ہے۔ یاد رہے کہ اس سے قبل ہونے والی متعدد جنگ بندی کی کوششیں ناکام ہوچکی ہیں۔

یہ ملاقات اگرچہ شام میں جاری جنگ بندی کو یقینی بنانے کے لئے تھی، تاہم اس ملاقات میں شام کی حکومت، اپوزیشن کے کردار اور شامی اپوزیشن کو دہشتگرد گروہوں سے جدا کرنے کے حوالے سے بھی بات چیت ہوئی۔ یاد رہے کہ ان مذاکرات سے قبل ہی داعش اور النصرہ کو دہشت گرد گروہ کے عنوان سے الگ کیا جاچکا ہے۔ روسی وفد کے سربراہ الیگزینڈر لارینٹو نے کہا کہ ابتدا میں شامی اپوزیشن کافی تناو کا شکار نظر آئی، تاہم رفتہ رفتہ ان کا تناو کم ہوگیا۔ اقوام متحدہ میں تعینات شام کے سفیر اور حکومتی وفد کے سربراہ بشار جعفری نے آستانہ مذاکرات کو ایک کامیابی قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ آخر کار اب ہمارے پاس ایک ایسی دستاویز موجود ہے، جس پر سب کا اتفاق ہے۔

شامی اپوزیشن کی جانب سے آستانہ مذاکرات میں ایران کی شمولیت پر اعتراض کیا گیا، جس کے جواب میں بشار الجعفری نے کہا کہ ایران ان مذاکرات میں ترکی اور روس کے درجے کا گارنٹر ہے اور اس حتمی دستاویز کے حصول میں ایران کا اہم کردار ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیاست میں جذبات اور احساسات کا عمل دخل نہیں ہوتا بلکہ قومی مفاد کے تناظر میں نتائج کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ میرے خیال میں ہمیں متفقہ مصالحتی دستاویز کی صورت میں نتیجہ مل چکا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ہم یہاں ترکی کے شام میں کردار کے حوالے سے اعتراض کرسکتے تھے کہ ترکی نے شام میں جنگجووں کی مدد کی، تاہم ہم نے ایسا نہیں کیا، کیونکہ ہم سفارت کار ہیں اور ہم ذمہ دار ہیں۔ شامی وفد کے مطابق آستانہ کے ان مذاکرات کا بنیادی مقصد شدت کو کم کرنے کے لئے طریقہ کار کا تعین تھا۔

ان مذاکرات سے کیا نتائج نکلیں گے، اس کے بارے میں رائے زنی کرنا قبل از وقت ہے، تاہم اہم بات یہ ہے کہ شام کے قضیے کے اہم فریق منجملہ ترکی، ایران، شامی حکومت اور اپوزیشن سب کے سب جنگ بندی کے ایک متفقہ معاہدے تک پہنچ چکے ہیں، جس سے توقع کی جاسکتی ہے کہ شام میں جاری خانہ جنگی کا خاتمہ ہوگا اور ملک اپنے مسائل کے سیاسی حل کی جانب بڑھے گا۔ ان مذاکرات کے نتیجے میں یقیناً دہشت گرد گروہ اور مسلح اپوزیشن کے مابین بھی ایک خط امتیاز کھینچ دیا گیا ہے۔ قضیے سے مربوط طاقتیں شام کے مسئلے کے سیاسی حل کی جانب گامزن ہیں اور اس سلسلے میں اپوزیشن کو بھی اعتماد میں لیا جاچکا ہے۔ ترکی کا ان مذاکرات میں ایک گارنٹر کے طور پر سامنے آنا شام میں جاری مسلح جدوجہد کے خاتمے کی نوید ہے، ساتھ ساتھ شامی اپوزیشن کے حقیقی مسائل کے حل میں بھی ترکی کا کردرار اہم ہوگا۔ شام میں امن یقیناً خطے میں موجود صہیونی اکائی کے مفاد میں نہیں ہے اور وہ نیز اس کی حامی قوتیں اس سلسلے میں اس متفقہ دستاویز اور اس کے نتیجے میں ہونے والی جنگ بندی کے خاتمے کے لئے سر توڑ کوشش کریں گی، جیسے کہ قبل ازیں انہوں نے شام میں بدامنی کو عام کرنے کے لئے اپنے تمام تر وسائل استعمال کئے، تاہم شاید اب بہت دیر ہوچکی۔ واللہ اعلم
خبر کا کوڈ : 603252
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش