0
Thursday 16 Feb 2017 01:31

کرم ایجنسی، خطرات کی زد پہ۔۔۔!

کرم ایجنسی، خطرات کی زد پہ۔۔۔!
تحریر: ارشاد حسین ناصر

کرم ایجنسی انتہائی حساس جغرافیائی خطہ ہے، جہاں کی اکثریتی شیعہ آبادی جو باغیرت، غیور، شجاع، بہادر اور ملکی استحکام و سلامتی کیلئے جان نچھاور کرنے والی ہے، ایک عرصہ سے اندرونی و بیرونی سازشوں کا شکار ہے۔ حقیقت میں اس کی وجہ ان کی یہی خوبیاں اور خصوصیات ہی ہیں، ان خوبیوں کیساتھ ان کا سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ یہ اہل تشیع سے تعلق رکھتے ہیں، اس لئے ان کے خلاف مختلف قسم کی سازشیں ہوتی رہتی ہیں، ان پر حملے بھی ہوتے ہیں، انہیں زیر کرنے کی کوششیں بھی ہوتی ہیں، ان کی معمولی باتوں پر جیلوں کی یاترا کروائی جاتی ہے۔ سبزی منڈی بم دھماکہ کے جنازوں کے اجتماع مین ایک نوجوان سید محمد کو فقط حکومت مخالف نعرہ لگانے پر گرفتار کر لیا گیا، اسیطرح ایک دکاندار کو پیٹا گیا صرف ایک سوال کرنے کے جرم میں کہ بھتہ کیوں لیا جا رہا ہے، کئی بار ایسا ہوا کہ کہ کسی شخص کی ذاتی معمولی قانون شکنی کے اقدام پر پورے پورے گاؤں اور قبیلوں کے خلاف متعصبانہ اقدامات اور فیصلے بھی ٹھونسے جاتے ہیں۔ ملکی ایجنسیاں بھی ان سے خائف رہتی ہیں، مبادا یہ قوت نہ پکڑ لیں، مبادا یہ زور آور نہ ہو جائیں اور ان کیلئے چیلنج نہ بن جائیں، ان پر تفریق کرو، تقسیم کرو اور حکومت کرو، کی پالیسی کا نفاذ بھی رہتا ہے، ماضی قریب میں ایسا ہی ہوتا آیا ہے، جس کا نقصان بہرحال قوم کو بھگتنا پڑا۔ بعض عاقبت نا اندیش لوگ ایسے امور سرانجام دیتے ہیں، جن سے دشمن قوتوں کے مقاصد کی تکمیل ہوتی ہے، سیاسی مسائل و مقاصد کے حصول کیلئے یہاں باہمی تفریق و نفرتوں کا جال بنا گیا، جس کا نقصان قوم نے اٹھایا اور اب تک اٹھا رہی ہے، اب جب قوم یہ دیکھ چکی ہے اور اسے اندازہ ہو چلا ہے کہ تفریق کا نقصان دہ ہے اور دشمن اس سے فائدہ اٹھا رہا ہے تو اسکی عقل میں کچھ آگیا ہے۔

دیکھنے میں آیا ہے کہ یہاں کی موجودہ مقامی قیادت نے کافی سمجھداری کا مظاہرہ کیا ہے، جس کے باعث باہمی رنجشوں میں وہ تناؤ کم ہوا ہے جو ماضی قریب میں دیکھا جا رہا تھا، اب اس حوالے سے حالات میں بہتری محسوس کی جا رہی ہے۔ کرم ایجنسی کے نزدیکی افغان علاقوں جن میں خوست، ننگر ہار اور گردیز وغیرہ میں داعش کا اثر و رسوخ بڑھ رہا ہے۔ دوسری طرف طالبان اور تکفیری دہشت گرد گروہ ان کے مقابل اتحاد کئے ہوئے ہیں، طالبان میں جتنے بھی گروپ بندی ہو، ایک بات پر سب متفق ہیں، وہ ہے اہل تشیع کو جانی و مالی نقصان پہنچانے کا ایجنڈا۔ یہ بات ثابت شدہ ہے کہ باہمی لڑائیوں کے باوجود ان لوگوں نے کرم ایجنسی پر حملوں میں ایک دوسرے کو قوت و طاقت فراہم کی، یہ الگ بات کہ ان سب کو مل کے بھی منہ کی کھانا پڑی۔ اس وقت ایک طرف تو داعش و طالبان کے گروپس انہیں دھمکا رہے ہیں اور حملہ آور ہونے کی باتیں کر رہے ہیں، دوسری طرف مقامی فورسز انہیں غیر مسلح کرکے بے دست و پا کرنا چاہتی ہیں۔ اسی دوران پاراچنار سبزی منڈی بم دھماکہ ہوگیا تھا، جس میں بیسیوں قیمتی جانیں چلی گئیں، اب تک اتنے بڑے سانحہ کے باوجود مقامی حکومت نے اس واقعہ کے ذمہ داروں کے خلاف کوئی اقدام نہیں اٹھایا، مگر انہی دہشت گردوں کی طرف سے دھمکیوں اور حملوں کا نیا سلسلہ سامنے آگیا ہے، دہشت گردوں نے برملا اعلان کیا ہے کہ اہل تشیع کو پورے ملک کے ساتھ ساتھ کرم ایجنسی، ہنگو، کوہاٹ، ڈیرہ اسماعیل خان، کوئٹہ میں نشانہ بنایا جائے گا۔

یہ بات ہر ایک جانتا ہے کہ دیگر صوبوں کی نسبت صوبہ خیبر پختونخوا میں طالبانائزیشن کے اثرات باقی سارے ملک سے زیادہ ہیں، اس لئے کہ جن قبائلی علاقوں میں طالبان نے اپنی حکومت قائم کرنے کی کوشش کی اور ریاست کی رٹ کو مفلوج کیا تھا، ان سب کا تعلق اسی صوبہ سے ہے، یہاں روزانہ کہیں نہ کہیں کوئی دھماکہ یا حملہ ہو جاتا ہے۔ آج بھی پشاور اور مہمند ایجنسی میں حملے ہوئے ہیں، جن میں جانی نقصان بھی ہوا ہے، یہ بات بھی ایک حقیقت ہے کہ کرم ایجنسی واحد ایسا ایریا تھا، جہاں طالبان کو اپنی تمام تر قوت و طاقت اور عروج کے دنوں میں بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا اور انہیں ہزیمت اٹھانا پڑی۔ یہاں کے طوری و بنگش قبائل نے ان کا مقابلہ اپنے زور بازو سے کیا اور انہیں ایک چپہ زمین بھی قبضہ نہیں کرنے دی۔ یہ اہل کرم کی غیرت و حمیت کا نتیجہ تھا، ان کی استقامت اور شجاعت کا نتیجہ تھا، ان کی یکجہتی و اتحاد کا نتیجہ تھا کہ دیگر قبائلی ایجنسیوں میں حکومت و فورسز نے طالبان کے مقابلے کیلئے باقاعدہ مسلح لشکر بنائے، جبکہ یہاں حکومت یا افواج کو لشکر بنانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی، بلکہ یہاں کے غیرت مند پختونوں نے طالبان کا سایہ بھی قبول نہیں کیا اور کسی کی مدد اور امداد کا انتظار نہیں کیا۔ 2007ء سے لیکر 2011ء تک ہونے والی جنگ میں اہل کرم کے ساتھ کونسا ظلم نہیں ہوا، ان کا محاصرہ کیا گیا، ان کی لاشیں ٹکڑوں میں بانٹی گئیں، ان کو زندہ جلایا گیا، ان کو بے دست و پا کیا گیا۔

ان پر دوسری قبائلی ایجنسیوں کے غنڈوں کے ذریعے یلغار کی گئی، مگر اس کے باوجود اہل کرم نے اپنی ناموس کی حفاظت کی، اپنے علاقوں اور زمینوں کا دفاع کیا، بے شمار قربانیاں دینے کے بعد ہی ایسا ممکن ہو۔ ہم جانتے ہیں کہ کتنے ہی خوبصورت جوان اور گھروں کے کفیل اس مسلط کردہ جنگ میں اپنی جانوں سے گئے، یہ ایک حقیقت ہے کہ کرم ایجنسی کے طوری و بنگش قبائل دیگر تمام قبائلیوں سے سخت جان اور شجاع مانے جاتے ہیں، ان کی ملک کے ساتھ وفاداری بھی بے مثال ہے، اسی خطے کے بہت سے فرزندان نے ماضی میں کشمیر میں جنگ کیلئے خود کو پیش کیا ہے، آج بھی ان کی قبور مقبوضہ کشمیر میں موجود ہیں اور اس کا واضح اور بین ثبوت یہ کیا کم ہے کہ جب پاک افواج اور فورسز پر پورے ملک سمیت تمام قبائلی ایریاز میں حملے ہو رہے تھے، ان کی نقل و حمل محدود ہوگئی تھی، حتٰی بعض اوقات کچھ ایریاز میں فوجی جوانوں کو حرکت کرتے وقت یونیفارم پہننے سے پرہیز کی ہدایات دی گئی تھیں، ایسے ماحول اور ایام میں کرم ایجنسی ہی واحد قبائلی علاقہ تھا، جہاں کسی ایک فوجی پر بھی حملہ نہیں ہوا، نہ ہی کبھی یہاں کے لوگ افواج کے سامنے آئے، نہ ہی ملکی سکیورٹی اداروں کے مقابل ہتھیار بند ہوئے، اس عنوان سے یہ ایک پرامن قبائلی ایریا سمجھا جاتا ہے، جبکہ اس کی سرحد افغانستان کیساتھ ملتی ہے، جہاں انڈین را اور افغان انٹیلی جنس کی پاکستان دشمنی کی کارروائیاں جاری رہتی ہیں۔

ہمیں بڑی اچھی طرح یاد ہے کہ ملک کے طول و عرض میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کے سامنے پل باندھنے کیلئے ایک وقت میں پاکستان کے سکیورٹی ادارے قبائلیوں کے مسلح لشکر بنا رہے تھے اور ان کا راستہ روکنے کیلئے عوامی سطح پر لوگوں کو منظم کیا جا رہا تھا۔ دراصل طالبان نے اپنا نیٹ ورک بڑی تیزی سے تمام قبائلی ایجنسیوں میں منظم و مربوط کر لیا تھا اور ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ پاکستان کے قبائلی ایریاز پر طالبان کی عملی حکومت قائم ہوچکی ہے، یہ کسی حد تک حقیقیت بھی تھی، اس لئے کہ قبائلی ایجنسیوں میں افواج داخل نہیں ہوتی تھیں اور مقامی پولیٹیکل انتظامیہ اور قبائل کے سردار جن کے ذریعے افواج اور سکیورٹی ادار یہاں کے حالات کو کںٹرول کرتے تھے، وہ ان دہشت گردوں سے کم طاقت رکھتے تھے، جس کے نتیجہ کے طور پر یہ ہوا کہ طالبان نے قبائلی سرداروں کو مار بھگایا، پولیٹیکل انتظامیہ کے بے بس کر دیا اور ان علاقوں کے بے تاج بادشاہ بن بیٹھے۔ عملی طور پر ایسا ہوا کہ سات ایجنسیوں میں الگ الگ طالبان کے سربراہ بن گئے۔ بعد ازاں یہ سب طالبان متحد ہوگئے اور ایک ہی قیادت میں کام کرنے لگے، یہی طالبان مختلف ایجنسیوں میں غیر ملکیوں، جن میں القاعدہ، ازبک، ترکستان تحریک اور عرب و چیچن سمیت کئی ممالک کے دہشت گرد شامل تھے، ان کی میزبانی کا لطف اٹھا رہے تھے، یہ لوگ پوری دنیا میں دہشت گردی کا طوفان کھڑا کئے ہوئے تھے، پاکستان بھی انہیں کے رحم و کرم پہ تھا، پاکستان میں بھی یہ جگہ جگہ، شہر شہر اپنا نیٹ ورک قائم کر چکے تھے اور جہاں چاہتے تھے دھماکہ کر دیتے تھے، کئی ایک بار تو چیلنج دے کر دھماکے کئے جاتے۔

اس صورتحال میں جب قبائلی علاقوں میں حکومت و فورسز کی رٹ ختم ہوگئی تھی، فورسز نے ایک موقعہ پر آکر یہ پالیسی اختیار کی کہ قبائل کے ایسے سرداروں کو منتخب کیا، جو ان طالبان دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کیلئے آمادہ تھے اور انہیں مسلح کیا گیا، اگرچہ اس حوالے سے بھی بہت سی باتیں سامنے آئیں کہ بہت سے قبائلی سرداروں کو مطلوبہ وعدوں کے مطابق قوت و اسلحہ فراہم نہ کئے جانے کے باعث یا سکیورٹی فراہم نہ کئے جانے کی وجہ سے اپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑے اور انہیں چن چن کے مارا گیا، مگر یہ بات اپنی جگہ حقیقت اور تلخ ہے کہ دہشت گرد جس قدر قوت و فورس رکھتے تھے، ان کا مقابلہ صرف فوج نہیں کرسکتی تھی، مقامی آبادی کی مدد اور حمایت کے بغیر کسی بھی قبائلی علاقے میں وارد ہونا اور آپریشن کرنا پاکستان جیسی منظم اور تربیت یافتہ فوج کیلئے بھی نہ صرف دشوار تھا بلکہ ناممکن ہی تھا۔ اسی وجہ سے یہ مسلح لشکر بنائے گئے اور انٹیلی جنس آپریشن کرکے طالبان میں باہمی لڑائیوں کو ابھارا گیا، ان میں تقسیم اور تفریق کے بعد ہی ایسا ممکن ہوا کہ ہماری افواج و سکیورٹی اداروں کو کامیابیاں ملنا شروع ہوئیں، آپریشن ضرب عضب کے بعد اب سکیورٹی ادارے یہ سمجھ رہے ہیں کہ حالات ان کے کنٹرول میں ہیں، دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی ہے اور وہ دم دبا کے بھاگ گئے ہیں، بہت سے ایسے ایریاز جہاں ہمارے سکیورٹی اداروں کا جانا ممکن نہ تھا، اب وہاں ان کی رٹ قائم ہوچکی ہے اور کسی کو پر مارنے کی بھی اجازت نہیں، ایسے میں ان مسلح لشکروں کی ضرورت نہیں رہی، لہذا اب ان لشکروں کو غیر مسلح کرنے کی نوبت آن پہنچی ہے، جنہیں کل مسلح کیا گیا تھا، یہ فارمولا اب کئی قبائلی علاقوں پر لاگو ہے، جہاں لوگوں کو غیر مسلح کرنے کا سلسلہ چل رہا ہے۔۔۔!

ہمارے سامنے اس مرحلہ پہ سوال یہ ہے کہ کیا کرم ایجنسی کے طوری و بنگش قبائل بھی اس زمرے میں آتے ہیں؟ تو اس سوال کا جواب نفی میں ہی آئے گا، اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ دیگر تمام ایجنسیوں کی طرح سکیورٹی اداروں نے یہاں کوئی سرکاری مسلح لشکر نہیں بنایا، نہ کسی کو مسلح کیا، کسی کو ایک گولی بھی نہیں دی گئی کہ آپ طالبان کا مقابلہ کریں بلکہ یہاں اس کے برعکس کیا گیا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ کرم ایجنسی کے ان علاقوں جہاں اہل تشیع کی اکثریت ہے، پر طالبان وزیرستان، خیبر ایجنسی اور دیگر ایریاز سے آکر حملے کرتے رہے ہیں، انہیں کسی نے نہیں روکا، نہ ہی ان کا مقابلہ کرنے کیلئے انہیں کسی قسم کی مدد و امداد کی گئی بلکہ ایک طرف طالبان کو آزادی اور دوسری طرف طوری و بنگش قبائل کو بے دست پا کر دیا گیا تھا، جس کی وجہ سے ان شیعہ قبائل کو اپنی ناموس و زمین بچانے کیلئے بے انتہا مشکلات سے گذرنا پڑا، ہزاروں لوگوں کی قربانیاں دی گئیں اور طالبان کا راستہ روکنے کیلئے اپنے ذاتی قومی وسائل خرچ کئے گئے، تاکہ طالبان یہاں قابض نہ ہوسکیں، یہی وجہ ہے کہ ان قبائل نے موقف اپنایا ہے کہ ان کا اسلحہ جو کبھی بھی ملکی سکیورٹی اداروں کے خلاف استعمال نہیں ہوا، نہ ہی ان کے لشکر کبھی سرکاری افواج کے مقابل آئے ہیں، اس اسلحہ پر اگر کسی کا حق ہے تو وہ صرف طوری و بنگش قبائل ہیں۔

تیسری بڑی وجہ یہ ہے کہ طوری و بنگش قبائل جو اہل تشیع ہیں، کو آج بھی ویسے ہی خطرات ہیں، جیسے کل کلاں تھے۔ آج بھی ان کو مخالفین کے حملوں کا خطرہ ہے، آج بھی طالبان اگر آپ کے بقول ان کی کمر ٹوٹ چکی ہے، مگر اس خطے اور یہاں کے مکینوں کیلئے اتنا ہی خطرہ ہیں، جتنے کل تھے۔ آج بھی ان پر حملے ہو رہے ہیں، سبزی منڈی میں ہونے والا حالیہ حملہ اور اس کے بعد بوڑھکی بارڈر سے کرم میں داخل ہونے والا بارودی ٹرک حملہ اس کا بین ثبوت ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ یہاں کے قبائلیوں کو دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑا جا رہا ہے، آخر کیا وجہ ہے کہ وزیرستان سے چلنے والے لشکروں کو کرم ایجنسی تک آنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی، نہ انہیں کوئی سکیورٹی پوائنٹ پر روک پاتا ہے، نہ ہی قبائل میں جاری ان کے خلاف آپریشن کرنے والی فورس انہیں راستوں میں روکتی ہے، جب اس طرح کی صورتحال ہو تو مقامی لوگ کیسے اعتماد کر سکتے ہیں، یہ تو اپنے کو ان کے رحم و کرم پر چھوڑنے کے مترادف ہوگا، اس وقت حکمران، سیاسی و دینی جماعتیں اور قبائل کو ملا کر بھی قبائلی علاقوں کی حیثیت کے حوالے سے کسی نئے قانون اور ضابطے کی باتیں کرتے نظر آتے ہیں، اگر قبائلی علاقے پاکستان کے صوبائی حکومتوں کے تحت آ جاتے ہیں تو ممکن ہے کچھ حالات بہتر ہو جائیں۔

یہاں ترقی ہو، تعلیم عام ہو، روزگار کا سلسلہ ہو، وسائل میسر آ جائیں تو یہاں کے بیرزگار نوجوان کسی تخریبی گروہ کے نزدیک نہ جائیں، مگر ایسا لگتا ہے کہ "ہنوز دلی دور است" قبائلی انتظامیہ ان تازہ واقعات کے بعد کرم ایجنسی کے بازاروں کو سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب میں مصروف ہے، اس میں بھی یہاں کے مقامی تاجران کی جیبیں خالی کی جا رہی ہیں، سوال یہ ہے کہ آیا متعصب انتظامیہ اور سکیورٹی ادارے یہاں کے پرامن شہریوں کے محفوظ بنانے میں واقعی دلچسپی رکھتے ہیں۔ اگر یہ صحیح ہے تو پھر پہلے سے موجود سکیورٹی حصار پر ایسے لوگ ڈیوٹی ادا کریں، جن کی وفاداری اس ملک اور سرزمین کیساتھ ہو، جو کسی تعصب اور تنگ نظری کا شکار نہ ہوں تو شائد صورتحال بہت بہتر ہو جائے، ورنہ کوئی بھی نہیں بگاڑ سکتا، ہمیں اس لئے زیادہ پریشانی نہیں ہوتی کہ ہم صدیوں سے اس تعصب کا شکار ہوتے آ رہے ہیں، اگر کسی دور میں ہم اس سے بچ جائیں تو حیرانی ضرور ہوتی ہے۔ اصل سوال پاکستان کی سالمیت کا ہے، اس کی سلامتی ہمیں بہت عزیز ہے، اس کا استحکام ہم دیکھنے کیلئے بے چین ہیں، کاش اس کی سمجھ ہمارے متعصب حکمرانوں کو بھی آجائے کہ ہم اس تعصب کی وجہ سے کیا کچھ کھو رہے ہیں۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 609906
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش