4
0
Thursday 2 Feb 2017 22:07

عالمہ غیر معلمہ کی زندگانی پر ایک طائرانہ نظر

عالمہ غیر معلمہ کی زندگانی پر ایک طائرانہ نظر
تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی

حضرت زینب کبریٰ علیہا السلام کی زندگانی کے بارے میں سینکڑوں سال سے ہزاروں  محققین اور علماء کتابیں لکھتے آرہے ہیں، لیکن یہ ایک بیکران سمندر ہے، جس میں جتنا بھی غوطہ ور ہاتھ پاوَں چلائیں، انتہا کو پہنچنا ناممکن ہے۔ ہم بھی آپ کی زندگانی کے چند پہلوئوں پر اختصار کے ساتھ کچھ لکھنے کی کوشش کریں گے۔

1۔ ولادت باسعادت:
امام علی علیہ السلام اور حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کی پانچ اولاد تھیں، امام حسن علیہ السلام، امام حسین علیہ السلام، حضرت زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا، حضرت ام کلثوم سلام اللہ علیہا و حضرت محسن علیہ السلام۔ حضرت زینب سلام اللہ علیہا ۵ جمادی اول ہجرت کے پانچویں یا چھٹے سال یا شعبان کے مہینے میں ہجرت کے چھ سال بعد مدینہ منورہ میں پیدا ہوئیں اور 15 رجب 62 ہجری میں 56 یا 57 سال کی عمر میں رحلت کر گئیں۔ بعض لوگ ان کے سال وفات کو 65 ہجری بتاتے ہیں، اس اعتبار سے آپ 60 سال کی عمر میں وفات پاگئیں۔ آپکی آرامگاہ کے بارے میں محققین کے درمیان اختلاف ہے، لیکن معروف ترین قول دمشق ہے، جہاں ہر روز ہزاروں کی تعداد میں زائرین دنیا کی مختلف جگہوں سے حاضر ہوتے اور ان کی بارگاہ اقدس سے مستفیض ہوتے ہیں۔ محمد بحرالعلوم کہتے ہیں: اس میں کوئی فرق نہیں ہے کہ سورج کہاں غروب ہو جائے، جو چیز اہمیت کی حامل ہے، وہ یہ ہے کہ اس سورج کی شعائیں جو روشنی بخش اور قیامت تک غروب نہیں ہونگی، دنیا کے لوگ روشنی کی ان شعاعوں سے مستفید ہوتے آرہے ہیں۔ ان کا مشہور ترین نام زینب ہے، جو لغت میں "نیک منظر درخت" کے معنی میں آیا ہے[2] اور اس کے دوسرے معنی "زین أَب" یعنی "باپ کی زینت" کے ہیں۔ متعدد روایات کے مطابق حضرت زینب سلام اللہ علیہا کا نام پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رکھا؛ البتہ آپؐ نے حضرت علی اور حضرت  فاطمہ زہراء علیہما السلام کی بیٹی کو وہی نام دیا، جو جبرائیل خدا کی طرف سے لائے تھے۔[3] جب رسول اللہ(ص) نے ولادت کے بعد انہیں منگوایا تو ان کا بوسہ لیا اور فرمایا: میں اپنی امت کے حاضرین و غائبین کو وصیت کرتا ہوں کہ اس بچی کی حرمت کا پاس رکھیں؛ بےشک وہ خدیجۃ الکبری (س) سے مشابہت رکھتی ہے۔[4]

2۔ شریک حیات اور اولاد
شرم و حیا عبداللہ بن جعفر کی راہ میں رکاوٹ تھا اور وہ حضرت علی علیہ السلام کی بیٹی سے شادی کرنے کا ارادہ ظاہر نہیں کرسکتے تھے؛ بالآخر ایک شخص نے عبداللہ کا پیغام  حضرت علی علیہ السلام کو پہنچایا اور کہا: رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جعفر بن ابی طالب سے کس قدر محبت کرتے تھے اور ایک روز آپؐ نے جعفر طیار کے بچوں کی طرف دیکھا اور فرمایا: "ہمارے لڑکے ہماری لڑکیوں کے لئے ہیں اور ہماری لڑکیاں ہمارے لڑکوں کے لئے ہیں۔" چنانچہ بہتر یہی ہے کہ آپ اپنی بیٹی زینب (سلام اللہ علیہا) کا نکاح عبداللہ بن جعفر سے کرائیں اور بیٹی کا مہر ان کی والدہ حضرت زہرا (سلام اللہ علیہا) کے مہر کے برابر 470 درہم قرار دیں۔ علی (علیہ السلام) نے رشتہ قبول کیا اور یہ رشتہ و نکاح 17 ہجری کو انجام پایا اور بہت جلد عبداللہ بن جعفر، علی (ع) کی دعا سے فراوان مال و دولت کے مالک اور جود و سخا کی بنا پر جواد کریم کے لقب سے مشہور ہوئے۔" حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے شرط رکھی کہ آپ حسین (علیہ السلام) سے شدید محبت کی بنا پر ہر روز آپ کا دیدار کرنے اور سفر کی صورت میں بھائی کے ہمراہ جائیں گی اور عبداللہ نے دونوں شرطیں مان لیں۔[5] خدا نے حضرت زینب (سلام اللہ علیہا) اور عبداللہ کو پانچ اولادیں عطا فرمائیں: چار بیٹے (علی، عون، عباس اور محمد) اور ایک بیٹی (ام کلثوم)۔[ 6]

3۔ فضائل:
خاندان پیامبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و علی علیہ السلام میں پلنے والے تمام مرد و خواتین صاحب فضیلت ہیں اور ہر ایک دوسروں کے لئے نمونہ ہے، ان افراد میں سے ایک زینب کبریٰ ہیں، جنہوں نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم و علی علیہ السلام و زہراء سلام اللہ علیہا کی آغوش میں پرورش پائی۔ ان کی فضیلت اس مختصر مقالے میں ذکر کرنا ممکن نہیں، لیکن کچھ فضائل کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

1: عالمہ و مفسرہ
حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی طرف سے کوفہ، ابن زياد کے دربار نیز دربار یزید میں آیات قرآنی پر استوار عالمانہ کلام و خطبات، سب آپ کی علمی قوت کے ثبوت ہیں۔ آپ نے اپنے والد حضرت علی علیہ السلام  اور والدہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا سے احادیث بھی نقل کی ہیں۔[7] علاوہ ازیں والد ماجد امیرالمؤمنین علیہ السلام کی خلافت کے دور میں کوفی خواتین کے لئے آپ کا درس تفسیر قرآن بھی حضرت زينب سلام اللہ علیہا کی دانش کا ناقابل انکار ثبوت ہے۔[8] حضرت زينب سلام اللہ علیہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور علی و زہراء علیہما السلام کی بیٹی ہونے کے ساتھ ساتھ صحابیۃ الرسول (ص) تھیں اور منقول ہے کہ آپ روایت و بیان حدیث کے رتبے پر فائز تھیں۔ چنانچہ محمّد بن عمرو، عطاء بن سائب، فاطمہ بنت الحسین اور دیگر نے آپ سے حدیثیں نقل کی ہیں۔[9] امام سجاد علیہ السلام آپ کی علمیت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: انت عالمہ غیر معلمہ فہمۃ غیر مفہمہ

2۔ فصاحت و بلاغت:
حضرت زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا کی فصاحت و بلاغت کا شاہکار ان کے خطبوں میں نظر آتا ہے، خصوصاً جو خطبہ ابن زیاد کے دربار میں آپ نے دیا، اس سے اس وقت کے لوگ بھی انگشت بہ دنداں ہوئے تھے اور یہ کہتے ہوئے نظر آرہے تھے کہ آج علی ابن ابی طالب علیہ السلام زندہ ہو کر خطبہ دے رہے ہیں۔ آپ فصاحت اور بلاغت میں عرب میں مشہور تھی۔ اسی اثناء میں ایک ماہ و سال دیدہ مرد نے روتے ہوئے کہا: میرے ماں باپ فدا ہوں، ان پر جن کے بوڑھے بہترین بوڑھے، ان کے اطفال بہترین اطفال، ان کی خواتین بہترین خواتین اور ان کی نسل تمام نسلوں سے والاتر و برتر ہے۔[10]

3۔ زہد و عبادت:
حضرت زینب كبریٰ سلام اللہ علیہا راتوں کو عبادت کرتی تھیں اور اپنی زندگی میں کبھی بھی تہجد کو ترک نہيں کیا۔ اس قدر عبادت پروردگار کا اہتمام کرتی تھیں کہ عابدہ آل علی کہلائیں۔[11] آپ کی شب بیداری اور نماز شب دس اور گیارہ محرم کی رات کو بھی ترک نہ ہوئی۔ فاطمہ بنت الحسین سلام اللہ علیہا کہتی ہیں: شب عاشور پھوپھی زینب سلام اللہ علیہا مسلسل محراب عبادت میں کھڑی رہیں، نماز و راز و نیاز میں مصروف تھیں اور آپ کے آنسو مسلسل جاری تھے۔[12] خدا کے ساتھ حضرت زینب سلام اللہ علیہا کا ارتباط و اتصال کچھ ایسا تھا کہ امام حسین علیہ السلام نے روز عاشورا آپ سے وداع کرتے ہوئے فرمایا: یا اختي لا تنسيني في نافلة الليل" ترجمہ: میری بہن! نماز شب میں مجھے مت بھولنا۔[13]

4۔ تدبیر اور مدیریت:
کاروان حسینی کی مدیریت و سرپرستی واقعہ عاشورا کے بعد آپ کے ذمے ہی تھی، امام حسین علیہ السلام نے آخری وداع میں اسی صلاحیت اور مدیریت کے پیش نظر اہل حرم کو آپ کے سپرد کیا تھا۔

5۔ شجاعت و حماسہ:
اس بات کی شاہد حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی وہ مقاومت ہے، جو حیوان صفت دشمنوں کے مقابلے میں آپ نے کی تھیں۔ جب قافلہ اسراء کوفہ پہنچا تو تماشائی جمع تھے۔ راوی نقل کرتا ہے کہ میں نے دیکھا کہ زینب کبریٰ سلام اللہ علیھا اس طرح خطبے دے رہی تھی، گویا علی ابن ابی طالب علیہ السلام کوفے میں خطبہ دے رہے ہوں۔ آپ خطبہ دیتی جا رہی تھی اور فرماتی تھیں: وائے ہو تم پر، آیا تم لوگ جانتے ہو کہ تم نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جگر گوشوں کو کس طرح شہید کیا؟ کونسا عہد تم لوگوں نے توڑا اور کن خواتین کو تم لوگ بازاروں میں لے آئے ہو۔؟ کس حرمت کو تم نے توڑ دیا ہے۔؟ نزدیک ہے کہ آسمان لوگوں کے سروں پر پھٹ جائے اور زمین میں شگاف پڑ جائے، پہاڑ ریزہ ریزی ہو جائیں اور زمین بکھر جائے، تمھیں جو مہلت ملی ہے، اس سے مغرور نہ ہو، چونکہ خدا کو سزا دینے میں جلدی نہیں، انتقام کا وقت آئے گا۔ آپ ؑنے ایسے دندان شکن تاریخی خطبے دیئے کہ روای کہتا ہے: لوگ حیرانی اور پریشانی کے عالم میں ہاتھوں کو دانتوں سے کاٹ رہے تھے، گویا حشر کا سماں ہو۔ روای کہتا ہے: ایک بوڑھا ہاتھوں کو آسمان کی طرف بلند کرتے ہوئے یہ کہہ رہا تھا، آپ کے بزرگان بہترین بزرگان، خواتین بہترین خواتین اور جوان بہترین جوان ہیں، آپ کا فضل بہت عظیم ہے۔ اسی طرح ابن زیاد کے دربار میں اپنا تعارف کراتے ہوئے سیدہ زینب سلام اللہ علیہا فرماتی ہیں: تمام تعریفیں خداوند متعال کے لئے، جس نے ہمیں اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے شرافت و کرامت سے نوازا، ہمیں ہر طرح کے رجس سے پاک رکھا، تم فاسق و رسوا ہو اور فاسق جھوٹ بولتا ہے۔ جب ابن زیاد نے پوچھا: آپ نے اپنے بھائی کے بارے میں خدا کے برتاو کو کیسے پایا۔؟ علی کی شیر دل بیٹی نے فرمایا: "ما رائیت الا جمیلا" میں نے جو بھی دیکھا اچھا دیکھا، قیامت کے دن دیکھ لینا کہ کون کامیاب و سرفراز ہوگا اور کون ناکام و بدبخت۔

6۔ صبر و استقامت:
آپ کے صبر و استقامت کو ملاحظہ کرنے کے لئے وہی حوادث و مشکلات کافی ہیں، جو عاشورا کے دن پیش آئے۔ آپ صبر و ایثار کی پیکر تھیں، ایک لطیف روحیہ کے  مالک ہونے کے باوجود حریم رسول کا آپ نے بہترین دفاع کیا۔ دوسری طرف بہتر 72 عزیزوں کو کھو چکی ہیں، عزیز افراد کے ابدان کو قطع قطع کیا گیا اور ان کی لاشوں پر گھوڑے دوڑائے جا رہے تھے۔ اسیروں، بیماروں اور یتیموں کی ذمہ داری بھی آپ پر تھی، ان تمام سختیوں کے باوجود بھائی کے ناتمام کردار کو تکمیل تک پہنچانے میں کوتاہی نہیں کی۔ حضرت زینب (سلام اللہ علیہا) صبر و استقامت کی وادی میں بےمثل شہسوار تھیں۔ جب بھائی حسین (علیہ السلام) کے خون میں ڈوبے ہوئے جسم کے سامنے پہنچیں تو رخ آسمان کی طرف کرکے عرض کیا: خدایا! اس چھوٹی سی قربانی اور اپنی راہ کے مقتول کو ہم آل رسول (ص) سے قبول فرما۔[14] ایک محقق کا کہنا ہے کہ: زینب (س) کے القاب میں سے ایک "الراضية بالقدر والقضاء" ہے اور اس مخدَّرہ نے شدائد اور دشواریوں کے سامنے اس طرح سے استقامت کرکے دکھائی کہ اگر ان کا تھوڑا سا حصہ مستحکم پہاڑوں پر وارد ہوتا تو وہ تہس نہس ہو جاتے، لیکن اس مظلومہ نے بےکسی، تنہائی اور غریب الوطنی میں "كالجبل الراسخ..." (مضبوط پہاڑ کی مانند) تمام مصائب کے سامنے استقامت کی۔[15] آپ نے بارہا امام سجّاد علیہ السلام کو موت کے منہ سے نکالا؛ منجملہ ابن زیاد کے دربار میں، جب امام سجّاد علیہ السلام نے عبیداللہ ابن زياد سے بحث کی تو اس نے آپؑ کے قتل کا حکم دیا۔ اس اثناء میں حضرت زینب (س) نے اپنے ہاتھ بھتیجے کی گردن میں ڈال دیئے اور فرمایا: "جب تک میں زندہ ہوں تم کو، انہیں قتل نہيں کرنے دونگی۔[16]

7۔ مالکہ کرامت:
کرامت ایک خدائی عطیہ ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں فرمایا: [ولقد کرمنا بنی آدم ۔۔]اسراء۷۰؛ اس قیمتی خدائی عطیہ کی حفاظت اور کم قیمت میں اسے بیچ نہ دینا ان وظائف میں سے ایک ہے، جسے عقل و شرع نے انسان کو ذمہ دار بنایا ہے۔ عاشور کے دن کرامت و شخصیت انسان کی پاسداری اور شجرہ طیبہ کا دفاع انجام پائے، واقعہ کربلا کے بعد دشمن نے کوشش کی کہ کاروان حسینی کی تحقیر کرے اور ان کا مذاق اڑائے، تاکہ ان سے انتقام لے لیں، لیکن حضرت زینب سلام اللہ علیہا پیامبر انقلاب و عاشورا نے ان کے اس قصد کو ناکام  بنا دیا، حقیقی معنوں میں شخصیت و کرامت انسانی کی پاسداری کی اور سپاہ یزید میں بارہا آپ نے یہ اعلان کیا کہ اس واقعہ میں ہم نے عزت و کرامت کے سوا کچھ نہیں دیکھا۔

8۔ حجاب و پاکدامنی
آپ ؑ کے حجاب و پاکدامنی کے بارے میں تاریخ میں منقول ہے: جب بھی حضرت زینب سلام اللہ علیہا مسجد النبی (ص) میں اپنے جد امجد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مرقد انور پر حاضری دینا چاہتیں تو امیرالمؤمنین علیہ السلام حکم دیتے تھے کہ رات کی تاریکی میں جائیں اور حسن و حسین علیہما السلام کو ہدایت کرتے تھے کہ بہن کی معیت میں جائیں۔ چنانچہ ایک بھائی آگے ہوتا تھا، ایک بھائی پیچھے اور حضرت زینب سلام اللہ علیہا درمیان میں ہوتی تھیں۔ ان دو بزرگواروں کو والد بزرگوار کا حکم تھا کہ مرقد النبی (ص) پر لگا ہوا چراغ بھی بجھا دیں، تاکہ نامحرم کی نگاہ قامت ثانی زہراء سلام اللہ علیہا پر نہ پڑے۔[17] یحیی مازنی کہتے ہیں: میں مدینہ میں طویل عرصے تک امیرالمؤمنین علیہ السلام کا ہمسایہ تھا؛ خدا کی قسم اس عرصے میں، مجھے کبھی بھی حضرت زینب سلام اللہ علیہا نظر نہ آئیں اور نہ ہی ان کی صدا سنائی دی۔[18]

9۔ روای حدیث:
اندیشہ اسلامی کے حفظ و انتقال کے اہم کاموں میں سے ایک نقل روایت ہے اور راوی حدیث کی خاص شرایط ہوتی ہیں، حضرت زینب سلام اللہ علیہا تمام دیگر فضائل کے ساتھ اس فضیلت کی بھی حامل تھیں۔ آپ ؑ نے اپنی والدہ گرامی، اپنے بابا اور بھائیوں سے روایات نقل کی ہیں۔ آپ ؑ صحابۃ الرسول (ص) تھیں اور منقول ہے کہ آپ ؑ روایت و بیان حدیث کے رتبے پر فائز تھیں۔ چنانچہ محمّد بن عمرو، عطاء بن سائب، فاطمہ بنت الحسین اور دیگر نے آپ سے حدیثیں نقل کی ہیں۔ حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے حضرات معصومین علیہم السلام سے متعدد حدیثیں مختلف موضوعات میں نقل کی ہیں، منجملہ: شیعیان آل رسول (ص) کی منزلت، حب آل محمد، واقعۂ فدک، ہمسایہ، بعثت وغیرہ۔

10۔ مدافع ولایت
آپؑ نے کئی مواقع پر امام سجاد علیہ السلام کی جان بچائی اور دشمنوں کے شر سے اس آفتاب امامت کو غروب ہونے سے بچایا۔ جب امام حسین علیہ السلام نے شہادت سے قبل صدائے استغاثہ بلند کیا تو سید سجاد علیہ السلام بستر بیماری سے اٹھے اور ہاتھ میں تلوار لے کر عصا کے سہارے بابا کی مدد کے لئے خیمے سے نکلے تو امام حسین علیہ السلام  نے بہن سے مخاطب ہو کر فرمایا: بہن میرے عزیز کو سنبھالو، کہیں دنیا نسل محمدی سے خالی نہ ہو جائے۔ حمید ابن مسلم روایت کرتا ہے کہ میں نے دیکھا کہ جب  شمر نے سید سجاد علیہ السلام کو قتل کرنا چاہا تو زینب بنت علی بیمار کربلا پر گر گئیں اور کہا خدا کی قسم جب تک میں قتل نہ ہو جاوں، میں اسے قتل نہیں ہونے دوں گی۔ جب اسیروں کا قافلہ ابن زیاد کے دربار میں داخل ہوا تو امام سجاد علیہ السلام اور ابن زیاد کے درمیان گفتگو ہوئی تو اس بدبخت نے امام سجاد علیہ السلام کو قتل کرنا چاہا تو علی کی شیر دل بیٹی نے سید سجاد علیہ السلام کو اپنے حلقے میں لیا اور اس سے مخاطب ہو کر فرمایا: اے ابن زیاد بس کر، جتنا خون تم نے بہایا ہے، کیا وہ کافی نہیں ہے۔؟ خدا کی قسم میں ان کو قتل نہیں ہونے دوں گی، یہاں تک کہ تو مجھے قتل نہ کرے۔

منابع:
قرآن مجید
1۔ جبران مسعود، الرّائد، ترجمہ رضا انزابی، ط دوم، مشهد، آستان قدس رضوی، 1376، ج 1، ص 924۔
2۔ باقر شریف القرشی، السیده زینب،ص 39/ حسن الهی، زینب كبری عقیله بنی هاشم، تهران، آفرینه، 1375، ص 29 /سیدكاظم ارفع، حضرت زینب (س) سیره عملی اهل بیت، ص 7۔
3۔ ابوالقاسم الدیباجی، زینب الكبری بطلة الحرّیة، ط. الثانیة، بیروت، البلاغ، 1417، ص 15 / سید نورالدین جزائری،وہی ماخذ، ص 44
4۔ ذبیح اللہ محلاتی، ریاحین الشریعہ، ج 13، ص 41۔
5۔ ابن عساکر، اعلام النساء، ص190۔ ذبیح‌الله محلاتی، ریاحین الشریعه، ج 3، ص 41و ترجمه زینب کبری، ص 89.
6۔ ابن عساکر، اعلام النسا، ص189
7۔ دلائل الامامة طبری، ج 3. ذبیح الله محلّاتی، ،ص57۔
8۔ نهج البلاغه ابن ابی الحدید، ج 16، ص 210؛ وسایل الشیعه، ج 1، ص 13 و 14 و بحارالانوار، ج 6، ص 107۔
9۔ ذبیح الله محلّاتی، ، ج 3، ص 56و 73۔
10۔ جعفر النقدی، وہی ماخذ، ص 61.
11۔ احمد صادقی اردستانی، وہی ماخذ، ص 106۔
12۔ ذبیح الله محلّاتی، ج 3ص62/ جعفر النقدی،
13۔ سید عبدالحسین دستغیب، زندگانی حضرت زینب، تهران، كاوه، ص 19۔
14۔ محمّد محمّدی اشتهاردی، وہی ماخذ، ص 99۔
15۔ سید علی نقی فیض الاسلام، خاتون دوسرا، ص 185۔
16۔ سید نورالدین جزائری، ص 24۔
17۔ محمّد باقر مجلسی، بحارالانوار، ج 45، ص 117۔
18۔ علی نظری منفرد، قصّه كربلا، ص 371۔
خبر کا کوڈ : 606060
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

محمد جان حیدری
Iran, Islamic Republic of
جزاکم اللہ بہت مدلل اور انتھائی علمی مقالہ لکھا ہے
United Kingdom
ماشاءاللہ
اللہ آپکے قلم میں اور بھی طاقت دے۔
صابر کمال نجفی
Iraq
موفقین.
زاد اللہ علمک و عملک.احسنتم
Iran, Islamic Republic of
ماشاءاللہ بہت اچھی تحریر ھے
ہماری پیشکش