0
Sunday 29 Jan 2017 23:30

ہمارا کتا کتا، تمہارا کتا ٹومی

ہمارا کتا کتا، تمہارا کتا ٹومی
تحریر: سید اسد عباس

امریکہ بہادر کے کمانڈوز نے آج یمن کے وسطی علاقے میں القاعدہ کے مرکز پر حملہ کیا، جس کے نتیجے میں چودہ افراد جاں بحق ہوئے، ان افراد میں ایک امریکی کمانڈو بھی شامل ہے۔ اطلاعات کے مطابق یہ حملہ یمن کے صوبے الباعدہ میں کیا گیا۔ مقامی ذرائع کے مطابق اس کارروائی میں 41 شدت پسند اور 16 عام شہری جاں بحق ہوئے ہیں۔ حملے کی ابتدا ایک مکان پر کئے جانے والے فضائی حملے سے ہوئی۔ جس کے بعد ہیلی کاپٹرز کے ذریعے کمانڈوز اترے اور حملہ کیا گیا۔ بتایا گیا ہے کہ مرنے والوں میں القاعدہ کا مقامی رہنما اور متعدد عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں۔ امریکی ذرائع کے مطابق یہ کارروائی نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی منظوری سے کی گئی۔ ان کے عہدہ سنبھالنے کے بعد یہ اپنی نوعیت کی پہلی کارروائی ہے۔ اس سے پہلے یمن میں امریکہ نے القاعدہ کے خلاف فضائی حملے کئے ہیں، لیکن اس طرح زمینی فوج بھیجنے سے متعلق کوئی ارادہ ظاہر نہیں کیا گیا تھا۔ خبر رساں ادارے اے ایف کے مطابق ایک مقامی قبائلی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ حملے میں القاعدہ سے منسلک تین قبائلی رہنماؤں کے گھروں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق اپاچی ہیلی کاپٹرز نے ایک سکول، مسجد اور القاعدہ کے زیرِ استعمال طبی مرکز کو بھی نشانہ بنایا۔

دہشت گردی کی کوئی بھی صورت کسی بھی امن پسند انسان کے لئے قابل قبول نہیں ہے، خواہ یہ دہشت گردی انفرادی ہو یا اجتماعی ، فکری ہو یا سیاسی، ثقافتی ہو یا تعلیمی، سفارتی ہو یا ریاستی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ امریکہ کی جانب سے کیا جانے والا یہ حملہ اپنی نوعیت کا پہلا حملہ قطعاً نہیں ہے۔ 1979ء انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد ایسی مہم جوئی ایران کے خلاف کی گئی، جس کا مقصد اپنے جاسوسوں اور سفارتکاروں کو ایرانی طلبہ سے چھڑوانا تھا۔ امریکی فوجی اسی طرح ایران کی سرزمین میں داخل ہوئے اور اپنی کارروائی کو انجام دینے کی کوشش کی۔ یہ حملہ بری طرح ناکام ہوا اور امریکی افواج کو ناکامی کے ساتھ بچے کھچے افراد کے ہمراہ لوٹنا پڑا۔ پھر اس طرح کی کمانڈو کارروائیاں دنیا بھر میں کی گئیں۔ ممکن ہے کہ کہا جائے کہ ایرانی حکومت سے ہمارے تعلقات اچھے نہ تھے، لہذا یہ اقدام کرنا پڑا، تاہم امریکہ بہادر بعض اوقات اپنے دوستوں کے ساتھ بھی یہ زیادتی کر جاتا ہے، جیسا کہ پاکستان کے ساتھ کیا گیا۔ عالمی قوانین اور بین الاقوامی سرحدوں کو روندتے ہوئے پاکستان میں بھی اسی نوعیت کی ایک کارروائی ہوئی، جس میں القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو قتل کیا گیا۔

ایک جانب امریکہ بہادر کی افواج پوری دنیا کو اپنی کالونی سمجھتے ہوئے وہاں سیر سپاٹے کرتی پھرتی ہیں اور دوسری جانب امریکہ بہادر کے صدر محترم سات مسلمان ممالک کے پناہ گزینوں اور قانونی شہریوں کے لئے اپنی سرحدیں بند کرتے ہیں۔ ایران، عراق، شام، یمن، لیبیا، صومالیہ اور سوڈان کے شہری ائیرپورٹس پر در در کے دھکے کھا رہے ہیں۔ دنیا بھر کے ائیر پورٹس پر ویزا کے حامل ان شہریوں کو رکاوٹوں اور مشکلات کا سامنا ہے۔ ہوائی اداروں نے اپنے سٹاف کو اس پابندی سے بچنے کے لئے بدل لیا ہے۔ امریکہ میں عموماً اس طرح کے صدارتی احکامات قانون سازی کے عمل سے بچنے کے لئے جاری کئے جاتے ہیں۔ کوئی بھی نیا صدر وائٹ ہاوس میں آمد کے بعد اس طرح کے احکامات جاری کرتا ہے۔ ایک خبر رساں ادارے کے مطابق صدر ٹرمپ اس وقت تک سترہ صدارتی احکامات جاری کر چکے ہیں۔ جن کے امریکہ کے اندر اور امریکہ سے باہر وسیع اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے ان احکامات کا مقصد انتخابات کے دوران کئے گئے وعدوں پر فوری عمل درآمد ہے۔ اس وقت تک صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ہیلتھ کیئر، امیگریشن، تیل نکالنے، اسقاط حمل، وفاقی بھرتیوں اور تجارت جیسے معاملات پر پالیسیاں تبدیل کی ہیں۔ ان تمام فیصلوں میں سے امیگریشن کے حوالے سے صدر ٹرمپ کا حکم نامہ سب سے زیادہ اثرات کا حامل ہے۔

اس حکم نامے کے اہم نکات درج حسب ذیل ہیں:
امریکی پناہ گزینوں کے داخلے کا پروگرام 120 روز کے لئے معطل۔
شامی پناہ گزینوں پر پابندی 90 روز تک عراق، شام اور مشکوک علاقوں سے آنے والوں پر پابندی۔ ان ممالک میں ایران، لیبیا، صومالیہ، سوڈان اور یمن شامل ہیں۔
مذہبی استحصال کا شکار افراد کی درخواستوں کو ترجیحی بنیادوں پر دیکھا جائے، لیکن صرف ان لوگوں کی جو اپنے ممالک میں کسی اقلیتی مذہب کا حصہ ہوں۔
2017ء میں صرف 50 ہزار پناہ گزینوں کو داخلہ دیا جائے۔ یہ تعداد سابق صدر اوباما کے مقابلے میں نصف ہے۔
اس حکم نامے پر امریکہ اور دنیا بھر میں عمل درآمد کے ساتھ ساتھ ردعمل کا آغاز ہوچکا ہے۔ جرمنی، برطانیہ، کینیڈا، ایران، عراق میں اس اقدام کے خلاف بیانات سامنے آرہے ہیں۔ سیاست دانوں سے لے کر کھلاڑیوں تک ہر کوئی اس اقدام پر اپنے دل کی بھڑا س نکال رہا ہے، وہاں دوسری جانب امریکی عدالتوں میں اس آرڈر کے خلاف سٹے آرڈر کے مقدمات دائر ہوچکے ہیں۔ عراق کے ایک اہم سیاسی راہنما مقتدیٰ الصدر نے کہا کہ امریکیوں کو بھی عراق سے نکل جانا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ انتہائی تکبر والی بات ہوگی کہ اگر آپ خود تو آزادانہ طور پر عراق اور دنیا کے دیگر ممالک میں داخل ہوتے ہیں، لیکن یہاں کے لوگوں کے اپنے ملک میں داخلے پر پابندیاں عائد کرتے ہیں۔

جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل نے کہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کو پناہ گزینوں پر پابندی لگانے کا جواز بنانا ٹھیک نہیں ہے۔ ان کے ترجمان کا کہنا تھا کہ جرمن چانسلر سمجھتی ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کسی خاص پس منظر کے لوگوں کو شک کا مرکز بنانا مناسب نہیں ہے۔ ترجمان کے مطابق جرمنی کی حکومت سات مسلمان ممالک کے شہریوں اور پناہ گزینوں پر پابندی کو مسترد کرتی ہے اور جرمنی کے دوہری شہریت رکھنے والے افراد پر اس کے اثرات کے حوالے سے جائزہ لیا جا رہا ہے۔ برطانیہ کے وزیرِ خارجہ بورس جانسن نے صدر ٹرمپ کی جانب سے سات مسلمان ممالک کے افراد کے امریکہ میں داخلے پر پابندی کے فیصلے کو غلط اور تفریق پیدا کرنے والا اقدام قرار دیا ہے۔ برطانوی وزیراعظم نے وزیر خارجہ کو اپنے ہم منصب سے اس معاملے پر بات کرنے کا کہا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے باسیوں کے لئے کیسے صدر واقع ہوتے ہیں، یہ تو وقت ہی بتائے گا، تاہم ان کے تاحال اقدامات اور بیانات نے دنیا میں بے چینی اور افراتفری کو جنم دیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس صدر کی آمد سے دنیا ایک مرتبہ پھر غیر محفوظ ہوگئی ہے۔ نہیں معلوم یہ کس وقت کس قسم کا فیصلہ صادر کرتے ہیں، جس سے دنیا ایک نئی آفت سے متصادم ہو جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ عالم اسلام کی بے بسی ایک مرتبہ پھر عیاں ہوگئی کہ جو چاہے، جب چاہے، اپنے گھوڑے اسلامی ممالک میں دوڑائے کوئی روکنے والا نہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ دہشتگردی کی تعریف وہی ہے جو جناب صدر فرمائیں، انھیں وہ ممالک نظر نہیں آئے، جن کے شہری نائن الیون کے واقعے میں مورد الزام ٹھہرائے گئے۔ مقصد پابندی والی فہرست میں اضافہ نہیں بلکہ دہشتگردی کی وہ تعریف ہے، جو امریکی حکومت اور پالیسی ساز اداروں کے ذہنوں میں سرایت کرچکی ہے۔
خبر کا کوڈ : 604736
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش