0
Friday 28 Apr 2017 14:04

جندل کی دوستی اور نواز شریف کا مستقبل

جندل کی دوستی اور نواز شریف کا مستقبل
تحریر: سردار تنویر حیدر بلوچ

جب پاکستان بھارت کیخلاف اپنا کیس مضبوط کرنا چاہتا ہے، پانامہ لیکس کے فیصلے نے ملک کی سیاست پر اپنے اثرات طاری کر رکھے ہیں، اس ضمن میں جے آئی ٹی بننے والی ہے ایسے میں بھارتی صنعتکار سجن جندال کی پاکستان میں چند گھنٹوں کی آمد نے بحث کا نیا سلسلہ چھیڑ دیا ہے۔ حکومتی ارکان سجن جندال کی آمد پر وزیر اعظم کے دفاع پر اتر آئے کہ دیگر سیاستدانوں نے وزیر اعظم نواز شریف سمیت حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ وزیراعظم نے اسلام آباد میں بھارتی وفد سے ملاقات کی۔ جب بھی پاکستان میں کوئی بھی کرائسز آتے ہیں، سجن جندال پاکستان آ جاتے ہیں، سجن جندال کا استقبال مریم نواز اور حسین نواز نے کیا۔ مسلم لیگ نون کے ترجمان مصدق ملک نے کہا کہ سجن جندال ذاتی حیثیت سے پاکستان آتے ہیں، وزیراعظم کے سجن جندال سے تعلقات پرانے ہیں اور ہر پاکستانی کے بیرونی ملک تعلقات ہوتے ہیں، جو ملنے پاکستان آتے ہیں، اس ملاقات کو سیاسی نہ بنایا جائے، بھارت اور پاکستان کے تعلقات کبھی بھی اچھے نہیں رہے، وزیرعظم کا بھارت میں کوئی کاروبار نہیں ہے، یہ غلط ہے کہ وہ پاکستا ن میں راہداری لینے آ رہے ہیں، وہ ملنے آئے کچھ دیر ٹھہرے اور چلے گئے۔

لیکن یہ امر بھی قابل غور ہے کہ آج وزیرعظم نے اس شخص سے ملاقات کی، جو ماضی میں بھی مودی سے تعلقات استوار کرتا رہا ہے۔ حکومتی وزراء یہ چاہتے ہیں کہ یہی سمجھا جائے کہ وہ آئے اور وزیراعظم کو ملے، کچھ دیر ٹھہرے، چلے گئے۔ قومی سطح پر پائی جانے والی تشویش رددی کی ٹوکری میں چلی جائے۔ جبکہ بھارتی میڈیا بھی انڈین صنعتکار کا دورہ غیر معمولی نوعیت کا قرار دے رہا ہے۔ بھارتی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ سجن جندال کا پاکستان کا دورہ چند گھنٹے کا تھا، سجن جندال پاکستان آتے رہتے ہیں پاکستان میں سجن جندال کو دورہ غیر معمولی بات ہے۔ ازلی دشمن بھارت سے تعلق رکھنے والے، بھارتی وزیراعظم کے قریبی دوست کیساتھ پاکستانی وزیر اعظم کی ملاقات اسوقت ہوئی جب آئی ایس پی آر نے بتایا کہ چند روز قبل سرنڈر کرنیوالے طالبان کمانڈر احسان اللہ احسان نے اعتراف کیا ہے کہ بھارت افغانستان کے ذریعے پاکستان میں دہشت گردی کروا رہا ہے۔ ویڈیو بیان میں انہوں نے اعتراف کیا کہ شمالی وزیرستان میں آپریشن ہوا توہم سب افغانستان چلے گئے جہاں این ڈی ایس اور را سے تعلقات بڑھے، ان کی طرف سے ٹارگٹ دیے جانے لگے اور ہر ٹارگٹ کی بھرپور قیمت وصول کی گئی۔

کالعدم ٹی ٹی پی کے کمانڈر نے یہ بھی بتایا ہے کہ دہشت گردوں نے افغانستان میں کمیٹیاں بنا رکھی ہیں، جہاں سے یہ این ڈی ایس اور را سے روابط رکھتے ہیں۔ ان لوگوں افغانستان میں تذکرے (شناختی کارڈ) دیے گئے ہیں، جن کی مدد سے یہ باآسانی افغانستان میں نقل و حمل کرتے ہیں، جب را کی ایما پر پاکستان میں حملے کیے، تو میں نے عمرخالد خراسانی سے کہا کہ یہ تو ہم کفار کی مدد کررہے ہیں، تو اس نے کہا کہ پاکستان میں تخریب کاری کے لیے اگر اسرائیل سے بھی مدد لینا پڑی تو لوں گا۔ اسی طرح ہمارے دفتر خارجہ نے انکشاف کیا ہے کہ بھارت کی جانب سے پاکستان میں دہشت گردی کی حمایت اور ریاستی سرپرستی مکمل طور پر بے نقاب ہو چکی ہے، امریکہ کے افغانستان پرحالیہ حملے میں 13 بھارتی ایجنٹوں کی ہلاکت اس بات کا کھلا ثبوت ہے، عالمی برادری بھارت کی افغانستان کے راستے پاکستان میں تخریبی اور دہشت گردی کی سرگرمیوں کا نوٹس لے، تحریک طالبان پاکستان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان اور بھارتی خفیہ ایجنسی را کے ا یجنٹ کلبھوشن یادیو کے پاکستان میں دہشت گردی کے اعترافی بیانات اور حال ہی میں افغانستان میں مدر آف آل بم کے دھماکے میں 13 را ایجنٹوں کی ہلاکت بھارت کیخلاف ناقابل تردید ثبوت ہیں۔

انڈین ایجنٹوں اور جاسوسوں کی گرفتاری مختلف مواقع اور الگ الگ انداز میں ہوئی ہے، احسان اللہ احسان کا کیس کلبوشن یادیو سے مختلف ہے، ٹی ٹی پی کے سابق ترجمان نے رضاکارانہ طور پر خود کو سیکورٹی فورسز کے حوالے کر دیا اور اس نے بھی افغانستان میں بھارتی را ایجنٹوں کی موجودگی، دہشت گردوں کی سرپرستی اور افغان سرزمین پاکستان کیخلاف استعمال کرنے کا اعتراف کیا ہے۔ جبکہ کلبوشن یادیو بھارتی خفیہ ایجنسی را کیلئے کام کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا اور اس نے اپنے تمام جرائم کا اعتراف کیا ہے، ملک کے تمام قانونی تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے عدالت نے اسے سزا سنائی ہے، کلبوشن یادیو کو قونصلر تک بھی اسی لیے نہیں دی گئی کہ کسی جاسوس کیلئے رسائی دی ہی نہیں جاتی۔ بھارتی وزیر خارجہ کلبھوشن یادیو کو دیس کا بیٹا قرار دی چکی ہیں، بھارتی سرکار یہ اعلان کر چکی ہے کہ وہ پاکستان میں گرفتار ہونیوالے اپنے جاسوس کی زندگی بچانے کیلئے آخری حد ک جائیں گے۔ بھارتی صنعتکار کی اسلام آباد آمد اور ویزہ پابندی کے باوجود مری میں اہم شخصیات سے ملاقاتیں، اس سلسلے کی ایک کڑی ہے، پہلے مرحلے میں بھارتی کلبھوشن یادیو تک قونصلر رسائی کیلئے پاکستانی حکومت کیساتھ مودی اور انکے دوستوں کے دیرینہ تعلقات کو استعمال کرئے گا۔

پاکستانی حکومت ایک طرف اسے ذاتی ملاقات قرار دے رہی ہے، دوسری طرف مسلم لیگ نون کے مرکزی رہنماء اور صوبائی وزیر رانا ثنا اللہ یہ کہہ رہے ہیں کہ ٹریک ٹو ڈپلومیسی کے ذریعے اگر دو ملکوں کے درمیان تعلقات میں بہتری آ سکتی ہے تو اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ چاہے کوئی پاکستانی یہ کام کرے یا کوئی پڑوسی ملک ہندوستان کا شہری، ہمیں اس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ جندل کی وزیراعظم سے دوستی کے متعلق حسین نواز اور مریم نواز کے بیانات میں تضاد بھی یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ ملاقات غیرمعمولی نوعیت کی ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب بھی ٹی وی چینلز پر برس رہی ہیں کہ اس ملاقات کو سیاسی اور سرکاری رنگ نہ دیا جائے، بلکہ وزیراعظم کا ذاتی معاملہ ہے، اس کا ٹریک ٹو روابط سے کوئی تعلق نہیں۔ جس طرح حسین نواز اور مریم نواز کے بیانات میں تضاد ہے، اسی طرح رانا ثنا اللہ اور  مریم اورنگزیب کا الگ الگ موقف معاملہ کو مزید الجھا رہا ہے۔ سب سے اہم بات ملاقات کا حساس وقت ہے۔ جب ہر طرف سے پاکستان بھارتی سازشوں کی زد میں ہے اور انڈین منصوبہ ساز اپنے ایجنٹوں اور جاسوسوں کی گرفتاریوں کی وجہ سے پریشان ہیں، پاکستانی وزیراعظم دشمن ملک کے کارندوں کو خصوصی پرٹوکول دے رہے ہیں۔

وزیر اعظم ایسا کیوں کر رہے ہیں۔ وجہ صاف ظاہر ہے، وہ ہر طرف سے دباو میں ہیں۔ وزیراعظم کو اخلاقی طور پر دیوالیہ کرنیوالا قریب ترین ایشو پانامہ کیس ہے، پاکستان کے 259 کے قریب نام بھی سامنے آئے، جن میں سب سے زیادہ شور وزیراعظم نوازشریف کے صاحبزادوں اور صاحبزادی کے نام پر دیکھنے میں آیا۔ اس کے اثرات ایسے تھے کہ وزیراعظم نواز شریف دل کے عارضے میں مبتلا ہوئے، بلکہ انہیں اوپن ہارٹ سرجری کے لیے بیرون ملک بھی جانا پڑا۔ پاکستان میں 259 ناموں میں کئی بڑے بڑے نام سامنے آئے مگر کسی کے خلاف احتجاج دیکھنے میں نہیں آیا۔ اگر آیا تو صرف وزیراعظم اور انکے بچوں کے اربوں روپے کے گھروں پر سوالیہ نشان اٹھے۔ پاکستان کی سیاست میں ایک مرتبہ پھر بھونچال آیا اور کبھی اپوزیشن اور حکومت کے درمیان ٹی او آرز پر ڈیڈ لاک ہوا، تو کبھی وزیراعظم کو عہدے سے الگ ہونے پر سخت الفاظ کی جنگ تقریبا 1 سال جاری رہی۔ اور بالاآخر ایمپائر کے فرائض پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کو سرانجام دینے پڑے۔ اب کورکمانڈرز نے اس بات کی یقین دہانی کروا چکے ہیں کہ وزیراعظم کیخلاف تحقیقات کرنیوالی جے آئی ٹی قانون کے تقاضے پورے کرتے ہوئے شفاف کردار ادا کریگی۔ اسی طرح پانامہ کیس کا فیصلہ آنے سے پہلے آرمی چیف نے عمران خان سے خصوصی ملاقات کی تھی، جہاں پانامہ کیس کا ذکر بھی ہوا تھا۔

پانامہ کیس کے فیصلے کیساتھ ہی ڈان لیکس کی انکوائری کمیٹی نے بھی رپورٹ پیش کر دی۔ حکومت نے تحقیقات کو بلاجواز طول دیا، وزیر داخلہ نے آئی ایس آر کو جھٹلایا، لیکن کلبھوشن یادیو کی گرفتاری، تفتیش، سزائے موت اور انڈیا کیخلاف کسی بھی قسم کے اقدامات کے لیے عزم کا اظہار نہیں کیا۔ جب بھی بھارت کیخلاف سفارتی محاذ گرم ہونے کی خبریں آتی ہیں، نواز حکومت مسلح افواج اور آئی ایس آئی کی کشمیری مجاہدین کی حمایت کا بہانہ بنا کر کہہ دیتی ہے کہ ہمیں بین الاقوامی سطح پر رکاوٹوں کا سامنا ہے، یوں معاملے کو گول مول کر دیتی ہے۔ پانامہ لیکس کے فیصلے کے ساتھ ایک اور فیصلہ بھی اپنے منطقی انجام کو پہنچ چکا ہے، وہ ہے نیوز لیکس کا۔ نیوز لیکس نے جہاں مسلم لیگ نون کے اہم ستون اور نوازشریف کے دیرینہ اور وفادار ساتھی پرویز رشید کی قربانی بھی لی اب مکمل انکوائری کمیٹی کے فیصلوں کے ساتھ منظر عام پر آنے کو ہے۔ کچھ ذرائع دعویٰ کرتے ہیں کہ نیوز لیکس میں ناصرف بڑی قربانی متوقع ہے، بلکہ مزید ایک وفاقی مشیر اور اہم حکومتی عہدیدار کو مورود الزام ٹھہرانے کی تیاری کی گئی ہے۔ اس کیس میں وزیراعظم کو اپنے سیاسی رفقاء کی جانب سے یہ خدشہ بھی لاحق ہے کہ اگر مزید کسی مشیر کو اس کیس کی بھینٹ چڑھایا گیا تو وہ مریم نواز کے متعلق تفصیلات سامنے لا سکتے ہیں۔

کیونکہ ماضی میں اپوزیشن جماعتوں اور ملک کے معتدل حلقوں کی جانب سے شریف خاندان کے اہم فرد کا نام بھی نیوز لیکس میں لیا جاتا رہا ہے۔ تاہم اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت جسٹس ریٹائرڈ عامر رضا کمیشن کے فیصلوں پر کب اور کیسے عمل کرتی ہے، پاکستان کا ہر شہری اور مسلح افواج شدت سے انتظار تو کر ہی رہے ہیں، مگر اس کے ساتھ مسلم لیگی حلقے اس بات پر پریشان بھی ہیں کہ فیصلوں کی ٹائمنگ کا مسئلہ انکو مسائل بڑھنے کی جانب اشارے دے رہا ہے۔ ملک میں بڑھتی گرمی اور اسکے بعد ہوشربا لوڈشیڈنگ سے جہاں ہر شہری پریشان اور گرمی سے نڈھال ہے، تو وہیں حکومت کے دو اہم معاملات کے اعلانات بھی عین اسی دوران ہو رہے ہیں، جس سے ملکی سیاسی حالات کے درجہ حرارت میں اضافے کا قوی امکان نظر آ رہا ہے۔ جہاں حکومت کے جاری مختلف ترقیاقی منصوبوں کی رفتار میں کمی آئے گی، وہیں مسلم لیگ نون کی قیادت کی جانب سے آئندہ کے سیاسی منظر نامے میں بڑے نقصان کا بھی اندیشہ ہے۔ اس وقت نواز شریف نہ صرف کرپٹ مانے جا رہے ہیں، بلکہ انکا چہرہ پاکستان میں مودی کے قریبی دوست کے طور پر بھی پہچانا جاتا ہے۔مودی کی حمایت حاصل کرنے یا جانوں کی قربانی دینے والی مسلح افواج کو پیغام دینے کیلئے نواز شریف کی جندل سے ملاقات فائدے سے زیادہ گھاٹے کا سودا ثابت ہو گی۔ جیسا کہ وہ ڈان لیکس کیس میں مسلح افواج کو دباو میں لانے کی بجائے خود پھنس چکے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 631487
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش