0
Tuesday 28 Feb 2017 23:39

ترکی آمریت کیجانب گامزن

ترکی آمریت کیجانب گامزن
تحریر: آیدا پیغامی

ترکی کے آئین میں اصلاحات پر مبنی مجوزہ مسودے پر صدر رجب طیب اردگان نے دستخط کر دیئے ہیں۔ یہ خبر کچھ دن قبل مختلف ذرائع ابلاغ سے نشر کی گئی۔ یہ ایسی خبر ہے جو ریفرنڈم میں منظوری کی صورت میں ترکی کی حکومت اور عوام اور حتی خطے کیلئے بہت مہنگی ثابت ہو سکتی ہے۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردگان بہت عرصے سے ملکی آئین میں تبدیلی اور اصلاحات انجام دینے کے خواہاں تھے لیکن ہر بار ان کے راستے میں کوئی نہ کوئی مشکل آڑے آ جاتی تھی۔ اس بار ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد چونکہ رجب طیب اردگان کی پوزیشن پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہو چکی تھی لہذا انہوں نے دوبارہ آئین میں مطلوبہ ترمیمات کا فیصلہ کر لیا تاکہ اس طرح اپنی طاقت میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کر سکیں۔ ریفرنڈم کے انعقاد کے بعد ترمیم شدہ آئین لاگو ہونے سے رجب طیب اردگان کی طاقت میں بہت زیادہ اضافہ ہو جائے گا اور وہ ترکی کی مطلق العنان اتھارٹی میں تبدیل ہو جائیں گے جس کے باعث وہ سیاست کے میدان میں اپنی پوری من مانی کرنے کے قابل ہوں گے۔

18 نکات پر مشتمل اس اصلاحاتی مسودے کے ذریعے ملکی آئین میں صدارتی نظام حکومت کیلئے ضروری تبدیلیاں لائی جائیں گی جس کے نتیجے میں کئی شعبوں میں صدر مملکت کے اختیارات میں خاصہ اضافہ ہو جائے گا۔ اب اگر دو ماہ بعد منعقد ہونے والے ریفرنڈم میں اس مسودے کی منظوری دے دی جاتی ہے تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ملکی آئین میں ترمیم کے بعد رجب طیب اردگان کے قانونی اختیارات میں کس حد تک اضافہ ہو جائے گا؟ اور رجب طیب اردگان کی طاقت میں اضافے کے بعد ترکی کس حد تک ان کی جاہ طلبی کے نقصانات برداشت کرے گا؟

رجب طیب اردگان کی اب تک کی پالیسیوں اور عوام کے خلاف طاقت کے استعمال نے ان کی حکومت کو ترکی کی تاریخ کی آمرانہ ترین حکومت میں تبدیل کر دیا ہے۔ ملکی آئین میں ترمیم انجام دینے کیلئے عوامی ریفرنڈم سے رجوع کرنا اگرچہ عوام کے حقوق کی کچھ حد تک پاسداری ہے لیکن ماضی کی روشنی میں کیا یہ امید لگائی جا سکتی ہے کہ رجب طیب اردگان کا عوام سے رویہ بہتر ہو جائے گا اور کہیں ایسا تو نہیں کہ ریفرنڈم کا انعقاد محض دکھاوے کی حد تک ہے اور اس کا نتیجہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا؟

کسی بھی ملک کا آئین اس ملک کے موجودہ نظام اور مستقبل میں تشکیل پانے والے تمام اداروں کی اساس اور بنیاد تصور کیا جاتا ہے۔ آئین مملکت میں تمام حکومتی اداروں اور شعبوں کے اختیارات کا تعین کیا جاتا ہے اور اس ملک کے تمام حکومتی عہدیداران آئین میں ذکر شدہ اختیارات کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنی حکومتی ذمہ داریاں انجام دیتے ہیں۔ مختلف ممالک کے آئین کئی لحاظ سے ایکدوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک ملک جس میں صدارتی نظام حکومت نافذ ہے کا آئین اس ملک سے مختلف ہو گا جس میں پارلیمانی نظام حکومت موجود ہے۔ صدارتی نظام حکومت میں صدر مملکت کے پاس وسیع تر اختیارات ہوتے ہیں جبکہ قوہ مجریہ حکومت کا ایک حصہ ہوتی ہے۔ اسی طرح مختلف ریاستی ادارے (قوہ مجریہ، قوہ قضائیہ، قوہ مقننہ) مکمل طور پر خودمختار ہوتے ہیں اور اپنی مخصوص حکومتی ذمہ داریاں ادا کرتے ہیں۔ پارلیمانی نظام حکومت میں قوہ مجریہ دو حصوں پر مشتمل ہوتی ہے (صدر اور وزیراعظم) جن کے پاس تقریبا مساوی اختیارات ہوتے ہیں جبکہ پارلیمنٹ بھی حکومتی اختیارات کا حامل ادارہ ہوتا ہے اور طاقت کا توازن برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

ترکی کے آئین میں ترمیمات اور اصلاحات سے پہلے اس ملک کا موجودہ سیاسی نظام پارلیمانی ہے اور قوہ مجریہ دو حصوں یعنی صدر اور وزیراعظم پر مشتمل ہے۔ لیکن اب آئین میں جن تبدیلیوں کی کوشش کی جا رہی ہے اس کے نتیجے میں ترکی کا نظام حکومت صدارتی نظام میں تبدیل کر دیا جائے گا۔ قوہ مجریہ کے دو حصے یعنی صدر اور وزیراعظم کے عہدے اپنی جگہ باقی رہیں گے لیکن صدر کے اختیارات میں خاطرخواہ اضافہ کر دیا جائے گا۔ البتہ یہاں ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ موجودہ ترک صدر رجب طیب اردگان ذاتی طور پر ایک جاہ طلب انسان ہیں اور ان کی پوری کوشش ہے کہ زیادہ سے زیادہ اختیارات کے مالک بن جائیں۔ ترکی کے آئین میں اصلاحات انجام پانے کے بعد ان کے اختیارات بڑھ جائیں گے اور وہ ایسے فیصلے اور اقدامات انجام دینے کے قابل ہو جائیں گے جو پہلے انجام دینے سے قاصر تھے۔

ترکی کے آئین میں ترمیمات کا اثر اس ملک کے شہری حقوق پر بھی پڑے گا۔ ترک صدر رجب طیب اردگان ریفرنڈم کا انعقاد کروا کر اپنے منصوبے کو قانونی رنگ دینا چاہتے ہیں اور جب ریفرنڈم کے نتیجے میں آئین میں اصلاحات انجام پا جائیں گی تو ان کا موقف یہ ہو گا کہ عوام نے خود اپنی مرضی سے آئین میں ترمیم کی رائے دی ہے۔ ایسے محسوس ہوتا ہے وہ مستقبل میں عوامی مینڈیٹ کی نمائش لگانا چاہتے ہیں۔ آئین میں اصلاحات کے بعد دیگر حکومتی اداروں کے مقابلے میں صدر کے اختیارات زیادہ وسیع ہو جائیں گے اور یہ خطرہ موجود رہے گا کہ کہیں رجب طیب اردگان اپنے اضافہ شدہ اختیارات کا غلط استعمال نہ کریں۔ ایسی صورت میں یقینا شہری حقوق پامال ہو جائیں گے۔ لہذا شہری حقوق کو محفوظ بنانے کیلئے مضبوط قانون سازی اور عملی میدان میں اس قانون کے لاگو ہونے کی گارنٹی فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ اب ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ ترکی کے ترمیم یافتہ قانون میں کس حد تک ایسی گارنٹی فراہم کی جاتی ہے اور کسی بھی اعلی سطحی حکومتی عہدیدار کی جانب سے شہری حقوق کی پامالی کی صورت میں اس کے خلاف کیا قانونی چارہ جوئی پیش کی جاتی ہے؟

اگر ہم ترکی میں برسراقتدار صدر رجب طیب اردگان کی حکومت کے ماضی پر ایک نظر دوڑائیں تو بخوبی اس حقیقت کو جان پائیں گے کہ ان کی حکومت شائستہ انداز میں جمہوری اقدار کی پاسداری نہیں کر سکی۔ جمہوریت ایسا عمل ہے جس کی بنیاد انفرااسٹرکچر، اداروں، تنظیموں اور قانون پر ہے۔ اسی طرح معاشرے میں جمہوری کلچر کا ہونا یا نہ ہونا بھی اہم ہے۔ مثال کے طور پر ماضی میں امریکی حکام کا دعوی تھا کہ وہ دیگر ممالک میں جمہوریت منتقل کرنا چاہتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت کوئی ایسی چیز نہیں جسے باہر سے درآمد کیا جائے بلکہ جس معاشرے میں جمہوریت برقرار کرنا چاہتے ہیں اسی کے اندر سے جمہوریت کے قیام کیلئے مناسب زمینہ فراہم ہونے کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر جمہوریت کے قیام کیلئے ایک اہم عنصر اس معاشرے کا کلچر ہے۔ اسی طرح ایک اور اہم عنصر یہ ہے کہ برسراقتدار حکام قانون پر عمل پیرا ہوں اور ان میں جاہ طلبی کا جذبہ نہ پایا جاتا ہو اور صرف قانون محور و ملاک قرار پائے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ترکی میں جمہوریت کے فروغ پر مبنی دعووں اور مغربی دنیا کی ہمسائیگی میں ہونے کے باوجود جمہوریت کے قیام کیلئے ضروری عناصر مہیا نہیں ہو سکے۔ جیسا کہ سب جانتے ہیں گذشتہ کئی سالوں سے رجب طیب اردگان برسراقتدار ہیں اور ان کی پارٹی کے مقابلے میں کسی اور سیاسی پارٹی کو پنپنے نہیں دیا جاتا۔ ترکی میں جمہوریت کے فروغ کیلئے ضروری مقدمات اور عوامل فراہم نہیں ہیں جیسا کہ خود رجب طیب اردگان کے اقدامات سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ملک میں جمہوریت کے فروغ میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے اور زیادہ اختیارات حاصل ہونے کے نتیجے میں وہ جمہوری اقدار پامال کریں گے۔ دوسری طرف ترکی میں جمہوری اقدار کے خلاف انجام پانے والے اقدامات کا اثر خطے کے دیگر ممالک پر بھی پڑے گا۔ خطے کے کئی ممالک ترکی سے قریبی تعلقات کے حامل ہیں جبکہ ان میں مذہبی مشترکات بھی پائے جاتے ہیں لہذا ترکی میں رونما ہونے والی ہر سیاسی تبدیلی ان ممالک پر بھی اثرانداز ہوتی ہے۔

ترکی میں صدر رجب طیب اردگان کے اختیارات میں اضافہ ریاستی اداروں کی خودمختاری پر بھی منفی اثر ڈالے گا۔ ترک صدر کے اختیارات میں اضافے کا نتیجہ ان کی جانب سے قانون ساز اداروں میں مداخلت کی صورت میں سامنے آئے گا جو ملکی آئین کے بھی خلاف ہے۔ ترکی کے آئین کے صرف 18 ایکٹس ایسے ہیں جن میں اصلاحات کی جا رہی ہیں جبکہ آئین کا باقی حصہ جوں کا توں باقی رہے گا۔ شہری حقوق اور عدلیہ کے بارے میں ایکٹس ماضی کی طرح باقی رہیں گے اور صرف 18 ایکٹس میں تبدیلی کی جائے گی جو ملک میں نافذ شدہ سیاسی نظام کے بارے میں ہیں۔ ترمیم اور اصلاحات کے نتیجے میں پارلیمانی نظام صدارتی نظام میں تبدیل کر دیا جائے گا اور وزیراعظم کا عہدہ ختم کر دیا جائے گا۔ صدر اپنی کابینہ کیلئے وزراء خود چنیں گے اور انہیں پارلیمنٹ سے منظوری کی ضرورت نہیں رہے گی جبکہ صدر کو سپریم جوڈیشنل کونسل کے اراکین تعین کرنے کا اختیار بھی حاصل ہو جائے گا۔ دوسرے الفاظ میں آئین میں ترمیم کے بعد ترک صدر کے پاس لاء انفورسمنٹ کے اختیارات بھی آ جائیں گے۔

آئین میں ترمیم اور اصلاحات کا خود ترکی پر کیا اثر ہو گا؟ ترکی کی مختلف سیاسی پارٹیاں اور گروہ اس سوال کا مختلف جواب دیتے ہیں۔ حکمران جماعت ترقی و عدالت اور حکومت کی دیگر حلیف جماعتیں تصور کرتی ہیں کہ ان اصلاحات کے نتیجے میں ملک میں سیاسی استحکام میں اضافہ ہو گا اور ملک ترقی کے مراحل تیزی سے طے کرے گا۔ لیکن پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی سمیت دیگر اپوزیشن جماعتیں اس سے متفق نہیں اور وہ صدر کے اختیارات میں اضافے کو جمہوریت کی کمزوری اور جمہوری اقدار کی پامالی کے مترادف تصور کرتی ہیں۔ یہ دو نقطہ نظر پائے جاتے ہیں۔ دوسری طرف اس حقیقت کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ ترکی کے آئین میں اصلاحات کے بعد صدر کے اختیارات میں خاطرخواہ اضافہ ریاستی اداروں کی خودمختاری کو بھی متاثر کرے گا۔ مثال کے طور پر آئین میں ترمیم کا ایک نتیجہ یہ نکلے گا کہ صدر کو اسمبلی توڑنے کا اختیار مل جائے گا جو قانون ساز ادارے کی خودمختاری کے خلاف ہے۔ اسی طرح صدر کو عدلیہ کے بعض امور میں بھی مداخلت کا اختیار حاصل ہو جائے گا جو آزاد اور خودمختار عدلیہ کے تقاضوں کے خلاف ہے۔
خبر کا کوڈ : 610386
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش