0
Wednesday 29 Mar 2017 00:21

تاجروں کی حکومت میں سب بکتا ہے

تاجروں کی حکومت میں سب بکتا ہے
تحریر: عمران خان

تاجروں کے ہاتھ میں ملک کی باگ ڈور نہ دو، یہ تمہیں بیچ دیں گے، مگر واہ رہے نصیب کہ نام نہاد عالمی طاقت امریکہ اور اس کے بیشتر آلہ کار ملکوں کی باگ ڈور تاجروں کے ہاتھوں میں ہے۔ سو، تجارت جاری ہے۔ بارود سے لیکر خون تک کی، حمایت سے لیکر دشمنی تک کی۔ ہر شے کی خرید و فروخت جاری ہے۔ وفاداریاں خریدی بیچی جا رہی ہیں، ایمان کا بھاؤ تاؤ ہو رہا ہے۔ اسلام کے نام پر اہل اسلام کے قاتل اپنی تجارت چمکا رہے ہیں۔ حصہ بقدر جثہ کی رٹ لگائے، ایک سے ایک لحیم شحیم جسیم اپنی اپنی کارگزاری، دعوؤں، دھمکیوں، مجموں سے بیان کرتے نہیں تھکتا۔ اپنا کنواں نما پیٹ بھرنے کے واسطے منبر، محراب، مائیک، مسجد، مکان، دکان سے ظالموں کو مظلوم، قاتلوں کو مقتول، جابروں کو مجبور قرار دینے پہ کمربستہ ہیں۔ سچ چھپانے کو، حق مٹانے کو، حقیقت جھٹلانے کو جھوٹ کی منڈیاں سجائے بیٹھے ہیں، خریدار نہیں تو مال مفت بناکر بانٹ رہے ہیں، اہل دنیا کو غاصبوں کا دفاع راہ بقاء بتا رہے ہیں، مگر خود بھی جانتے ہیں، یہ راہ فنا ہے، پر کیا کریں مجبور ہیں، اس کنواں نما پیٹ سے، کہ جس کو بھرنے کے واسطے منبر، محرب، مائیک، مسجد، مکان اور دکان سے ظالموں کو مظلوم، قاتلوں کو مقتول، جابروں کو مجبور قرار دینے پہ کمربستہ ہیں۔

اہل اسلام کی غمگساری کا چورن بیچنے کے واسطے، یہ جو روز ایک شہر سے دوسرے شہر اپنی دکان بنائے بیٹھے تھے، خبر نہیں کیوں سانپ سونگھ گیا انہیں، جب دیار غیر سے ایک نئی منطق کا اجراء ہوا ’’ڈونلڈ ٹرمپ مسلمانوں کا حقیقی دوست ہے‘‘ ہر صاحب عقل بخوبی جان گیا، یہ منطق ایک باکمال سرزمین کے مجبور خادم کی اپنے ناخدا سے اظہار وفا ہے۔ خبر نہیں ایسی باکمال سرزمین کہ جس کے متعلق پورا عالم اسلام یہ سمجھے کہ ہر درد کی دوا، ہر مشکل یہاں فنا، اسی کی خدمت گزاری کے دعویدار کبھی ایک دشمن کی چوکھٹ پہ سجدہ ریز، تو کبھی دوسرے کی۔ یقینی طور پر ان خدمت کے دعویداروں نے اپنا قبلہ، طاقت کا مرکز کہیں اور چنا ہے، اسی چوکھٹ سے اظہار وفا اس جملے میں پنہاں ہے۔ اس منطق کی بازگشت تھمی نہیں تھی کہ سعودی عرب کے مشیر دفاع اور یمن میں جاری آپریشن کے لئے قائم عرب عسکری اتحاد کے ترجمان جنرل احمد عسیری نے دنیا کو بتایا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مشرق وسطٰی کے مسائل کے حل میں دلچسپی کو سعودی عرب قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ داعش، دہشت گردی اور ایران کے بارے میں امریکا اور سعودی عرب کے موقف میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی مشرق وسطٰی کے مسائل میں کیا دلچسپی ہے۔؟ یا مشرق وسطٰی کے مسائل کیا ہیں۔؟ کیا ان مسائل سے امریکہ بری الذمہ ہے یا یہ مسائل امریکہ کی وجہ سے ہیں۔؟ داعش کا فکری کا پیشوا کون ہے اور اس کا پراڈکٹ کا تیار کنندہ کون ہے۔؟ ہر صاحب علم ان سوالوں کے جوابات اچھی طرح جانتا ہے۔ کسی سے یہ بھی چھپا نہیں کہ دہشتگردی کو روحانی و فکری غذا کس نے مہیا کی۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ دہشتگردوں کی جسمانی آسودگی کیلئے جہاد النکاح اور اس طرح کے دیگر متنازعہ فتاویٰ کے ذریعے کس نے دین مبین کا اجلا دامن میلا کیا۔ جنرل عسیری کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دوسرے ممالک کو امریکا کی ضرورت ہیں۔ امریکا ہماری اہمیت کو نظرانداز نہیں کرسکتا۔ ہم سب خطے میں ایک ہی جیسے خطرات کا سامنا کر رہے ہیں۔ جنرل عسیری کے یہ جملے افواج مسلم کے نمائندہ کے نہیں بلکہ ایک مجبور، باج گزار خدمتگار کی عکاسی کر رہے ہیں۔ جنرل عسیری نے اس بات پہ بھی مسرت کا اظہار کیا کہ امریکی حکومت نے تہران کے متنازع جوہری پروگرام پر ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان معاہدے پر درست تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایک اسلامی ملک کا چھ عالمی طاقتوں کے برابر قد بونے ذہنوں کو کیونکر قبول ہوسکتا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں جنرل عسیری نے کہا کہ سعودی عرب اور امریکا مل کر خطے میں ایرانی سرگرمیوں کی روک تھام کے لئے اقدامات کریں گے۔ تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ امریکا اور سعودی عرب کی شراکت نے تزویراتی تعلقات کو مزید مستحکم کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تین سال قبل امریکا کی قیادت میں داعش کے خلاف قائم ہونے والے اتحاد میں سعودی عرب نے ایک متحرک اور موثر اتحادی کی حیثیت سے تعاون کیا۔ داعش کے خلاف جنگ کے لئے سعودی عرب نے اپنے جنگی طیارے جنوبی ترکی کے انجیرلیک ہوائی اڈے پر تعینات کئے، امریکا کی قیادت پر اعتبار کرتے ہوئے شام میں داعش کے خلاف جنگ میں حصہ لیا۔ اس کے ساتھ ساتھ واشنگٹن اور ریاض نے شام اور پورے مشرق وسطٰی میں داعش اور القاعدہ کے مالی ذرائع کو بند کیا۔ کاش کوئی یہ بھی پوچھ لیتا کہ جس داعش کے خلاف امریکی اقدامات کو سراہا رہے ہیں، کیا اسی داعش پہ امریکی جہازوں نے بارود کے بجائے اسلحہ گرایا تھا۔ جن دہشتگردوں کا ناطقہ بند کرنے کی بات کی جا رہی ہے، کیا ان دہشتگردوں کو کثیر تعداد میں نئی ٹویوٹا گاڑیوں کی فراہمی سعودی عرب کی مرہون منت نہیں۔ جنرل عسیری نے کہا کہ سعودی عرب نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کو موثر بنانے کے لئے 41 مسلمان ممالک کا فوجی اتحاد تشکیل دیا۔ یہ فوجی اتحاد خطے میں دہشت گردی کے بڑھتے خطرات کی روک تھام کے ساتھ ساتھ انٹیلی جنس معلومات کا تبادلہ کرتے ہوئے انتہا پسندی اور شدت پسندی سے نمٹنے میں انتہائی مفید اور مدد گار ہے۔

یہ الگ بات ہے کہ یہی فوجی اتحاد اپنے ہی حلیف ملک کے شہریوں پر عرصہ دو سال سے آگ و بارود برسا رہا ہے۔ یہاں تک کہ اس بمباری میں کوئی عوامی، فلاحی، علمی، مذہبی، طبی مراکز کو بھی نہیں بخشا گیا۔ حتٰی کہ شادی و جنازے کی تقریبات کو نشانہ بنانے کی اسی اتحاد نے ذمہ داری قبول کی، جو کہ آن دی ریکارڈ ہے۔ سعودی عرب نے یمن میں آئینی حکومت کی بحالی کے لئے فوجی آپریشن شروع کیا۔ حوثی دہشت گردوں نے سعودی عرب کی سرزمین پر 40 ہزار راکٹ برسائے، جس کے نتیجے میں 375 عام شہری شہید، 500 اسکول بند اور 24 دیہات کے 17 ہزار افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔ معلوم نہیں کہ جنرل عسیری کو یمن پر جاری سعودی جارحیت میں ہونے والے جانی و مالی نقصان کے اعداد و شمار کیوں بھول گئے۔ یمن کی وزارت صحت کے مطابق یمن پر سعودی جارحیت کے نتیجے میں شہید ہونے والے افراد کی تعداد دس ہزار جبکہ زخمی ہونے والے افراد کی تعداد بیس ہزار ہے۔ شہید اور زخمی ہونے والوں میں 30 فیصد خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ سعودی اتحادی فوجوں کے شدید محاصرہ کی وجہ سے کینسر کے علاج کے لئے استعمال ہونے والی 45 قسم کی ادویات ختم ہوچکی ہیں۔

پاکستان کے سینیئر ترین سابق سفارتکار نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا ڈونلڈ ٹرمپ بزنس مین ہے، تاجر ہے۔ پاکستان بھی کاروباری شخصیات کے زیر حکومت ہے۔ بعید نہیں کہ وزیراعظم، امریکی صدر کیساتھ کوئی کاروبار شروع کریں تو اس سے امریکہ، پاکستان تعلقات بہتر ہوسکیں گے۔ سعودی شہزادے محمد بن سلمان نے جب ڈونلڈ ٹرمپ کو مسلمانوں کا سچا دوست قرار دیا تو اس وقت وہ امریکہ میں تھے۔ متعدد رپورٹس میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ وہ امریکہ کاروباری غرض سے گئے اور اس دورے کے دوران امریکہ نے بھاری مقدار میں اپنا اسلحہ سعودی عرب کو بیچا۔ اس کے علاوہ کئی سعودی کمپنیاں ٹرمپ نے خریدنے میں دلچسپی ظاہر کی۔ انہی دنوں میں حکومت پاکستان نے اپنے سیکرٹری خارجہ کو بہترین خدمات سیکرٹری کے عہدے سے نیچے لاکر امریکہ میں سفیر بھیج دیا۔ خبر نہیں کہ یہ تنزلی انکی خدمات کا انعام ہے یا سزا، ساتھ ہی حکومت پاکستان نے سابق آرمی چیف کو این او سی بھی جاری کر دیا کہ وہ جاکر یمن پر جاری سعودی اتحاد کی کمانڈ کریں۔ ساتھ ہی ہمارے خاموش صدر نے بھی اعلان کیا کہ پاکستان منصور ہادی کے ساتھ ہے۔ حکومت تاجروں کے پاس ہے۔ جس کے پاس بیچنے کو جو ہے، وہ بیچ رہا ہے۔ امریکہ کے پاس اسلحہ تھا، پاکستان و دیگر ملکوں کے پاس۔۔۔۔۔ باقی پھر کبھی
خبر کا کوڈ : 622461
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش