0
Tuesday 11 Apr 2017 09:00

میلاد مولود کعبہ تشنگان حق و عدالت کو مبارک باد

میلاد مولود کعبہ تشنگان حق و عدالت کو مبارک باد
تحریر: محمد اشرف ملک

انا و علی من نور واحد
پیغمبر اکرم (ص) کی حدیث ہے کہ "انا و علی من نور واحد" یعنی میں اور علی ایک ہی نور سے ہیں۔ ایک اور حدیث میں آپ فرماتے ہیں کہ میں اس وقت بھی نبی تھا، جب آدم پانی اور مٹی میں تھا۔ ان احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ جب سے آنحضرت کا نور خلق ہوا، اسی وقت سے امیرالمومنین حضرت علی (ع) کا نور بھی خلق ہوا، لیکن مادی بدن کے ساتھ اس دنیا میں سید الانبیاء کی ولادت ایک عام الفیل کو حضرت عبداللہ کے گھر میں ہوتی ہے اور حضرت علی(ع) کی 30 عام الفیل 13 رجب کی شب کو اللہ کے گھر خانہ کعبہ میں ہوتی ہے۔

فاطمہ بنت اسد کا خانہ کعبہ آنا
امیرالمومنین حضرت علی (ع) کی والدہ محترمہ حضرت فاطمہ بنت اسد جب بچہ کی ولادت کا احساس کرتی ہیں تو انپے گھر سے خدا کے گھر خانہ کعبہ کے قریب آتی ہیں اور اپنے جسم کو اس کی دیوار سے مس کرکے عرض کرتی ہیں کہ: اے پروردگار، میں تجھ پر، تیرے انبیاء پر، تیری طرف سے نازل کی گئی کتابوں پر اور اس مکان کی تعمیر کرنے والے اپنے جد ابراہیم کے کلام پر مکمل ایمان رکھتی ہوں۔ میرے پروردگار، تجھے اس ذات کے احترام کا واسطہ، جس نے اس مکان کو تعمیر کیا اور اس بچہ کے حق کا واسطہ، جو میرے شکم میں موجود ہے، اس کی ولادت کو میرے لئے آسان فرما۔

دیوار کعبہ کا علی (ع) کے استقبال میں شکافتہ ہونا
فوراً جنوب مشرقی دیوار، عباس بن عبدالمطلب اور یزید بن تعف کی نظروں کے سامنے شگافتہ ہوئی، فاطمہ بنت اسد کعبہ میں داخل ہوئیں اور دیوار دوبارہ مل گئی۔ فاطمہ بنت اسد تین دن تک اللہ کے گھر میں اللہ کی مہمان رہیں۔ بعد میں تین سال تک علی (ع) حضرت ابو طالب کے گھر میں رہے، اس کے بعد پیغمبر اکرم (ص) نے حضرت ابو طالب سے علی (ع) کو اپنی کفالت میں لے لیا۔ پیغمبر اکرم (ص) کے اعلان بعث سے لیکر آنحضرت (ص) کی وفات تک حضرت علی (ع) کا لحظہ لحظہ اطاعت خدا اور اطاعت رسول اللہ میں گزرا۔ حضرت علی (ع) کی زندگی کا ہر باب روشن، واضح اور انسان کی انفرادی یا اجتماعی زندگی کو سنوارنے اور کامیاب بنانے کے لئے سنگ میل ثابت ہوسکتا ہے۔ وہ قوانین جو اللہ نے بھیجے اور نبی رحمت نے امت تک پہنچائے، حضرت علی (ع) نے تمام مشکلات کے با وجود انہیں صحیح اور اصلی شکل میں حفظ کیا اور امام حق ہوتے ہوئے تشنگان حق و حقیقت کو افراط و تفریط سے بچایا۔

حضرت علی (ع) کی نگاہ میں قدرت و حکومت
حضرت علی (ع) کی نگاہ میں قدرت و حکومت مقصد نہیں ہے بلکہ وسیلہ ہے، تاکہ قدرت اور حکومت کے ذریعے معاشرہ میں عدل و انصاف قائم کیا جا سکے اور انسان کمالات دنیوی اور  اخروی پر فائز ہوسکے۔ اس زمانے سے لیکر آج تک بہت سارے لوگوں کا مقصد اقتدار حاصل کرنا، عیش و عشرت اور لذت طلبی ہے۔ پیامبر اکرم (ص) کے زمانے میں بھی کئی لوگ اسلامی احکام کو ریاکاری اور دنیوی مفادات کے لئے انجام دیتے تھے، لیکن بعد میں تو اسلام کے نام پر ہی سب کچھ کرنے لگے۔ ایسے افراد آنحضرت کے زمانے ہی سے حضرت علی (ع) سے حسد کرتے تھے، لیکن بعد میں تو بغض، کینہ، دشمنی اور عداوت کی حد تک آئے، حتی بغاوت اور جنگیں بھی کیں، جن میں کئی ہزار لوگ شہید ہوئے۔ ایک بار آپ اپنا پرانا جوتا مرمت کر رہے تھے کہ ابن عباس آئے اور آپ نے ابن عباس سے پوچھا: اس جوتے کی کیا قیمت ہے۔؟ ابن عباس نے کہا کچھ نہین تو آپ نے فرمایا: میری نظر میں اس حکومت و ریاست کی قدر و قیمت اس جوتے سے بھی کمتر ہے، مگر یہ کہ حکومت کے ذریعے میں عدالت کو نافذ کر سکوں، حق کو قائم کر سکوں اور باطل کو مٹا سکوں۔ واللہ، اگر مجھے سات اقالیم اس شرط پر دیئے جائیں کہ میں ایک چیونٹی کے منہ سے جو کا ایک چھلکا چھین لوں تو میں سات اقالیم کو ٹھوکر مار سکتا ہوں، لیکن اس حد تک بھی، بے عدالتی اور ظلم نہیں کر سکتا۔

افراد کے انتخاب میں عدالت علی (ع)
آج کے دور میں دیکھا جائے تو بڑے اور صاحب اثر لوگ مکر و فریب، تعلقات، اپنے ذاتی اور دنیوی  مفادات کی خاطر کس قدر بامعرفت، اہل علم اور بافضل لوگوں کو چھوڑ کر، نااہل لوگوں کو ساتھ ملاتے ہیں، مناصب ان کو دیئے جاتے ہیں اور پھر ان کے توسط سے ہر قسم کا ظلم کیا جاتا ہے۔ کیا بنو امیہ اور بنو عباس کی حکومتوں میں ایسا نہیں ہوا؟ کیا مروان و معاویہ جیسے لوگوں کو مسلط کرکے علی (ع) جیسے الٰہی نمایندہ اور مولود کعبہ کے سامنے مشکلات ایجاد نہیں کی گئیں۔؟ آج بھی اسی دور کی اقرباء پروری کی وجہ سے کتنے ہی باصلاحیت لوگ بہت   ساری ضروریات اولیہ سے بھی محروم ہوتے ہیں اور نااہل لوگ ظلم و ستم کی بنا پر سب امکانات کو حاصل کرتے ہیں۔ ستم بالای ستم یہ ہے کہ مذہبی جماعتوں اور تنظیموں کی بھی یہی صورت حال ہوتی جا رہی ہے، حتٰی مدارس دینیہ کے اندر بھی اقرباء پروری کے تحت یا تعلقات کی بنیاد پر نااہل اور خوشامدی لوگوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔ جس سے قوم و ملک و ملت کو بہت زیادہ نقصان سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ مولود کعبہ کے ہاں معاملہ حق و حقیقت پر مبنی ہے اور جو کچھ اوپر ذکر ہوا ہے، اس کے برعکس ہے۔ علی (ع) کے ہاں جس چیز پر سب سے زیادہ توجہ دی جاتی تھی، وہ عدالت، معنویت اور لیاقت و صلاحیت ہے۔

حضرت علی (ع) نے اپنے اور پرائے کے امتیاز کو ختم کرکے، جو جس عہدہ کے اہل ہوتا، وہ عہدہ اس کے سپرد کر دیا کرتے تھے۔ آج مولا کے ہر ماننے والے کو کوشش کرنی چاہیے کہ مولا کی زندگی کے مطابق یا اسی کے قریب یا اسی سمت میں زندگی گزار سکے۔ ظلم اور ظالم سے دور رہے، نظام عدل کو  قائم کرنے کی کوشش کرے۔ یہ یقین ہے کہ ظالم اور خیانتکار ہمیشہ ذلیل و رسوا ہوتا ہے اور عدل کی تلاش کرنے والا اگرچہ بہت ساری مشکلات میں مبتلا ہوتا ہے، لیکن اپنے مالک اللہ اور اپنے امام و مولا کی بارگاہ میں سرخرو ہوتا  ہے۔ خدایا بحق مولود کعبہ ہم سب کو مولا کی زندگی کے مطابق ظلم و ظالم سے نفرت، اس کا مقابلہ کرنے اور عدل و انصاف کا نظام قائم کرنے کی توفیق عطا فرما۔ آمین
خبر کا کوڈ : 626812
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش