0
Saturday 6 Jun 2009 12:47

ایران کی آواز

ایران کی آواز
عرفان صدیقی
امام خمینی کی بیسویں برسی کی تقریبات کی ”تقریب بزرگ“ تمام ہو گئی۔ جمعرات کی صبح، تہران سے کوئی پندرہ کلومیٹر باہر،بہشت زہراء قبرستان کے نواح میں امام خمینی کا عظیم الشان مقبرہ ہے۔کئی ہزار ایکڑ پر مشتمل رقبے کے بیچوں بیچ،مزار سے ملحقہ تعمیرات کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ حکومت ایران کے مہمان،دو فائیو اسٹار ہوٹلوں میں ٹھہرائے گئے ہیں۔ دس بڑی بسوں کے ذریعے چار سو کے لگ بھگ ”مہمانان عزیز“ کو صبح نو بجے مخصوص احاطے میں پہنچا دیا گیا۔ ایران کی پوری قیادت،بیرونی ممالک کے سفیر،صدر احمدی نژاد اور اُن کی کابینہ کے وزراء اسی منطقے میں تشریف فرما تھے۔ بڑی تقریریں صرف دو تھیں،ایک امام خمینی کے پوتے سید حسن خمینی کی اور دوسری راہبر انقلاب اسلامی آیت الله سید علی خامنہ ای کی۔ سید علی خامنہ ای نے ایک گھنٹہ خطاب کیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ ”امام خمینی کے دونوں ہاتھوں میں دو پرچم تھے ایک احیائے اسلام کا پرچم اور دوسرا ایران اور ایرانیوں کی عظمت و سربلندی کا پرچم،ایران کے انقلاب اسلامی نے ساری دنیا کے دل گرفتہ مسلمانوں کو نیا حوصلہ دیا جس کی مثالیں فلسطینی انتفاضہ اور لبنانی مزاحمت کی شکل میں ظاہر ہوئیں،عالم اسلام نے اپنی رگوں میں نئی توانائی محسوس کی۔ اس کے شاعروں،ادیبوں اور دانشوروں کی تخلیقات میں امید اور یقین کا رنگ پیدا ہوا۔ امریکہ کی نئی حکومت تبدیلی کی بات کرتی ہے لیکن معاملات صرف میٹھی باتوں سے درست نہیں ہوں گے، نعروں کو عمل میں بدلنا ہوگا۔ بش کی پالیسیاں احمقانہ،وحشیانہ،غاصبانہ،تسلط پسندانہ اور کھلی مداخلت پر مبنی تھیں۔ اس نے جنگ دہشت گردی کے نام پر دو اسلامی ممالک ،عراق اور افغانستان کو تہس نہس کر دیا جہاں روزانہ ایک نہیں،دو نہیں،سیکڑوں انسان اُس کے حملوں کا نشانہ بنتے ہیں۔امریکہ کوئی مثبت پیغام دینا چاہتا ہے تو ان پالیسیوں کو بدلے۔ ایٹمی صلاحیت کا حصول ہمارا حق ہے۔ جو چیز امریکہ اور دوسرے اہل مغرب کے لئے حلال ہے وہ ہمارے لئے ممنوع اور حرام کیوں قرار دی جا رہی ہے؟ امریکہ اسرائیل کے ہر اقدام کی سو فیصد حمایت کرتا اور فلسطینیوں کے رد عمل کو ”کارِ شرارت“ قرار دیتا ہے۔ امریکہ کی نئی حکومت اپنا چہرہ بدلنا چاہتی ہے تو یہ سب کچھ تبدیل کرے“۔ اپنی تقریر کے آخر میں انہوں نے ایرانیوں سے اپیل کی کہ وہ انتخابات میں بھرپور حصہ لیں۔ یہ اُن کی قومی،اخلاقی اور شرعی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے کہا کہ چاروں صدارتی امیدواروں کا مطلوب و مقصود ایک ہے۔ آپ لوگ جسے بہتر سمجھتے ہوں ووٹ دیں۔ میرا صرف ایک ووٹ ہے اور وہ کوئی نہیں جانتا کہ میں کسے دوں گا۔ انہوں نے نوجوانوں سے خصوصی اپیل کی وہ انتخابی مہم کو پُر امن رکھیں۔
راہبر کی تقریر کے دوران بار بار پرجوش نعرے لگتے رہے جن میں ”مرگ بر امریکہ“ اور ”مرگ بر اسرائیل“ کے نعرے نمایاں تھے۔ اگرچہ یہ ایک غیر سیاسی،روحانی یا دعائیہ تقریب تھی لیکن وقفے وقفے سے احمدی نژاد کے حق میں بھی نعرے بلند ہو رہے تھے۔ بڑی تعداد میں لوگ صدر احمدی نژاد کی تصاویر بھی اٹھائے ہوئے تھے۔ میں نے قریب بیٹھے ایک شخص سے پوچھا، وہ کہنے لگا”یہ سب مذہبی لوگوں کا اجتماع ہے اور سارا مذہبی حلقہ احمدی نژاد کا حامی ہے“۔ یہ ایک پر اثر اور پر جوش تقریب تھی۔ راہبر کی تقریر پالیسی بیان کی حیثیت رکھتی ہے اور اس سے ظاہر ہو رہا تھا کہ ایران، امریکہ کے بارے میں اپنی سخت گیر پالیسی میں نرمی لانے کو تیار ہے بشرطیکہ صدر اوباما سنجیدگی کا مظاہرہ کریں اور بش کی پالیسیوں میں تبدیلی کا واضح عملی اشارہ دیں۔
تقریب میں صدر احمدی نژاد اور میر حسین موسوی ایک دوسرے کے قریب بیٹھے تھے۔ گزشتہ شب ہی اُن کا ٹی وی مباحثہ ہوا تھا۔ مبصرین کا خیال ہے کہ احمدی نژاد نے قدرے جذباتی پن کا مظاہرہ کیا جب کہ موسوی کا رویہ پُر وقار تھا۔ لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ صدر احمدی نژاد نے بلا وجہ ذاتی حملے کئے اور محمد خاتمی اور ہاشمی رفسنجانی کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ یہ رائے بھی پائی جاتی ہے کہ میر حسین موسوی کا کوئی بھی جملہ کارگر ثابت نہیں ہوا اور احمدی نژاد نے عوامی اسلوب اختیار کر کے اپنے حلقے کو خاصا متاثر کیا ہے۔ میں فارسی زبان کو زیادہ باریکیوں کے ساتھ نہیں سمجھتا لیکن ٹیلی ویژن پر حیسن موسوی کی”بدن بولی“ (Body Language) مجھے احمدی نژاد کی نسبت زیادہ معتبر لگی۔
لیکن ایک دن قبل پرانے پارلیمنٹ ہاؤس میں صدر احمدی نژاد کے خطاب نے مجھے ہی نہیں،شرق و غرب سے آئے سارے مہمانوں کو نہال کر دیا۔ یہ تقریب مہمانوں کی صدر احمدی نژاد سے ملاقات کے لئے تھی۔ مہمان،ارکان اسمبلی کی کرسیوں پر برّاجمان تھے۔ گیلری پر اُن درجنوں ارکان اسمبلی کی تصاویر لگی تھیں جو 28 جون 1981ء کے بم دھماکے میں جاں بحق ہو گئے تھے۔احمدی نژاد کسی کرّوفر کے بغیر عین وقت پر ہال میں داخل ہوئے اور پھر ایک سحر تھا کہ چھاتا چلا گیا اور سامعین تھے کہ مجسموں میں ڈھلتے چلے گئے۔ تقریر فارسی میں تھی جس کا فرانسیسی یا انگریزی ترجمہ ہیڈ فون پر سنا جا سکتا تھا۔ چھوٹے سے قد و قامت کا منحنی سا شخص کسی گھن گرج کے بغیر بولے جا رہا تھا اور اس کی دھڑکنیں،سیکڑوں افراد کی دھڑکنوں سے گلے مل رہی تھیں۔
” آیت الله خمینی کی تحریک،نسلی قبائلی،سیاسی یا جغرافیائی نہ تھی،یہ محمد مصطفی ص کی تحریک کا تسلسل تھی جس کا مقصود احترام آدمیت،شرف انسانیت،انصاف،مساوات،انسان دوستی، صداقت اور محبت کا فروغ تھا۔ جو ظلم ،جبر اور قہر کی قوتوں کے خلاف تھی۔ یہ تحریک ہمیشہ جوان رہے گی… یہ کون لوگ ہیں جو لبرل ازم کی باتیں کرتے ہیں؟ جو لبرل ڈیمو کریسی کی باتیں کرتے ہیں؟ صدیوں سالوں سے دو تین جماعتیں قابض ہیں۔ تین چار ہزار مفاد پرستوں کا ٹولہ ہے جو نام بدل بدل کر حکمرانی کرتا ہے۔ اقتدار میں آنے کے بعد یہ عوام کی رائے کو کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ میڈیا،اکانومی، سیاست سب پر مخصوص لوگوں کا قبضہ ہے۔انتخاب جیتنے کے بعد یہ ایک سو اسّی ڈگری کا ٹرن لے لیتے ہیں۔ یہ لبرل ڈیمو کریسی ،کسی طرح کی اخلاقیات اور انسانی اقدار پر یقین نہیں رکھتی۔ ان لوگوں نے مذہب کو اسی لئے سیاست سے خارج کر دیا ہے کہ انہیں کسی طرح کی اخلاقیات اور الہامی اقدار کا پابند نہ رہنا پڑے۔ ہولو کاسٹ(یہودیوں کے قتل عام) کو انہوں نے آسمانی کتابوں اور پیغمروں سے بھی زیادہ ہولی (مقدس) بنا دیا ہے۔ پیغمبروں کی شان میں گستاخی ہو تو کہتے ہیں یہ”اظہار رائے کی آزادی ہے“ اور کوئی تاریخ کے سب سے بڑے ڈھکوسلے ”ہولوکاسٹ“ کے بارے میں بات کرے تو اس کی جان کے درپے ہو جاتے ہیں۔ فلسطین میں عورتوں اور معصوم بچوں کا قتل عام کرتے ہیں اور پھر ایک عورت ٹی وی پر آکر کہتی ہے”ہم اس لئے قتل کرتے ہیں کہ یہ آگے سے مزاحمت کرتے ہیں“۔ ان لبرل فلاسفروں نے اقدار کو کھلونا بنا لیا ہے۔ اسرائیل تاریخ کی سب سے سفّاک حکومت ہے اور لبرل ڈیمو کریسی کا علمبردار امریکہ اس کا پشت پناہ ہے ۔یہ لبرل ڈیموکریٹ فلسطینیوں کو دہشت گرد کہتے ہیں۔ مارکسزم اپنی موت مر چکا،اب یہ لبرل ازم بھی گور کنارے پر آ لگا ہے۔ یہ معاشی جادوگری دکھاتے،ہمارے وسائل پر قبضہ کرتے،ہماری دولت سمیٹتے اور بدلے میں کاغذ کا ایک ٹکڑا دیتے ہیں جسے ”ڈالر“ کہتے ہیں۔ اب یہ ڈالر سسکیاں لے رہا ہے۔ اب رعونت جبر اور جھوٹ کا زوال شروع ہو چکا ہے کہ یہی قانون فطرت ہے۔ مسلمانوں کو متحد ہو کر اپنے آفاقی فلسفے،اپنی عظیم اقدار کے ذریعے یہ خلا پُر کرنا ہوگا۔ شیطان کبھی نہیں سوتا، ہر پل جاگتا رہتا ہے۔ ہم نہ جاگے تو یہ لوگ کسی نئے پرکشش پیکج کے نام پر کوئی نیا ابلیسی نظام لے آئیں گے“۔
لوگ احمدی نژاد پر ٹوٹے پڑ رہے تھے، بوسے دے رہے تھے۔ وہ گررہا تھا اور اٹھ رہا تھا۔محافظوں کو ہدایت ہے کہ وہ عوام کی راہ میں حائل نہ ہوں۔میں نے اُس سے ہاتھ ملایا، اُس کی آنکھوں میں جھانکا ۔ اُس کا ماتھا پسینے میں تر تھا، سر کے بال بُری طرح الجھ رہے تھے، زبردست دھکم پیل ہو رہی تھی لیکن وہ بیزار نہ تھا۔ محبتیں سمیٹ رہا تھا اور محبتیں بانٹ رہا تھا۔ بلاشبہ وہ عالم اسلام کا مقبول ترین سیاسی رہنما ہے۔ حکومتوں اور حکمرانوں کی مصلحتیں اپنی جگہ،لیکن عالم اسلام کے سوا ارب انسان اُسے اپنا محبوب جانتے ہیں جو امریکہ کے سامنے پورے قد سے کھڑا ہو سکے، چاہے اس کا قد چھوٹا ہی کیوں نہ ہو۔


خبر کا کوڈ : 6246
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش