0
Thursday 13 Apr 2017 07:53

ولایتِ فقیہ

ولایتِ فقیہ
تحریر: رضوان حیدر نقوی

مشکل اور پیچیدہ ترین علمی اور فکری مسائل کو اگر آسان، عام فہم اور واضح و روشن بیان  کیا جائے تو یہ علمی اور فکری موضوعات سب کے لئے قابل فہم اور قابل قبول ہوں گے۔ ولایت فقیہ بھی ان موضوعات میں سے ایک ہے۔
جس کے بارے میں حضرت امام خمینی ؒ فرماتے ہیں:
ولایت فقیہ ایک ایسا موضوع ہے، جس کا تصور اس کی تصدیق کا موجب ہے۔ اس کے لئے کسی دلیل اور برہان کی ضرورت نہیں، اس معنٰی میں کہ جس نے عقائد اور احکامِ اسلامی کو سمجھ لیا خواہ اجمالاً ہی کیوں نہ سمجھا ہو، جب وہ ولایت فقیہ کا تصور کرتا ہے تو فوراً اس کی تصدیق کرتا ہے اور اس کو بدیہی (واضح و روشن) سمجھتا ہے۔[1] ظہورِ اسلام کا مقصد، انسان کو ہر قسم کی ذلت و غلامی سے نجات دینا اور بشریت کے درمیان "عدل و انصاف" کا قیام ہے۔ اس کے علاوہ نہ فقط انسان کی مادی و دنیاوی ضروریات کو پورا کرنا بلکہ روحانی و معنوی ضروریات کا کمال اور انسانی معاشروں کو "اخلاق اور عدل و انصاف" کی بنیاد پر قائم کرنا ہے اور یہ حکومتِ اسلامی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

اسی لئے رسول اکرم صلّی اللہ علیہ و آلہ وسلم  نے بھی ہجرت کے بعد، مدینہ میں حکومت تشکیل دی اور ہمارے ائمہ معصومین علیہم السلام  کی اپنی زندگیوں میں بھی یہی کوشش رہی ہے، تاکہ بشریت کی ہدایت و رہبری کی جاسکے۔ انسانوں کی ایک اہم ضروریات میں سے نیک اور صالح رہبر کا ہونا ہے، تاکہ اس کی پیروی کرکے سعادت تک پہنچا جاسکے۔ یہ ایک ایسی بات ہے، جس کو دنیا کے تمام عاقل افراد قبول کرتے اور ضروری سمجھتے ہیں، کیونکہ معاشرے میں رہبر کے بغیر نہ صرف اتحاد و وحدت قائم نہیں ہوتی بلکہ معاشرہ ترقی اور سعادت تک بھی نہیں پہنچ سکتا۔ اہل تشیع کے نظریہ کے مطابق یہ مقام و منصب سب سے پہلے انبیاء علیہم السلام اور ائمہ معصومین علیہم السلام کے ساتھ مخصوص ہے، جو خداوند متعال کی طرف سے اس اہم ذمہ داری کے لئے منتخب ہوئے ہیں۔ لیکن عصرِ غیبت میں جبکہ ہماری دسترس امامِ معصوم علیہ السلام  تک ممکن نہیں ہے تو یہ مسئولیت اور ذمہ داری عادل فقہاء کو سونپی گئی ہے۔ بنابریں عصرِ غیبت میں جامع الشرائط مجتہد "ولی فقیہ" کے عنوان سے اسلامی معاشرے کی ولایت اور رہبری کے عہدے کا ذمہ دار ہے۔

امام صادق علیہ السلام  فرماتے ہیں:
جب بھی فقیہ ہمارے حکم کی بنیاد پر حکم کرے تو اگر کوئی اس کے حکم کی پیروی نہ کرے تو اس نے خدا کے حکم کو ٹھکرایا ہے اور ہماری مخالفت کی ہے اور جس نے ہماری مخالفت کی، اس نے خدا کی مخالفت کی ہے، جو شرک کے برابر ہے۔[2]  امام خمینی ؒ کی رہبری میں انقلابِ اسلامی کی کامیابی کے بعد، کچھ ایسی اصطلاحات اور موضوعات عوام کے درمیان رائج ہوئے، جو اس سے پہلے رائج نہیں تھے۔ مثلاً "ولایت فقیہ" اور "خبرگان" وغیرہ کہ جن کی اساس اور بنیاد، اسلام اور قرآن کریم ہے۔ بعض لوگ اس بارے میں غلط تصور رکھتے تھے کہ یہ اصطلاحات انقلاب سے پہلے موجود نہیں تھیں اور انقلاب ان اصطلاحات کو وجود میں لایا ہے۔ حالانکہ "ولایت فقیہ" انقلاب کو وجود میں لانے کا سبب بنا اور ایران میں انقلابِ اسلامی کی کامیابی کا اصلی سبب عوام کا ولایت فقیہ اور مراجع تقلید پر اعتماد تھا۔ اگر دیندار لوگوں کا ولایت فقیہ پر اعتماد نہ ہوتا تو یہ انقلاب بھی کامیاب نہ ہوتا۔

حضرت امام خمینیؒ فرماتے ہیں:
ولایت فقیہ کوئی جدید چیز نہیں ہے کہ جسے ہم نے ایجاد کیا ہو، بلکہ یہ موضوع ابتدا سے ہی موردِ بحث رہا ہے۔ آیت اللہ العظمٰی مرزا شیرازی کا تمباکو کی حرمت کے بارے میں حکم، کیونکہ حکمِ حکومتی تھا، اس لئے تمام علماء اکرام نے بھی اس حکم کی پیروی کی۔ یہ موضوع (ولایت فقیہ) کوئی نئی چیز نہیں ہے۔[3] اسلامی جمہوریہ ایران میں "ولایت فقیہ" اہم  ترین اور بنیادی ترین منصب ہے، یا دوسرے لفظوں میں انقلاب کا ستون اور شیعہ فقہ کے مسلمہ امور میں سے ہے۔ امام خمینیؒ کی رہبری میں انقلابِ اسلامی ایران کی کامیابی نے "ولایت فقیہ" کو قانونی حیثیت بخشی اور بالآخر "ولایت مطلقہ فقیہ" اسلامی جمہوریہ ایران کے سیاسی نظام کی اساس اور بنیاد قرار پائی۔

حضرت امام خمینیؒ نے فرمایا:
ولایت فقیہ، ولایت رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہے، یہ کوئی نئی چیز نہیں کہ جسے مجلسِ خبرگان نے ایجاد کیا ہو۔ ولایتِ فقیہ ایسا موضوع ہے، جو خدا کی طرف سے ہے۔ یہ وہی ولایت ِرسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلم  ہے۔ یہ لوگ ولایت رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بھی خوفزدہ ہیں۔ خدا نے "ولی فقیہ" کو ولی امر قرار دیا ہے۔[4]

مرحوم آیت اللہ نراقی اپنی کتاب عوائد الایام میں فرماتے ہیں:
ولایت ایک خدادادی منصب ہے، جو عوام کی دخالت کے بغیر خدا کی طرف سے فقہاء کو عطا کیا گیا ہے۔ چاہے فقہاء اس پر راضی ہوں یا نہ، چاہے اس کو عملی جامہ پہنا سکیں یا نہ، چاہے عوام اس کو قبول کریں یا نہ، احادیث اس پر دلالت کرتی ہیں کہ وہ تمام اختیارات جو رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو حاصل تھے، عادل فقہاء کو بھی حاصل ہیں۔[5]

علماء اور فقہاء، ائمہ طاہرین علیہم السلام سے قریب ترین افراد:
معاشرے میں قانون ساز وہ ہوسکتا ہے، جو معاشرے کے بارے میں جامع اور کامل اطلاع رکھتا ہو، جو خدا کے علاوہ کوئی نہیں ہے۔ پس قانون، خدا کا حق ہے۔ خدا نے اپنے اس قانون کو  اولیاء کے ذریعے سے ہم تک پہنچایا ہے۔ ولایت فقیہ یہی ہے۔ ولایت فقیہ یعنی اولیائے خدا کی حکومت۔ جس میں پہلے نمبر پر رسولِ خدا صلّی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہیں، اس کے بعد ائمہ معصومین علیہم السلام اور ائمہ معصومین علیہم السلام نے ہمیں بتایا ہے، اب جبکہ آپ لوگوں کی دسترس امامِ معصوم علیہ السلام تک نہیں ہے تو کون امامِ معصوم علیہ السلام کے نزدیک ترین ہے۔ وہ جو علمِ امام رکھتا ہے اور وہ مراجع تقلید ہیں، اگرچہ معصوم نہیں ہیں، لیکن عصمت کے نزدیک ترین مقام "عدالت" ہے، جو مراجع  عظام کی شرائط میں سے ہے۔ خلاصہ کلام یہ کہ مکتبِ اہل بیت علیہم السلام کے مطابق نظریہ ولایت فقیہ ہی اسلام کا حقیقی سیاسی نظریہ ہے، جس کو ائمہ معصومین علیہم السلام نے غیبت کبریٰ میں مسلمانوں کی دینی اور سیاسی راہنمائی کے لئے بیان فرمایا ہے کہ جس پر بہت ساری روایات اہل بیت علیہم السلام دلالت کرتی ہیں۔ نظریہ ولایت فقیہ کو موجودہ زمانے میں امام خمینی ؒ نے عملی جامہ پہنایا، جو ایران کے اسلامی انقلاب کے بعد دنیا کی توجہ کا مرکز بنا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1]۔ مقدمہ کتاب حکومت اسلامی، امام خمینی ؒ
[2] ۔ اصول کافی، جلد ۱، صفحہ ۶۷
[3]۔ حکومت اسلامی، امام خمینی ؒ صفحہ ۱۲۴
[4]۔ صحیفہ نور، امام خمینی ؒ، جلد ۱۱، صفحہ ۲۶ و ۱۳۳
[5]۔ احمد نراقی، عوائد الایام، صفحہ ۱۸۸
منابع:
1) اصول کافی
2) حکومت اسلامی، امام خمینی ؒ
3) صحیفہ نور، امام خمینی ؒ
4) حکومت اسلامی و ولایت فقیہ، آیت اللہ مصباح یزدی
5) عوائد الایام، احمد نراقی
خبر کا کوڈ : 627280
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش