0
Friday 7 Apr 2017 23:11

آخر ہمارا قصور کیا تھا۔؟

آخر ہمارا قصور کیا تھا۔؟
خصوصی رپورٹ

میں پاراچنار میں چھوٹا موٹا کاروبار کرتا تھا، جس کے لئے مجھے بہت دیر تک کام کرنا پڑتا، اس وجہ سے ہمیشہ گھر تاخیر سے آنا میری مجبوری تھی۔ اس دن بھی میں رات کو دیر سے گھر آیا تھا تو ماں کی کھانسی نے میرا استقبال کیا، جس سے اندازہ ہوگیا کہ میری ماں میرے آنے کا انتظار کر رہی تھی۔ آتے ہی مجھے کہا بیٹا آج پھر لیٹ آئے ہو، حالات خراب ہیں، یوں رات کو دیر سے آنا ٹھیک نہیں۔ اس دوران بابا بھی اٹھ گئے تھے، انہیں سمجھایا کہ کیا کریں، کام ہوتا ہے اور یہ میری مجبوری ہے، اس دوران بیوی نے کھانا گرم کر دیا تھا۔ اس نے بھی کھانا رکھتے ہی کہا کہ آج بھی ننھی پری تمھارا انتظار کرتے کرتے سوگئی۔ وہ فرمائش کر رہی تھی کہ اس دفعہ بابا مجھے گڑیا لاکر دیں گے، کیونکہ مجھے مس نے کہا ہے کہ وہ اس دفعہ فرسٹ آئی ہے اور ساتھ میں بابا مجھے چاکلیٹ کا ڈبہ بھی لاکر دیں گے۔ میری بیوی ایک ہی ٹون میں لگی ہوئی تھی، میں نے پری کو سوتے ہوئے پیار کیا اور مصمم ارادہ کر لیا کہ کل پری کی فرمائش پوری کروں گا۔ جونہی وہ سکول سے آئے گی، اس کے لئے میں گڑیا لا کر دوں گا، کیونکہ اس کا رزلٹ تب تک نکل چکا ہوگا۔

صبح میری بیٹی نے مجھے نیند سے جگایا کہ بابا میرا آج رزلٹ ہے، آپ نے وعدہ کیا تھا کہ مجھے گڑیا انعام میں دو گے اور ساتھ میں چاکلیٹ کا وہ بڑا والا ڈبہ بھی۔ وہ بھی اپنی ماں پر گئی تھی، بغیر کسی وقفہ کے بات کر رہی تھی۔ میں نے ناشتہ کرکے گھر والوں اور ننھی پری کو الوداع کہا۔ ابھی میں اپنی جگہ بھی نہیں پہنچا تھا، جونہی مرکزی امام بارگاہ کے نزدیک پہنچا ایک زور دار دھماکہ ہوگیا۔ پھر کچھ دیر کے بعد میں نے دیکھا کہ ہمارے جسموں کو اٹھایا جا رہا تھا۔ ہماری روح قفس عنصری سے پرواز کرچکی تھی۔ میرے ساتھ میرے بہت سے اور لوگوں کی نعشوں کو بھی لوگ اٹھا رہے تھے۔ جس میں ایک بچے کی نعش بھی تھی۔ ہر طرف خون ہی خون تھا، گوشت کے چیتھڑے نظر آرہے تھے۔ کچھ لوگوں کا تو نام و نشان نہیں تھا۔ ہمارے گھر والوں کو اطلاع کر دی گئی کہ ملک کی بقا کے لئے شہید ہوگئے ہیں۔ اسپتال میں، میں نے دیکھا کہ میڈیا کی چکا چوند روشنی میں مذمتی بیانات جاری تھے۔ ہمارے بڑے ٹی وی چینلوں پر آرہے تھے، کیونکہ انہیں موقع مل گیا تھا۔ مگر کسی کو ہماری ماؤں، بہنوں، بھائیوں، باپ کی پروا نہیں تھی اور نہ ہی ننھے معصوم فرشتوں کی فکر تھی۔

ایک حادثہ تھا ہوگیا، جس طرح اس سے پہلے حادثے ہوگئے تھے۔ ہم بھی اس حادثے کا شکار ہوگئے، پتہ نہیں ہمارے بعد کس کی باری ہے۔ ہمیں بکسوں میں ڈالا گیا، ہمیں گھر لایا گیا، جو ماں، بیوی، بہن بھائیوں، رشتہ داروں کا حال تھا، کلیجہ پھٹ رہا تھا مگر ہم کچھ بھی نہیں کرسکتے تھے۔ میری بیوی میرے سرہانے کھڑی تھی اور میری ننھی پری بے خبر ہوکر ابو ابو کر رہی تھی اور مجھ سے چاکلیٹ اور گڑیا کی فرمائش کر رہی تھی۔ سکول میں دیا جانے وال کپ اس کے ہاتھ میں تھا، جس سے وہ پیار کر رہی تھی۔ قربان جاؤں میں پری کے، جس کی فرمائش میں پوری نہیں کرسکا۔ میری ننھی پری مجھ سے لپٹ گئی تھی اور مجھے صبح کی طرح اٹھا رہی تھی۔ اسے پتہ نہیں تھا کہ بابا اب اُٹھنے والا نہیں ہے، اب بابا صرف خوابوں میں نظر آئے گا۔ میری ماں پر غشی کے دورے پڑ رہے تھے۔ بہن بے ہوش تھی، بھائی آپے سے باہر تھے، باپ دنیا کے لئے دکھاوا کر رہا تھا کہ شہید ہوا ہے میرا بیٹا، مجھے فخر ہے، مگر اندر سے وہ ٹوٹ چکا تھا۔ یہ صرف میرے خاندان کا حال نہیں تھا، سب کے گھروں میں ہماری موت کے ساتھ ہماری مائیں مر گئی تھیں۔

ہمیں دفنایا گیا اور قصہ ہی ختم ہوگیا، اوپر آکر دیکھا تو ٹی وی پر پانامہ کا قصہ چل رہا تھا، رات کو دھماکے کی کوئی خبر ٹی وی پر نہیں تھی۔ یعنی ہمارا خون اتنا سستا ہوگیا ہے کہ اب حکومت کو کوئی فرق ہی نہیں پڑتا۔ سارے سیاست سیاست کھیل رہے تھے، ہمارا خون رائیگاں گیا۔ یہی سوچتے ہوئے میں دوسرے جہاں پہنچ گیا تھا، جہاں پر مجھ سے پہلے پچاس ہزار سے زیاہ پاکستانی لوگ موجود تھے، جن میں عورتیں، بوڑھے، جوان، اور بچے موجود تھے، جنہوں نے ہمارا استقبال کیا۔ میں نے وہاں آرمی پبلک سکول کے معصوم بچوں، باچا خان یونیورسٹی کے جوانوں، کوئٹہ کے وکلاء، کوئٹہ ٹریننگ سنٹر سمیت بہت سے شہیدوں کو دیکھا۔ انہوں نے وہاں پر ہم سب کا استقبال کرتے ہوئے ایک سوال کیا کہ کیا ہمارے قاتلوں کو پتہ لگ چکا ہے۔؟ ایک شہید نے کہا کہ میں تو بہت پہلے ایک دھماکے میں شہید ہوا ہوں، جب دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع ہوئی تھی تو ایک دھماکے میں میری جان چلی گئی تھی، میرے قاتلوں کو تو حکومت نے پکڑ لیا ہوگا۔؟

آرمی پبلک سکول کے بچوں کے چہروں پر سوال تھا، ہمارا کیا قصور تھا، ہم تو معصوم تھے۔ ہم نے تو دنیا نہیں دیکھی تھی۔ الف، ب، پ، 1 2 3 سے تو آگے گئے ہی نہیں تھے۔ میں نے اور میرے دیگر ساتھیوں نے جواب دیا آپ اپنی بات کر رہے ہو، ہم کو خود پتہ نہیں کہ ہمیں کیوں مارا گیا ہے اور وہ ہمیں حیرانی سے دیکھ رہے تھے، کیونکہ جو بھی نئے لوگ شہید ہو کر آتے ہیں، ان سب کا یہی سوال ہوتا ہے کہ ہمیں خود پتہ نہیں کہ ہمیں کیوں شہید کیا گیا ہے تو آپ لوگوں کو کیا بتائیں۔؟ یہ سوال ان کا سب سے ہوتا ہے، جو شہید ہوکر آتے ہیں، وہی سوال ہم سے بھی کیا گیا۔ اب میں یہ سوال اے میری قوم، میرے پاکستانی بھائیوں بہنوں میں آپ لوگوں سے کرتا ہوں کہ آخر ہم سب کا قصور کیا تھا۔؟ ہمیں کیوں مارا گیا۔؟ اس سوال کا جواب آپ اپنے حکمرانوں سے پوچھو! کیونکہ آپ لوگ حیات ہو، ورنہ کل کو آپ بھی یہ سوال یہاں آکر سب سے کرو گے کہ ہمارا قصور کیا تھا۔؟ ہمیں کیوں مارا گیا۔؟

پاراچنار شہر میں داخل ہونے کیلئے آرمی، ایف سی اور لیوی فورس کی درجنوں چیک پوسٹوں سے قطاروں میں کھڑے ہو کر سخت چیکنگ کے بعد گزرنا پڑتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اگر کسی کے پاس قومی شناختی کارڈ نہیں یا شناختی کارڈ میں اس کے نام کی لکھائی دھندلائی ہوئی ہے تو اس شخص کو شہر میں داخل ہونے کی اجازت ہی نہیں دی جاتی اور سکیورٹی رسک کے نام پر ایک کلو یوریا کھاد بھی پاراچنار لے جانے کی اجازت نہیں ملتی۔ مگر اس کے باوجود ایک مناسب وقفے کے بعد اسلحے اور گولہ بارود سے لیس گاڑی شہر کے وسط میں جا کر پھٹ جاتی ہے۔ ایسے میں اگر میں یہ بولوں کہ یہ سب کچھ ریاست ہی کروا رہی ہے اور ساری دہشت گردی خود حکومتی ادارے کی سرپرستی میں ہو رہی ہیں تو پھر مجھے غدار اور ملک دشمن کہا جاتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 623710
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش