0
Tuesday 21 Mar 2017 15:32

احیائے امت کا خواب

احیائے امت کا خواب
تحریر: ثاقب اکبر

احیائے امت کا خواب نیا نہیں، مختلف ادوار میں مختلف ناموں سے یہ آرزو سامنے آتی رہی ہے۔ خلافت عثمانیہ کے زوال کے بعد جب مسلمانوں کا سیاسی زوال ہمہ گیر ہوگیا تو یہ آرزو مسلمانوں کے مختلف طبقوں اور شخصیات کے سینے میں مچلتی رہی کہ کسی طرح سے مسلمان پھر ایک عالمی طاقت بن کر ابھریں۔ بعض لوگوں کے نزدیک احیائے امت کا یہی ایک طریقہ ہے۔ یورپی استعماری طاقتوں کا بلاواسطہ غلبہ مسلمانوں کی سرزمینوں پر رفتہ رفتہ کمزور ہوتا گیا اور مسلمانوں کی چھوٹی بڑی ریاستیں نئے سرے سے آزاد ہونا شروع ہوئیں۔ احیائے امت کا خواب کبھی اسلامی خلافت کے احیاء کے عنوان سے سامنے آیا اور کبھی مختلف احیائی تحریکوں کے عنوان سے۔ اخوان المسلمین، جماعت اسلامی، حزب التحریر اور ان جیسی دیگر تنظیمیں دراصل امت اسلامیہ کے اندر ایک بیداری اور اسلام کے سیاسی غلبے کی تحریکیں کہلا سکتی ہیں۔ کس طرح سے عالم اسلام اکٹھا ہو، کیسے پھر وہ ایک امت اور ایک عالمی اسلامی قوت کے طور پر دنیا میں پہچانا جائے، اس کے لئے مختلف تجاویز سامنے آتی رہی ہیں۔

علامہ اقبال کی بھی رائے تھی کہ جوں جوں مسلمان ریاستیں آزاد ہوں، وہ آپس میں مل کر ایک مرکز پر اکٹھی ہو جائیں۔ ہمارے بعض دوستوں کا خیال ہے کہ خلافت کا قدیم ادارہ اب زندہ نہیں ہوسکتا اور خلافت کا کلاسیکی تصور عصر حاضر میں قابل قبول بھی نہیں ہوسکتا۔ ان کی رائے یہ ہے کہ ایک وفاقی حکومت قائم کی جانا چاہیے، جس میں موجودہ تمام اسلامی ممالک شامل ہو کر اپنا تشخص بھی برقرار رکھ سکیں، لیکن ایک فیڈریشن کے تقاضوں کے مطابق بعض شعبے مرکزی حکومت کو تفویض کر دیں۔ او آئی سی مسلمانوں کے موجودہ ممالک کے ایک اتحاد ہی کے پلیٹ فارم کے طور پر معرض وجود میں آیا۔ اس کی بنیاد مسلمانوں کو درپیش خارجی چیلنجز کے مقابلے میں ایک سیاسی قوت کا اظہار ہی تھا۔ بعد ازاں اسے عالم اسلام کے اقتصادی اور دیگر شعبوں میں باہمی تعاون کے لئے بھی بروئے کار لانے کی قراردادیں منظور ہوتی رہیں، لیکن رفتہ رفتہ یہ پلیٹ فارم مسلمانوں کی ناکام آرزوؤں کا عنوان بن کر رہ گیا، بلکہ اب تو او آئی سی کے ممبر ممالک کے سربراہوں کا اجلاس منعقد ہونے لگتا ہے تو دل دھڑکنے لگتا ہے کہ اللہ عالم اسلام کی خیر کرے۔

بعض لوگوں کی یہ رائے رہی کہ عالم اسلام کو ایک فوجی اتحاد قائم کرنا چاہیے۔ کچھ عرصہ پہلے سعودی عرب کے ایما پر ایک فوجی اتحاد کی داغ بیل ڈالی گئی، لیکن دنیا جانتی ہے کہ یہ اتحاد خود عالم اسلام کے اندر نفاق کی علامت کے طور پر معرض وجود میں آیا ہے۔ یہ مسلمانوں پر حملہ آور کسی بیرونی قوت کے مقابلے کے لئے نہیں بنا۔ اس سے ہرگز توقع نہیں کی جاسکتی کہ یہ کوئی گولی مسلمانوں کے بیرونی دشمن پر بھی چلائے گا۔ دیکھا جائے تو القاعدہ اور داعش جیسی تنظیمیں، ان کے اپنے دعویٰ کے مطابق، عالمی سطح پر مسلمانوں کے ادارۂ خلافت کے احیاء کے لئے ہی معرض وجود میں آئی ہیں۔ داعش نے تو اپنے سربراہ کا عنوان ہی خلیفہ رکھ لیا ہے۔ یہ دونوں تنظیمیں جو آج عالم اسلام کے اندر خوف اور وحشت کی علامت بن چکی ہیں، اپنے آپ کو کسی ایک خطے تک محدود نہیں رکھتیں، بلکہ ان کا ادعا ہے کہ وہ عالمی سطح پر اسلامی خلافت قائم کریں گی۔

پہلے مرحلے پر انہوں نے مسلمانوں کے اندر حکومتوں کو تبدیل کرنے اور ملکوں پر قبضہ کرنے کے لئے کارروائیاں شروع کر رکھی ہیں۔ ان کا اصل میدان جنگ مسلمانوں کے ممالک ہی ہیں۔ اگرچہ کوئی نہ کوئی کارروائی کبھی کبھار عالم اسلام سے باہر بھی ان سے منسوب ہو جاتی ہے، لیکن ہم سے پوشیدہ نہیں کہ انہوں نے افغانستان، شام، عراق، لیبیا اور دیگر اسلامی ملکوں کو اپنے لئے رزم گاہ کے طور پر منتخب کر رکھا ہے۔ پاکستان بھی ان کی کارروائیوں سے محفوظ نہیں۔ اسی طرح دیگر کئی ملکوں کا نام بھی لیا جاسکتا ہے۔ ان تنظیموں نے ابھی تک کوئی کارروائی اسرائیل کے خلاف نہیں کی، جو بالکل عالم عرب کے بیچ میں واقع ہے۔ احیائے امت کے نام پر سرگرم بعض تنظیمیں پرامن انتخابی جدوجہد کے ساتھ اپنی وابستگی کا اعلان کرتی ہیں۔ بعض ایسی بھی ہیں، جن کا کہنا ہے کہ جب وہ اس قدر عوامی قوت اکٹھی کر لیں گی کہ جس کے جمع ہونے سے حکومت سے غیر مسلح ٹکراؤ کے ذریعے نظام تبدیل کیا جاسکے، وہ اس وقت میدان میں اتریں گی۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ایسی ساری تنظیموں میں طریقہ کار کا اختلاف ضرور ہے، لیکن ان کا مقصد بہرحال ایک ہی ہے۔

دوسری طرف قومی ریاستیں پوری دنیا میں معرض وجود میں آچکی ہیں، جن کی اپنی سرحدیں ہیں، اپنی اپنی حکومتیں ہیں، اپنے اپنے آئین ہیں اور اپنے اپنے قوانین۔ عالم اسلام بھی ان سے مختلف نہیں ہے۔ وہ بھی کم و بیش 57 ریاستوں میں منقسم ہے اور یہ سب ریاستیں آزاد مملکتوں کی حیثیت سے اقوام متحدہ کی رکن ہیں۔ ان کے اپنے اپنے قومی شناختی کارڈ اور اپنے اپنے پاسپورٹ ہیں۔ چھوٹی بڑی فوجیں ہر ملک نے بنا رکھی ہیں۔ ان میں سے بعض ممالک میں بظاہر جمہوری حکومتیں قائم ہیں اور بعض میں خاندانی بادشاہتیں یا آمریت کی دیگر شکلیں موجود ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمانوں کے نسبتاً بڑے ممالک میں آئینی اور کسی حد تک جمہوری حکومتیں قائم ہیں۔ ان میں سے انڈونیشیا، ملائیشیا، بنگلہ دیش، پاکستان، ایران اور ترکی وغیرہ کے نام لئے جا سکتے ہیں۔

اس صورت حال کے تناظر میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا احیائے امت کی کوئی قابل عمل صورت پیدا ہوسکتی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ جب تک اس سوال پر سنجیدگی سے غور نہ کیا جائے اور اس کا کوئی قابل عمل حل نہ نکالا جائے، مسلمانوں کے اندر شدت پسندی کے رجحان کے لئے موجود امکانات پر قابو نہیں پایا جاسکتا۔ اگر کوئی یہ کہے کہ خارج میں یا معروضی طور پر کوئی امت ہی موجود نہیں تو ہم کہیں گے کہ امت کو تشکیل دینے والے طاقتور مظاہر موجود ہیں، جو کسی وقت بھی ایک خاص رخ اختیار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان مظاہر کو کسی صورت ختم نہیں کیا جاسکتا۔ احیائے امت کا خواب فقط ماضی کی طرف پلٹنے کا نام نہیں بلکہ ان مظاہر کی بنیاد پر ایک نئی عمارت تعمیر کرنے کا نام ہے۔

مثال کے طور پر سارا سال مسلمان خانہ کعبہ کی طرف حرکت میں رہتے ہیں، کبھی عمرہ کی نیت سے اور کبھی حج کی نیت سے۔ ہر روز مسلمان اپنے اسی محسوس مرکز کو طرح طرح سے یاد کرتے ہیں۔ اس کی طرف پاؤں کرکے سونے سے اجتناب کرتے ہیں۔ اس کی طرف منہ کرکے کئی مرتبہ نماز پڑھتے ہیں۔ ہر روز مسلمانوں کے گلی محلوں سے ایک ہی طرح کی اذان گونجتی ہے۔ یہ اور ایسے دیگر مظاہر مسلمانوں کو ایک ہونے کا شعوری یا لاشعوری پیغام دیتے رہتے ہیں، جب اس کے ساتھ تاریخی افق بھی نمایاں ہو جاتا ہے تو ایک مسلمان کے دل میں اپنی عالمی وحدت کا تصور ابھرنے لگتا ہے۔ وہ وحدت جو زمان و مکان سے بے نیاز ہوتی ہے اور جس کا تشکل سیاسی اور عسکری قیادت کی صورت میں اسے نظر آتا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو بظاہر قومی ریاستوں کے وجود اور احیائے امت کے خواب کے مابین ایک تضاد دکھائی دیتا ہے۔ امت کی قیادت کا حق اسی فرد یا ادارے کو حاصل ہوگا، جو جدید دور کے تقاضوں کے مطابق احیائے امت کے خواب کے لئے قابل عمل اور قابل قبول راستہ تجویز کرسکے۔ البتہ ایک ایسا راستہ جو غیر مسلموں کو ٹکراؤ کا پیغام نہ دیتا ہو، بلکہ دنیا کے سب مستضعفین اور محرومین کے دل میں بھی امید کا چراغ روشن کر دیتا ہو۔
خبر کا کوڈ : 620295
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش