0
Sunday 5 Feb 2017 21:05

مسئلہ کشمیر کو زندہ کرنے کی ضرورت

مسئلہ کشمیر کو زندہ کرنے کی ضرورت
تحریر: سید اسد عباس

یہ بات درست ہے کہ مسئلہ کشمیر کو تقریباً سات دہائیوں سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کسی بھی مسئلہ پر سے توجہ ہٹانے کا بہترین طریقہ اس کو اس قدر طول دینا ہے کہ لوگ اس مسئلہ کا تذکرہ سن کر اکتاہٹ محسوس کریں اور اس کو ناقابل حل سمجھ کر داخل دفتر کر دیں۔ فلسطین اور کشمیر کے مسائل کے ساتھ اسی قسم کا رویہ روا رکھا گیا ہے۔ اقوام عالم نے ان دونوں مسائل کی جانب توجہ دینا ترک نہیں بھی کی تو کم کر دی ہے۔ روایتی اور رسمی قراردادیں منظور کی جاتی ہیں اور پھر اگلے برس ان قراردادوں کی سالگرہ منائی جاتی ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں عوامی مسائل بدستور اپنی جگہ قائم ہیں۔ نہ ہی فلسطینی پناہ گزین اپنے گھروں کو لوٹ سکے، نہ ہی فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں آیا اور نہ ہی غاصب اسرائیل کے وجود کو غیر قانونی قرار دیا گیا۔ یہی حال کشمیر کا بھی ہے۔ اقوام متحدہ کی واضح قراردادوں، اس مسئلے پر ہونے والے سینکڑوں اجلاسوں اور ہزاروں جوانوں کی قربانیوں کے بعد بھی یہ مسئلہ بدستور قائم ہے۔ نہ ہی کشمیری مسلمانوں کو حق خودارادیت ملا اور نہ ہی وہ اس قابل ہیں کہ اپنی مرضی سے برصغیر میں قائم ہونے والی دو ریاستوں میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کر سکیں۔

مسئلہ کشمیر بہت واضح ہے اور تقریباً پاکستان کے بچے بچے کو اس مسئلے کی حقیقت سے آگاہی ہے، تاہم اس وقت ہم اکتاہٹ کے اس دور سے گزر رہے ہیں، جہاں کوئی مسئلہ انسانی شعور میں ناقابل حل حیثیت اختیار کر لیتا ہے۔ ریاست ہائے پاکستان و ہندوستان اس مسئلہ پر تین جنگیں لڑ چکی ہیں۔ بنیادی طور پر پاکستان اور بھارت کے مابین یہی مسئلہ وجہ نزاع ہے۔ دونوں ریاستوں کا حل جدا جدا ہے۔ پاکستان اپنے بنیادی موقف یعنی کشمیریوں کو استصواب رائے کا حق دینے پر قائم ہے اور بھارت اس مسئلے کو طول دیئے جا رہا ہے، تاکہ مسئلہ آخر کار داخل دفتر ہو جائے۔ کامیاب کون ہے، کوئی بھی صاحب نظر انسان اس بارے میں بہتر فیصلہ دے سکتا ہے۔ پاکستانی ریاست جو مسئلہ کشمیر کا ایک اہم فریق بلکہ حقیقی فریق ہے، نے اپنے تئیں اس مسئلہ کے حل کے لئے متعدد سطح پر کوششیں کیں، سیاسی، سفارتی، عوامی اور عالمی سطح پر اس مسئلہ کو اٹھانے کی متعدد کوششیں کی گئیں، تاہم اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے پیادے تھک ہار کر بیٹھ گئے ہیں اور سینیٹ میں ایک کشمیر کمیٹی بنا کر ساری ذمہ داری اس کمیٹی کے سپرد کر دی گئی ہے۔ یہ کمیٹی کبھی کبھار مسئلہ کشمیر کی اہمیت کو اجاگر کرکے اپنی ذمہ داری انجام دیتی ہے، اسی طرح ہم پاکستانی یوم کشمیر منا کر اپنا حق ادا کر دیتے ہیں۔

میرے خیال میں یوں مسائل حل نہیں ہوتے، بلکہ یہ اقدامات اس بات کی علامت ہیں کہ معاملہ داخل دفتر ہونے کے قریب ہے، جبکہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے قائد اعظم محمد علی جناح بانی پاکستان، پاکستان کی آزادی کو ریاست کشمیر کے الحاق کے بغیر نامکمل خیال کرتے تھے۔ آپ نے 1926ء سے 1944ء تک وادی کشمیر کا چار مرتبہ دورہ کیا۔ قائداعظم نے اپنے پہلے نجی دورے سے واپسی پر لاہور کے آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں کشمیر میں ڈوگرہ حکومت کی پالیسیوں اور مسلمانوں کو پسماندہ رکھنے کی کوششوں کے خلاف قرارداد پیش کی، جو 1926ء آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں متفقہ طور پر منظور ہوئی۔ قائداعظم محمد علی جناح دوسری مرتبہ 1929ء میں کشمیر گئے، اس دورے کے دوران میں آپ نے کشمیر کی مقامی قیادت سے ملاقاتیں کی۔ قائداعظم نے وادی کشمیر کا تیسرا دورہ 1936ء میں کیا۔ آپ کا استقبال مسلم کانفرنس کی قیادت نے کیا۔ قائداعظم محمد علی جناح نے اس دورے میں عوام سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ہاں اے مسلمانو! ہمارا اللہ ایک ہے، ہمارے رسول (ص) ایک ہیں، ہمارا قرآن ایک ہے، لہذا ہماری آواز بھی ایک ہونی چاہئے۔ قائد اعظم نے کشمیر کا چوتھا اور آخری دورہ 1944ء میں کیا۔ اس دورے کے دوران میں قائد اعظم وادی کشمیر میں ایک ماہ تک رہے۔ مسلم کانفرنس اور نیشنل کانفرنس کے وفود سے ملاقاتیں کیں، عوام، صحافیوں اور سیاستدانوں سے ملے۔ یہیں پر ایک کشمیری نوجوان کے ایچ خورشید کو اپنے پرسنل سیکرٹری کے طور پر چنا، جو 1944ء سے 1947ء قائداعظم کے ساتھ رہے۔

27 اکتوبر کو کشمیری مہاراجہ اور ہندوستانی ریاست کے مابین ہونے والے الحاق کے معاہدے کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان افواج کے کمانڈر ان چیف کو حکم دیا کہ وہ مقبوضہ کشمیر کے لئے اپنی افواج روانہ کریں، تاہم قائد اعظم کے اس حکم نامے پر عمل نہ کیا گیا۔ قائد اعظم کشمیری مسلمانوں کی آزادی و خود مختاری اور ترقی کو پاکستان کا مسئلہ سمجھتے تھے اور وہ اس مسئلے کو اس قدر اہمیت دیتے تھے کہ انہوں نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ حیات قرار دیا۔ بعد کے حاکموں نے قائد اعظم کی کشمیر پالیسی کو آگے بڑھانے کی ہر ممکن کوشش کی، جس کے سبب ہمیں بھارت سے متعدد جنگیں بھی لڑنی پڑیں، تاہم آہستہ آہستہ ریاست پاکستان کی کشمیر پالیسی صرف رسمی بیانات اور ایام تک محدود ہو کر رہ گئی۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت پاکستان اس مسئلہ کو عالمی ایوانوں اور ضمیر اقوام عالم میں زندہ کرنے کے لئے ایسے اقدامات لے، جس سے واقعی اس مسئلہ کو تقویت ہو، تاکہ کشمیریوں کی آزادی اور حق خود ارادیت کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکے، ورنہ کشمیر کی آزادی تک کے نعرے کشمیر کی بربادی تک جاری رہیں گے۔
خبر کا کوڈ : 606868
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش