1
0
Thursday 30 Mar 2017 12:31

کالعدم سپاہ صحابہ تشدد اور تکفیر چھوڑنے کیلئے تیار

کالعدم سپاہ صحابہ تشدد اور تکفیر چھوڑنے کیلئے تیار
رپورٹ: این اے بلوچ

کالعدم جماعت اہل سنت والجماعت نے آئین پاکستان کے مطابق ریاست کے ساتھ تعاون پر آمادگی ظاہر کر دی ہے۔ مولانا محمد احمد لدھیانوی نے تعاون کی یہ پیشکش 27 مارچ کو اسلام آباد میں ایک بند کمرہ اجلاس میں کی، جس میں عسکری اور انسداد دہشتگردی کے ماہرین اور نیکٹا کے سابق و موجودہ نمائندگان نے شرکت کی۔ اسی تقریب میں حافظ سعید کے بھائی اور جماعت الدعوة کے مرکزی رہنما حافظ مسعود نے بھی جماعت الدعوة کو ایک مکمل سیاسی جماعت کا روپ دینے پر آمادگی کا اظہار کیا۔ پانچ سے چھ گھنٹے تک جاری رہنے والے ورکنگ گروپ نے اس حوالے سے کہا کہ فیصلے کا اختیار پارلیمنٹ کو حاصل ہے۔ دہشتگردی کے خطرے سے نمٹنے کے لئے پارلیمنٹ اعلٰی سطح کا کمیشن بنائے، جو دہشتگردی کے اسباب کا ازالہ کرے اور ان لوگوں کو قومی دھارے میں شامل کیا جائے، جو تشدد ترک کرنے پر آمادہ ہوں، کمیشن کالعدم جماعتوں اور سخت گیر شدت پسند رہنمائوں کے حوالے سے کوئی اصولی پالیسی بنائے۔ اس ورکنگ گروپ کا عنوان ”عسکری گروہوں کی بحالی اور واپسی“ تھا، شرکاء میں سابق آئی جی پنجاب طارق کھوسہ، نیکٹا کے سابق مرکزی کوآرڈینیٹر طارق پرویز، لیفٹیننٹ جنرل (ر) امجد شعیب، لیفٹیننٹ جنرل (ر) مسعود عالم، اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق چیئرمین ڈاکٹر خالد مسعود، سابق چیف سیکرٹری خیبر پختونخوا خالد عزیز، نیکٹا کے اصغر چوہدری، اے این پی کے افراسیاب خٹک، بریگیڈئیر (ر) محمد فیاض، کالم نگار و اینکر پرسن خورشید ندیم، سید عارفین ایم ضیاءالدین، کالعدم تنظیم اہل سنت والجماعت کے سربراہ مولانا احمد لدھیانوی اور پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کے ڈائریکٹر محمد عامر رانا شامل تھے۔

ورکنگ گروپ کا اہتمام پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز نے کیا تھا، مکالمہ کا مقصد ملک میں انتہا پسندی کا تدارک تھا۔ ورکنگ گروپ نے عسکری گروہوں کی تخلیق کی متنوع وجوہات کو جانچتے ہوئے یہ تجاویز دیں کہ پارلیمان قومی کمیشن بنائے، جو حقائق کا ادراک کرتے ہوئے قومی مفاہمتی پالیسی بنائے۔ یہ کمیشن طے کرے کہ کالعدم تنظیموں کو کیسے قومی دھارے میں شامل کیا جائے اور ان پالیسیوں کا بھی جائزہ لے، جن سے عسکریت پسندی کو ہوا مل رہی ہے۔ بغیر مقدمہ چلائے وسیع تر معافی کی تجویز کی مخالفت کی گئی، یہ تجویز مولانا احمد لدھیانوی نے اجلاس میں پیش کی تھی۔ آئین سے ماورا کسی قسم کی واپسی یا بحالی قابل قبول نہیں ہے۔ کمیشن کا بنیادی مقصد تنظیموں کو کالعدم قرار دینے کے امور کا جائزہ لینا ہو، نیکٹا کالعدم تنظیموں کی مانیٹرنگ کرے۔ انسداد دہشت گردی کے قوانین کا ہر تین سال بعد جائزہ لیا جائے۔ گروپ نے شدت پسندوں کی بحالی کے امکانات پر بھی غور کیا۔

اجلاس شروع ہوا تو مولانا احمد لدھیانوی نے اپنا مقدمہ تحریری شکل میں پیش کیا، جس میں دہشتگردی کی اصل وجہ انقلاب اسلامی کو قرار دیا گیا، کالعدم جماعت کے سربراہ نے تحریری مقدمے میں کئی جگہوں پر جھوٹ بولا اور ورکنگ گروپ کو گمراہ کرنے کی کوشش کی، تاہم دلچسپ امر یہ ہے کہ انہوں نے اپنے سابقہ موقف میں نہ صرف لچک دکھانے پر رضامندی ظاہر کی بلکہ یہ بھی کہا کہ ان کی جماعت 2003ء سے تکفیر چھوڑ چکی ہے اور اب اسٹیج سے تکفیر کے نعرے نہیں لگتے۔ اپنے تحریری مقدمے میں احمد لدھیانوی نے نہ صرف اپنے سے پابندی ہٹانے کا مطالبہ کیا بلکہ اپنی مخالف جماعت تحریک جعفریہ پاکستان سے بھی پابندی ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔ لشکر جھنگوی سے مکمل لاتعلقی کا اعلان کیا اور یہاں تک باور کرایا کہ انہوں نے ملک اسحاق سمیت دیگر کارندوں کو ٹھکانے لگوانے میں اہم کردار ادا کیا۔ بقول مولانا احمد لدھیانوی کے کہ اہل سنت والجماعت کے کئی اہم رہنماوں کو لشکر جھنگوی نے اس لئے قتل کر دیا کہ وہ ان کی مخالفت کرتے تھے اور ان کی روش کو ٹھیک نہیں سمجھتے تھے۔

ورکنگ گروپ کے اجلاس سے اگلے ہی روز مولانا احمد لدھیانوی نے اسلام آباد میں پندرہ سے بیس صحافیوں کے ساتھ ایک نشست کا اہتمام کیا، جس میں وہ بہت ہی پرامید نظر آئے کہ ان کی جماعت سے پابندی ہٹ جائے گی۔ صحافیوں سے گفتگو میں کالعدم جماعت اہلسنت والجماعت کے سربراہ مولانا احمد لدھیانوی کا کہنا تھا کہ وہ تحریک جعفریہ سمیت اپنی جماعت سے پابندی اٹھنے کے خواہاں ہیں اور توقع کرتے ہیں کہ حکومت جلد اس حوالے سے کوئی اقدام کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ بینچ میں تحریک جعفریہ کی درخواست دائر ہے، جس میں وزارت داخلہ سے ایک ماہ میں جواب جمع کرانے کا کہا گیا، لیکن تاحال وزارت داخلہ کی جانب سے کوئی جواب جمع نہیں کرایا گیا۔ امید کرتے ہیں کہ وزارت داخلہ جلد جواب جمع کرائے گی اور ان کی مخالف جماعت سے پابندی اٹھ جائیگی۔ مولانا لدھیانوی نے کہا کہ ان کی مخالف جماعت سے پابندی اٹھنے کے بعد ان سے بھی پابندی ہٹنے کی راہ ہموار ہوجائیگی۔

کالعدم جماعت کے سربراہ نے کہا کہ کسی جماعت کو کالعدم قرار دینے سے وہ کالعدم قرار نہیں ہو جاتی، وہ سرگرمیاں جاری رکھتی ہے، ہماری مثال ہی لے لیں، کالعدم ہونے کے باوجود اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ فرقہ وارانہ مسائل کا مستقل حل سوچا جائے، ملی یکجہتی کونسل کی سفارشات پر قانون سازی کی جائے تو یہ معاملہ ہی ختم ہو جائے۔ مولانا لدھیانوی نے ایک واقعہ بھی بیان کیا کہ جھنگ میں ایک مرتبہ جلوس گزر رہا تھا اور ایک طرف ان کا اپنا جلسہ ہو رہا تھا، اچانک خون میں لت پت ایک نوجوان ہمارے جلسے میں داخل ہوا اور بولا کہ جلوس میں شریک لوگوں نے اسے مار مار کر یہ حالت کر دی ہے، اس پر ہمارے جلسے میں بیٹھے ہوئے جوان مشتعل ہونے لگے تو انہوں نے فوراً ہی صورتحال کو کنٹرول کیا اور اپنے کارکنوں پر واضح کیا کہ اگر کوئی ایک بھی شخص اٹھ کر شیعوں کے جلوس کی طرف گیا اور کوئی ایسا اقدام کیا، جس کی وجہ سے اسے جیل میں جانا پڑا تو وہ اس سے لاتعلقی کا اظہار کریں گے۔

مولانا لدھیانوی کا کہنا تھا کہ ان کی اس بات پر سارے کارکن بیٹھے رہے اور بعد میں پتہ چلا کہ شیخ وقاص اکرم کے گھر پر یہ سازش بنائی گئی، وہ لڑکا انہی کا تھا۔ احمد لدھیانوی نے ایک اور واقعہ بھی سنایا کہ ایک مرتبہ جھنگ میں ایک کُتے پر ایک صحابی رسول ﷺ کا نام لکھ دیا گیا، جس کے بعد جھنگ میں صورتحال بہت کشیدہ ہوگئی اور اسی طرح دوسری جانب امام حسین علیہ السلام کے بینر کو آگ لگا دی گئی، جس کے بعد جھنگ کی صورتحال کنٹرول سے باہر ہو رہی تھی کہ دونوں طرف سے ذمہ داری کا مظاہرہ کیا گیا اور صورتحال کو کنٹرول کیا گیا، بعد میں تحقیق کی تو پتہ چلا کہ اس کے سیاسی حریف نے یہ کام کیا، تاکہ ووٹ پکے کئے جائیں۔ مولانا لدھیانوی نے تسلیم کیا کہ اس طرح کے واقعات میں سیاسی لوگ ملوث ہوتے ہیں اور اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ مولانا لدھیانوی نے دعویٰ کیا کہ جھنگ میں کئی شیعہ اکثریتی علاقوں میں مسرور جھنگوی کی جیت ہوئی اور شیعوں نے ووٹ ڈالے۔ کئی شیعوں کے مسائل حل کئے، ایک مرتبہ علامہ ساجد نقوی جھنگ میں آئے تو ایک شیعہ جوان نے کھڑے ہوکر کہا کہ آپ تو ووٹ دینے کا کہتے ہیں اور ہم ووٹ کاسٹ کر بھی دیتے ہیں، لیکن شیخ وقاص کا ہمارے ساتھ کردار تو یزیدوں جیسا ہے۔

مولانا لدھیانوی نے ریاستی اداروں سے متعلق بھی سوال اٹھایا اور کہا کہ جب چاہا استعمال کیا، جی ایچ کیو واقعہ میں مجھے بلایا گیا، تعلق نہ ہونے کے باوجود وطن کی خاطر کردار ادا کیا۔ ایک صحافی کے سوال پر کہ آپ وطن سے محبت کا بار بار اظہار کر رہے ہیں تو کیا اس کام کیلئے علامہ ساجد نقوی کے گھر جانے کیلئے تیار ہیں، اس پر لدھیانوی نے کہا کہ انہیں کوئی اعتراض نہیں، تاہم یہ کام کسی سرپرستی میں ہو تو بہتر ہے، اگر حکومت کی سرپرستی میں ہو تو یہ ملاقات کارگر ثابت ہوسکتی ہے، تاہم اگر حکومت آگے نہیں آتی تو مولانا فضل الرحمان اور مولانا سمیع الحق سمیت دیگر قدآور شخصیات کی سرپرستی میں یہ ملاقات ہوسکتی ہے۔ تکفیر کرنے سے متعلق مولانا لدھیانوی کا کہنا تھا کہ وہ کسی کی تکفیر کا فتویٰ نہیں دے سکتے، بلکہ یہ معاملہ مفتیان کرام کا ہے، نعروں اور فتاویٰ میں فرق ہوتا ہے۔ احمد لودھیانوی کئی سوالوں کے جوابات بھی گول کر گئے۔

مولانا لدھیانوی کا کہنا تھا کہ کوئی گھر میں تکفیر کرتا ہے یا تبرا کرتا ہے تو اس کا کسی کو علم نہیں ہوتا، لیکن جب کوئی جلوس کی شکل میں کسی کے گھر کے باہر آکر نعرے لگاتا ہے اور اصحاب و امہات المومنین کی توہین کرتا ہے، تب معاملات خراب ہوتے ہیں۔ مولانا لدھیانوی کا کہنا تھا کہ اگر بلاامتیاز معافی کا اعلان کیا جائے تو وہ بھی اپنے قائدین کے قاتلوں کو معافی دینے کیلئے تیار ہیں۔ مولانا لدھیانوی کا کہنا تھا کہ کسی نئے بیانیہ کی ضرورت نہیں، 73ء کا آئین ہی قومی بیانیہ ہے، جس پر سب کا اتفاق ہے، خارجہ پالیسی پر نظرثانی کی جائے، فرقہ واریت کے خاتمے کیلئے نواز شریف کے دوسرے دور میں تیار کی جانے والی سفارشات پر قانون سازی کی جائے، ردالفساد کی مکمل حمایت کرتے ہیں، تاہم اس کی آڑ میں ہمیں نشانہ نہ بنایا جائے، ایک ہزار سے زائد کارکنوں کو بےگنارہ گرفتار کیا گیا ہے، جنہیں رہا کیا جائے۔ اگر کسی پر الزام ثابت ہوتا ہے تو اسے عدالتوں میں پیش کیا جائے۔ ورکنگ گروپ کے اجلاس اور صحافیوں سے بات چیت میں واضح ہوگیا ہے کہ مولانا احمد لدھیانوی اپنی تنظیم کو قومی دھارے میں لانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں اور وہ یہ بھی باور کرا رہے ہیں کہ وہ اپنے کارکنوں کو سیاسی دھارے میں لے آئیں گے اور تکفیر و تشدد کی پالیسی سے لاتعلقی کا اظہار کریں گے۔ اب سوال یہ ہے کہ ریاست اس حوالے سے کیا اقدامات اٹھاتی ہے۔
خبر کا کوڈ : 622941
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Iran, Islamic Republic of
شکریه بلوچ صاحب
ہماری پیشکش