0
Thursday 9 Mar 2017 20:23

پاک افغان سرحد پر دشمنوں کی یلغار اور پنجابی پختون محاذ آرائی

پاک افغان سرحد پر دشمنوں کی یلغار اور پنجابی پختون محاذ آرائی
تحریر: تصور حسین شہزاد

پاکستان اور افغانستان 2 ایسے بھائی ہیں جو "شریکوں" کے بہکاوے میں آکر ایک دوسرے سے ناراض و بدگماں ہیں۔ پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کو اپنا بھائی اور اپنا حصہ سمجھا ہے، ایک مسلمان ملک ہونے کے ناطے پاکستان نے ہمیشہ افغان کے دکھ درد کو اپنا دکھ درد سمجھا ہے جبکہ افغانستان یہ سمجھتا ہے یا اسے یہ سمجھا دیا گیا ہے کہ پاکستان خواہ مخواہ میں آپ کا خود ساختہ بڑا بھائی بننے کی کوشش کر رہا ہے، جبکہ وہ آپ سے بڑا نہیں، اسی طرح پاکستان میں بھی منظم سازش کے تحت بہت بڑے منصوبے کو عملی شکل دی جا رہی ہے اور وہ پختون علاقوں کی شکل میں ایک نئی ریاست کا قیام ہے۔ ممکن ہے راقم کا یہ تجزیہ بہت ہی قبل ازوقت ہو، لیکن راقم کو جو سازش کو بُو محسوس ہو رہی ہے، وہ یہ ہے کہ بھارتی خفیہ ایجنسی "را" پاکستان میں استحکام کسی بھی قیمت پر برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ اس لئے اس کی کوشش ہے کہ پاکستان میں کوئی نہ کوئی ہنگامہ آرائی جاری رکھی جائے۔ لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کا سلسلہ ہو یا پاک افغان سرحد پر کشیدگی، ڈانڈے نئی دہلی سے ہی جا ملتے ہیں۔ تشویشناک امر یہ ہے کہ ہمارے حکمران کبوتر کی طرح آنکھیں موندے سہمے بیٹھے دکھائی دے رہے ہیں۔ را کی سازش یہ ہے کہ پختون علاقوں پر مشتمل ایک نئی کالونی بنا دی جائے، جو افغانستان اور پاکستان کے علاقوں پر مشتمل ہو، اس میں امریکہ اور اسرائیل کا تعاون اتنا لازم ہے جتنا آٹا گوندھنے کیلئے پانی ضروری ہوتا ہے۔ اس میں امریکی سی آئی اے، اسرائیلی موساد اور بھارتی خفیہ ایجنسی را مل کر کام کر رہی ہیں۔ دشمنانِ پاکستان کا یہ "ثلاثہ" پاکستان کیخلاف منظم انداز میں مصروف عمل ہے۔

پاک افغان سرحد جسے ڈیورنڈ لائن بھی کہا جاتا ہے، اب اسے متنازع بنا دیا گیا ہے۔ کوئی بھی افغانی خواہ وہ سیکولر ہو یا طالبانی، اس ڈیورنڈ لائن کو سرحد کو تسلیم کرنے کیلئے تیار ہی نہیں، اسی طرح کی سوچ رکھنے والے کچھ رہنما ہمارے ہاں پاکستان میں بھی موجود ہیں، یہی وجہ ہے کہ فاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام کی انہوں نے کھل کر مخالفت کی۔ افغانستان اور ہمارے دو چار رہنما یہ سمجھتے ہیں کہ 1893ء میں افغانستان کے بادشاہ امیر عبدالرحمان اور برطانوی ہند کے سیکرٹری "سر مارٹیمر ڈیورنڈ" نے سرحد بندی کے جس معاہدے پر دستخط کئے تھے، اس کی معیاد صرف 100 سال تھی، جو 1993ء میں ختم ہوگئی۔ جبکہ ایک مکتب فکر کہتا ہے کہ امیر افغانستان کا یہ معاہدہ تاج برطانیہ کیساتھ تھا، برصغیر سے انگریزوں کے جانے کے بعد 1947ء میں جب پاکستان معرض وجود میں آگیا تو اس کیساتھ ہی یہ معاہدہ بھی انگزیزوں کیساتھ ہی چلا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ 1949ء میں ہونیوالے افغان لویا جرگہ نے ڈیورنڈ لائن کو بوگس اور فرضی سرحد کی قرارداد منظور کرکے "دونوں جانب کے پختون ایک ہیں" کا نعرہ لگایا۔ آج "ثلاثہ" اسی نظریئے کو لیکر پاکستان کو ایک بار پھر تقسیم کرنے کی مذموم سازش میں مصروف ہے۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ 1893ء میں ہونیوالا معاہدہ 100 برس کیلئے نہیں تھا بلکہ امیر عبدالرحمان اور سر مارٹیمر ڈیورنڈ نے جس معاہدے پر دستخط کئے تھے، اس کی معیاد بادشاہ کی زندگی تک تسلیم کی گئی، امیر عبدالرحمان کی وفات کیساتھ ہی معاہدہ بھی وفات پا گیا۔ اس معاہدے میں یہ بھی طے پایا تھا کہ افغانستان اپنی ضرورت کا اسلحہ ہندوستان (موجودہ پاکستان) کے راستے درآمد کرسکتا ہے اور تاج برطانیہ افغان بادشاہ کو سالانہ 18 لاکھ روپے کی گرانٹ بھی دے گا۔ لیکن جیسے ہی امیر عبدالرحمان کا انتقال ہوا، برطانیہ نے معاہدہ میں طے ہونیوالی گرانٹ بھی روک لی اور راہداری کی سہولت بھی معطل کر دی۔ امیر عبدالرحمان کے بعد امیر حبیب اللہ خان نے زمام اقتدار سنبھالی، تو انہوں نے تاج برطانیہ کے ذمہ داروں کو دوبارہ معاہدے کیلئے کابل آنے کی دعوت بھجوائی۔ اس پر برطانوی سیکرٹری برائے انڈیا "سر لوئی ڈین" بات چیت کیلئے کابل پہنچے۔ 21 مارچ 1905ء کو سرلوئی ڈین اور امیر حبیب اللہ نے معاہدے پر دستخط کئے اور امداد و راہداری کی سہولت دوبارہ بحال ہوگئی۔ اس معاہدے میں امیر حبیب اللہ نے عہد کیا کہ ان کے والد امیر عبدالرحمان نے جو معاہدہ کیا تھا، وہ اس پر مکمل عملدرآمد کرتے رہیں گے اور کبھی اس معاہدے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

تیسری اینگلو افغان جنگ کے بعد 8 اگست 1919ء کو راولپنڈی میں افغان وزیر داخلہ علی احمد خان نے تاج برطانیہ کیساتھ امن معاہدہ پر دستخط کئے۔ اس معاہدے کے نتیجہ میں برطانیہ نے اگرچہ راہداری اور سالانہ امداد کی سہولت واپس لے لی، مگر افغانستان کی آزادی و خود مختاری کو پہلی بار تسلیم کر لیا گیا۔ اس معاہدے کی شق نمبر 5 میں لکھا گیا تھا کہ افغان حکومت ہندوستان اور افغانستان کی وہی سرحد تسلیم کرتی ہے، جو مرحوم امیر حبیب اللہ نے تسلیم کی تھی۔ اس طرح پہلی بار 1919ء کے سمجھوتے کے تحت ڈیورنڈ لائن کے معاہدے کی معیاد بادشاہ کی زندگی تک برقرار رہنے کی پابندی سے آزاد ہو کر باضابطہ بین الاقوامی سرحد بن گئی۔ اس سرحد کیخلاف 1947ء کے بعد بھارت نے اپنی سازشوں کے جال بننا شروع کر دیئے۔ انڈیا کا سافٹ ٹارگٹ بلوچستان تھا اور دوسرے نمبر پر ڈیورنڈ لائن۔ انڈیا بیک وقت ان دونوں "منصوبوں" پر کام کر رہا تھا، بلوچستان میں پاکستانی فوج کی مداخلت کے بعد انڈیا کو کافی حد تک پسپائی کا سامنا کرنا پڑا۔ اب بلوچستان میں 95 فیصد باغیوں نے ہتھیار ڈال دیئے ہیں۔ جو چند ایک رہ گئے ہیں، ان کے پر بھی کٹ چکے ہیں۔ بہت سے تو ایسے باغی رہنما ہیں، جن سے را نے بھی ہاتھ اُٹھا لیا ہے۔

اب را کا فوکس ڈیورنڈ لائن ہے۔ اس پر منظم انداز میں کام ہو رہا ہے۔ صوبہ سرحد کا نام تبدیل ہونا اور پھر دہشتگردی کا اولین شکار اسی صوبے کو بنا کر پختونوں کو متنفر کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس حوالے سے سازش اس منظم انداز میں کی جا رہی ہے کہ حکمران بھی اس کی لپیٹ میں آگئے۔ اب پنجاب اور کے پی کے حکمرانوں میں پختون اور پنجابی کی لڑائی زور پکڑنے لگی ہے۔ اس پر قابو نہ پایا گیا تو اس کے نتائج انتہائی بھیانک ہوں گے۔ اس حوالے سے پاکستان دشمن انتہائی منظم انداز میں کام کر رہے ہیں۔ آپریشن ضرب عضب اور اب آپریشن ردالفساد سے دہشتگردی تو کافی حد تک کنٹرول ہوئی ہے، مگر سازشیں ابھی تھمی نہیں۔ ان کو روکنے کیلئے ہر پاکستانی کو کردار ادا کرنا ہوگا، بالخصوص کے پی کے حکمرانوں اور پنجاب کے وزراء کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ اگر انہوں نے محاذ آرائی کا یہ سلسلہ بند نہ کیا تو ممکن ہے (خدا نہ کرے) پاکستان دشمن "ثلاثہ" کو کامیابی مل جائے۔ اس حوالے سے بیداری اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 616662
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش