0
Thursday 26 Jan 2017 00:35

شام کے امن مذاکرات اور آستانہ اجلاس

شام کے امن مذاکرات اور آستانہ اجلاس
تحریر: سعداللہ زارعی

قازقستان کے دارالحکومت آستانہ میں شام کے امن مذاکرات کو آگے بڑھانے کیلئے شامی حکومت اور مخالفین کے درمیان نشست کا آغاز ہوچکا ہے۔ ایران، روس اور ترکی ان مذاکرات پر نظارت کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ آستانہ میں منعقدہ اس اجلاس میں شام میں جاری بحرانی صورتحال کے خاتمے اور جدید شام کی بنیادیں ڈالنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ یہ مذاکرات درحقیقت ایران کی جانب سے پیش کردہ "شامی – شامی مذاکرات" نامی فارمولے کے تحت انجام پا رہے ہیں، جس میں شام حکومت اور مخالفین مل کر ملک میں جاری بحران کے حل کیلئے مناسب راہ حل تلاش کرنے کی کوشش کریں گے۔ شام میں جاری بحران کے پوشیدہ حقائق کو جاننے اور آستانہ میں منعقدہ مذاکراتی نشست کی حقیقت تک پہنچنے کیلئے درج ذہل اہم نکات کی جانب توجہ ضروری ہے:

1۔ آستانہ میں جاری حالیہ مذاکرات کی بنیاد کچھ ہفتے پہلے ماسکو میں ایران، روس اور ترکی کے درمیان انجام پانے والے سہ جانبہ مذاکرات میں رکھی گئی۔ یہ ایک انتہائی اہم پیشرفت جانی جاتی ہے، کیونکہ اس سے قبل ترکی شام میں سرگرم حکومت مخالف گروہوں کا شدید حامی تصور کیا جاتا تھا اور صدر بشار الاسد سے مذاکرات کا بھی شدید مخالف تھا۔ لیکن اب ان مذاکرات میں شریک ہے، جن میں شام حکومت کے نمائندے بھی رسمی طور پر شرکت کر رہے ہیں۔ دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ ماضی میں انجام پانے والے مذاکرات میں شام حکومت کے مدمقابل صرف ایسے گروہ شرکت کرتے تھے، جو ملک میں مسلح کارروائیوں میں شریک نہ تھے، لیکن آستانہ میں منعقد ہونے والی نشست میں شام میں سرگرم حکومت مخالف مسلح گروہوں میں سے بھی کچھ گروہ شریک ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ ان گروہوں نے اپنے گذشتہ موقف یعنی صدر بشار الاسد کی حکومت کو نہ ماننے میں تبدیلی کی ہے۔ تیسرا اہم نکتہ یہ کہ اس سے پہلے اقوام متحدہ کے نمائندہ کی مرکزیت میں جتنے بھی امن مذاکرات انجام پائے ہیں، ان میں شام حکومت کے عدم جواز پر تاکید کی جاتی تھی، لیکن آج اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے نمائندے اور حتٰی امریکی سفیر ایک ایسی نشست میں شرکت کر رہے ہیں، جس کی بنیاد شام کی موجودہ حکومت کو قبول کرنے پر استوار ہے۔

2۔ متعدد دلائل کی روشنی میں یہ ثابت کیا جا سکتا ہے کہ آستانہ مذاکرات درحقیقت حلب میں اسلامی مزاحمتی بلاک کے مجاہدین کی عظیم فتح کا نتیجہ ہیں۔ حلب کی جنگ چند اہم خصوصیات کی حامل تھی۔ مثال کے طور پر اس معرکے میں اسلامی مزاحمتی قوتیں النصرہ فرنٹ جیسے مضبوط دہشت گرد گروہ سے نبرد آزما تھیں، جس نے بعد میں اپنا نام تبدیل کرکے "جبھہ فتح شام" رکھ لیا ہے۔ اسلامی مزاحمتی بلاک کے مجاہدین نے تقریباً دو ماہ کے اندر اندر مرکزی اور مشرقی حلب کو دہشت گرد عناصر سے آزاد کروا لیا، جبکہ النصرہ فرنٹ کے ایک کمانڈر کے بقول ترکی، قطر اور سعودی عرب نے حلب کی آزادی روکنے کیلئے اپنا ایڑی چوٹی کا زور لگا رکھا تھا۔ قطر نے انہیں دو ماہ کے اندر اندر دہشت گرد عناصر کی مدد کیلئے 40 ملین ڈالر خرچ کر ڈالے۔ حلب میں سرگرم دہشت گرد عناصر کے پاس کم از کم 2 سال تک جنگ لڑنے کی تمام سہولیات موجود تھیں، لیکن اسلامی مزاحمتی بلاک کی جانب سے ان پر اس قدر دباو ڈالا گیا کہ وہ اس کے مقابلے میں ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہوگئے۔ لہذا شام میں سرگرم مسلح دہشت گرد گروہ اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ حلب کی شکست کے بعد اب ان کے پاس کوئی "فوجی راہ حل" باقی نہیں بچا اور وہ حکومت کے روبرو مذاکرات کی میز پر بیٹھنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اگرچہ شام میں سرگرم تمام مسلح دہشت گرد گروہ مذاکراتی عمل میں شریک نہیں ہوئے، لیکن بعض مسلح گروہوں کی جانب سے اس عمل میں شریک ہونے سے بھی دیگر دہشت گرد گروہوں کے حوصلے پست ہو جائیں گے اور النصرہ فرنٹ جیسے دہشت گرد گروہوں کی پوزیشن بہت حد تک کمزور ہو جائے گی۔

3۔ آستانہ اجلاس میں شام میں سرگرم تقریباً 300 دہشت گرد گروہوں میں سے صرف 14 گروہوں نے شرکت کی ہے، جن میں فری سیرین آرمی، احرار الشام، فیلق الشام، الثوار لاھل الشام، جیش المجاہدین، جیش ادلب اور الجبھہ الشامیہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ اجلاس میں حاضر مسلح دہشت گرد گروہ کل دہشت گروہوں کا 20 فیصد ہیں۔ شام حکومت کے سیاسی مخالفین اور مسلح دہشت گرد گروہوں میں فرق یہ ہے کہ مسلح گروہ طاقت کے زور پر شام حکومت گرانے کا قصد رکھتے ہیں۔ ان دہشت گرد گروہوں کی کوشش ہے کہ وہ خود کو ملکی اور غیر ملکی حمایت یافتہ ظاہر کریں، تاکہ اس طرح اپنی اہمیت میں اضافہ کر سکیں۔ ان گروہوں کی جانب سے مذاکرات میں زیادہ تر جنگ بندی کے تسلسل اور محاصرے میں آئے حکومت مخالف عناصر کی مدد پر زور دیا گیا، جبکہ ماسکو میں جاری بیانئے میں شام حکومت اور مخالفین کے درمیان طولانی مدت سیاسی مفاہمت پر زور دیا گیا تھا۔ مذاکرات میں شامل مسلح گروہوں کی جانب سے خود کو دو ایشوز میں محدود کرنے کی بڑی وجہ النصرہ فرنٹ جیسے شدت پسند گروہوں کی جانب سے مذاکرات کی مخالفت اور حکومت سے مفاہمت نہ کرنے کا اعلان ہے۔ اسی وجہ سے جیش الاسلام کی مرکزیت میں محمد علوش کی سربراہی میں آستانہ مذاکرات میں شرکت کرنے والے 14 مسلح گروہوں کی اہمیت بھی کم ہو گئی ہے۔

النصرہ فرنٹ اور دیگر شدت پسند مسلح گروہوں نے آستانہ اجلاس کے بارے میں بیانیہ جاری کرتے ہوئے اس میں شریک گروہوں کی شدید مذمت کی ہے اور ان پر الزام عائد کیا ہے کہ انہوں نے انقلابی اہداف کیلئے جدوجہد ترک کرکے اپنے اور اپنے حامی ممالک کے مفادات کی تکمیل کی کوششیں شروع کر دی ہیں۔ اس اعلامیے میں مزید کہا گیا ہے کہ سیاسی راہ حل کبھی بھی انقلاب کے فائدے میں نہیں رہا۔ فتح الشام کے اس بیانئے سے واضح ہوتا ہے کہ حلب میں اسلامی مزاحمتی بلاک کی عظیم کامیابی نے دہشت گرد گروہوں پر مشتمل محاذ میں ایک بڑی دراڑ ڈال دی ہے۔ حلب میں شکست کے بعد بعض دہشت گرد گروہوں نے مسلح جدوجہد سے مایوس ہو کر سیاسی راہ حل کا رخ کر لیا ہے۔ دہشت گرد گروہوں پر مشتمل اتحاد فتح الشام کی جانب سے جاری شدہ اس اعلامیہ میں بھی واضح طور پر اس امر کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے، جو آستانہ اجلاس سے صرف ایک روز قبل سامنے آیا ہے۔ حلب کی آزادی کے بعد سیاسی اور فوجی میدان میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں، جنہوں نے مسلح دہشت گرد گروہوں پر انتہائی منفی اثرات ڈالے ہیں۔ شام میں سرگرم دہشت گرد گروہوں میں سے بعض کے ہمسایہ ممالک سے گہرے تعلقات استوار ہیں، جنہوں نے ان گروہوں پر دباو ڈالا ہے کہ وہ آستانہ اجلاس میں شرکت کریں۔ یہ وہی ممالک ہیں جو اس سے قبل ان گروہوں کو دیگر ایسے دہشت گرد گروہوں سے جدا کرنے کی کوشش کر چکے ہیں، جو ان کی نظر میں زیادہ شدت پسند گروہ ہیں۔

4۔ ترکی کا موقف اور آستانہ اجلاس میں اس کی شرکت بھی بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ ترکی اس سے قبل شام میں صدر بشار الاسد کی اقتدار سے علیحدگی پر زور دیتا آیا ہے، لیکن آج وہ خود ہی شام میں سرگرم مسلح دہشت گرد گروہوں پر ایسے اجلاس میں شرکت کرنے کیلئے زور ڈال رہا ہے، جو دہشت گرد گروہوں کے اتحاد فتح الشام کے بقول صدر بشار الاسد کے برسراقتدار رہنے کی براہ راست اور بالواسطہ تائید کے برابر ہے۔ ترکی نے یہ ظاہر کرنے کیلئے وسیع پروپیگنڈہ کیا ہے کہ آستانہ اجلاس میں اس کی شرکت کسی مجبوری کے تحت نہیں بلکہ اپنے آزاد اور خود مختارانہ فیصلہ کے تحت انجام پائی ہے۔ یہاں یہ اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا رجب طیب اردگان نے سیاسی عمل میں شریک ہو کر اپنے گذشتہ شدت پسندانہ موقف کی نفی کی ہے یا وہ اس اجلاس میں شرکت کے ذریعے حلب میں واضح شکست کے بعد زیر اثر دہشت گرد گروہوں پر اپنا اثرورسوخ باقی رکھنے کا خواہاں ہے؟ اس سوال کے جواب کیلئے ترکی کی صورتحال کا جائزہ لینے اور ترکی کے گذشتہ شدت پسندانہ موقف کے منفی نتائج پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں ترکی کے نائب وزیراعظم اور حکومتی ترجمان نعمان قورتلمش نے شام بحران سے متعلق ترکی کی پالیسیوں کے نادرست ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہماری تمام مشکلات کا سرچشمہ شام ہے۔ اگرچہ ترکی اب بھی شام میں حکومت مخالف مسلح دہشت گرد گروہوں کی فوجی امداد کرنے میں مصروف ہے اور دہشت گردی کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کا رویہ پہلے سے بہتر ہوتا جائے گا اور وہ سیاسی راہ حل کو فوجی راہ حل پر ترجیح دے گا۔

5۔ اگرچہ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ شام حکومت اور مسلح مخالفین کے درمیان جاری مذاکراتی عمل میں قطر اور سعودی عرب کا کوئی کردار نہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ قطر کی جانب سے اخوان المسلمین کی جانب جھکاو اور ترکی کی عدالت و ترقی پارٹی (AKP) سے اسٹریٹجک تعلقات نیز قطر پر مالی انحصار رکھنے والے جیش الحر جیسے مسلح گروہ کی آستانہ اجلاس میں شرکت سے ظاہر ہوتا ہے کہ قطر بھی اس اجلاس میں موجود ہے۔ دوسری طرف حکومت مخالف مسلح گروہوں کی قیادت محمد علوش کے ہاتھ میں ہے، جو جیش الاسلام کا سربراہ ہے اور اس گروہ کے سعودی عرب سے انتہائی قریبی تعلقات استوار ہیں، لہذا ایک طرح سے سعودی عرب بھی ان مذاکرات میں شریک ہے۔ لیکن سعودی حکام آستانہ اجلاس میں رسمی اور اعلانیہ طور پر شرکت کا اظہار نہیں کرنا چاہتے، کیونکہ اس طرح النصرہ فرنٹ جیسے مضبوط دہشت گرد گروہ سے ان کے تعلقات کشیدہ ہونے کا خطرہ موجود ہے۔ پس یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ امریکی سربراہی میں وہ سیاسی محاذ جو گذشتہ امن مذاکرات میں فعال طریقے سے شرکت کرتا رہا ہے، اس بار اپنی ہار مان کر نئے مذاکراتی سلسلے میں خفیہ اور درپردہ شرکت کو ہی اپنے لئے غنیمت تصور کرتا ہے۔

6۔ امن مذاکرات اور اس کے مقاصد کیلئے ایک بڑا خطرہ مغربی طاقتوں کی جانب سے سیاسی عمل کو اپنے اثرورسوخ میں واپس لانے کی کوششیں ہیں۔ گذشتہ دو روز کے دوران اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے نمائندے ڈی مستورا کی جانب سے اس موقف کا اظہار کہ آستانہ مذاکرات کا نتیجہ گذشتہ جنیوا مذاکرات کی تقویت اور ماضی میں پیش کردہ فارمولے کی جانب واپس پلٹنے کی صورت میں ظاہر ہونا چاہئے، ظاہر کرتا ہے کہ مغربی طاقتیں آستانہ اجلاس سے اپنے مطلوبہ اہداف حاصل کرنے کیلئے کوشاں ہیں۔ دوسری طرف اقوام متحدہ میں فرانس کے سفیر فرنسوا ڈیلاتر کا بیان بھی اسی حقیقت کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ لہذا آستانہ اجلاس شرکاء اور اہداف و مقاصد کے اعتبار سے ایک نیا تخلیقی اقدام تصور کیا جا رہا اور ساتھ ہی ساتھ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی قرارداد نمبر 2336 سمیت تمام گذشتہ منصوبوں کا اختتام بھی ثابت ہو رہا ہے۔ لیکن امریکہ، فرانس اور اقوام متحدہ آستانہ مذاکرات میں شریک ممالک پر دباو ڈال کر اس نئے سلسلے کو یہیں پر روک دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 603529
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش