0
Thursday 30 Mar 2017 16:30

جنرل راحیل شریف کی نئی تقرری، مسئلہ پاکستان کا ہے

جنرل راحیل شریف کی نئی تقرری، مسئلہ پاکستان کا ہے
تحریر: ثاقب اکبر

پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف کے اس بیان کے بعد کہ سعودی عرب اور پاکستان کی حکومتوں کے مابین جنرل راحیل شریف کے اسلامی ممالک کے فوجی اتحاد کا سربراہ بننے اور اس اتحاد کے حوالے سے دیگر معاملات طے پا گئے ہیں، اس موضوع پر طرح طرح کے تبصروں اور خیال آرائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ اتحاد سعودی قیادت میں 15 دسمبر 2015ء کو قائم کرنے کا اعلان ریاض سے کیا گیا۔ یہ اعلان کچھ ایسے حالات اور کچھ ایسی جلد بازی میں کیا گیا کہ پاکستان میں اس کی خبر پہنچی تو سیکرٹری خارجہ نے بے ساختہ اس پر حیرت کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ریاض نے اسلام آباد کو اس حوالے سے اعتماد میں نہیں لیا۔ بعدازاں حکمران متوجہ ہوئے کہ اس ردعمل سے سعودی شاہی خاندان خوش نہیں ہوا، لہٰذا جس وزارت کے سیکرٹری کو اس خبر پر حیرت تھی، اس کے ترجمان قاضی خلیل نے بیان دیا: ’’پاکستان اس اتحاد کا باقاعدہ رکن ہے، تاہم سعودی حکومت سے اتحاد میں پاکستان کے ممکنہ کردار کے بارے میں مزید تفصیلات طلب کی گئی ہیں۔"

ایسا ردعمل صرف پاکستان ہی سے دیکھنے میں نہیں آیا بلکہ دیگر کئی ایک ممالک جن میں انڈونیشیا بھی شامل ہے، نے اس اتحاد کے قیام پر حیرت کا اظہار کیا۔ چنانچہ سعودی وزیر خارجہ عادل بن احمد الجبیر نے وضاحت کی: ’’اتحاد میں شامل کئے جانے والے ممالک اپنی سرگرمیوں کے حوالے سے خود فیصلہ کریں گے۔ اس اتحاد کا مقصد سکیورٹی تعاون کے لئے ایک پلیٹ فارم دینا ہے، جس میں ٹریننگ، ساز و سامان، فوج اور انتہا پسندی سے نمٹنے کے لئے مذہبی راہنماؤں کی فراہمی شامل ہے۔‘‘ اس موقع پر ایک اور دلچسپ مثال بھی سامنے آئی اور وہ یہ کہ لبنان کے ’’مسیحی صدر‘‘ نے اس ’’اسلامی اتحاد‘‘ کا خیر مقدم کیا ہے اور ’’مسلمان وزیر خارجہ‘‘ نے اس پر تحفظات کا اظہار کیا۔ پھر رفتہ رفتہ سعودی عرب اور امریکہ نے اس اتحاد کے حوالے سے موثر رابطے کئے اور بیشتر مسلمان ممالک نے کسی نہ کسی نوعیت سے اپنی وابستگی کی حامی بھر لی۔

پاکستان کا مسئلہ سعودی عرب کے لئے شروع سے بہت اہم رہا ہے۔ اس کی کئی ایک وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ پاکستان عالم اسلام کا آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا ملک ہے، اس کی ایک بڑی فوج اور بڑی فوجی مشینری ہے اور یہ واحد مسلمان ایٹمی طاقت ہے۔ پاکستان اگر اس اتحاد کا سنجیدگی سے رکن بن جائے تو یقینی طور پر بہت سے مسلمان ملکوں کی اس اتحاد کے ساتھ شمولیت سنجیدہ ہو جائے گی۔ اگرچہ فوج کی فراہمی کا معاملہ مختلف ہے۔ اس اتحاد میں شامل بیشتر ممالک اس قابل نہیں ہیں کہ وہ کوئی فوج فراہم کر سکیں یا فوجی حکمت عملی کی تشکیل میں کوئی موثر کردار ادا کر سکیں۔ اس اتحاد میں شامل لبنان، بحرین، کویت، فلسطین، قطر، مالدیپ، ساحل عاج، مالی اور چاڈ جیسے ممالک بھی شامل ہیں، جو کسی فوجی مہم جوئی میں شمولیت کے قابل نہیں ہیں۔

اس فوجی اتحاد کے قیام کا پس منظر کیا ہے، اس کی ضرورت کیوں پیش آئی اور یہ مستقبل میں کیا کردار ادا کر سکتا ہے، یہ سوالات بہت اہم ہیں اور حقائق کی بنیاد پر ان کا جائزہ لئے بغیر اس اتحاد کے بارے میں صحیح رائے قائم نہیں کی جاسکتی۔ اسی طرح یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ امریکہ کو اس اتحاد میں کیا دلچسپی ہے اور وہ اس سے کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ یہ بات بھی واضح ہے کہ اسرائیل بھی اس اتحاد پر مطمئن ہے۔ امریکہ اور اس کے زیر اثر ممالک کے اس اتحاد کے بارے میں تائیدی رویے کی وجوہات کیا ہیں، انہیں بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح جو مسلمان ممالک اس میں شامل نہیں ہیں، ان کا نقطۂ نظر کیا ہے اور سعودی عرب نے انہیں اس سلسلے میں اعتماد میں لینا کیوں ضروری نہیں سمجھا اور آئندہ یہ فوجی اتحاد ان ممالک کے بارے میں کیا حکمت عملی اختیار کرے گا، یہ سوال بھی اس فوجی اتحاد کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔

اسی طرح عراق، شام اور ایران جیسے ممالک جو اس اتحاد میں شامل نہیں ہیں، ان کا ردعمل اس کے بارے میں کیا ہے۔ یہ سوال بھی بہت اہمیت رکھتا ہے۔ نیا فوجی اتحاد کیا مینڈیٹ رکھتا ہے اور اس کی طاقت کس قدر ہوگی اور کیا یہ نیٹو کے ساتھ مل کر کردار ادا کرے گا یا الگ سے۔ ان سوالات کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ جن قوتوں کے خلاف اس اتحاد کو کوئی کردار ادا کرنا ہے، ان کی طاقت کیا ہے اور وہ کس طرح کے ردعمل کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ اسی طرح کیا یہ فوجی اتحاد عالم اسلام کے دیرینہ مسائل مثلاً کشمیر اور فلسطین وغیرہ کے لئے بھی کچھ کردار ادا کرنے کا منصوبہ رکھتا ہے؟ مزید برآں مختلف ممالک جن میں روہنگیا بھی شامل ہے، کے ستم رسیدہ مسلمانوں کی دستگیری بھی اس اتحاد کے پیش نظر ہے یا نہیں؟ اس اتحاد سے عالم اسلام میں کیا کوئی نئے مسائل تو پیدا نہیں ہو جائیں گے، اس کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔

یہ سارے سوالات بہت بنیادی اور اہم ہیں، لیکن ہمارے نزدیک پاکستانی ہونے کی حیثیت سے سب سے بڑا سوال خود پاکستان کا ہے۔ پاکستانی عوام اور پارلیمینٹ کو نظرانداز کرتے ہوئے جس انداز سے ہماری مقتدرہ اس نئے فوجی اتحاد کا حصہ بننے جا رہی ہے، اس کے اثرات پاکستان پر کیا ہوں گے، ہمیں اس کا گہری نظر سے جائزہ لینا ہوگا۔ ہم اس سے پہلے بھی سعودی عرب اور امریکہ کے ساتھ مل کر ایک بہت بڑی مہم جوئی میں فرنٹ سٹیٹ کا کردار ادا کر چکے ہیں اور اس کے اثرات آج تک بھگت رہے ہیں۔ کیا ایسا تو نہیں کہ ہم پھر ایک بہت بڑی مہم جوئی پر نکل کھڑے ہوئے ہیں اور ’’ماشاء اللہ‘‘ اس میں بھی فرنٹ مین ہمارے ایک قابل احترام اور لائق ہیرو کو بنایا گیا ہے، خدا خیر کرے۔ پہلے ہم اس بات پر بغلیں بجاتے تھے کہ افغانستان کے معاملے میں ہم فرنٹ سٹیٹ کا رول ادا کر رہے ہیں۔ آج ہم اس پر اترا رہے ہے کہ 39 ملکوں کی اسلامی فوج کی سربراہی ہمارے ایک فوجی ہیرو کو سونپی جا رہی ہے۔ قوم، ملک اور سلطنت نے پہلے ان معرکوں سے کیا حاصل کیا، جن پر ہم ناز کرتے رہے ہیں اور آج اس نئی عزت والی جاب سے ہم آئندہ کیا حاصل کریں گے۔

آیئے کچھ ٹھہر کر، کچھ رک کر جائزہ لے لیں۔ کل جو سب سے بڑا دشمن تھا، یعنی روس آج ہم اس کے ساتھ فوجی مشقیں، اقتصادی تعاون اور سب سے بڑھ کر افغانستان کے مسئلے پر ہم آہنگی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ شنگھائی پیکٹ میں شمولیت پر خوش ہو رہے ہیں، جو چین اور روس نے قائم کیا ہے اور دوسری طرف اس فوجی اتحاد کا نمایاں حصہ بن رہے ہیں، جس پر یقینی طور پر وہی روس خوش نہیں ہے۔ ہم اس موضوع کے مختلف پہلوؤں کا قدرے تفصیل سے جائزہ لینا چاہتے ہیں، ہمارے قارئین آئندہ کی قسطوں کا انتظار فرمائیں۔
خبر کا کوڈ : 623066
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش