0
Saturday 25 Feb 2017 00:54

اسلامی بیداری اور عالمی صہیونزم کا زوال

اسلامی بیداری اور عالمی صہیونزم کا زوال
تحریر: محمد کاظم

دوسری صدی عیسوی کے آخر میں امام خمینی رحمہ اللہ علیہ کی قیادت میں اسلامی انقلاب کی کامیابی نے اسلامی دنیا کو اسلامی مزاحمت، سازباز کی مخالفت اور ملت فلسطین کی بھرپور حمایت کا پیغام سنایا۔ اس سے پہلے اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم استکباری طاقتوں خاص طور پر امریکہ کی حمایت کے بل بوتے پر اپنی جعلی ریاست کی حدود کی قائل نہ تھی اور اس نے اسلامی ممالک مخصوصا عرب ممالک کو اپنی جارحیت کا نشانہ بنا رکھا تھا۔ حزب اللہ لبنان کے خلاف اسرائیل کی 33 روزہ جنگ اور اس کے بعد غزہ میں حماس کے خلاف 22، 12 اور 51 روزہ جنگوں نے اسرائیل کو موجودہ سرحدوں میں محصور کر دیا۔ اس کے بعد خطے میں جنم لینے والی اسلامی بیداری کی تحریک کے باعث عالمی استعماری طاقتوں کی پٹھو عرب حکومتوں کا یکے بعد دیگرے سرنگون ہو جانے سے خطہ نیا روپ اختیار کر گیا۔

اس وقت اسلامی مزاحمتی بلاک کی برکت سے مغربی ایشیا میں نیا آرڈر تشکیل پا چکا ہے اور نیل سے فرات تک کے اسرائیلی دعوے اور جدید مشرق وسطی پر مبنی امریکی دعوے دم توڑ چکے ہیں۔ غاصب صہیونی رژیم اپنے دفاعی خول میں محبوس ہو چکی ہے اور اب خطے میں پراکسی وارز کے ذریعے سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے کوشاں ہے۔ داعش کی فوجی اور مالی مدد، سعودی عرب اور دیگر خلیجی عرب ریاستوں کو ایران کے خلاف طیش دلانا اور یمن کے مظلوم عوام خاص طور پر معصوم بچوں اور خواتین کا قتل عام انہیں پراکسی وارز پر مبنی اسرائیلی پالیسیز کی کچھ مثالیں ہیں۔ اسلامی بیداری کے آغاز میں صہیونی حکام نے مصر میں حسنی مبارک اور تیونس میں بن علی جیسے اپنے مہروں کو سرنگون ہونے سے بچانے کی پوری کوشش کی لیکن بری طرح ناکامی کا شکار ہوئے۔

خطے میں اسرائیل، امریکہ اور حتی برطانیہ کی جانب سے جاری پراکسی وارز نے بہت سے مواقع اور خطرات کو جنم دیا ہے۔ اگر اسلامی ممالک انتہائی عقلمندی سے عمل نہ کریں تو اس میں کوئی شک نہیں کہ عالمی استکباری قوتیں اسلامی بیداری کو نقصان پہنچانے میں کافی حد تک کامیاب ہو جائیں گی اور خطے میں موجود اپنی آمرانہ اور پٹھو حکومتوں کو بچا سکیں گی۔ امریکی حکام آج اس حقیقت کا اعتراف کر چکے ہیں کہ وہ فوجی طاقت کے ذریعے اپنے مطلوبہ اہداف و مقاصد حاصل نہیں کر سکتے بلکہ اس کے برعکس نتائج برآمد ہو رہے اور اسلامی مزاحمتی بلاک مزید مضبوط ہوتا جا رہا ہے۔ دوسری طرف دنیا کے مختلف حصوں میں فوجی اقدامات پر امریکہ کو بھاری اخراجات برداشت کرنا پڑ رہے ہیں جس کے باعث مستقبل قریب میں امریکی حکومت کو خود امریکی عوام کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کی بڑی وجہ ان کی جانب سے امریکی خارجہ پالیسی پر نظرثانی کرنے اور ملک سے باہر فوجی کاروائیوں کا دائرہ کم کر کے اندرونی مسائل کی طرف توجہ دینے پر مبنی وعدے تھے۔ اب صدر بننے کے بعد وہ فوجی اخراجات کم کر کے ملک کو درپیش اقتصادی بحران پر قابو پانے کی پالیسی اختیار کرنے کا اعلان کر چکے ہیں۔ وہ ملک میں موجود شدید اقتصادی مسکلات پر قابو پانا چاہتے ہیں اور اس طرح وائٹ ہاوس کے کھوئے ہوئے اقتدار اور قانونی جواز کو واپس لوٹانے کے درپے ہیں۔

آج امریکی معاشرہ درج ذیل مشکلات اور بحرانوں سے روبرو ہے:
1۔ عالمی سطح پر گوشہ گیری اور اقتدار میں شدید کمی،
2۔ جدیدترین بین الاقوامی حالات کو مانیٹر کرنے سے متعلق انٹیلی جنس اداروں کی ناکامیاں،
3۔ ملک میں عدم استحکام اور مشروعیت کا فقدان،
4۔ اثرورسوخ والے خطوں میں بڑھتے ہوئے فوجی خطرات، اور
5۔ اپنے ہی پرورش یافتہ دہشت گرد گروہوں اور عناصر کا بے قابو ہو جانا اور ان سے درپیش خطرات۔

بالکل اسی قسم کی مشکلات اسرائیل کو بھی درپیش ہیں جو درحقیقت امریکہ کی 50 ویں ریاست تصور کی جاتی ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک خاص طور پر اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم ہمیشہ سے مسلمانوں کو اپنی فوجی طاقت سے ڈراتے دھمکاتے آئے ہیں۔ وہ خود بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کا یہ حربہ اپنی افادیت کھو چکا ہے۔ اگر ان کے انٹیلی جنس ادارے تھوڑی عقلمندی کا ثبوت دیتے تو وہ اچھی طرح اس حقیقت سے واقف ہو جاتے کہ انہیں اسلامی مزاحمتی بلاک کی فوجی طاقت سے ڈرنا چاہئے اور ان کے سیاستدانوں اور حکمرانوں کو بیان بازی کرتے وقت احتیاط سے کام لینا چاہئے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ خطے اور عالم اسلام میں اسلامی بیداری اور عوامی انقلابات راکھ تلے چنگاری کی مانند ہیں۔ امریکہ اور اسرائیل نے اس چنگاری پر دہشت گردی خاص طور پر تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کی راکھ ڈال دی ہے لیکن بہت جلد یہ چنگاریاں دوبارہ دہک اٹھیں گی اور آگ کے شعلوں میں تبدیل ہو جائیں گی اور اسلامی دنیا میں مغربی طاقتوں کے تمام مفادات کو جلا کر خاکستر بنا ڈالیں گی۔ ابھی چند دن پہلے حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے غاصب صہیونی رژیم کو خبردار کیا ہے کہ آئندہ کسی جارحیت کی صورت میں اس کا دیمونا جوہری پلانٹ بھی میزائل حملوں سے محفوظ نہیں رہے گا۔ اسرائیلی حکام اچھی طرح جانتے ہیں کہ سید حسن نصراللہ ہر گز کھوکھلی دھمکیاں نہیں دیتے بلکہ جو کہتے ہیں اس پر عمل کر کے دکھاتے ہیں۔ حزب اللہ لبنان کے ہاتھ میں اسرائیل کے نکات ضعف آ چکے ہیں۔ دیمونا جوہری پلانٹ، حیفا بندرگاہ پر واقع امونیا کے ذخائر وغیرہ وہ نکات ضعف ہیں جن پر حزب اللہ لبنان کو پورا تسلط حاصل ہے۔ اسرائیل کی جانب سے کسی بھی جارحیت کی صورت میں حزب اللہ لبنان حیفا کی بندرگاہ اور ڈیمونا جوہری پلانٹ کو خاک میں ملانے میں دیر نہیں لگائے گی۔

امریکہ اور اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کو چاہئے کہ وہ سیاسی اور فوجی دعوے کرنا چھوڑ دیں اور خطے میں جنم لینے والی اسلامی بیداری کی تحریک کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے کا ارادہ ترک کر دیں۔ جیسا کہ ولی امر مسلمین امام خامنہ ای نے چند روز قبل تہران میں منعقدہ انتفاضہ فلسطین کی حمایت میں چھٹی بین الاقوامی کانفرنس کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ دنیا صہیونیت سے مقابلے کی جانب گامزن ہے، یہ ایک تبدیل نہ ہونے والی حقیقت ہے اور اس سے بچنا ممکن نہیں۔ اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کا انجام جنوبی افریقہ پر حکمفرما نسل پرست رژیم جیسا ہی ہو گا۔ دنیا مقبوضہ فلسطین میں اس قدر ظلم و ستم برداشت نہیں کرے گی۔ نصف صدی سے زیادہ قبضہ، ظلم، قتل و غارت، معصوم بچوں، خواتین اور بوڑھوں کا قتل، فلسطینیوں کے گھروں کی مسماری اور مظلوم فلسطینی شہریوں کا ٹارچر اور جیل میں بند کرنے جیسے مجرمانہ اقدامات ایسے نہیں جو ہمیشہ قائم و دائم رہ سکیں۔
خبر کا کوڈ : 612620
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش