0
Tuesday 21 Feb 2017 19:12

سب تہران میں فلسطین کیلئے

سب تہران میں فلسطین کیلئے
تحریر: مہدی شکیبائی

تہران میں انتفاضہ فلسطین کی حمایت میں چھٹی بین الاقوامی کانفرنس کا آغاز ہو چکا ہے۔ اس کانفرنس میں دنیا کے 80 مختلف ممالک سے نمائندے شریک ہیں۔ یہ کانفرنس ایسے حالات میں منعقد ہو رہی ہے جب فلسطین، مغربی ایشیا اور عالمی سطح پر نئی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ اس تناظر میں دنیا بھر خاص طور پر عالم اسلام سے ایک ہزار سے زائد ماہرین کا تہران میں جمع ہونا خاص اہمیت کا حامل ہے۔ یہ اجتماع درحقیقت ملت فلسطین، عالم اسلام اور بین الاقوامی نظام کیلئے اہم پیغام کا حامل ہے۔

فلسطینی معاشرہ 1993ء میں اوسلو معاہدے کے بعد دو حصوں میں تقسیم ہو گئی اور اب اس تقسیم بندی میں مزید شدت آ چکی ہے۔ فلسطین کی تنظیم آزادی یا پی ایل او (Palestine liberation organization)، جسے اوسلو معاہدے کے بعد فلسطین پر آمرانہ حکومت کے نام سے یاد کرنا چاہئے، نے غاصب اسرائیلی رژیم کے مقابلے میں مسلح جدوجہد کی راہ ترک کر کے سیاسی مذاکرات اور سازباز کا راستہ اختیار کر لیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ اسلامی مزاحمتی تنظیموں اور گروہوں کے خلاف اسرائیلی پولیس کی صورت اختیار کر گئی۔

دوسری طرف وہ فلسطینی جہادی گروہ ہیں جنہوں نے اپنی تشکیل کا مقصد آخری دم تک اسرائیل کے خلاف مسلح جدوجہد بیان کر رکھا ہے۔ ان اسلامی مزاحمتی گروہوں کا مقصد مقبوضہ فلسطین کی اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کے قبضے سے مکمل آزادی ہونی چاہئے لیکن وہ بھی اپنے موقف سے پیچھے ہٹتے دکھائی دیتے ہیں۔ آج کی اہم ضرورت یہ ہے کہ مقبوضہ فلسطین کی آزادی پر مبنی موقف سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹنا چاہئے۔

شام اور عراق میں تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کی سرگرمیوں میں اضافے کے باعث مسئلہ فلسطین اپنی اصلی حیثیت کھوتا ہوا نظر آنے لگا۔ اگرچہ اسلامی جمہوریہ ایران نے ہمیشہ کی طرح مسئلہ فلسطین کو عالم اسلام کے اصلی ترین مسئلے کے طور پر باقی رکھنے کی پوری کوشش کی اور ساتھ ساتھ عراق اور شام کے بہادر عوام اور حکومتوں کی بھی داعش کے خلاف جنگ میں مدد اور حمایت کرتا رہا لیکن دوسری طرف اسرائیل نے خطے میں جنم لینے والے تکفیری – وہابی فتنے سے بھرپور فائدہ اٹھانے کا ارادہ کر لیا۔ لہذا غاصب صہیونی رژیم نے یہودی آبادیوں کی تعمیر کو بڑھاتے ہوئے فلسطینی سرزمین غصب کرنے کا کام تیز کر دیا۔ دوسری طرف بیت المقدس اور مسجد اقصی پر بھی اسرائیل کی دست درازیوں کا سلسلہ بڑھ گیا اور مسجد اقصی مسمار کر کے اس کی جگہ یہودی عبادت گاہ کی تعمیر پر مبنی منحوس سازش کو بھی تیز کر دیا۔ اسی طرح اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم اپنا دفاعی بجٹ بڑھا کر اپنی فوج کو مزید مسلح کرنے کا کام شروع کر چکی ہے جس کا مقصد فلسطین اور خطے میں اسلامی مزاحمتی گروہوں کا خاتمہ ہے۔

عرب حکومتیں اب تک اپنی تاریخی جاہلیت کے حصار سے ہی باہر نہیں نکل پائی ہیں۔ عرب حکام امت مسلمہ کی اربوں ڈالر پر مشتمل دولت کو جو اسلامی دنیا کے اہم ترین مسئلے یعنی فلسطین کی آزادی پر خرچ ہونے چاہئیں، امریکہ اور دیگر مغربی ممالک سے اسلحہ خریدنے پر اڑا رہے ہیں اور وہی اسلحہ دیگر اسلامی ممالک جیسے بحرین، شام، عراق اور یمن میں مسلمانوں کے خلاف ہی استعمال کر رہے ہیں۔ اس طرح یہ حماقت عالم اسلام کیلئے بہت مہنگی پڑی ہے اور مسلمانوں کو بہت زیادہ نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ شام، عراق اور یمن کا انفرااسٹرکچر اور انقلابی طاقت جو فلسطین کی آزادی کیلئے استعمال ہونا چاہئے تھی عرب حکام کی بے وقوفی کے باعث نابود ہو رہی ہے۔

عرب حکام نے عالمی استکبار امریکہ اور بین الاقوامی صہیونزم کی شہہ پر اسرائیل کو اپنا اصلی دشمن بنانے کی بجائے ایران کو اپنا دشمن تصور کر رکھا ہے اور ایران سے ضد میں آ کر آنکھیں بند کر کے اسرائیل سے تعلقات بڑھانے کی دوڑ لگا رکھی ہے۔ وہ اس حقیقت سے غافل ہیں کہ اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم امت مسلمہ کی حقیقی دشمن ہے۔ آج عرب حکام عالم اسلام میں قومی اور مذہبی فتنوں کی آگ شعلہ ور کرنے میں اسرائیل کے پٹھو اور آلہ کار بن چکے ہیں۔

ترکی کی حکومت جو ہمیشہ سے یورپی یونین کا حصہ بننے کا خواب دیکھتی آئی ہے اب ایک نیا خواب دیکھنا شروع ہو گئی ہے اور وہ سلطنت عثمانیہ کا احیاء ہے۔ اس مقصد کی تکمیل کیلئے ترک حکام مکمل طور پر اسرائیل اور مغربی طاقتوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ ترکی نے شام میں تکفیری – وہابی ٹولے داعش کی بھرپور مدد اور حمایت کی ہے تاکہ اس طرح سلطنت عثمانیہ کے احیاء پر مبنی خواب میں حقیقت کا رنگ بھر سکے۔ ترک عوام اپنے حکمرانوں کے اس خطرناک کھیل کی بھاری قیمت ادا کر چکے ہیں لیکن ترک حکام ذرہ بھر عبرت حاصل نہیں کرتے۔ اب ترک حکام نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے امیدیں وابستہ کر چکے ہیں اور اس خام خیالی کا شکار ہیں کہ وہ انہیں شام میں مطلوبہ سیاسی مقاصد کے حصول میں مددگار ثابت ہوں گے۔

ایسے حالات میں تہران میں انتفاضہ فلسطین کی حمایت میں چھٹی بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد ہو رہا ہے۔ اس کانفرنس کا اہم ترین اور بنیادی ترین مقصد یہ ہے کہ مسئلہ فلسطین کو اسلامی دنیا کے اہم ترین مسئلے کے طور پر پیش کیا جا سکے۔ سب تہران آئے ہیں تاکہ یہ اعلان کریں کہ فلسطین عالم اسلام کے قلب کی حیثیت رکھتا ہے اور اگرچہ عالم اسلام کا تن تکفیری دہشت گردی کے فتنے سے چکناچور اور زخمی ہو چکا ہے اور عالمی امن خطرے میں پڑ چکا ہے لیکن ان دو مسائل کا حل بھی حقیقت میں مقبوضہ فلسطین کی آزادی میں ہی مضمر ہے۔ اسرائیل ایک ایسا سرطانی غدہ ہے جو اسلامی دنیا کے پیکر میں ایجاد کیا گیا ہے اور آج کی ہر بدامنی کی جڑ اسی سرطانی غدے سے جا ملتی ہے۔ لہذا جب تک مظلوم فلسطینی اپنے حقوق تک نہیں پہنچتے اور جب تک اسلامی دنیا کو درپیش اس عظیم مسئلے کو حل نہیں کیا جاتا، خطے اور دنیا کے دیگر مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ آج دنیا میں پائی جانے والی ہر بدامنی کا منشا اسرائیل نامی غیرقانونی ریاست ہے جو عالمی استکباری قوتوں کی فوجی چھاونی کا کردار ادا کر رہی ہے اور اس کے خاتمے کا واحد راہ حل انتفاضہ فلسطین کی بھرپور حمایت ہے۔ آج فلسطین کے باایمان جوان انتہائی محدود وسائل کے ساتھ غاصب صہیونی رژیم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور ان کا مقصد عالم اسلام کو کھوئی ہوئی عزت واپس دلانا ہے۔ اب امت مسلمہ کی باری ہے کہ وہ کون سا راستہ اختیار کرتی ہے، عزت کا یا ذلت کا؟
خبر کا کوڈ : 611703
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش