0
Thursday 23 Mar 2017 10:30

یوم پاکستان، تجدید عہد کا دن

یوم پاکستان، تجدید عہد کا دن
تحریر: سردار تنویر حیدر بلوچ

23 مارچ، یومِ جمہوریہ پاکستان، ہمیں اُس دن کی یاد دلاتا ہے جب لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجتماع میں ایک قرارداد منظور کی گئی، جسے شیر بنگال مولوی فضل الحق نے پیش کیا اور آل انڈیا مسلم لیگ کے سب نمائندوں نے اِس قرارداد کو متفقہ طور پر منظور کیاـ۔ اِس قرارداد میں برطانوی حکومت سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ انڈیا کے جن علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے ان علاقوں کو انڈیا سے الگ کرکے ایک آزاد حیثیت دی جائے، جہاں پر مسلمان اپنی تہذیب عقیدہ تاریخ اور رسم و رواج کے مطابق آزادانہ زندگی بسر کر سکیں۔ قرارداد پاکستان دراصل قیامِ پاکستان کی بنیاد ہے اور علامہ اقبال کے تصورِ پاکستان کے عین مطابق ہے۔ اِس قرارداد کی منظوری کے بعد تحریکِ پاکستان میں ایک نیا جوش و ولولہ پیدا ہوا، جس کو بروئے کار لا کر صرف سات سال کے عرصے میں آل انڈیا مسلم لیگ نے پاکستان کا حصول ممکن کر دکھایاـ اِس اہم واقعہ کی یاد ہم ہر سال مناتے ہیں۔ آج کل کے حالات کو دیکھتے ہوئے ہمیں قراداد پاکستان کی اصل روح کو سمجھنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم صرف پاکستانی بن کے زندہ رہیں۔ گزشتہ سات دہائیوں سے ہم یوم پاکستان ایک نئے جوش اور ولولے سے منا رہے ہیں۔ افواج پاکستان 23 مارچ 1940ء کی یاد کو تازہ رکھنے کے لیے ہر سال اسلام آباد میں اکتیس اور صوبائی دارالحکومتوں میں 21 توپوں کی سلامتی سے دن کا آغاز کرتی ہیں۔ قومی دن کے حوالے سے افواج پاکستان کی پریڈ صرف قابل دید ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں اپنی مثال آپ ہے۔

کسی بھی ملک کی قومی پریڈ میں اس کی ملٹری اور فوج طاقت کا مظاہرہ کرنے کے مختلف مقاصد ہوتے ہیں۔ اس میں سر فہرست دشمنوں پر اپنی دھاک بٹھانا مقصود ہوتا ہے۔ خصوصاً پاکستان جیسے ملک کیلئے جس کے ہمسایہ ممالک میں بھارت ہر دم پاکستان کی سرحدوں پر تاک لگائے بیٹھا رہتا ہے اور پاکستان کے ستر سال قیام کے بعد بھی اس کے وجود کو تسلیم نہیں کیا۔ اس دشمن کیلئے ہر موقع پر ایک واضح پیغام دینا ضروری ہے کہ پاکستانی قوم اور افواج جاگ رہی ہیں اور سرحدوں کی حفاظت کے لیے تیار ہیں۔ اس سال پاکستان اپنے دوستوں اور اتحادی ممالک کی طاقت کا مظاہرہ بھی کریگا۔ ترکی اور سعودی عرب کے فوجی دستے پاکستان کی 23 مارچ کی پریڈ میں شامل ہوں گے۔ چائنہ کی ٹرائی سروسز، سعودی عرب کے فوجی دستے اور ترکی کے جینی سری ملٹری بینڈ کی شمولیت اس بات کا ثبوت ہیں کہ پاکستان نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ پوری دنیا کے لیے اہم ہے۔ یوم پاکستان کے موقع پر آرمی چیف نے نہ صرف بیرونی بلکہ پاکستان کے اندرونی دشمنوں کے لیے خصوصی پیغام چھوڑا ہے کہ پاکستان تمام فسادیوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کا عزم رکھتا ہے۔ یہ فسادی وہی ہیں جو پاکستان کے دشمن ہیں۔ پاکستان پر چھپ کر وار کرتے ہیں۔ ان کے کئی نام ہیں۔ دہشت گرد، شدت پسند او ر فسادی ان فسادیوں اور شدت پسندوں کی بدولت پاکستان نے بے انتہا جانی و مالی نقصان اٹھایا ہے۔

حتیٰ کہ مذہب اسلام کو بھی دنیا میں دہشت گردی کے ساتھ منسوب کیا جانے لگا ہے۔ آپریشن ضرب عضب کے تسلسل میں آپریشن ردالفساد ہر قسم کے فسادیوں کو جڑ سے اکھاڑنے کے عزم سے شروع کیا گیا ہے۔ ان فسادیوں کی بدولت 2015ء کی یوم پاکستان پریڈ کا انعقاد سات سال کے وقفہ سے کیا گیا۔ مارچ 2015ء کی پریڈ سانحہ اے پی سی کے تین ماہ بعد منعقد کی گئی اور فوج نے اپنی پوری قوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے دشمن کو پیغام دیا کہ پاکستانی قوم اور افواج پاکستان دشمن سے خوفزدہ نہیں ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو 2017ء کے حالات 2015ء کے حالات سے کافی مختلف تو نہیں، لیکن آپریشن ضرب عضب کی بدولت دشمن کی کمر ٹوٹ چکی ہے۔ مارچ 2017ء کی پریڈ سانحہ لاہور، جس میں ڈی آئی جی پولیس اور دیگر اہلکار اپنی جانوں کا نذانہ پیش کر چکے ہیں اور سیہون شریف دھماکہ جس میں لاتعداد بے گناہوں کی لاشیں اٹھائی گئیں، کے ایک ماہ بعد منعقد ہو رہی ہے۔ آج بھی سکیورٹی سے متعلق حالات اتنے ہی نازک ہیں لیکن پاکستان قوم اپنی شجاعت و بہادری کی بدولت آج بھی پر عزم ہے۔ 23 مارچ کا دن صرف فوجی طاقت، رنگارنگ ٹیبلوز اور قومی ترانے گانے کا دن نہیں بلکہ اس عزم کا اظہار ہے کہ اس دن مسلمانوں نے اپنے لیے علیحدہ وطن کے لیے جدوجہد کا آغاز کیا اور سات سال کے عرصے میں بے پناہ قربانیوں اور کوششوں کی بدولت ہندئووں سے علیحدہ وطن حاصل کیا۔

آج کے دن بھی ہمیں بہت سے عزائم پر کار بند رہنے کی ضرورت ہے کہ وہ وطن عزیز جس کو اتنی کاوشوں اور قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا اس کی حفاظت کے لیے ہم ہر دم چاک و چوبند ہیں۔ ہمیں اپنے وطن عزیز کو دہشت گردوں کے چنگل سے چھڑا کر معاشی و سماجی کامیابیوں کی بلندی پر لے کر جانا ہے اور اس طویل سفر کو طے کرنے کیلئے ہمیں متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ پاکستان پرچم اور قومی پریڈ قومی اتحاد کی علامت ہیں۔ ہمیں عملی طور پر اس اتحاد کو دشمن کی شکست کے لیے استعمال کرنا ہے۔ 23 مارچ 1940 ء کا سیاسی پیغام بھی یہی ہے کہ اکٹھے ہو جاؤ ہے۔ اسلامیان برصغیر جب قائداعظم کی قیادت میں اکٹھے ہوئے، تو ملک بن گیا، آج ظالم اور کرپشن زدہ نظام سے نجات کیلئے قوم کو ایک بار پھر اکٹھا ہونا ہو گا، پاکستان بنانے والی قیادت کی وجہ شہرت ان کی سچائی، ایمانداری، اپنی قوم سے محبت تھی، پاکستان بنانے والی قیادت کے لندن، امریکہ، اسلام آباد، کراچی، لاہور میں کوئی عالیشان محل نہیں تھے۔ بانیان پاکستان اپنے مثالی کردار کے باعث دلوں میں زندہ ہیں، آج کی قیادت رزق حلال کے متعلق پوچھے جانے والے سوالوں کا جواب نہیں دیتی اور پارلیمنٹ میں بھی بے دھڑک جھوٹ بولتی ہے اور قومی مفادات پر ذاتی مفاد کو ترجیح دیتی ہے، جھوٹ بولنے والی مقتدر ایلیٹ قائداعظم کے پاکستان کو کمزور کر رہی ہے۔

پڑھی لکھی نوجوان نسل کے ٹیلنٹ سے استفادہ اور پاکستان کی تعمیر نو کیلئے زمانہ غار کی جاہل اور کرپٹ سیاسی ایلیٹ سے نجات ضروری ہے، قرارداد پاکستان میں لفظ پاکستان نہیں تھا اسے قرارداد پاکستان کا نام پہلی بار ایک عظیم خاتون بیگم محمد علی جوہر نے دیا، تاریخی اعتبار سے یہ کہنا درست نہیں کہ انڈین پریس نے پہلی بار قرارداد پاکستان کا نام دیا۔ تحریک پاکستان میں نوجوانوں اور خواتین نے مرکزی کردار ادا کیا مگر افسوس آج یہ دونوں طبقات کرپشن زدہ نظام کے باعث عضو معطل بن کر رہ گئے ہیں۔ 60 فیصد نوجوان ڈگریاں ہاتھوں میں لیے بیروزگار ہیں اور خواتین کو ہر سطح پر استحصال، تشدد اور امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ قائداعظم نے برصغیر کے مسلمانوں کو ایک ہی پیغام دیا تھا کہ اپنے حقوق کیلئے اپنے آپ کو منظم کریں، آج بھی ایسٹ انڈیا کمپنی جیسی سیاسی ذہنیت کے تسلط سے نجات کیلئے ظلم کے شکار طبقات کو اکٹھا اور منظم ہونا ہو گا۔ 23 مارج 1940ء کو منٹو پارک لاہور میں پورے ہند کے مسلمان جمع ہوئے تھے, اُ س وقت کی شاتر انتظامیہ نے بھی افوائیں پھیلائی تھیں کہ اس پروگرام کو منسوخ کر دیا جائے، کیوں کہ لاہور میں لاء اینڈ آڈر کا مسئلہ ہے۔ جبکہ گانگریس نے دہلی میں ہند کی تقسیم کے خلاف پروگرام رکھا تھا۔ ان حالات میں23 مارچ کو قرارداد لاہور پیش ہوئی۔ 24 مارچ کو اسے شیر بنگال نے مسلم لیگ کے اجلاس میں پیش کیا جسے منظور کیا گیا۔ مگر قائد اعظم ؒ نے اس کی تاریخ کو 23 مارچ ہی رکھا۔ جسے بعد میں قرارداد پاکستان کہا گیا۔ آج بھی اسی عزم اور ولولے کی ضرورت ہے۔

قوم کو پاکستان کی اساس سے جوڑنا اور نئی نسل کو نظریہ پاکستان سے روشناس کروانا، دینی و سیاسی قیادت کی اولین ذمہ داری ہے۔ پاکستان مدینہ منورہ کے بعد کرہ ارض پر اسلام کے آفاقی و غیر فانی نظریہ کی بنیاد پر وجود میں آنے والی دوسری مملکت خدا داد ہے، پاکستان کا قیام بلاشبہ بیسویں صدی کا عظیم معجزہ ہے، اس عطیہ خداوندی کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے، پاکستان کے حصول کیلئے ہمارے آبا و اجداد کو آگ اور خون کے جس دریا سے گزرنا پڑا اور جو ناقابل فراموش قربانیاں دینا پڑیں، وہ تاریخ کے صفحات پر ہمیشہ سنہری حروف سے لکھی جائیں گی۔ قومیں اپنے نظریات کی بنا پر زندہ رہتی ہیں، اپنے اسلاف کے طے کردہ نشانات منزل کو گم کردینے اور اپنے نظریات کو فراموش کر بیٹھنے والوں کا وجود کائنات زیادہ دیربرداشت نہیں کرتی اور وہ حرف غلط کی طرح مٹا دیئے جاتے ہیں۔ پاکستا ن اپنے نظریہ کے بغیر ایسے ہی ہے، جیسے روح کے بغیر جسم! ان جذبوں کو نوجوان نسل کے دل و دماغ میں راسخ کرنے، وطن عزیز کو امن کا گہوارہ بنانے اور اس کے حصار کو مستحکم تر کرنے کیلئے ضروری ہے کہ اپنی آنے والی نسلوں کی تربیت اس انداز میں کی جائے کہ وہ نظریہ پاکستان کو اپنی زندگیوں کا مرکز و محور بنا لیں اور کسی لمحہ بھی اسے اپنی نظروں سے اوجھل نہ ہونے دیں۔
خبر کا کوڈ : 620661
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش