2
0
Friday 24 Mar 2017 11:10

پنجاب یونیورسٹی، قبضہ مافیا اور ذاتی جاگیر

پنجاب یونیورسٹی، قبضہ مافیا اور ذاتی جاگیر
تحریر: ارشاد حسین ناصر

پنجاب یونیورسٹی، پاکستان کی عظیم درسگاہ ہے، جو 1882ء میں لاہور میں قائم ہوئی، یہ قدیم درسگاہ ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں ایسے سپوتوں کو اپنے سایہ فکر و شعور، علم و ادب اور شفقت و مہربانی میں پروان چڑھانے، انہیں منزل کی طرف بڑھانے میں تاریخی کردار اور داستانیں رکھتی ہے، جنہوں نے ملک پاکستان کا نام روشن و تابندہ کیا اور اپنے وطن کی پہچان کا باعث بنے۔ اس کا اولڈ کیمپس تو لاہور کے دل انار کلی بازار کے ساتھ ہی مال روڑ پر واقع ہے، جس کی دوسری طرف عظیم علمی درسگاہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی موجود ہے، جبکہ اس ایریا میں لاہور بلکہ پنجاب کی بہت ہی قدیم تاریخ کے ابواب رقم ہیں، اس تاریخ کی بہت سی علامات اور نشانیاں اب بھی موجود ہیں، جنہیں دیکھنے کیلئے دور و نزدیک سے سیاح لاہور کا رخ کرتے ہیں، نیو کیمپس لاہور کے سب سے خوبصورت اور پر فضا مقام لب نہر کیساتھ واقع ہے، جہاں گھنے درختوں کے سائے میں دو جانب چلنے والی ٹریفک سے بے نیاز ادب، شاعری اور محبتوں کے سفیر نہر میں ٹانگیں ڈالے کنارے بیٹھے شعر تخلیق کرتے ہیں، محبتیں پروان چڑھاتے ہیں اور ماحول سے بے نیاز اپنی دنیا میں مگن دکھائی دیتے ہیں۔ یہ عظیم درسگاہ اپنے اندر ہزاروں داستانیں رکھتی ہے، مگر آئے روز اس کا نام میڈیا اور اخبارات میں اس انداز سے آتا ہے کہ سر شرم سے جھک جاتے ہیں، ہم بے بسی کے عالم میں کفِ افسوس ملنے کے سوا کچھ بھی نہیں کر پاتے۔

جس طرح اس یونیورسٹی کا نام بڑا ہے اور تاریخ و کردار ہے، اسیطرح اس مادر علمی میں ہونے والے کسی بھی واقعہ یا وقوعہ کو بھی اتنی ہی کوریج اور اہمیت دی جاتی ہے۔ افسوس کہ کئی عشروں پہ محیط یہاں ایک نام نہاد، تنگ نظر اور متعصب گروہ غلبہ حاصل کرکے اس مادر علمی کو اپنی ہوس اور خبث باطن کا شکار کرتا آ رہا ہے، ہم جب بھی کسی ملکی مسئلہ کی تہہ تک جانا چاہتے ہیں تو ہمیں ہر مسئلہ کی تہہ میں ضیاء الحق کا مارشل لائی دور ضرور یاد آتا ہے، اس لئے کہ ہر برائی کی جڑ اسی دور میں نظر آتی ہے۔ ضیاء الحق نے اپنے دور میں تعصبات کو پروان چڑھا کر اپنی کرسی کو مضبوط کیا، مذہبی انتہا پسندی اور فرقہ وارانہ گروہوں کی تشکیل سے لیکر پاکستان میں جہاد کے نام پر اسلحہ کلچر جو کلاشنکوف سے شروع ہو کر آج خودکش بمباروں تک جا پہنچا ہے، اسی اقتدار پرست جرنیل کے منحوس دور کی یادوں کا مرہون منت ہے۔ اس دور میں جہاں اور بہت سے محکموں بشمول افواج پاکستان، ایجنسیز، فورسز، حتٰی صحافت کے میدان میں ایسی نسلوں کو تقویت دی گئی، جو اس سوچ کے حامل تھے، جو اس نام نہاد مرد مومن کی سوچ تھی۔

ایسے ہی اس دور میں عظیم درسگاہوں کو بھی ایسے عناصر اور غنڈوں سے بھر دیا گیا، جو اسلحہ کی تربیت اور جہاد کے نعروں سے لیس تھے، ان کی مکمل سرپرستی کی گئی اور انہیں ملک کے بہت سے اہم تعلیمی اداروں میں کھلی چھٹی دے دی گئی۔ یہی وجہ بنی کہ ہماری درسگاہیں بعد ازاں مقتل گاہوں کا منظر پیش کرنے لگیں، تعلیمی ادارے، کالجز و یونیورسٹیز کے طالبعلموں کو والدین بہت ہی سوچ سمجھ کر اور خوف و خطر محسوس کرتے ہوئے بھیجتے، اس زمانہ میں پرائیویٹ تعلیمی اداروں کا غلغلہ نہیں تھا، نہ ہی تعلیم اس قدر مہنگی اور بے وقعت ہوئی تھی۔ طلباء تنظیمیں قبضہ گروپوں کی سی شناخت بن گئی تھیں، یہ دور طلباء سیاست کے لئے بہت ہی نقصان دہ ثابت ہوا اور طلباء کی شکل میں مستقبل کے پڑھے لکھے اور عام فیملیز کے جو سیاست دان قومی دھارے میں آنا تھے، وہ اشتہاری، قبضہ گروپس، بدمعاش، لچے، لفنگے بن کر دیکھے جانے لگے، یہ سب دراصل تعلیمی اداروں پر قبضہ گروپنگ سیاست کا شاخصانہ ہی تو تھا۔ اب تو ایسا لگتا ہے کہ طلباء سیاست کا جنازہ ہی نکل گیا ہے، طلباء تنظیمیں تو جیسے اپنا وجود باقی رکھنے میں ہی ناکام نظر آتی ہیں، پرائیویٹائز ایجوکیشن اور سمیسٹر سسٹم نے طلباء کو تعلیم پر توجہ دینے اور آگے بڑھنے کی جانب مجبور کر دیا ہے۔

پنجاب یونیورسٹی میں ایک بار پھر 21 مارچ کے دن ضیاء الحق کے پروردوں نے اپنے تئیں "جہاد" کرتے ہوئے اس مادر علمی کا نام روشن کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، اس بار نشانہ کوئی اور نہیں پختون بھائی بنے ہیں، جو اپنا کلچرل فیسٹیول منعقد کر رہے تھے اور باقاعدہ یونیورسٹی انتظامیہ سے اجازت لی ہوئی تھی، یہ الگ بات کہ انتظامیہ نے انہیں بھڑیوں کے سامنے کھلا اور بے یار و مدد گار چھوڑ دیا اور جس طرح کی سکیورٹی درکار تھی، وہ مہیا نہیں کی، چند پولیس اہلکاروں جہاد افغانستان اور جہاد کشمیر کے محاذوں سے مسلح تربیت اور بے حساب اسلحہ و بارود حاصل کرنے والوں کے سامنے تو بے بس ہی ہوتے ہیں، یونیورسٹی انتظامیہ بخوبی جانتی ہے کہ یہاں چند دن قبل ہی بلوچ طلباء کیساتھ کیا سلوک روا رکھا گیا اور اسی طرح اس سے قبل یہاں جتنے گروہوں یا تنظیموں نے کسی بھی قسم کا پروگرام منعقد کرنے کی کوشش کی، اس کیساتھ کیا سلوک روا رکھا گیا۔ نجانے اس تمام تر آگاہی کے باوجود یونیورسٹی انتظامیہ کیوں بھولے پن کا مظاہرہ کرتی نظر آئی، حالنکہ ملک میں جاری آپریشن ردالفساد اور ضرب عضب کے ہوتے ہوئے یونیورسٹی میں رینجر کو بلا کر ایسے کلچرل فیسٹیول کو منعقد کروایا جا سکتا تھا، کیا پنجاب یونیورسٹی آپریشن ردالفساد کے دائرہ سے باہر ہے، جہاں ماضی قریب و بعید میں نامور دہشت گرد اسی متعصب و تنگ نظر گروہ کی رہاش گاہوں سے پکڑے جا چکے ہیں، کیا ان سہولت کاروں کیلئے آپریشن ردالفساد میں چھوٹ دے دی گئی ہے۔؟

پنجاب یونیورسٹی میں اساتذہ، ایمپلائز، اکیڈمک اسٹاف، سکیورٹی سٹاف، کینٹین ہولڈرز، مہمان سپیکرز، سیاستدانوں اور طلباء کیساتھ اسلامی جمعیت طلبہ نامی متعصب و تنگ نظر گروہ کی دہشت گردی کے بیسیوں بلکہ سینکڑوں واقعات اس عظیم درسگاہ کیلئے بدنامی کا ٹیکہ ہیں، جو پوری دنیا میں اس عظیم درسگاہ کا تعارف منفی انداز میں ہونے کا باعث ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ سرپرست اپنے مطلب کیلئے لاہور میں ہی پختون جرگہ کرتے دکھائی دیتے ہیں اور جب پنجاب یونیورسٹی انتظامیہ حالات و واقعات اور منفی پروپیگنڈے کے توڑ میں پختون بھائیوں کو پنجاب میں دی جانے والی سہولیات اور غیر متعصب ماحول میں اپنے کلچر کے اظہار کی اجازت دیتی ہے تو یہ لونڈے اپنے روایتی تعصب اور تنگ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے جہاد کا نعرہ بلند کرتے ہوئے ان نہتے پختونوں پر پل پڑتے ہیں۔ عجیب و غریب دعوے و دلیلیں سامنے لائی جاتی ہیں، ہمارا تو ناظم اعلٰی بھی پختون ہے، جناب طالبان بھی پختون اور افغانستان و پاکستان میں ان کے ستم کا نشانہ بننے والے نہتے عوام کی اکثریت بھی پختون، جنکا کاروبار تباہ کر دیا گیا، جن کے گھر بار برباد ہوگئے، جن کے بچے مارے گئے، جن کے بازار جلا دیئے گئے، جن پر خودکش حملے کئے گئے، کیا صوفی شاعر رحمان بابا پختون نہیں تھے، جن کے مزار کو بارود سے ڈھیر بنایا گیا، کیا جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد پختون نہیں تھے، جنہیں ایک پختون دہشت گرد نے کھلی دھمکی کے بعد خودکش دھماکے میں مارنے کی کوشش کی۔ کیا مولانا حسن جان پختون نہیں تھے، جنہیں پختون دہشت گردوں نے ہی گولیوں سے چھلنی کر دیا۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلامی جمعیت طلبہ پنجاب یونیورسٹی میں اپنے وجود کی بقا صرف ایک ہی راز میں سمجھتی ہے کہ ان کے مدمقابل کوئی اور سامنے نہ آئے، کوئی بھی وجود چاہے وہ ان کے ہم مسلک ہی کیوں نہ ہو، کوئی مذہب کے نام سے سامنے آئے یا قومیت کے نام پہ، کوئی سیاست کے نام پہ سامنے آئے یا ثقافت کے نام پہ، کوئی حسینؑ کے نام پہ آئے یا محمد مصطفٰی ؐ کے نام پہ، کوئی استاد کی شکل میں سامنے آئے یا یونیورسٹی ملازم کی صورت میں، کوئی پروفیسر کی شکل میں سامنے آئے یا کسی بھی عام شہری کی شکل میں، اس قبضہ مافیا، متعصب گروہ کیلئے سب ایک ہی جیسے ہیں، ان کی حیثیت اور مقام ان کی نگاہ میں ایک دشمن کا ہی رہتا ہے، یہ کسی بھی وجود کی مضبوطی اور تقویت میں اپنی موت تصور کرتے ہیں اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان نامرادوں کے نام بدل جاتے ہیں، مقام بدل جاتے ہیں، اوقات اور ٹائم بدل جاتے ہیں، یہ اپنے ہی فلسفہ اور فکر کے پابند ہیں، کسی اصول، کسی ضابطے، کسی قانون، کسی اخلاق کا ان پر کوئی اثر نہیں۔

تاریخ سامنے ہے، یوم حسین ؑ کی تقریب کو نشانہ بنایا، یوم مصطفٰی پر ہنگامہ کیا، مجلس کے شرکاء کو تشدد کا شکار کیا، دعائے کمیل اور حدیث کساء کی محفل اور نماز پڑھتے طلباء کو شکار کیا اور کبھی نہیں ہچکچائے، عمران خان جو ایک سیاستدان کے ساتھ ساتھ ایک قومی ہیرو کا درجہ رکھتا ہے، اس کو کتنی بے شرمی سے دنیا کے سامنے اپنے تعصب کا شکار کیا اور اس کے بعد ان حرکات کو جاری رکھا ہوا ہے، حالانکہ یہ کہا گیا تھا کہ ایسے عناصر کو جمعیت سے نکال دیا گیا، کیا اس سوچ کو بھی جمعیت سے نکال دیا گیا، کیا پنجاب یونیورسٹی کو اپنے باپ کی جاگیر سمجھنا چھوڑ دیا گیا، جب تک اس عظیم علمی درسگاہ کو اپنی ذاتی جاگیر سمجھا جاتا رہیگا، اس طرح کے واقعات رونما ہوتے رہینگے، یہ ختم ہونے والے نہیں، تھانہ مسلم ٹاؤن میں نجانے کتنی ایف آئی آرز درج ہیں، اگر ان کو ہی کھنگال لیا جائے تو اب تک اس منافق و متعصب گروہ سے جان چھوٹ جاتی، مگر حکمرانوں کی ترجیحات اور سیاسی مفادات کچھ عرصہ گذر جانے کے بعد ایسے واقعات و حادثات کو سامنے لے آتے ہیں، اس لئے بھی کہ ان کے سرپرست جو ہمیشہ سے سامنے آتے ہیں، کبھی بھی شرمندہ نہیں ہوئے، وہی کردار جو آج ان کی حمایت و ہمدردی میں سامنے آکے منافقانہ کردار ادا کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 620969
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Irfan
Pakistan
aik achi tehreer. barwaqt aur haqaiq pr mabni
جواد بنگش
Iran, Islamic Republic of
بہت عالی ارشاد بھائی۔۔ خدا قوت۔۔ واقعاً جس انداز میں اس عظیم درسگاہ کی بدنامی کی جاتی ہے، ہم لوگوں کا دوسرے ملک میں بیھٹے سر شرم سے جھک جاتا ہے، حالانکہ میں خود بھی پنجاب یونیورسٹی کا طالب علم رہا ہوں۔ واقعاً اس متعصب گروہ کو کوئی روکنے والا نہیں یا جان بوجھ کر ان کو یونیورسٹی میں مسلط رکھا جاتا ہے۔ یہ ایک اہم سوال ہے کہ اس متعصب گروہ کے یونیورسٹی پر قبضہ سے کن کن کو فائدہ ہوتا ہے، یہ سوچنے کی بات ہے ۔۔۔۔ ورنہ اتنی ایف آر کے باوجود ۔۔ یہ اتنی بدمعاشی کرتے ہیں اور یونیورسٹی انتظامیہ اور پولیس خاموش تماشائی ۔۔۔۔ ؟؟؟؟
ہماری پیشکش