0
Saturday 11 Feb 2017 15:41

انقلاب اسلامی، استعمار آج بھی خوفزدہ ہے

انقلاب اسلامی، استعمار آج بھی خوفزدہ ہے
تحریر: ڈاکٹر ابوبکر عثمانی

اسلامی دنیا میں اس وقت اگر کوئی ملک امریکہ کے استعماری ایجنڈے کے سامنے حقیقی معنوں میں قیام پذیر ہے تو بلاشبہ وہ ایران ہے۔ اس کا ایک ہلکا سا شائبہ نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مجنونانہ اعلانات و اقدامات کے ردعمل کی صورت میں بھی ملتا ہے۔ نومنتخب امریکی صدر نے سات اسلامی ممالک کے شہریوں پر نہ صرف امریکہ میں داخلے پر پابندی عائد کی ہے، بلکہ دیگر مسلمان ممالک بشمول پاکستان کے شہریوں کیلئے امیگریشن قوانین بھی انتہائی سخت کر دیئے۔ امریکی صدر نے اسی پر ہی اکتفا نہیں کیا، بلکہ ایران کے ساتھ گذشتہ برس چھ بڑی طاقتوں کے ہونے والے معاہدے کو منسوخ کرنے کی بھی دھمکی دے ڈالی۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ایران کو مجھ سے ڈرنا چاہیئے اور امریکی صدر اوباما کا شکر گزار ہونا چاہیئے کہ اس نے ایران کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ نئے امریکی صدر کے ان غیر عاقلانہ اقدامات و بیانات پر چند مسلمان ممالک کے امریکی تابعدار حکمرانوں نے نہ صرف واہ واہ کے ڈونگرے برسائے بلکہ اپنی خوشامدانہ اور جی حضوری کی سرشت سے مجبور ہوکر مزید سخت اقدامات کی تجویز پیش کی۔ (سادہ لوح ہیں، سمجھتے ہیں کہ شائد اس طرح اپنی ضرورت باقی رہنے کا امریکہ کو یقین دلا سکیں اور اسی ضرورت کے زینے پر کھڑے ہوکر اپنا قد بڑا کرسکیں)۔ اسلامی دنیا کی نمائندہ تنظیم او آئی سی نے امریکی صدر کے اس رویے پر محض رسمی سی تشویش کا اظہار کیا۔ ماسوائے ایران کے کسی بھی اسلامی ملک نے کوئی مناسب ردعمل نہیں دیا۔ ٹرمپ کے اعلانات کے جواب میں ایران نے بھی امریکی باشندوں کے ایران میں داخلے پر پابندی کا مژدہ سنایا، بلکہ محض چوبیس گھنٹوں کے اندر یکے بعد دیگر تین میزائل کے تجربات کر ڈالے۔

ایران کے سپریم لیڈر سید علی خامنہ ای نے کہا کہ ٹرمپ امریکی پالیسی میں تبدیلی نہیں لائے بلکہ امریکی پالیسیوں کو بے نقاب کیا ہے۔ ایرانی فضائیہ کے کمانڈورں سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سابق امریکی صدر اوباما نے ایران کو کمزور کرنے کی سرتوڑ کوشش کی، ایران پر سنگین قسم کی پابندیاں عائد کرکے ایران کو نقصان پہنچایا، اگرچہ اوباما اپنی کوششوں میں ناکام رہے اور ملت ایران نے امریکی حکمرانوں کو منہ توڑ جواب دیا۔ ہم سابق امریکی حکومت کا شکریہ کیا اس لئے ادا کریں کہ انہوں نے ہم پر ہر قسم کی پابندیاں عائد کیں؟ ان کا اس لئے شکریہ ادا کریں کہ انہوں نے خطے میں داعش جیسی درندہ صفت تنطیموں کو پروان چڑھایا؟ ہم اس لئے شکریہ ادا کریں کہ اوباما حکومت نے ایران کے داخلی مسائل میں دخالت کرکے سال 88 شمشی کے فسادات کی کھل کر حمایت کی۔؟ یہ ساری مثالیں اس سابق امریکی حکومت کے کارنامے ہیں، جس نے مخملی نرم دستانوں میں آہنی پنچہ چھپا رکھا تھا۔ ایران کے سپریم لیڈر نے کہا کہ ایرانی قوم کسی سے ڈرنے والی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایرانی قوم (10فروری) کے دن ایک بار پھر امریکی دھمکیوں کا منہ توڑ جواب دے گی۔ ایرانی سپریم لیڈر نے کہا کہ ہم صدر ٹرمپ کے شکر گزار ہیں، کیونکہ کہ انہوں نے اپنا اصلی چہرہ دینا کے سامنے پیش کر دیا ہے۔ 38 سالوں سے اسلامی جمہوریہ ایران امریکی تسلط پسندانہ رویوں، اقتصادی، سیاسی، اور سماجی غلط پالیسوں کو دنیا کے سامنے واضح کرتا آیا ہے، اب امریکہ نے اپنے حقیقی چہرے کو دنیا پر واضح کر دیا ہے کہ اس کی حقیقت کیا ہے اور وہ کیا چاہتا ہے۔

حال ہی میں امریکی امگریشن حکام کی جانب سے ایک 5 سالہ ایرانی بچے کو ہتھکڑیاں پہنانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ امریکی حقوق انسانی کیا ہیں، اب دنیا پر واضح ہوگیا، اللہ تعالٰی حضرت امام خمینی کو غریق رحمت کرے، وہ اپنی تقریروں اور تحریروں میں بار بار امریکی چال بازیوں اور شیطنت کی طرف لوگوں کو متوجہ کراتے رہے اور اسلامی جمہوریہ ایران کے حکام کو کسی بھی صورت میں امریکہ پر بھروسہ کرنے سے منع کیا اور آج امام راحل کی تمام فرمائشات سب پر واضح ہوگئیں ہیں۔ انقلاب ایران کے سپریم لیڈر کا یہ خطاب ایک مضبوط اور طاقتور ایران کی نشاندہی کرتا ہے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ برسوں سے اقتصادی، دفاعی پابندیوں کا شکار رہنے والے ملک ایران کے پاس ایسی کون سی قوت ہے، جو کہ ہمہ وقت اسے استعماری ایجنڈے و پالیسیوں کے خلاف قیام پر آمادہ رکھتی ہے تو وہ قوت ماسوائے انقلاب اسلامی کے کچھ اور نہیں۔ 11 فروری 1979ء میں ایران میں برپا ہونے والے عوامی اور اسلامی انقلاب نے اس وقت کے ’’امریکی پولیس مین‘‘ رضا شاہ پہلوی کے اقتدار کا تختہ الٹ کر خطے میں امریکی مفادات و اثر و رسوخ پر ایسی کاری ضرب لگائی کہ 38 سال بعد تمام تر قوت و حربے استعمال کرنے کے باوجود امریکہ خطے میں اپنے عزائم و مقاصد میں کامیابی حاصل نہیں کر پایا۔

مسلمان ملکوں میں آج ایران کو اگر بہت زیادہ اہمیت و حیثیت حاصل ہے اور اسے ہر لحاظ سے مضبوط و کامیاب سمجھا جا رہا ہے، تو اس میں بنیادی دخل انقلاب اسلامی کا ہے۔ گرچہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ امام خمینی کی قیادت میں برپا ہونے والے انقلاب کی، ایرانی قوم نے حفاظت کی اور ایرانی قوم اس انقلاب کی وارث ہے، مگر یہ خیال غلط ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انقلاب اسلامی نے نہ صرف ایران بلکہ دیگر مسلمان ملکوں کی نظریاتی، دفاعی، معاشی، ثقافتی سرحدوں کی بھی حفاظت کی ہے۔ انقلاب اسلامی سے قبل کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایران کے سامنے دنیا کی بڑی طاقتیں سرنگوں ہوں گی۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی تمام تر مخالفت، سازشوں کے باجود انقلاب کے 38 سال بعد موجودہ ایران جو تیزی سے ترقی کی منزلیں طے کر رہا ہے۔ اقتصاد، معیشت، تعلیم، طب، دفاع، ثقافت، زبان الغرض ہر شعبہ ہائے زندگی میں اپنا لوہا منوا رہا ہے۔ بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں ایران میں کاروبار کی غرض سے ڈیرے ڈالے بیٹھی ہیں۔ جو ملک طویل عرصے تک ہر قسم کی بندشوں کا شکار رہا، اس کی ترقی اس لحاظ سے بے مثل ہے کہ اپنے نظریئے پر قائم رہتے ہوئے اس نے اپنے عوام کی ضروریات کو پورا کیا اور خود کفیل ہوا۔ یہاں تک کہ اسے ایٹمی طاقت بننے سے روکنے کیلئے دنیا کی چھ بڑی طاقتوں کو ملکر اسی ایران سے معاہدہ کرنا پڑا۔ اس معاہدے کے فریقین ہی انقلاب کی حقیقی قوت و طاقت کا اظہار ہیں کہ ایک جانب اسلامی جمہوریہ ایران اور دوسری جانب دنیا کی چھ بڑی طاقتیں۔

اپنے نظریئے پر کسی قسم کا کمپرومائز کئے بغیر جن طاقتوں سے یہ معاہدہ ہوا، وہ قوتیں ایران کو غیر ایٹمی ایران سے بھی اس قدر خوفزدہ ہیں کہ اس پر مزید پابندیوں کی مذموم خواہشات رکھتی ہیں۔ یقینی طور پر استعماری طاقتیں ایران کے ایٹم، میزائل سے خوفزدہ نہیں بلکہ خوف زدہ ہیں تو صرف اور صرف نظام انقلاب سے، ان تحریکوں سے جو انقلاب سے متصل ہیں، ان نظریات سے جو امام خمینی نے اہل اسلام کے جوانوں کے سینوں میں پھونک دیئے۔ اس فکر سے کہ جو کسی دنیاوی طاقت کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کرتی۔ وہ فکر جو دنیا کے پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک کے شہریوں کو بڑی طاقتوں کے سامنے قیام پر آمادہ کرتی ہے، وہی اسلامی فکر جو ایران میں عوامی انقلاب کا باعث بنی۔ پوری دنیا کے وہ انسان جو بنیادی حقوق سے محروم ہیں، مستضعف ہیں، لاچار ہیں، ظالم جابر حکمرانوں کے پنجہ استبداد میں جکڑے ہوئے ہیں، ان سب کو صرف انقلاب کے زیر سایہ نظام سے امیدیں وابستہ ہیں۔ بلاشبہ اگر صحیح معنوں میں انقلاب اسلامی کا مطالعہ کیا جائے تو خط امام خمینی، انقلاب اسلامی میں پوری امت مسلمہ کو درپیش مسائل اور چیلنجز کا حل مضمر ہے۔
خبر کا کوڈ : 608511
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش