QR CodeQR Code

پنجاب میں گڈ گورننس کے بے بنیاد دعوے

28 Apr 2017 22:38

رجسٹریشن فیس کی مد میں پنجاب حکومت کو دو سال کے دوران ایک ارب بیس کروڑ چالیس لاکھ روپے ریونیو اکٹھا ہوا۔ سرکاری اعدادو شمار کے مطابق نیشنل ایکشن پلان کے تحت پنجاب حکومت کی جانب سے سال 2015ء میں صوبے میں 17 لاکھ سے زائد اسلحہ لائسنسوں کی نادرا کے ذریعے کمپیوٹرائزیشن کرانے کے لئے احکامات دیے گئے۔ محکمہ داخلہ نے دو سال کے دوران صرف 8 لاکھ اسلحہ لائسنسوں کی کمپیوٹرائزیشن کا عمل مکمل کیا ہے جبکہ 9 لاکھ سے زائد اسلحہ لائسنسوں کی کمپیوٹرائزیشن کا عمل مکمل نہیں ہو سکا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ نادرا کے ذریعے اسلحہ لائسنس کی کمپیوٹرائزیشن کے لئے مقرر کردہ 1400 روپے فیس میں سے فی اسلحہ لائسنس 150 روپے پنجاب حکومت کے خرانے میں جاتے ہیں اور ساڑھے بارہ سو روپے نادرا وصول کرتی ہے جس کی مد میں سال 2015ء سے اب تک پنجاب حکومت کے خرانے میں اسلحہ لائسنس کی کمپیوٹرائزیشن کی مد میں 12 کروڑ روپے سے زائد کی رقم جبکہ نادرا کے اکاؤنٹ میں 1 ارب آٹھ کروڑ روپے گئے ہیں۔


رپورٹ: ٹی ایچ بلوچ

وطنِ عزیز میں مسائل کے انبار، عوام کے لئے تکلیفیں بے شُمار ہیں۔ حکومتِ وقت کی توجہ بہت ضروری ہے، تاکہ وہ عام افراد کو کوئی ریلیف دے سکیں۔ جنرل الیکشنز کا بڑا شور ہے، اگر اپوزیشن چاہے تو اپنےانتخابی منشور کا حصہ بھی بناسکتی ہے۔ اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ کون کون سے مسئلے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کیا یہ حل ہوسکتے ہیں؟ بڑھتی آبادی ایک بڑا چیلنج ہے۔ ابھی سے نہ بسوں میں جگہ نہ روڈ پر، سڑک پر چلو تو اتنے کاندھے دکھائی دیتے ہیں کہ شانے سے شانہ ملاکر ملکی ترقی کے خواب میں حقیقت کا رنگ بھرنے کا گماں ہوتا ہے۔ ایشین ٹائیگر بننا ایک بڑا سپنا، لیکن اگر شیر کو کچھ کھانے کو ہوگا تو اس کی بادشاہت قائم ہوگی، ورنہ پاکستانی چڑیا گھروں کے شہنشاہ والی حالت ہو جائے گی۔ اس مسئلےکے حل کے لئے بہت سا پیسہ درکار ہے، لیکن اس کی وجہ فقط وسائل کی منصفانہ تقسیم اور غیر عادلانہ نظام ہے، حل صرف عدل و انصاف اور کرپشن کا خاتمہ ہے۔

 انتہاپسندی یا شدت پسندی دوسرے مسائل کو بھی جنم دے رہی ہے اور خود بھی مسئلہ ہے۔ اس میں کمی کے لئے تعلیم کا فروغ انتہائی ضروری ہے، لیکن ہمارے حکمراں طبقے کو تعلیم سےشدید چڑ ہے، اسی لیئ اسکولز کو اصطبل، اوطاق اور بیٹھک میں بدل دینا، ان کا محبوب مشغلہ ہے۔ ویسےبھی جس ملک کے وزیر تعلیم کو قرآن پاک کے سپاروں کا علم نہ ہو، وفاقی وزیر داخلہ کو سورہ اخلاص نہ آتی ہو، وہاں صاف ظاہر ہے کہ تعلیم نے بحیثیت قوم ہمارا کچھ زیادہ نہیں بگاڑا۔ اس لئے اس سے بھی کوئی خاص فائدہ نہیں ہونے والا، کسی اور مسئلے کا بیڑہ اٹھاتے ہیں۔

اقربا پروری اور موروثی سیاست کئی مسائل کی جڑ ہے۔ نئی نسل میں سب سے زیادہ مایوسی اس وجہ سے ہے کہ مڈل کلاس اور غربت کے مارے خاندانوں کی سیاست میں کوئی جگہ نہیں۔ حکومتی وزراء لہک لہک کر حکمراں خاندان کا دفاع کرتے ہیں، یہی حال اپوزیشن کا بھی ہے، سیاہ کو سفید اور غلط کو صحیح ثابت کرنے میں انہیں بھی ملکہ حاصل ہے۔ حکومت اور حزب اختلاف ایک دوسرے پر الزام دھرتے رہیں گے، اس لئے اس پرابلم سے بھی جان چھوٹنے والی نہیں۔ صحت کا معاملہ بھی ایجنڈے پر ٹاپ پوزیشن پاسکتا ہے، صحت کا معاملہ تو اس سے بھی خراب ہے، ینگ ڈاکٹرز کہ دبنگ ڈاکٹرز، مریضوں کو نہ انجکشن لگاتےہیں نہ دوا دیتے ہیں۔ صاف پانی ہو یا غذا کا معیار، بہتری لانے پر کوئی تیار نہیں۔ خاندانی نظام کی تباہی یا ملازمتیں نہ ملنے کی دہائی، امن، سکون ہے نہ چین۔ کرپشن نے تو ہر محکمے اور ہر علاقے کا برا حال کر دیا ہے۔ سب سے زیادہ گڈ گورنینس کے دعوے کرنیوالے پنجاب کا کوئی ضلع کرپشن نہ روک سکا، لاہور، راولپنڈی، فیصل آباد آخری نمبروں پر ہیں۔ جبکہ لودھراں، حافظ آباد، وہاڑی، اوکاڑہ، گجرات، ڈی جی خان، نارووال، خوشاب اور اٹک 80 فیصد تک کارکردگی بہتر بنا سکے ہیں۔ ہسپتال بہتر بنانے میں لاہور 300 میں 92.48 نمبر حاصل کر سکا۔

پنجاب میں کوئی بھی ضلع کرپشن روکنے، ہسپتالوں کی ایمرجنسی میں حالات بہتر بنانے سمیت کوآرڈی نیشن بہتر بنانے میں کامیاب نہ ہوسکا۔ حکومت پنجاب کی طرف سے جاری کی گئی ریکنگ کے مطابق سب سے زیادہ فنڈز حاصل کرنے والے لاہور، راولپنڈی، فیصل آباد سمیت بڑے اضلاع کی کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی۔ پنجاب کا کوئی بھی ضلع دئیے گئے ٹارگٹ کو پورا نہ کرسکا۔ لاہور، راولپنڈی، فیصل آباد کے اضلاع رینکنگ میں 20 فیصد سے 38 فیصد کیساتھ آخری نمبروں پر رہے۔ سب سے بہتر کارکردگی دکھانے والے اضلاع بھی 80 فیصد تک کارکردگی بہتر بنا سکے، جن میں لودھراں، حافظ آباد، وہاڑی، اوکاڑہ، گجرات، ڈی جی خان، نارووال، خوشاب اور اٹک کے اضلاع شامل ہیں۔ سرکاری رپورٹ کے مطابق ریونیو اور ہیلتھ میں لاہور 1500 نمبروں میں سے صرف 645 نمبر حاصل کر سکا، ہسپتالوں میں ایمرجنسی حالات کو بہتر بنانے میں لاہور 300 میں سے صرف 92.48 نمبر حاصل کر سکا، ریونیوو ہیلتھ میں 1500 میں سے راولپنڈی 445.23 جبکہ فیصل آباد 615.60 نمبر حاصل کرسکا اور ملتان 1500 نمبروں میں سے 1039.24 نمبر حاصل کر سکا۔

ڈومیسائل سے متعلق معاملات میں 300 میں سے لاہور 37.96 نمبر حاصل کر سکا، پراپرٹی سے متعلق معاملات میں 300 میں سے لاہور 136.78 نمبر حاصل کر سکا، لینڈ ریکارڈ مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم میں لاہور کی کارکردگی دیگر شہریوں کی نسبت 29 ویں نمبر پر رہی ہے۔ چیف سیکرٹری پنجاب کو سٹیزن فیڈ بیک مانیٹرنگ پروگرام کے تحت حکومت پنجاب کی جانب سے تیار کردہ رپورٹ پیش کی گئی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ سابق ڈی سی اوز کی جانب سے معاملات کو سنجیدہ ہی نہ لیا گیا۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ ریونیو اور ہیلتھ سے متعلق سہولیات کی فراہمی، کرپشن کے خاتمے سمیت دیگر معاملات میں کس حد تک بہتری آئی۔ اس حوالے سے جو رپورٹ پیش کی گئی ہے، اس کے مطابق کل 1500 نمبر رکھے گئے تھے، لیکن ان میں راولپنڈی 445.23، فیصل آباد 615.60، لاہور 645.40، گوجرانوالہ 894.52 اور ملتان 1039.24 نمبر حاصل کر سکے۔ ریونیو ڈیپارٹمنٹ میں سرکاری محکموں کی کیا صورتحال رہی ہے، اس حوالے سے ڈومیسائل میں کرپشن کے خاتمے، معاملات کو بہتر بنانے کے لئے کس حد تک اقدامات کئے گئے، اس میں کل 300نمبر رکھے گئے تھے۔ جبکہ لاہور سب سے آخری نمبر پر رہا اور 37.96 نمبر حاصل کر سکا۔

جبکہ ملتان 178.27، فیصل آباد 178.28، راولپنڈی 181.12 اور گوجرانوالہ 191.12 نمبر حاصل کر سکا ہے۔ پراپرٹی میں کرپشن و دیگر غیر قانونی معاملات کی روک تھام اور مسائل حل کرنے کے لئے کس حد تک کام کیا گیا، اس میں کل 300 نمبر رکھے گئے تھے۔ روالپنڈی 55.08، لاہور 136.78، فیصل آباد 176.56، ملتان 215.31 اور گوجرانوالہ صرف 240.30 نمبر حاصل کر سکا۔ ہسپتالوں میں ایمرجنسی حالات کو بہتر بنانے میں بھی لاہور سمیت دیگر اضلاع بری طرح ناکام رہے ہیں۔ سرکاری رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 300 نمبروں میں سے راولپنڈی 17، لاہور 92، گوجرانوالہ 128، فیصل آباد 152 نمبر حاصل کر سکا ہے۔ سرکاری رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ پراپرٹی سے متعلقہ کوئی بھی ضلع 200 نمبر بھی حاصل نہ کرسکا۔ جبکہ ذرائع نے بتایا کہ پراپرٹی سے متعلق معاملات حل کروانے میں بڑے پیمانے پر مبینہ کرپشن بھی ہوتی رہی ہے اور اس میں ہر جگہ پر بغیر پیسے کے کوئی کام بھی نہیں ہو رہا ہے اور کئی اضلاع میں ڈیٹا آن لائن ہی موجود نہیں ہے۔ سرکاری رپورٹ کے مطابق پراپرٹی سے متعلق 300 میں سے کس ضلع نے کتنے نمبر حاصل کئے ہیں، حیران کن انکشاف سامنے آیا ہے۔

ضلع سرگودھا صفر، راجن پور 29، پاکپتن 51، سیالکوٹ 63، خوشاب 85، رحیم یار خان 87، بہاولپور 90، قصور 90، مظفر گڑھ 92، ساہیوال92، بھکر108، ٹوبہ ٹیک سنگھ104، ننکانہ صاحب 107، اٹک 108، وہاڑی 111، شیخوپورہ 116، جھنگ 117، چنیوٹ 118، جہلم 119، چکوال 120، میانوالی 120، خانیوال 125، نارووال 126، لیہ 127، بہاولنگر 132، حافظ آباد 132، منڈی بہائوالدین 139، لودھراں 142، اوکاڑہ 156، ڈیرہ غازیخان 156 اور گجرات نے 196 نمبر حاصل کئے ہیں۔ جبکہ پنجاب کے سرکاری ہسپتالوں کے حالات کیسے ہیں اس حوالے سے بھی سرکاری رپورٹ نے کارکردگی سے پردہ اٹھا دیا۔ سرکاری رپورٹ کے مطابق سرکاری ہسپتالوں میں ایمرجنسی کے حالات کس حد تک بہتر ہوئے ہیں اس کے لئے کل 300 نمبر رکھے گئے تھے جس میں کوئی بھی 200 نمبر حاصل ہی نہ کر سکا۔ سیالکوٹ 36، رحیم یار خان 46، حافظ آباد 59، ننکانہ صاحب 60، ٹوبہ ٹیک سنگھ 73، ڈی جی خان 76، خانیوال79، پاکپتن 81، شیخوپورہ 89، جہلم 92، بھکر 97، راجن پور 99، ساہیوال 101، قصور 104، میانوالی 105وہاڑی 107، نارووال 109، چنیوٹ 117، مظفر گڑھ 122، لودھراں 126، منڈی بہائوالدین 127، خوشاب 156، سرگودھا 161، گجرات 162چکوال 166، بہاولپور 169، اوکاڑہ 174، اٹک 178، بہاولنگر 178اور جھنگ 199نمبر حاصل کر سکا ہے۔

اس حوالے سے معلوم ہواہے کہ 2016ء کے دوران ڈی سی اوز تعینات تھے ان کو جو ٹارگٹس حکومت نے دئیے تھے، وہ حاصل ہی نہ کر سکے ہیں۔ اس حوالے سے چیف سیکرٹری پنجاب کیپٹن ریٹائرڈ زاہد سعید کو چند روز قبل ہونیوالے اجلاس میں رپورٹ پیش کی گئی، تو انہوں نے معاملات کا سنجیدگی سے نوٹس لیا اور ایسے اضلاع جن کی کارکردگی بہتر نہ تھی، ان اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز کو کارکردگی بہتر بنانے کے حوالے سے احکامات جاری کئے گئے ہیں۔ ایس اینڈ جی اے ڈی حکام کا کہنا ہے کہ سالانہ رپورٹ جلد وزیراعلیٰ کو بھی پیش کر دی جائیگی۔ اسی طرح صوبہ پنجاب کو ناجائز اسلحہ سے پاک کرنے کا منصوبہ التواء کا شکار ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کے تحت 2015ء میں 17 لاکھ لائسنسوں کی نادرا کے ذریعے کمپیوٹرائزیشن کرانے کے احکامات دیے گئے۔ دو سال کے دوران صرف 8 لاکھ اسلحہ لائسنسوں کی کمپیوٹرائزیشن کا عمل مکمل کر سکا۔ محکمہ داخلہ کے اعدادو شمار کے مطابق اب تک 17 لاکھ اسلحہ لائسنسوں میں سے 8 لاکھ کی نادرا کے ذریعے کمپیوٹرائزیشن مکمل کی گئی ہے جس میں سے ساڑھے چار لاکھ اسلحہ لائسنس متعلقہ افراد کو فراہم کر دیے گئے ہیں۔ 30 ہزار اسلحہ لائسنس کی کمپیوٹرائزیشن کے لئے درخواستیں منسوخ کر دی گئیں، جبکہ نادرا کے پاس موجود تین لاکھ بیس ہزار اسلحہ لائسنس کی کمپیوٹرائزڈ کاپیاں متعلقہ افراد کو فراہم نہیں کی جا سکیں۔

رجسٹریشن فیس کی مد میں پنجاب حکومت کو دو سال کے دوران ایک ارب بیس کروڑ چالیس لاکھ روپے ریونیو اکٹھا ہوا۔ سرکاری اعدادو شمار کے مطابق نیشنل ایکشن پلان کے تحت پنجاب حکومت کی جانب سے سال 2015ء میں صوبے میں 17 لاکھ سے زائد اسلحہ لائسنسوں کی نادرا کے ذریعے کمپیوٹرائزیشن کرانے کے لئے احکامات دیے گئے۔ محکمہ داخلہ نے دو سال کے دوران صرف 8 لاکھ اسلحہ لائسنسوں کی کمپیوٹرائزیشن کا عمل مکمل کیا ہے جبکہ 9 لاکھ سے زائد اسلحہ لائسنسوں کی کمپیوٹرائزیشن کا عمل مکمل نہیں ہو سکا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ نادرا کے ذریعے اسلحہ لائسنس کی کمپیوٹرائزیشن کے لئے مقرر کردہ 1400 روپے فیس میں سے فی اسلحہ لائسنس 150 روپے پنجاب حکومت کے خرانے میں جاتے ہیں اور ساڑھے بارہ سو روپے نادرا وصول کرتی ہے جس کی مد میں سال 2015ء سے اب تک پنجاب حکومت کے خرانے میں اسلحہ لائسنس کی کمپیوٹرائزیشن کی مد میں 12 کروڑ روپے سے زائد کی رقم جبکہ نادرا کے اکاؤنٹ میں 1 ارب آٹھ کروڑ روپے گئے ہیں۔

علاوہ ازیں ذرائع کا کہنا ہے کہ کمپیوٹرائزڈ اسلحہ لائسنس کی معیاد پانچ سال ہے تاہم سالانہ بنیادوں پر ایک ہزار روپے کے ٹکٹ جمع کرانا ضروری ہے۔ علاوہ ازیں پنجاب کے خزانے کو لائسنس کی تجدید، لیٹ فیس اور جرمانوں کی مد میں بھی 4 ارب اسی کروڑ باون لاکھ روپے کی وصولیاں ہوئی ہیں۔ اس حوالے سے محکمہ داخلہ کے ڈپٹی سیکرٹری جوڈیشل ون بلال یاسین نے بتایا 4 کہ اسلحہ لائسنس کی کمپیوٹرائزیشن کا عمل تیزی سے جاری ہے اور کمپیوٹرائزیشن نہ کرانے والوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ اسی طرح سرچ آپریشنز کے باوجود صوبے میں تخریب کاروں کو محفوظ پناہ گاہیں میسر ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان کے تحت ملک بھر کی طرح صوبائی دارالحکومت میں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور پولیس کی جانب سے کارروائیوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے لیکن باوجود کسی بھی دہشت گرد یا مشتبہ شخص کی گرفتاری عمل میں نہیں لائی جا سکی۔ منصوبے کے تحت کرایہ داروں کو پابند کیا گیا کہ وہ جس جگہ سکونت اختیار کریں، وہاں کے متعلقہ تھانے میں کوائف کے اندراج کو یقینی بنائیں۔ علاوہ ازیں مالک مکانوں کو بھی تنبیہ کی گئی کہ وہ اپنے کرایہ داروں کی مکمل جانچ پڑتال کے بعد انہیں رہائش کے لئے جگہ فراہم کریں اور کرایہ داروں سے مکمل معلومات پر مشتمل فارم متعلقہ تھانے میں جمع کروائیں۔

اس منصوبے کے تحت وقتا فوقتا شہر کے مختلف علاقوں اور پٹھان بستیوں میں نام نہاد سرچ آپریشنز کئے گئے، مگر مسلسل سرچ آپریشن کے باوجود مشتبہ شخص یا کوئی بھی دہشت گرد گرفتار نہیں ہو سکا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سرچ آپریشنز کے باوجود دہشتگرد اپنے سہولت کاروں کی مدد سے محفوظ پناہ گاہیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، جس کی حالیہ مثال کالعدم داعش سے تعلق رکھنے والے دہشت گرد علی طارق کی ہے جس نے جعلی دستاویزات کی بنیاد پر فیکٹری ایریا کے علاقہ میں کرائے کے ایک مکان میں رہائش اختیار کی۔ اطلاع ملنے پر 14 اپریل کو حساس اداروں نے اسی علاقے میں خفیہ آپریشن بھی کیا جس کے دوران دہشت گرد علی طارق مارا گیا جبکہ اس کی بیوی نورین لغاری کو گرفتار کر لیا گیا۔ کارروائی کے دوران چار جوان بھی زخمی ہوئے۔

یاد رہے کہ اسی علاقے میں پولیس نے واقعہ سے چند روز قبل سرچ آپریشن کیا تھا جس کے دوران چند مشکوک افراد کو حراست میں لیا گیا، مگر بعد میں انہیں شخصی ضمانتوں پر چھوڑ دیا گیا۔ پولیس نے دہشت گرد علی طارق کے تھانے میں جمع ہونے والے جعلی دستاویزات کی جانچ پڑتال کی ضرورت ہی نہ سمجھی۔ اسی طرح مال روڈ اور بیدیاں روڈ پر خود کش حملوں سے قبل پولیس نے ان علاقوں میں سرچ آپریشنز بھی کئے مگر دہشت گردوں کا سراغ نہ لگ سکا۔ پولیس ریکارڈ کے مطابق 9 جنوری 2016ء تا 20 اپریل 2017ء کے دوران کرایہ داری ایکٹ کے تحت 7116 مقدمات درج ہوئے جن میں 12528 ملزموں کو گرفتار کیا گیا۔ گرفتار ملزموں میں 5825 مالک مکان، 6372 کرایہ دار، 15 پراپرٹی ڈیلرز اور دیگر افراد شامل ہیں۔ اس حوالے سے ڈی آئی جی آپریشنز ڈاکٹر حیدر اشرف کا کہنا ہے کہ سرچ آپریشنز انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر کئے جاتے ہیں۔ دہشت گردوں کی کمر توڑنے کے لئے پولیس حساس اداروں کے ساتھ رابطے میں ہے۔ تخریب کاروں کے مقاصد ناکام بنانے کیلئے ہی کرایہ داروں کے کوائف کا متعلقہ تھانے میں اندراج ضروری قرار دیا گیا ہے۔ غربت، ناخواندگی، لوڈشیدنگ، مہنگائی اور دہشت گردی کے خاتمے کا دعویٰ کرنیوالی حکومت کا زور فقط سڑکیں بنانے اور کمیشن کھانے پر ہے، عوام کا کوئی پرسان حال نہیں۔


خبر کا کوڈ: 631257

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/631257/پنجاب-میں-گڈ-گورننس-کے-بے-بنیاد-دعوے

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org