0
Friday 24 Mar 2017 16:00

میڈیکل کی طالبہ نورین کی داعش میں شمولیت اور حیدر آباد سے خلافت کی سرزمین ہجرت کرنیکا معمہ

میڈیکل کی طالبہ نورین کی داعش میں شمولیت اور حیدر آباد سے خلافت کی سرزمین ہجرت کرنیکا معمہ
رپورٹ: ایس جعفری

سندھ یونیورسٹی حیدر آباد کے پروفیسر عبدالجبار لغاری کی بیٹی نورین لغاری لیاقت یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسز (لمس) میں ایم بی بی ایس سیکنڈ ایئر کی طالبہ ہے، جو حیدر آباد سے ایک ماہ قبل لاپتہ ہوئی تھی، اس نے 10 فروری کو یونیورسٹی کی صبح کی کلاسوں میں شرکت کی تھی اور پھر اس کے بعد اسے نہیں دیکھا گیا، گذشتہ دنوں اس نے اسوہ جتوئی نامی لڑکی کے فیس بک اکاونٹ سے اپنے بھائی کو پیغام بھیجا کہ وہ خیریت سے ہے، اسے تلاش نہ کیا جائے، وہ ہجرت کرکے خلافت کی سرزمین پر پہنچ چکی ہے اور وہ دُعاگو ہے کہ اس کے گھر والے بھی جلد اس سرزمین کی جانب ضرور ہجرت کرینگے۔ نورین 10 فروری 2017ء کو حیدر آباد سے ڈائیوو بس سے سفر کرکے لاہور پہنچتی ہے، 10 فروری سے 10 مارچ تک نورین کے والدین پراسرار طور پر خاموشی اختیار کرتے ہیں، نورین کی فیس بک آئی ڈی میں اس کے فیملی ممبرز بھی بطور فیس بک فرینڈ ایڈ ہیں، جہاں سے نورین مذہبی انتہا پسندی کا پرچار کر رہی تھی، ایسی تبلیغ جو نورین سوشل میڈیا پر کر رہی تھی، یقیناً اپنے فیملی ممبرز پر بھی کی ہوگی اور ان کو بھی داعش میں شمولیت کرنے پر اکسایا ہوگا، لیکن تعلیم یافتہ فیملی نے اس پر کوئی نوٹس نہیں لیا۔

لاہور پہنچ کر نورین اس گروہ تک پہنچتی ہے، جسے سے وہ ذہنی طور پر عرصہ دراز سے وابستہ تھی۔ وہ مذہبی دہشتگرد گروہ اپنے مخصوص زمینی راستوں سے نورین کو شام پہنچاتا ہے۔ ذرائع سے ملنے والی معلومات کے مطابق کافی تعداد میں لڑکیاں پاکستان سے داعش میں شمولیت کیلئے عراق اور شام پہنچی ہیں، جہاں داعش میں ان کی شمولیت کا مقصد "جہاد النکاح" ہے۔ 30 دن کی پراسرار خاموشی کے بعد نورین کے والدین میڈیا اور سول سوسائٹی سے رابطہ کرکے صرف یہ بتاتے ہیں کہ ہماری بیٹی 10 فروری سے لاپتہ ہے، اسے اغوا کیا گیا ہے، والدین کی ایک ماہ کی خاموشی نے اس کیس کو کمزور کر دیا ہے۔ حیدر آباد پولیس کے ایس ایس پی عرفان بلوچ کے مطابق وہ اس حوالے سے تحقیقات کرکے ڈی آئی جی حیدر آباد کو اس کیس کے حوالے سے پہلے سے ہی آگاہ کرچکے تھے کہ نورین داعش کے نظریات سے متاثر تھی اور وہ اپنی رضا سے اس گروپ میں شامل ہونے کیلئے چلی گئی، پہلے مرحلے میں نورین لغاری کے موبائل کو جدید ٹریکنگ سسٹم کے تحت لوکیشن کو ٹریس کیا گیا، آخری لوکیشن لاہور کی آئی اور اس کے بعد آج تک موبائل بند مل رہا ہے۔

موبائل نمبر سے فیس بک آئی ڈی تک رسائی حاصل کی گئی اور فیس بک سے نورین لغاری کے داعش سے وابستگی کے ثبوت ملے، نورین نے اپنے انتہا پسند نظریات سوشل میڈیا پر شیئر کئے ہیں، جبکہ نورین کے والدین نے میڈیا یا پولیس کو نہیں بتایا کہ ان کی بیٹی کسی اور سے نہیں بلکہ داعش سے رابطے میں ہے۔ نورین نے اپنی فیس بک آئی ڈی تو ڈی ایکٹو کر رکھی ہے، لیکن شام پہنچنے کے بعد اپنی ایک دوست کی آئی ڈی، جس کا پاس ورڈ پہلے سے نورین کو پتہ تھا، اس آئی ڈی سے نورین اپنے بھائی کو میسج کرکے بتاتی ہے کہ میں خلافت کی سرزمین پر ہجرت کرکے پہنچ چکی ہوں اور امید ہے کہ آپ بھی ہجرت کرکے یہاں تشریف لائیں گے۔ ان انکشافات کے بعد سول سوسائٹی نے تو نورین کیس سے دلچسپی ختم کر دی ہے، لیکن پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کیلئے حیدر آباد سے رپورٹ کیا جانے والا یہ ایک پہلا ٹیسٹ کیس ہے، جس میں ایک لڑکی گھر سے داعش کیلئے فرار ہوئی ہے، اس امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ نورین کے خاندانی سرکل اور دوستوں میں سے اور کس کس کے داعش سے رابطے ہیں۔ دوسری جانب نورین کے والد پروفیسر لغاری نے حیدر آباد پولیس کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی بیٹی کے نظریات اتنے شدید نہیں تھے کہ داعش میں شامل ہونے کیلئے نکل کھڑی ہوتی، ان کا کہنا ہے کہ ان کی بیٹی کو یقیناً اغوا کیا گیا ہے۔

دوسری جانب جامشورو یونیورسٹی کی پراسرار طور پر لاپتہ ہونیوالی طالبہ نورین کی شام پہنچ کر عالمی دہشتگرد گروہ داعش میں شمولیت کی اطلاع کے بعد آئی جی سندھ نے متعلقہ انویسٹی گیشن اور آپریشن پولیس کی نااہلی پر خاصی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے واقعے کی شفاف تحقیقات کیلئے سی ٹی ڈی کو ٹاسک سونپ دیا ہے، آئی جی سندھ کی جانب سے ٹاسک ملتے ہی کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کے انچارج راجہ عمر خطاب کی ایک ٹیم فوری طور پر حیدر آباد پہنچ کر تحقیقات کا آغاز کر چکی ہے، ٹیم ابتدائی طور پر طالبہ کی دوست اور اہل خانہ کے بیانات لے گی اور اس کے بعد ٹیم طالبہ کے ذاتی سامان کو بھی چیک کریگی اور اس حوالے سے کئی اہم چیزیں تحویل میں بھی لی گئی ہیں، جن مین طالبہ کی کتابیں، ڈائری، لیپ ٹاپ اور دیگر چیزیں شامل ہیں۔ اطلاعات کے مطابق مبینہ طور پر شام جا کر داعش میں شمولیت اختیار کرنے والی طالبہ نورین کے بھائی اور بہن کا موبائل فرانزک ٹیسٹ کیلئے کراچی بھجوا دیا گیا، جہاں ڈیٹا کا تجزیہ کیا جائے گا۔

دس فروری کو ڈائیوو بس سے لاہور جانے والے مسافر نے بتایا کہ بارہ نمبر سیٹ پر بیٹھی لڑکی نورین جیسی لگتی ہے، لیکن لاہور پہنچنے سے چار گھنٹہ پہلے اتر گئی۔ پولیس نے نورین کے اسکول اور کالج سے تفصیلات بھی حاصل کر لی ہیں، جبکہ لاہور سے پہلے آنے والے سترہ اسٹاپس کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی منگوالی گئی ہیں۔ دوسری جانب قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انیٹلی جنس ذرائع کے مطابق حالیہ عرصے میں صوبے کے مختلف علاقوں کے اچھی شہرت رکھنے والے تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم لاپتہ ہونے والی لگ بھگ ایک درجن لڑکیاں، ان کے خیال کے مطابق داعش میں شامل ہوچکی ہیں۔ بہرحال تمام تر دعوؤں کے باوجود تاحال یہ واضح نہیں ہوسکا ہے کہ یہ طالبہ اس وقت کہاں پر ہے، معاملہ پوری طرح میڈیا میں آنے کے بعد پھیل چکا ہے، پولیس کی تحقیقات جاری ہیں، دیکھتے ہیں کہ کب پولیس طالبہ نورین سمیت ان دیگر عناصر تک پہنچنے میں کامیاب ہوگی، جو بلواسطہ یا بلا واسطہ نورین لغاری کے مبینہ طور پر شام جاکر داعش میں شمولیت کے حوالے سے سہولت کار ہیں اور کب نورین کی مبینہ طور پر داعش میں شمولیت اور حیدر آباد سے خلافت کی سرزمین ہجرت کرنیکا معمہ حل ہوتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 621038
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش