0
Wednesday 26 Apr 2017 19:12

پانامہ لیکس، تہلکہ خیز انکشافات سے جے آئی ٹی کے فیصلے تک

پانامہ لیکس، تہلکہ خیز انکشافات سے جے آئی ٹی کے فیصلے تک
رپورٹ: ٹی ایچ بلوچ

پانامہ لیکس کے تہلکہ خیز انکشافات کو ایک سال اور کچھ دن کا عرصہ گزر چکا ہے، 4 اپریل 2016ء کو پانامہ لیکس میں دنیا کے 12 سربراہان مملکت کے ساتھ ساتھ 143 سیاست دانوں اور نامور شخصیات کے نام سامنے آئے، جنہوں نے ٹیکسوں سے بچنے اور کالے دھن کو بیرونِ ملک قائم بے نام کمپنیوں میں منتقل کیا۔ انکشافات میں پاکستانی سیاست دانوں کی بھی بیرون ملک آف شور کمپنیوں اور فلیٹس کا انکشاف ہوا تھا، جن میں وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف کا خاندان بھی شامل ہے۔ وزیراعظم میاں نواز شریف کے بیٹوں حسین نواز اور حسن نواز کے علاوہ بیٹی مریم صفدر کا نام بھی پاناما لیکس کے متاثرین شامل تھا۔ قوم سے خطاب اور قومی اسمبلی میں وزیراعظم نے اپنی جائیدادوں کی وضاحت پیش کی، تاہم معاملہ ختم نہ ہوا اور پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان، جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کی جانب سے وزیراعظم کو نااہل قرار دینے کے لئے علیحدہ علیحدہ تین درخواستیں دائر کی گئیں، جنہیں سماعت کے لئے منظور کر لیا گیا۔ کیس کی سماعت کے لئے چیف جسٹس کی سربراہی میں بینچ تشکیل دیا گیا، تاہم سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی ریٹائرمنٹ کی وجہ سے بینچ ختم ہوگیا اور چیف جسٹس نے تمام سماعتوں کی کارروائی بند کرتے ہوئے نئے چیف جسٹس کے لئے مقدمہ چھوڑ دیا۔

نئے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ بنے، جنہوں نے کیس کی از سر نو سماعت کی اور 23 فروری کو فیصلہ محفوظ کر لیا، جو کہ 20 اپریل کو 57 روز بعد سنایا۔ عدالت نے کیس کی مزید تحقیقات کے لئے جے آئی ٹی تشکیل دینے کا حکم دیا ہے، وزیراعظم اور ان کے بچے ٹیم کے سامنے پیش ہوکر سوالات کے جوابات دیں گے۔ فیصلہ سنائے جانے کے موقع پر نون لیگ، پی ٹی آئی، جماعت اسلامی، عوامی مسلم لیگ کی قیادت موجود تھی۔ پاناما کیس کا یہ تاریخ ساز فیصلہ 547 صفحات پر مشتمل ہے، فیصلے کا تناسب 3:2 ہے، یعنی تین ججز ایک جانب جبکہ دو ججز دوسری جانب ہیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس اعجاز افضل الگ رائے رکھتے ہیں، جبکہ جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس عظمت سعید شیخ اور جسٹس گلزار دوسری جانب ہیں۔ عدالت نے اس کیس پر جوائنٹ انویسٹی گیشن کمیشن بنانے کا حکم دے دیا۔ عدالت عظمٰی کے لارجر بنچ میں سے دو ججز جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس اعجاز افضل نے وزیراعظم کو صادق اور امین کی صف سے باہر کرتے ہوئے انہیں نااہل قرار دیا، تاہم جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس عظمت سعید شیخ اور جسٹس گلزار نے وزیراعظم اور ان کے بچوں کے خلاف جے آئی ٹی کے تحت تحقیقات کا حکم دیا۔ عدالتِ عظمٰی نے اپنے فیصلے میں رقم قطر جانے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم تشکیل دینے کا حکم دیا ہے، جے آئی ٹی میں نیب، آئی ایس آئی، ایم آئی، ایف آئی اے اور سکیورٹی ایکسچینج کے نمائندے شامل ہوں گے۔ حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف اور ان کے فرزند حسن اور حسین نواز جے آئی ٹی کے روبرو پیش ہوں گے۔ عدالت نے یہ بھی کہا ہے کہ جے آئی ٹی ہر دو ہفتے بعد بنچ کو رپورٹ پیش کرے گی اور 60 دن کے اندر مکمل تحقیقات عدالت کے سامنے پیش کی جائے گی۔ فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ چیئرمین نیب اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

گاڈ فادر ناول کا تذکرہ:

سپریم کورٹ کی جانب سے جاری کردہ فیصلے میں 1969ء میں شائع ہونے والے ناول "گاڈ فادر" کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے۔ یہ ناول ایک اطالوی مافیا باس کی زندگی پر مبنی ہے، جس کے پاس اس قدر غیر قانونی دولت تھی کہ اس کے کرنسی نوٹس باندھنے کے لئے ہر ماہ ڈھائی ہزار ڈالر کی ربربینڈ آتی تھی۔ اس کی موت کے بعد جب اس کی غیر قانونی دولت کا تخمینہ لگایا گیا تو اداروں کے حساب سے اس کی ہفتہ وار کمائی 400 ملین ڈالر سے زیادہ تھی، تاہم اسکے بیٹے نے ایک انٹرویو میں کہا کہ ادارے اس رقم کے ایک فیصد کا بھی اندازہ نہیں لگا سکے، جو پابلو اسکوبار کوکین کی اسمگلنگ سے کماتا تھا۔ عدالت کے فیصلے میں ناول سے اقتباس لیا گیا ہے کہ ہر عظیم خزانے کے پیچھے کوئی جرم ہوتا ہے۔ سپریم کورٹ نے وزیراعظم نواز شریف سے تحقیقات کے لئے جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیا ہے اور کچھ سوالات کے جوابات مانگے ہیں، وہ سوالات یہ ہیں۔ گلف اسٹیل کیسے بنی۔؟ گلف اسٹیل کیوں فروخت ہوئی، اس کے واجبات کا کیا ہوا۔؟ گلف اسٹیل کی فروخت کی آمدنی کہاں خرچ ہوئی۔؟ گلف اسٹیل کی آمدنی جدہ، قطر اور پھر لندن کیسے پہنچی۔؟ کیا حسن نواز اور حسین نواز 90ء کے آغاز میں لندن کے فلیٹس خریدنے کی عمر تک پہنچ چکے تھے۔؟ حمد بن جاسم کا اچانک پیش ہونے والا خط ایک حقیقت ہے یا خیالی بات۔؟ بیریئر شیئرز کو کس طرح لندن کے فلیٹس میں تبدیل کیا گیا۔؟

نیلسن انٹر پرائز اور نیس کول کے اصل اور بینیفیشل مالکان کون ہیں۔؟ حسین نواز کی کمپنیوں کے لئے سرمایہ کہاں سے آیا۔؟ وزیراعظم نواز شریف کو تحفہ دینے کی رقم حسن نواز کے پاس کہاں سے آئی۔؟ فلیگ شپ انویسٹمنٹ اور دیگر کمپنیوں کا سرمایہ کہاں سے آیا۔؟ ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ کس طرح قائم کی گئی۔؟ وزیراعظم نواز شریف کو کروڑوں روپے مالیت کے تحفہ دینے کی رقم حسن نواز کے پاس کہاں سے آئی۔؟ واضح رہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے پاناما کیس کے فیصلے میں وزیراعظم سے تحقیقات کے لئے جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیا ہے۔ جے آئی ٹی کے آزادانہ طور پر کام کرنے کے حوالے سے واضح رہے کہ وزیراعظم جے آئی ٹی کے سامنے بطور ملزم کھڑے ہوں گے اور اس سے قبل کبھی ایسا نہیں ہوا کہ وزیراعظم کو جے آئی ٹی کے روبرو پیش ہونا پڑا ہو۔ جے آئی ٹی میں نامی گرامی مجرم کھڑے ہوتے ہیں، جیسے اجمل پہاڑی اور کامران مادھوری وغیرہ جنہوں نے سو سو قتل کئے ہوتے ہیں، اس لئے وزیراعظم کو سوچنا چاہیے کہ اب وہ کن مجرموں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ نیب چیئرمین پر تو عدالت کو اعتماد ہی نہیں، اس لئے جے آئی ٹی میں ایف آئی اے کے ڈائریکٹر لیول کا افسر بھی شامل ہوگا اور ساتھ ہی ایم آئی اور آئی ایس آئی سمیت اہم اداروں کے اعلٰی افسران بھی شامل ہوں گے۔

جے آئی ٹی کیا ہے اور کیسے تحقیقات کرتی ہے؟
پاناما کیس میں سپریم کورٹ نے مقدمے کی مزید تحقیقات کے لئے جے آئی ٹی تشکیل دینے کا حکم دیا ہے، جوائنٹ انٹیروگیشن ٹیم مختلف زاویوں سے تحقیقات کرکے رپورٹ عدالت عالیہ میں جمع کروائے گی۔ جے آئی ٹی Joint Interogation Team (مشترکہ تحقیقاتی ٹیم) کا قیام اُس وقت عمل میں لایا جاتا ہے، جب کسی دہشت گرد سے تحقیقات کرنی ہو، اس ٹیم میں ملک کی مختلف ایجنسیوں کے لوگ اور متعلقہ تفتیشی اداروں کو شامل کیا جاتا ہے۔ مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی کے قیام کی منظوری مخصوص وقت کے لئے وزارتِ داخلہ کی جانب سے دی جاتی ہے اور اس کا باقاعدہ نوٹی فکیشن بھی جاری کیا جاتا ہے، رپورٹ حساسیت کو برقرار رکھنے کے لئے انٹیلی جنس افسران کے نام خفیہ رکھے جاتے ہیں اور مختلف کلرز کو بطور کوڈ استعمال کیا جاتا ہے۔ زارتِ داخلہ کی منظوری کے بعد دہشت گردی کے مقدمے میں نامزد ملزم سے قانون نافذ کرنے والے اور تفتیشی ادارے مختلف زاویوں سے سوال کرتے ہیں اور اُس کے جوابات کو اکٹھا کرکے ایک رپورٹ مرتب کرتے ہیں۔ عالمی اور ملکی قوانین کے تحت قانون کی بنائی جانے والی مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی مقررہ مدت کے بعد اپنی رپورٹ جمع کروانے کی پابند ہوتی ہے اور اُس کے بعد یہ کسی اہمیت کی حامل نہیں ہوتی۔

جے آئی ٹی نامزد ملزم سے سوالات کرکے مقدمے کے شواہد جمع کرتی ہے، تاہم یہ یاد رہے کہ عدالت صرف اس کی رپورٹ پر انحصار نہیں کرتی بلکہ ملزم کا جج کے روبرو جرم کا اعتراف کرنا بھی ضروری ہوتا ہے، ایسا نہ کرنے کی صورت میں تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ بے معنی تصور کی جاتی ہے۔ ٹیم میں نامزد ہونے والے افسران پابند ہوتے ہیں کہ وہ دوران تفتیش کوئی بات کسی فریق سے نہیں کریں گے۔ وزیراعظم سے تحقیقات کرنے والی ٹیم میں کون کون سے محکمے میں شامل ہوں گے، جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم میں چوہدری نثار کے ماتحت ایف آئی اے شامل ہوگی۔ ایف آئی اے کا ایڈیشنل ڈائریکٹر اس جے آئی ٹی کا سربراہ ہوگا۔ اسحاق ڈار کے ماتحت ادارے ایف بی آر، سکیورٹی ایکس چینج، اسٹیٹ بینک، آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس کے نمائندے جے آئی ٹی میں شامل ہوں گے۔ یاد رہے کراچی آپریشن کے دوران کئی ملزمان کی جے آئی ٹیز منظر عام پر آئیں، جن میں سے کچھ کے ملزمان جج کے سامنے رپورٹ سے انکاری ہوگئے اور انہوں نے اسے جھوٹ قرار دیا یا پھر بیان کی وجہ دوران حراست جبر و تشدد بتایا۔ قبل ازیں سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تحقیقات کے لئے بھی جے آئی ٹی تشکیل دی گئی تھی، جس میں رانا ثناء اللہ اور شہباز شریف کو نامزد قرار دیا گیا تھا، تاہم عدالت میں رپورٹ جمع ہونے کے بعد دونوں افراد کو بے قصور قرار دیا۔
خبر کا کوڈ : 630988
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش