5
0
Wednesday 12 Apr 2017 22:18

شام پر ناکام امریکی حملہ

شام پر ناکام امریکی حملہ
ترتیب و تدوین: ظفر حیدر

7 اپریل 2017ء کو جمعة المبارک کے روز علی الصبح مشرقی بحیرہ روم میں تعینات امریکی بحری بیڑے نے مشرق وسطٰی کے اہم تاریخی اسلامی ملک شام پر ٹوماہاک کروز میزائلوں سے حملہ کیا، شام کے مقامی وقت کے مطابق جمعے کی صبح 4 بجکر 40 منٹ پر یہ حملہ کیا گیا۔ حملے میں امریکی بحری بیڑے نے شام کے صوبے حمص میں واقع الشعیرات ایئربیس پر 59 ٹوماہاک کروز میزائل داغے۔ امریکہ کے مطابق اس ایئربیس کو اس لئے نشانہ بنایا گیا کیونکہ کچھ روز قبل شامی فضائیہ نے صوبے ادلب کے علاقے خان شیخون پر مبینہ کیمیائی حملے میں اسی ایئربیس کو استعمال کیا تھا۔ شامی وزارت خارجہ پہلے ہی کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی خبروں کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہہ چکی ہے کہ خان شیخون یا کسی بھی دوسرے علاقے میں ممنوعہ ہتھیاروں کا استعمال نہیں کیا گیا ہے اور اس سلسلے میں مغربی میڈیا کی جانب سے شائع ہونے والی خبریں بے بنیاد ہیں، شامی فوج کے پاس کسی قسم کا کوئی ممنوعہ ہتھیار نہیں ہے، فوج نے نہ اس سے پہلے کیمیائی ہتھیار استعمال کیا ہے اور نہ ہی آئندہ کریگی، کیونکہ شامی حکومت نے 2013ء میں ممنوعہ ہتھیاروں کے عدم پھلاؤ اور استعمال نہ کرنے والے معاہدے پر دستخط کیا ہوا ہے۔

دوسری جانب شام کے بڑے اتحادی روس کی وزارت دفاع نے امریکہ و مغربی میڈیا کے اس الزام پر اپنے ردعمل میں کہا کہ شامی فوج نے صوبے ادلب کے علاقے خان شیخون میں دہشتگرد گروہ داعش کے ٹھکانوں پر حملوں کے دوران زہریلے اور کیمیائی ہتھیاروں سے بھرے گودام کو نشانہ بنایا تھا، جہاں کیمیائی زہریلا مواد ذخیرہ تھا۔ یاد رہے کہ بشار الاسد حکومت کے ہاتھوں داعش کے قبضے سے حلب کی آزادی کے بعد بیشتر باغی دہشتگرد عناصر ادلب صوبے میں ہی پناہ لینے پر مجبور ہوئے ہیں۔ روسی وزارت دفاع کے ترجمان ایگور کوناشینکوف کے مطابق تباہ شدہ گودام میں موجود کیمیائی ہتھیار داعش کی توسط سے عراق سے شام منتقل کیا گیا تھا، داعش نے کچھ عرصہ پہلے یہ ہتھیار حلب میں بھی استعمال کیا تھا، جس کا الزام مغربی میڈیا کی جانب سے شامی حکومت پر لگایا گیا تھا۔ قابل ذکر ہے کہ خان شیخون پر حملے کے صرف چند گھنٹوں کے بعد ہی فرانسیسی صدر فرانسوا اولانڈ نے شامی حکومت کو بغیر کسی تحقیق کے ذمہ دار ٹہرا دیا تھا، جبکہ برطانوی وزیر خارجہ نے بھی اس سلسلے میں بغیر تحقیق و ثبوت کے کہا تھا کہ اگرچہ ابھی تک اس حادثے سے متعلق مکمل طور پر مطمئن نہیں، لیکن اس حملے کے تانے بانے شام کی موجودہ بشار حکومت سے ملتے ہیں۔

دوسری جانب وائٹ ہاؤس کے ترجمان سین اسپائسر نے شامی عوام کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ ان کیلئے بہتر ہوگا کہ بشار الاسد اقتدار چھوڑ دیں اور یورپی یونین کے خارجہ امور کی سربراہ فیڈریکا موگیرینی نے بھی بشار حکومت کو کیمیائی حملے کا ذمہ دار قرار دیا۔ یہاں یاد دلاتے چلیں کہ امریکہ اور اسکے اتحادی مغربی ممالک خصوصاً برطانیہ اور فرانس مسلسل کوششوں میں ہیں کہ کسی طرح شام کی بشار الاسد حکومت کے خلاف کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کے الزام کو اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم میں سچ ثابت کرکے اس کے خلاف اقوام متحدہ کے ذریعے ہی اقتصادی، عسکری، سفارتی و دیگر حوالوں سے کارروائی کرکے بشار الاسد حکومت کا خاتمہ کیا جا سکے، لیکن اقوام متحدہ کے تحت ہونے والی تمام تر تحقیقات کے باوجود آج تک بشار الاسد حکومت کے خلاف کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے الزامات کو ثابت نہیں کیا جا سکا، اس سلسلے میں رواں سال گذشتہ مہینے مارچ کی پہلے تاریخ کو بھی کیمیائی ہتھیار استعمال کے الزام کے باعث شام پر مجوزہ پابندیوں کی برطانیہ، فرانس اور امریکا کی پیش کردہ قرارداد پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں رائے شماری کی گئی تھی، قرارداد کے حق میں 9 ووٹ ڈالے گئے، جبکہ چین، روس اور بولیویا نے اس کی مخالفت کی، قازقستان، ایتھوپیا اور مصر نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا، اقوام متحدہ میں قرارداد کی منظوری کیلئے اس کے حق میں 9 ووٹ اور کوئی ویٹو نہیں چاہیے تھا۔

یہ ساتواں موقع ہے کہ جب شام کے سب سے قریبی فوجی اتحادی روس نے شامی حکومت کے حق میں اپنی ویٹو پاور استعمال کی ہے، چین بھی جو سلامتی کونسل کے 5 مستقل ارکان میں سے ایک ہے، شام مخالف قراردادوں پر 6 بار روس کا ساتھ دے چکا ہے۔ روس اور چین کی جانب سے قرارداد ویٹو کئے جانے کے باعث امریکہ، برطانیہ، فرانس پہلے ہی اپنی ناکامی پر سیخ پا تھے، لہٰذا خان شیخون پر کیمیائی حملے کے الزام کے تحت امریکہ، برطانیہ اور فرانس نے ایک بار پھر بشار الاسد حکومت کے خلاف مبینہ کیمیائی حملوں کے الزام کے تحت کارروائی کیلئے سلامتی کونسل میں بھی درخواست جمع کرائی گئی تھی، تاہم روس کی جانب سے ویٹو کی دھمکی کے باعث شام کے خلاف قرارداد پر ووٹنگ نہ ہوسکی۔ لیکن اس سے پہلے کہ اقوام متحدہ یا عالمی ادارے مبینہ کیمیائی حملے کے حوالے سے کسی بھی قسم کی تحقیقات کا آغاز کرتے اور خان شیخون کے ڈرامے کا ڈراپ سین سامنے آتا، امریکہ، اسرائیل اور اس کے مغربی اتحادیوں کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا، سعودی عرب کیجانب سے یمن پر کیمیائی ہتھیاروں یعنی ممنوعہ کلسٹر بموں سے حملوں اور صہیونی اسرائیل کیجانب سے مقبوضہ فلسطینی سرزمین پر ممنوعہ مہلک ہتھیاروں یعنی فاسفورس بموں اور Dime نامی ہتھیاروں سے حملوں پر خاموش تماشائی بنے رہنے والے، ماضی میں افغانستان، عراق، لیبیا سمیت عالم اسلام کے کئی ممالک کو مختلف بہانوں سے تباہ و برباد کرنے اور لاکھوں مسلمانوں کو قتل کرنے والے امریکا نے اس بار کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا بہانہ بنا کر اسلامی ملک شام پر حملہ کر دیا، جو کہ بشارالاسد حکومت پر امریکا کا پہلا براہ راست حملہ قرار دیا گیا۔

حملے سے ایک روز قبل ہی امریکہ مبینہ کیمیائی حملے سے متعلق روسی مؤقف مسترد کرتے ہوئے یک طرفہ کارروائی کی دھمکی دے چکا تھا، جبکہ امریکی صدر ٹرامپ اراکین کانگریس کو بھی پیشگی اطلاع دے چکا تھا کہ وہ خان شیخون کے مسئلے کو لیکر شام میں فوجی مداخلت کرنے کا سوچ رہا ہے، حملے سے پہلے ہی عالمی سطح پر کئی تجزیہ نگار بتا چکے تھے کہ شام پر امریکی حملے کا منصوبہ پہلے سے طے تھا، خان شیخون ڈرامہ اسی لئے رچایا گیا، تاکہ بین الاقوامی سطح پر شور اٹھے اور توجہ حاصل کیا جائے۔ شام پر امریکی حملے کے بعد امریکہ کے روایتی دشمن ایران اور شامی کے بڑے اتحادی روس نے امریکی حملے کی مذمت کی، روس نے سلامتی کونسل کے اجلاس میں کہا کہ امریکی جارحیت شام میں دہشتگردوں کو مدد پہنچائے گی، تم لوگ (امریکہ و اسکے اتحادی مغربی ممالک) خان شیخون واقعے کی تحقیقات سے ڈر رہے ہو، جو کچھ موصل میں ہوا، اس کے بارے تم لوگوں نے خاموشی کیوں اختیار کی ہے، کیا وہاں دوسرے درجے کے انسان بستے ہیں، شام پر حملہ عراق میں عام شہریوں کے قتل سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے، عالمی ادارے ہلال احمر کی ترجمان نے کہا کہ ایک ملک کی طرف سے بغیر دوسرے ملک کی رضامندی کے فوجی کارروائی انٹرنیشنل آرمڈ کانفلکٹ یعنی بین الاقوامی مسلح تصادم کے زمرے میں آتی ہے، جبکہ اسرائیل، نیٹو، یورپی یونین، برطانیہ، فرانس، باغی دہشتگرد گروہوں کے ساتھ ساتھ سعودی عرب نے اسلامی ملک شام پر امریکی حملے کی حمایت کرتے ہوئے اسے ”دلیرانہ عمل“ قرار دیدیا، اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے کہا کہ مبینہ کیمیائی حملے کے جواب میں وہ امریکہ کے "واضح اور مضبوط پیغام" کی حمایت کرتے ہیں، امید ہے کہ یہ پیغام نہ صرف دمشق بلکہ تہران، یونگ یانگ اور دیگر تک بھی پہنچے گا۔

الشعیرات ائیربیس کی اہمیت:

الشعیرات ائیر بیس جو کہ صوبہ حمص میں شہر حمص سے 31 کلو میٹر جنوب مشرق میں حمص تدمر روڈ پر واقع ہے، دہشتگرد گروہ داعش کے خلاف جنگ میں اس کا بنیادی کردار ہے اور شام کے مشرقی علاقے دیرالزور تک یہ ایئربیس خدمات فراہم کرتا ہے۔ حال ہی میں روس سے لئے جانے والے سخوئی اور میگ 40 طیارے اسی بیس پر ہی ہوتے ہیں۔ گذشتہ مارچ میں جب تدمر کے قریب اسرائیل طیاروں نے حملہ کیا، تو اس کا جواب دینے والا میزایل سسٹم بھی یہاں پر ہی قائم ہے۔ یہ ایسا علاقہ ہے، جہاں تک دہشتگرد بھی نہیں پہنچ سکے، یہ انتہائی حساس علاقوں میں شمار ہوتا ہے۔ اس لئے روس اور شام نے S400 میزائل سسٹم کیلئے بھی اسی کا انتخاب کیا، یہاں سے اسرائیل کے وسط تک میزائل داغے جا سکتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل شام پر حملہ آور اسرائیلی طیاروں کا پیچھا کرکے مار گرانے والے میزائل اسی الشعیرات ائیربیس سے ہی چلائے گئے تھے کہ جس پر امریکہ نے حملہ کیا۔

ایئربیس پر حملے کے باوجود امریکہ ناکام رہا:
امریکی حملے سے قبل ہی ایئربیس کو تقریباً خالی کر دیا گیا تھا، جس کے باعث امریکہ کوئی بھی قابل ذکر کامیابی حاصل کرنے میں یکسر ناکام رہا۔ امریکی حملے میں سوائے چند افراد کے جاں بحق، ایئربیس کے اسٹرکچر کو ہونے والے جزوی نقصان، پہلے سے ناکارہ چند طیاروں کو پہنچے والے نقصان کے علاوہ امریکہ کو کچھ حاصل نہیں ہوسکا۔ ائیربیس داعش کیخلاف جنگ میں ایک اہم رول رکھتا ہے، حلب کی آزادی کے بعد دہشتگرد گروہ صوبہ ادلب میں محصور ہو کر رہ چکے ہیں، جیسا کہ امریکی حملے کا ایک مقصد ناکامی سے دوچار دہشتگردو گروہوں کو حوصلہ دینا تھا، یہ حملہ القاعدہ نواز گروپ النصرہ کی زمینی کارروائیوں سے توجہ ہٹانے کی کوشش تھی، لہٰذا امریکی حملوں کے فوراً بعد دہشتگرد گروہوں نے تدمر اور حمص کی مرکزی شاہراہ کی جانب بڑھنا شروع کر دیا تھا، لیکن شامی و روسی فوج کے حملوں نے داعش کو آگے نہیں بڑھنے دیا۔ صرف چند گھنٹوں بعد ہی طیاروں نے اس ایئربیس سے پروازیں شروع کر دی تھیں۔

ایئربیس پر امریکی حملہ اہداف حاصل کرنے میں ناکام کیوں:

کچھ عرب ذرائع ابلاغ کے مطابق امریکی جارحیت سے ایک دن پہلے ہی ”الشعیرات اور دیگر ائیربیس سے تمام اہم طیاروں کو منتقل کیا جا چکا تھا اور ان تمام طیاروں کو ساحلی شہر لاذقیہ میں روسی کنٹرول کے ائیر بیس حمیم میں پہنچایا گیا تھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شام اور اسکے اتحادی پہلے سے جان چکے تھے کہ کیا ہونے جا رہا ہے اور امریکی سامراج کی نیت کیا ہے۔ تجزیہ نگاروں کے خیال میں یہ ایک زبردست اور بروقت اقدام تھا اور ظاہر ہے کہ اس کے پیچھے خفیہ اطلاعات یا حالات کا بروقت، درست تجزیہ اور مناسبت حکمت عملی جیسے عناصر پوشیدہ ہیں، جس کے باعث امریکہ اہداف کے حصول میں ناکام رہا۔ امریکی 59 میزائلوں میں سے صرف 23 ہدف تک پہنچ سکے اور ائیربیس پر موجود ناقابل استعمال چند طیاروں کو ہی نقصان پہنچا ہے۔

چوتھے مسلمان عرب ملک شام پر حملے کیلئے امریکہ کا بہانہ و جلد بازی:

خان شیخون پر کیمیائی حملے کی بات صرف ایک شوشہ اور بہانہ تھا اور امریکہ ایسے ایک بہانے کی تلاش میں ہی تھا، امریکی جلد بازی کی ایک وجہ یہی تھی کہ اس سے قبل کہ خان شیخون کے کیمیکل حملے کی بین الاقوامی سطح پر مکمل تحقیق ہو جاتی اور حقائق سامنے آتے، امریکہ اور اسکے اتحادیوں کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا، امریکہ نے پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت چوتھے مسلمان عرب ملک پر بمباری کر دی اور افسوس ناک بات یہ ہے کہ اس جارحیت کو ویلکم کرنے والا پہلا ملک سعودی عرب تھا، جس کے بعد اسرائیل اور پھر ترکی۔ عراق، لیبیا اور یمن میں بھی اسی قسم کے بے بنیاد بہانوں سے بمباری کی گئی اور بعد میں حقائق کھل کر سامنے آگئے کہ وہ تمام الزامات جو ان ممالک پر لگائے گئے تھے، سب کے سب جھوٹے اور فقط ان پر حملوں کیلئے تراشے گئے بہانے تھے۔ آج ان تینوں مسلم عرب ممالک کی حالت انتہائی بدتر ہے، امریکی ان حملوں کے بعد امن و سکون کیلئے ان تین مسلم ممالک کی عوام ترس گئے ہیں۔ امریکی جنگ کے سبب عراق میں دس لاکھ سے زائد، لیبیا میں ایک لاکھ سے زیادہ افراد اور ہزاروں افراد یمن میں مارے گئے، جبکہ شام کی عوام دربدر پھر رہی ہے۔

ایئربیس پر حملے کے بعد خود امریکی الزامات پر ہی سوالیہ نشان لگ گیا:

امریکہ نے الشعیرات ایئربیس پر اس الزام کے ساتھ بمباری کی تھی کہ وہاں سے خان شیخون پر کیمیائی حملہ کرنیوالے شامی طیاروں نے اڑان بھری تھی اور وہاں پر ہی ممنوعہ کیمیائی ہتھیاروں کے ذخائر تھے، جنہیں وہ تباہ کرنا چاہتا تھا، تو امریکی حملے کے بعد ان ممنوعہ کیمیکل گیسوں کا اخراج کیوں نہیں ہوا؟ سینکڑوں صحافیوں کہ جنہوں نے اس ایئربیس کا دورہ کیا، کوریج کی، انہیں ان گیسوں نے متاثر کیوں نہیں کیا؟ ان سوالات کا جواب امریکہ اور اسکے اتحادیوں کے پاس نہیں ہے۔ اب کیا یہ ممکن ہے کہ ٹرمپ اس وقت معافی مانگ لے کہ جب خان شیخون پر عالمی تحقیقات سے معلوم ہو جائے کہ کیمیکل استعمال کرنے والے دراصل دہشتگرد ہی تھے، کیا سعودی عرب، ترکی سمیت اسکے دیگر ہمنوا ممالک بھی اپنے کئے پر شرمندہ ہونگے۔؟

شامی فضاء میں امریکہ  کو حاصل تحفظ پر مبنی مفاہمتی یادداشت کا خاتمہ:

روس کی جانب سے اعلان کر دیا گیا کہ اس نے شام کی فضا میں امریکہ کے ساتھ طے ہونے والی اس مفاہمتی یادشت کو ختم کر دیا، جس کے تحت امریکی طیارے شام کی فضاء میں آسانی کے ساتھ پرواز کر سکتے تھے اور انہیں مکمل تحفظ حاصل تھا۔ اس مفاہمتی یاداشت کے خاتمے کے بعد اب روس شام کی فضاء میں ہر قسم کے خطرے کا جواب دے سکتا ہے۔ بات صرف یاد داشت کے خاتمے تک نہیں ہے بلکہ روسی وزارت دفاع نے امریکہ کے ساتھ رابطے کیلئے موجود ہاٹ لائن بھی بند کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔

مسلمان ملک شام پر امریکی حملے پر سعودی عرب کی افسوسناک حمایت:
عرب تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کس قدر دکھ کی بات ہے کہ سعودی عرب مسلم عرب ممالک پر امریکی جارحیت کا سب سے بڑا حامی بن کر سامنے آیا، جیسا کہ اس سے قبل عراق، لیبیا، یمن اور افغانستان میں بھی امریکیوں کا ساتھ دیتے آیا ہے۔ سعودی عرب نے اسلامی ملک شام پر امریکی حملے کی حمایت کرتے ہوئے اسے ”دلیرانہ عمل“ قرار دیا ہے۔ عرب تجزیہ کاروں کے مطابق عرب خطہ اس وقت بری طرح ایک آتش فشاں پر کھڑا ہے، جہاں کچھ بھی ہوسکتا ہے، لیکن جو کچھ بھی ہو، نقصان مسلمانوں اور عربوں کا ہی ہوگا، تباہی ان کے ملکوں میں ہوگی اور دربدری بھی یہ اٹھائینگے، جبکہ اس جنگ کا بل بھی سعودیہ جیسے تیل والے ممالک کو ہی ادا کرنا ہوگا، جو ہمیشہ ایسا کرتے آئے ہیں۔

اگر شام پر امریکی حملے جاری رہے تو:

سنجیدہ عرب ذرائع ابلاغ خاص طور پر لبنانی خبر رساں ادارے ”رای الیوم“ نے امریکی بلاک کے مخالف مقاومتی بلاک (ایران، شام، حزب اللہ) اور انکے اتحادیوں کے انتہائی قریبی ذرائع سے خبر دی ہے کہ انہوں نے امریکی جارحیت سے پہلے ہی اپنی ”جوابی حکمت عملی“ کے بارے میں گفتگو کی تھی اور اس بات پر اتفاق ہوا تھا کہ اس جارحیت کیخلاف مرحلہ وار جواب دیا جائے گا۔ مزاحمتی بلاک نے ممکنہ جارحیت کے حوالے سے متعدد منظر نامے اپنے سامنے رکھے ہوئے تھے، جس کے مطابق اگر اس جارحیت میں فضائی حملے تسلسل کے ساتھ اہم انفرا اسٹرکچر کو اہداف بنانا شروع کرتے ہیں، تو اس صورت میں وہ ”حملہ آور طیاروں کو گراینگے، پائلٹ کو قیدی بنانے کی کوشش کرینگے اور ساتھ ساتھ ادلب اور غوطہ شرقیہ میں زمینی کارروائی کو تیز کرینگے، اس کے ساتھ ساتھ فضائی حملوں کے حجم کے مطابق اسرائیل کے اندر اہداف کو نشانہ بناینگے اور اسرائیل کے ساتھ ایک کھلی جنگ کیلئے بھی تمام تیاری رکھی جائے گی، اگلے مرحلے میں خلیجی اور بحیرہ روم میں امریکی بیڑوں کو نشانہ بنایا جائے گا، جبکہ عراق اور مشرق وسطٰی میں موجود امریکی افواج کیلئے بھی حالات خراب کر دیئے جائیں گے۔

امریکی جارحیت کے بعد شام، روس، ایران اور انکے اتحادیوں کا مشترکہ کنٹرول روم قائم، اہم پالیسی بیان جاری:

اتحادیوں نے مشترکہ کنٹرول روم قائم کرنے کے بعد جو اہم پالیسی بیان دیا ہے، اس میں ان کا کہنا ہے کہ امریکہ جو کچھ شام اور عراق میں کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، ہم اس سے غافل نہیں اور انکے ہر اقدام اور حرکتوں کو نزدیک سے گہرائی کے ساتھ دیکھ رہے ہیں، شام پر امریکی حملے نے تمام ریڈ لائن عبور کر لی ہیں، اب اگر امریکی جارحیت ہوئی تو اسکا بھرپور جواب دیا جائے گا اور امریکہ دفاع کرنے کی ہماری طاقت سے اچھی طرح آگاہ ہے، روس اور ایران امریکہ کو اجازت نہیں دیں گے کہ وہ دنیا پر تسلط قائم کرے، ہم امریکہ کے مدمقابل کھڑے ہونگے، امریکی جارحیت کے بعد ہر ممکن طریقوں سے شام کی فوج اور عوام کی بھرپور امداد میں اضافہ کریں گے۔

دلچسپ ترین نکتہ:
امریکی بحریہ کیجانب سے شام پر فائر کئے جانیوالے 59 میں سے 36 میزائل کہاں چلے گئے۔؟

آخر اس قدر بڑی تعداد کے میزائل ائیرپورٹ تک کو تباہ نہ کرسکے، کیوں؟ اس میں کس قدر سچائی ہے کہ ان میں سے بہت سے میزائل بحیرہ روم میں ہی گرگئے تھے؟ جرمن ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ شام کے ائیربیس پر امریکی حملے کے بارے میں دقیق تحقیقات اس بات کو ظاہر کرتیں ہیں کہ یہ بات صحیح ہے کہ امریکیوں نے ساٹھ کے قریب میزائل فائر کئے تھے، لیکن دوسری جانب الشعیرات ائیربیس کو بھی کسی قسم کا سنگین نقصان نہیں پہنچا تھا کہ صرف چند گھنٹوں بعد ہی طیاروں نے اس ائیرپورٹ سے پروازیں شروع کر دیں، جس کا کم از کم مطلب یہ نکلتا ہے کہ ائیر بیس کا ”رن وے“ تک محفوط تھا، یہی وہ چیز ہے، جو امریکیوں کی بیان کردہ کہانی کو جھٹلاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ امریکی ٹوماہاک کروز میزائلوں نے پھر کس چیز کو نشانہ بنایا اور وہ آخر گئے کہاں؟ امریکی ریاست ٹیکساس میں قائم Ferrell Center میں جرمنی سے تعلق رکھنے والے الیکٹرانک ڈیفنس کے ایک ماہر کا کہنا ہے کہ ”ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ روس نے الیکٹرانک وار فیئر اور برقناطیسی لہروں کے ذریعے ان میزائلوں کو گمراہ کر دیا، جس کے سبب بہت سے ٹوماہاک میزائل بحیرہ روم میں ہی گرگئے۔

اس جرمن ماہر کا کہنا ہے کہ شام میں اس وقت روس کے پاس دنیا کے سب سے بہترین الیکٹرانک وار فیئر سسٹم میں سے ایک نیا سسٹم (Krasuha4) موجود ہے، جس نے ماضی میں امریکی طیاروں کو بھی کنفیوژ کیا تھا اور یہ دنیا کا سب سے اچھا سسٹم ہے۔ جرمن ماہر کے مطابق امریکہ نے جو ٹوماہاک میزائل استعمال کئے تھے، وہ TLAM/D نامی سسٹم کے حامل تھے اور اس میزائل میں 166 کلسٹر بم ہوا کرتے ہیں اور ایسے میزائل عام طور پر کنکریٹ سے بنے بنکرز اور طیاروں کی پناہ گاہوں وغیرہ کیلئے استعمال کئے جاتے ہیں۔ روسی الیکڑانک وار فئیر نے ان میزائلوں کے GPS سسٹم کو بند کر دیا ہوگا اور یوں یہ میزائل اپنی گائیڈ لائن کے بارے میں مکمل اندھے ہوگئے۔ جرمن ماہر کا یہ بھی کہنا تھا کہ روسی الیکٹرانک وار فئیر سسٹم نے امریکی ٹوماہاک میزائلوں کے آگے ایسے جھوٹے اہداف (Fake targets) گڑھ لئے کہ جس کے سبب امریکہ یہ سمجھ بیٹھا کہ انہوں نے ٹارگٹ حاصل کر لیا ہے۔ جرمن ماہر کا یہ بھی کہنا تھا کہ جس کسی کے پاس Krasuha4 جیسا سسٹم ہو، وہ ٹوماہاک میزائلوں کو مکھی کی طرح پکڑ سکتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 627227
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

عرفان علی
Pakistan
سلام۔ واہ واہ جناب ظفر صاحب کو بھی میدان میں آنا ہی پڑا۔ زبردست۔ بہت بہت شکریہ
حیدر ظفر
سلام، استاد و دانشور محترم آقائے عرفان، حوصلہ افزائی کیلئے انتہائی شکر گزار ہوں۔ یہ تو بس ایک جمع آوری ہے، نہ کہ کوئی تحریر۔ امید ہے کہ اصلاح فرمائیں گے۔
والسلام
ظفر حیدر
’’شعیب بن صالح‘‘ بھی تو ’’میدان‘‘ میں آگئے ہیں نا، آغا
امیر
اچھی معلومات ہیں۔
عرفان علی
Pakistan
مفت میں ہمیں بدنام کیا، یعنی استاد اور دانشور کہہ کر
البتہ بندہ ممنون اس بات پر کہ آپ نے اس موضوع پر لکھا
ہماری پیشکش