0
Sunday 5 Mar 2017 11:30

پیپلز پارٹی کی اے پی سی کا فائدہ کیا ہوا

پیپلز پارٹی کی اے پی سی کا فائدہ کیا ہوا
تحریر: طاہر یا سین طاہر

سیاسی جماعتیں اپنی ترجیحات کا تعین اپنے تھینک ٹینک سے کرتی ہیں۔ تھینک ٹینک نہ تو ذاتی رشتہ داروں میں سے ہوتے ہیں اور نہ ہی فیوڈلز میں سے۔ تھینک ٹینک میں ایسے بھی نہیں ہوتے جن کا سیاسی مفاد کرپشن اور ٹھیکیداروں سے تعلقات سے تال میل کا رواج ہوتا ہے۔ یہ مگر مہذب دنیا میں ہوتا ہوگا۔ تیسری دنیا کی سیاسیی جماعتیں بالخصوص پاکستان میں اس کے برعکس ہے۔ سیاسی جماعتیں اپنی ترجیحات، ون مین شو سے ترتیب دیتی ہیں۔ پھر ان ترجیحات کی نوک پلک سنوار کر شہ کے مصاحب قصائد کاری کرکے اپنی اداکاری و کردار نگاری کی داد وصول کرتے ہیں۔ کیا یہ سچ نہیں کہ اگر ہمارے ہاں سیاسی جماعتوں کے اندر صحیح معنوں میں جمہوری رویوں کو پروان چڑھنے دیا جاتا تو آج سیاسی اور جمہوری طور ہم بہت مضبوط ہوتے؟ ہمیں آئے روز یہ طعنہ نہ سننا پڑتا کہ سیاسی و عسکری قیادت ایک پیج پہ نہیں؟ دنیا کے کس ملک میں ایسا ہوتا ہے کہ خاندانی جمہوریتوں کی بقا کے لئے عوام کو جمہوریت کا فریب دیا جاتا ہو؟ پیپلز پارٹی کبھی پاکستان کی مقبول ترین جماعت تھی۔ اسے مزدوروں، طالبعلموں، دانش وروں، وکلا اور عام آدمی کی جماعت و ترجمان سمجھا جاتا تھا۔ بہت سے اختلافات کے باوجود عام آدمی اور جیالا اپنی قیادت اور پارٹی کے نام پہ مر مٹتا تھا۔ ہاں اس وقت مگر قیادت ذوالفقار علی بھٹو اور ازاں بعد شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے ہاتھ تھی۔ باپ بیٹی کے قریبی ساتھیوں میں جاگیرداروں سمیت البتہ ذہین ترین اور صاحب الرائے افراد موجود تھے۔

محترمہ کی شہادت کے بعد پارٹی ان کے شوہر آصف علی زرداری کے ہاتھ آئی تو انھوں نے پارٹی کی بقا اپنی صدارت میں ہی سمجھی اور اپنی صدارت کی بقا پارٹی کی بقا سمجھی۔ جمہوریت بہترین انتقام ہے، کے جملے کی اس قدر انہوں نے تکرار کی کہ محسوس ہونے لگا کہ پیپلز پارٹی یہ انتقام عوام سے جمہوریت کے ذریعے لے رہی ہے۔ ہمیں اس مر میں کلام نہیں کہ پیپلز پارٹی نے مشکل وقت میں اقتدار سنبھالا، دہشت گردی عروج پہ تھی۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا تھا کہ طالبان مارگلہ کی پہاڑیوں کیا اس طرف پہنچ چکے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کے دور میں ہی آپریشن سوات شروع ہوا۔ مگر یہ پیپلز پارٹی ہی کی قیادت تھی جس نے کالعدم شریعت محمدی والے صوفی محمد سے امن کے نام پر معاہدے بھی کئے۔ بوجہ یہ معاہدے بعد ازاں ختم اور آپریشن شروع کیا گیا۔ یعنی لبرل سمجھی جانے والی سیاسی پارٹی کی ترجیحات بھی اپنے اتحادی مولویوں کی خوشنودی اور نام نہاد خاندانی جمہوریت کی بقا تھی۔

عام آدمی کو اس سے سروکار نہیں کہ پیپلز پارٹی نے اپنے عہد میں 58/2-B ختم کیا، صوبائی اختیارات میں اضافہ کیا، اٹھارہویں، انیسویں ترمیم کی۔ جمہوریت کی مضبوطی کے لئے صدر صاحب نے تقاریر کیں اور این ایف سی ایوارڈ بھی منظور کیا۔ عام آدمی کا یہ مسئلہ براہ راست نہیں۔ اس کا مسئلہ روزی، روٹی، تعلیم اور صحت کی سہولیات ہیں۔ پیپلز پارٹی کے دور میں بجلی کے بحران نے وہ سر اٹھایا کہ اس ملک کی دو نسلیں اسے کبھی فراموش نہ کر سکیں گی۔ سی این جی کی ہفتہ میں دو روز لوڈشیڈنگ، مہنگائی اور مفاہمت کے نام پر مقتدر طبقات کے مفادات کا تحفظ عام آدمی کی غصے میں اضافہ کرتا گیا۔ کرپشن کہانیں اس کے سوا ہیں۔ پیپلز پارٹی کی قیادت اور ہمدرد، یہ دلیل دیتے ہیں کہ پارٹی کو سپریم کورٹ نے کام نہیں کرنے دیا اور چیف ایگزیکٹو کو آئے روز عدالت طلب کر لیا جاتا تھا، حتٰی کہ پیپلز پارٹی کے ایک وزیراعظم کو عدالت نے گھر بھی بھیج دیا۔ یہ بجا ہے، سوال مگر یہ ہے کہ پارٹی نے متبادل پالیسی کیا دی؟ اپنی غلطیوں سے کیا سیکھا؟ 2013ء کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کوئی بڑا عوامی جلسہ نہ کر سکی۔ اس کی وجوہات بڑی واضح ہیں۔ دہشت گردوں کی جانب سے پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور اے ین اپی کو دھمکیاں تھیں بلکہ سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کے بیٹے کو ایک انتخابی کارنر میٹنگ کے بعد اغوا بھی کر لیا گیا تھا۔ اس واقعے نے بھی پیپلز پارٹی کی قیادت، امیدواروں اور ووٹرز کو مزید خوف زدہ کیا۔

2013ء کے انتخابات میں نون لیگ کی حکومت آئی۔ پیپلز پارٹی نے مگر اپنی غلطیوں سے کیا سیکھا؟ اس پارٹی کے پاس کم و بیش ابھی تک چار سال کا عرصہ گذر چکا ہے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے، مگر عملاً وہاں رینجرز معاملات چلا رہی ہے۔ پیپلز پارٹی نے پانامہ ایشو پر بھی کوئی بڑا موقف نہیں لیا۔ بلاول بھٹو زرداری نے اگرچہ پارٹی کی سیاسی حرکیات اور اس کی روایتی مزاحمتی سیاست کو زندہ کرنے کی کوشش کی، لیکن سابق صدر کی پاکستان آمد کے بعد یہ کوشش بھی دم توڑ چکی ہے۔ فوجی عدالتوں کی توسیع بارے پیپلز پارٹی اپنا موقف دے کر اپنی حیثیت بحال کرنے کی کوششوں میں ہے۔ ایک جمہوری معاشرے میں فوجی عدالتیں ہونی چاہییں یا نہیں؟ یہ ایک بحث طلب موضوع ہے اور اگر ملک حالت جنگ میں ہو اور دہشت گردوں کے سہولت کار پارلیمان تک منتخب ہو کر آچکے ہوں تو پھر بے شک مخصوص حالات میں مخصوص ترین فیصلے بھی کرنا پڑتے ہیں۔

میرا خیال ہے فوجی عدالتیں بنا کر فوری ٹرائل کی ضرورت ہے۔ پیپلز پارٹی اے پی سی بلا کر، اس پر بحث کرکے کوئی اعلامیہ جاری کرنا چاہتی تھی، مگر حیرت انگیز طور پہ پیپلز پارٹی آل پارٹیز کانفرنس کرنے میں ناکام رہی۔ کیوں؟ اس لئے کہ پیپلز پارٹی پہ سیاسی جماعتیں بوجہ اعتماد نہیں کر رہی ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پارٹی کو آنے والے انتخابات سے قبل اپنے تھینک ٹینک سے تین نوع کا کام لینا چاہیے۔ ایک یہ کہ ہماری بات سننے اور ہمارے ساتھ بیٹھنے کو کوئی آمادہ کیوں نہیں؟ قیادت پر لگے کرپشن اور کرپشن کے پھیلاو کے داغ کو کیسے دھویا جائے؟ اور یہ کہ عام آدمی کا اعتماد پھر سے پارٹی کی قیادت اور کور کمیٹی پہ کیسے بحال کیا جائے کہ آنے والے الیکشن میں پارٹی اپنے پرانے ورکرز کی مدد سے نئے ووٹرز کو بھی آمادہ کر سکے اور نئے منشور کی ترتیب۔ روٹی،کپڑا اور مکان انسان کی بنیادی ضرورت تو ہے مگر اب اس نعرے میں کشش نہیں رہی۔
خبر کا کوڈ : 615171
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش