0
Thursday 2 Mar 2017 12:05

خطے میں ایران مخالف اتحاد کا انجام کیا ہو گا؟

خطے میں ایران مخالف اتحاد کا انجام کیا ہو گا؟
تحریر: روڈی پانکو (روسی تجزیہ کار)

حال ہی میں ایک خبر سننے کو ملی کہ واشنگٹن ایران سے مقابلے کیلئے خطے کے سنی ممالک پر مشتمل ایک اتحاد بنانے کا منصوبہ رکھتا ہے۔ یہ ان خبروں میں سے ہے جسے سن کر ہر عقلمند شخص کا ہنسنے کو دل کرتا ہے۔ ابتدا میں اتنا ہی کافی ہے کہ اپنی آنکھیں بند کر کے نیٹو کا تصور ذہن میں لائیں۔ کیا آپ بھی ایک غول پیکر بیہودہ اور نالائق شے کا مشاہدہ کر رہے ہیں جسے شادی کی رسومات اور دہشت گردانہ دھماکوں میں فرق تک کا علم نہیں؟ اب اپنے ذہن سے نیٹو کا تصور مٹا کر اسی جیسے ایک اور فوجی اتحاد کا تصور قائم کریں جس میں مصر، اردن، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے ممالک شامل ہوں۔ اب یہ تصور کریں کہ اس شکست خوردہ اور ناکارہ اتحاد کو ایک خاص مشن سونپا گیا ہو جو ایران کو اشتعال دلا کر اسے اپنے ساتھ جنگ شروع کرنے پر مجبور کرنا ہو۔ یہ امر زیادہ ناممکن دکھائی نہیں دیتا۔ واشنگٹن آخرکار اس حقیقت تک آن پہنچا ہے کہ کئی سالوں سے ایران کو انسانیت خاص طور پر اسرائیل کیلئے شدید خطرہ پیش کرنے پر مبنی انتھک پروپیگنڈا بے سود ثابت ہوا ہے اور امریکی عوام ذرہ برابر ایران سے جنگ کے حامی نہیں۔

امریکی حکام گذشتہ چند سالوں کے دوران ایران فوبیا کیلئے تمام ممکنہ طریقے آزما چکے ہیں۔ گوگل پر ایک سادہ سی سرچ کرنے سے بخوبی عیاں ہو جاتا ہے کہ ایران کے خلاف مختلف الزامات تراشنے میں ان کی لابی گری کس قدر وسیع اور طاقتور ہے۔ لیکن تھوڑا صبر کریں۔ شاید امریکہ کا فرسودہ سنی ممالک پر مبنی اتحاد ایران کا مقابلہ کر پائے؟ آخر دوست اور اتحادی ممالک کا کیا فائدہ ہے؟ لیکن ایران تو شام نہیں۔ ایران حتی 1 ہزار مختلف قومی اور مذہبی گروہوں سے مقابلے سے بھی ہراساں نہیں۔ ایران ایک افتخار آمیز ملک ہے جسے بیرونی دشمن عناصر سے مقابلے کا عظیم تجربہ حاصل ہے۔ شاید دس برس قبل یہ کہنا ممکن تھا کہ ایران سے جنگ اور مقابلے کیلئے عرب ممالک پر مبنی اتحاد کی تشکیل اس کیلئے ایک بڑا خطرہ ہے۔ لیکن آج کیا؟ ایران سے جنگ خاص طور پر آج کی صورتحال میں، خوکشی کے مترادف ہے۔ آج روس ایران کا قابل اعتماد اور قابل وثوق فوجی اور سیاسی اتحادی مانا جاتا ہے جبکہ واشنگٹن کی جانب سے ایران اور روس کے درمیان اختلافات ڈال کر انہیں ایکدوسرے سے دور کرنے کی کوششیں مضحکہ خیز ہیں۔ اگر بالفرض ایران اور خطے میں امریکی اتحاد کے درمیان کسی قسم کا فوجی ٹکراو پیدا ہوتا ہے تو روس ایران کی ہر ممکنہ مدد سے دریغ نہیں کرے گا۔ روس صرف ایک وجہ سے ایران سے اتحاد تشکیل دے کر شام میں فوجی مداخلت پر تیار ہوا ہے اور وہ یہ حقیقت ہے کہ اگر امریکہ مشرق وسطی خطے پر مسلط ہونے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اس کا اگلا نشانہ روس ہو گا۔

مزید برآں، اس وقت روس ساختہ S 300 میزائل ڈیفنس سسٹم بھی ایران میں نصب ہو چکا ہے۔ دوسری طرف اس اہم حقیقت کو بھی سامنے رکھنے کی ضرورت ہے کہ ایران اور روس کی جانب سے شام میں بھرپور فوجی کاروائی نے پورے ملک میں معجزاتی طور پر ایک سال کے اندر اندر جنگ کا نقشہ ہی بدل ڈالا ہے۔ ایران اور روس کے درمیان یہ فوجی تعاون ایک گراں بہا تجربہ ہے جسے کسی بھی اتحاد کی جانب سے ایران کے خلاف جنگ کی صورت میں دہرایا جا سکتا ہے۔ اب ایک لمحے کیلئے تصور کریں کہ روس اور امریکہ حزب اللہ لبنان کو داعش کے خلاف جنگ میں نمایاں کردار ادا کرنے کے بدلے رسمی طور پر قبول کرنے کا ارادہ کر لیتے ہیں۔ حزب اللہ لبنان، اس کے بارے میں سوچ کر ہی اسرائیل اور صہیونیوں کے بدن کانپنے لگتے ہیں۔ اب اس تصور میں اس خیال کا بھی اضافہ کر لیں کہ چند دن قبل روس کے وزیر خارجہ سرگے لاوروف نے این ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے واضح انداز میں کہا تھا کہ: "امریکہ کو چاہئے کہ وہ داعش کے خلاف برسرپیکار حزب اللہ لبنان کو رسمی طور پر قبول کر لے"۔

ایسے حالات میں کسی کو فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں کہ مشکل وقت پڑنے پر روس ایران کو تنہا چھوڑ دے گا۔ روس کی نظر میں ایران ایک ایسا مقدس جام ہے جو نفع بخش تجارتی مواقع اور سکیورٹی تعاون سے لبریز ہے۔ یہ شام اور اس میں جاری سات سالہ جنگ کے بارے میں پائی جانے والی ایک واضح حقیقت ہے کہ واشنگٹن ایسے ممالک کی سکیورٹی صورتحال کو مزید خراب کرنے کا خواہاں ہے جو خود کمزور ہیں اور اپنے دفاع کی صلاحیت نہیں رکھتے، لیکن جب ایک طاقتور ملک جیسے روس وہاں قدم رکھتا ہے تو امریکی وہاں سے بھاگ جانے میں ہی اپنی عافیت جانتے ہیں اور اس ملک کو اپنے حال پر ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ حتی امریکہ اور اسرائیل (البتہ اسرائیل ظاہری طور پر ہی سہی پشت پردہ رہ کر کام کرنے کو ترجیح دے گا) کی بھرپور حمایت اور مدد کے باوجود سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات وغیرہ پر مشتمل فوجی اتحاد ایران کا مقابلہ نہیں کر سکتا اور ممکنہ جنگ میں اسے ایران سے ایسی عبرتناک شکست ہو گی جسے وہ تاریخ بھر نہیں بھولیں گے۔

ایران مخالف بلاک سے متعلق آخری اور دلچسپ ترین نکتہ یہ ہے کہ اس اتحاد میں شامل عرب ممالک میں دنیا کا آمرانہ ترین اور مستبدانہ ترین نظام حکومت نافذ ہے۔ ان حکومتوں کی خصوصیات خواتین کے حقوق کی پامالی، جمہوری اقدار کی پامالی اور تمام انسانی اقدار کی پامالی پر مشتمل ہیں۔ سب سے زیادہ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ امریکی حکام کا دعوی ہے کہ وہ سعودی عرب، قطر و دیگر عرب ممالک پر مشتمل اس اتحاد کے ذریعے مشرق وسطی خطے میں جمہوریت کو فروغ دینا چاہتا ہے اور ایران سے مقابلہ کرنا چاہتا ہے کیونکہ ایران جمہوریت کا دشمن ہے۔ البتہ خطے میں تشکیل پانے والے اس عرب اتحاد کی کوشش ہو گی کہ نیٹو کی تقلید کرتے ہوئے ابتدا میں ایران کو چاروں طرف سے اپنے فوجی اڈوں سے گھیر لے اور اس کے بعد اشتعال انگیز اقدامات کے ذریعے ایران کو جنگ پر اکسانے کی کوشش کرے یا ایران کے خلاف پابندیاں عائد کرے۔ لیکن یہ اقدامات بے سود ثابت ہوں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایران نہ تو عراق ہے اور نہ ہی لیبیا یا شام اور آج اسے روس کی بھرپور حمایت بھی حاصل ہے۔ اگر امریکی حکام میں ذرہ برابر عقل ہوتی تو وہ ان حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے پالیسی بناتے۔
خبر کا کوڈ : 614275
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش