0
Saturday 29 Apr 2017 17:20

شمالی کوریا کیخلاف امریکہ کی حکمت عملی

شمالی کوریا کیخلاف امریکہ کی حکمت عملی
تحریر: عرفان علی

چین کے پڑوسی، اتحادی اور دوست ملک شمالی کوریا اور یونائٹڈ اسٹیٹس آف امریکہ کے مابین کشیدگی اپنی انتہا کو چھو رہی ہے۔ اس کشیدگی کے دیگر اسباب اپنی جگہ، لیکن امریکی حکومت کے نزدیک شمالی کوریا کی موجودہ حکومت اس کے اتحادی ممالک جنوبی کوریا اور جاپان دونوں کے لئے خطرہ ہے اور ان اتحادی ممالک میں امریکی فوج اور اسلحہ بھی موجود ہے، جس کی حفاظت کے پیش نظر امریکہ شمالی کوریا کو اپنے مفادات کیلئے بھی خطرہ قرار دیتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی امریکہ اور جنوبی کوریا کہتے ہیں کہ شمالی کوریا انہیں حملوں کی دھمکیاں دیتا آیا ہے اور یہ ایک ناقابل تردید حقیقت بھی ہے، کیونکہ شمالی کوریا نے ماہ اپریل میں بھی دھمکیاں دی ہیں۔ شمالی کوریا کے پاس بیلسٹک میزائل تائپودونگ دوم کو بین البراعظمی میزائل کہا جاتا ہے، جس کی رینج 8000 کلومیٹر بتائی جاتی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ شمالی کوریا امریکہ کی ریاست الاسکا کو بھی ہدف بنا سکتا ہے۔ مفروضہ یہ بھی ہے کہ شکاگو کو بھی نشانہ بنا سکتا ہے۔ مارچ میں شمالی کوریا نے جاپانی سمندر میں چار میزائل فائر کئے تھے۔ مارچ کے آخری عشرے میں ایک میزائل تجربہ کیا جو ناکام رہا جبکہ 29 اپریل بروز ہفتہ ایک اور میزائل تجربہ کیا جو بقول امریکہ اور جنوبی کوریا ناکام رہا۔ اس وقت کشیدگی اور تناؤ میں شدت اس لئے بھی ہے کہ شمالی کوریا اور جنوبی کوریا دونوں ہی فوجی مشقوں میں مصروف ہیں۔

تازہ ترین سرگرمیاں یہ ہیں کہ امریکی وائٹ ہاؤس میں سارے امریکی سینیٹرز کو مدعو کرکے شمالی کوریا پر گذشتہ بدھ کو بریفنگ دی گئی۔ یعنی فیصلہ ساز قانون ساز ادارے کے اراکین کی ذہن سازی کی جا رہی ہے کہ وہ شمالی کوریا کے خطرے کے بارے میں آگاہ رہیں اور اگر امریکی حکومت کوئی قدم اٹھائے تو وہ اس کی مخالفت نہ کریں۔ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کاؤنسل میں جمعہ 28 اپریل کو امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن کا کہنا تھا کہ شمالی کوریا جلد ہی نیوکلیئر حملہ کرسکتا ہے اور اقوام متحدہ کی جانب سے اس کے خلاف اقدام نہ کرنا تباہ کن ثابت ہوگا۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے بھی 28 اپریل کو رائٹر کو انٹرویو میں شمالی کوریا کے خطرے سے خبردار کیا ہے۔ جنگ عظیم دوم اور کوریا جنگ کے بعد سے جاپان میں بھی امریکہ کا فوجی اڈہ ہے اور جنوبی کوریا میں بھی اس کے فوجی ہزاروں کی تعداد میں تعینات ہیں۔ اس خطے میں امریکی فوجی موجودگی پہلے سے تھی اور حالیہ کشیدگی کو جواز بناتے ہوئے امریکی حکومت نے جنگی بحری بیڑے یو ایس ایس کارل ونسن کی سربراہی میں مزید فوجی کمک جنوبی کوریا کی مدد کے لئے روانہ کی ہے، جس میں ایک آبدوز بھی شامل ہے۔ ساتھ ہی اس ملک میں تھاڈ دفاعی میزائل نظام کی تنصیب بھی شروع کر دی ہے۔ ایک طرف امریکی حکومت اس خطے میں فوجی موجودگی اور مہلک ہتھیاروں کی جمع بندی اور اس میں اضافے میں مصروف ہے تو دوسری جانب اقوام متحدہ سے شمالی کوریا کے خلاف اقدامات کے لئے کوششوں میں مصروف ہے۔ اس کے ساتھ ہی امریکہ کی حکمت عملی یہ ہے کہ اس نے چین کی قیادت پر دباؤ بڑھا دیا ہے کہ وہ شمالی کوریا پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے۔ یعنی امریکہ اس خطے میں خارجی لحاظ سے سہ جہتی حکمت عملی کے ذریعے شمالی کوریا کا گھیراؤ کر رہا ہے، جبکہ اندرون ملک شمالی کوریا پر ممکنہ حملے کے لئے ذہن سازی کر رہا ہے۔

یہاں یہ یاد رہے کہ کوریا پہلے ایک ملک تھا اور امریکہ کی جنگ کے نتیجے میں شمالی اور جنوبی دو حصوں میں تقسیم ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ 1950ء کے عشرے میں کوریا کی جنگ میں چینی فوجی، شمالی کوریا کی افواج شانہ بشانہ لڑے اور شمالی کوریا سے زیادہ چینی فوجی جنگ میں ہلاک ہوئے، 1960ء کے عشرے میں دونوں کے مابین ایک دوسرے کا دفاع کرنے کا معاہدہ ہوا۔ تب سے عالمی صف بندی میں شمالی کوریا چین کا اتحادی تصور کیا جاتا ہے جبکہ جنوبی کوریا امریکہ کا۔ چین کے انقلابی رہنما ماؤزے تنگ کا یہ جملہ تاریخ میں بہت مشہور ہوا ہے کہ شمالی کوریا اور چین میں اتنی قربت ہے جتنی ہونٹ اور دانت میں۔ اس صورتحال میں چین کی قیادت پریشان نہ بھی سہی لیکن اس کی جانب سے شمالی کوریا کی سرحد پر فوج جمع کرنے کا فیصلہ، اس کی چائنا ایئرلائن کی جانب سے شمالی کوریا کے لئے بیجنگ تا پیانگ یانگ پروازوں کی منسوخی، دو ایسے اشارے ہیں کہ جو امریکی دباؤ کا شاخسانہ معلوم ہوتے ہیں۔ کم از کم اس کی ٹائمنگ ایسی ہے کہ اسے ٹرمپ کی چینی صدر سے ملاقات کے بعد کے امریکہ دوست اقدامات سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ یہاں یہ یاد رہے کہ چین نے شمالی کوریا کے خلاف اقوام متحدہ کی مذمتی اور پابندیوں پر مبنی قراردادوں کو ویٹو نہیں کیا تھا اور بہت سی قراردادیں متفقہ طور پر منظور کی گئیں۔ البتہ کشیدگی کے خاتمے کے لئے چین نے مکالمے اور سفارتکاری کے ذریعے شمالی کوریا کا مسئلہ حل کرنے کی تاکید ہے۔ امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے 28 اپریل2017ء کو اقوام متحدہ کی سکیورٹی کاؤنسل میں شمالی کوریا کے خلاف مزید اقدامات کا مطالبہ کیا ہے، جس میں نئی پابندیوں کا مطالبہ بھی شامل ہے۔ ٹلرسن اس مسئلے پر طاقت کے استعمال کو بھی ایک آپشن قرار دے چکے ہیں، جبکہ چین طاقت کے استعمال کی مخالفت کر رہا ہے۔

امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے شمالی کوریا کے 29 اپریل 2017ء علی الصبح میزائل تجربے پر ٹویٹ پیغام میں تبصرہ کرتے ہوئے اس عمل کو چین کی توہین قرار دیا کہ شمالی کوریا نے ایسا کرکے چین کا احترام بھی نہیں کیا۔ خبر رساں ادارے رائٹر( 28 اپریل2017ء) کو انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ وہ سفارتکاری کو ترجیح دیتے ہیں، لیکن شمالی کوریا کے ساتھ ایک بڑا تنازعہ بھی ممکن ہے۔ شمالی کوریا نے امریکہ کی فوجی موجودگی میں اضافے کے جواب میں دھمکی دی کہ وہ اس کا سپر مائٹی جواب دے گا اور امریکہ کے بحری بیڑے کو غرق کر دے گا۔ شمالی کوریا نے آسٹریلیا کو بھی دھمکی دی ہے کہ اگر اس نے بھی امریکی افواج کا ساتھ دیا تو اس پر بھی نیوکلیئر ہتھیاروں سے حملہ کر دے گا۔ کیا شمالی کوریا کی دھمکیوں کو سنجیدگی سے لیا جائے یا پھر اسے بھی صدام، ملا عمر اور اسامہ بن لادن کی دھمکیوں کی طرح سمجھا جائے کہ جن کے پاس امریکہ سے لڑنے کی صلاحیت اور مطلوبہ قوت نہیں تھی اور وہ بڑھکیں مارا کرتے تھے۔ شمالی کوریا کے حکمران اور ان افراد میں فرق یہ ہے کہ شمالی کوریا کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے مہلک ہتھیار واقعاً موجود ہیں اور اس پر تو یہ بھی الزام ہے کہ اس نے پاکستان سمیت کئی ممالک کو میزائل ٹیکنالوجی ٹرانسفر بھی کی ہے۔ لٰہذا امریکہ میں خواص اس وقت شمالی کوریا کو بڑا اور حقیقی خطرہ قرار دے رہے ہیں۔ اوبامہ انتظامیہ کے افراد بھی ٹرمپ کو شمالی کوریا کے خطرے سے خبردار کرچکے تھے۔

شمالی کوریا روس سے بھی دور نہیں ہے بلکہ شمالی کوریا روس کا بیک یارڈ ہے۔ چین اور روس دونوں اس خطے میں موجود ہیں۔ شمالی کوریا نے امریکہ کو اس کی تازہ مہم جوئی پر پاگل قرار دیا ہے، جبکہ دنیا کے بیشتر انسان نہ صرف ڈونالڈ ٹرمپ کو بلکہ شمالی کوریا کے حکمران کم جونگ ان کو بھی پاگل حکمران ہی سمجھتے ہیں۔ کیا یہ دو پاگل واقعاً اتنے پاگل ہیں کہ جو کہہ رہے ہیں، اس پر عمل بھی کر گذریں گے۔ یعنی یہ کہ کیا واقعی ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کے امکانات ہیں۔ ان کی دھمکیوں کے بارے میں سوچ کر ہی انسان لرز جاتا ہے۔ امریکہ نے اگر شمالی کوریا پر حملہ کر دیا تو چین اور روس کا ردعمل کیا ہوگا؟ اگر یہ دو ملک بھی شمالی کوریا کے ساتھ مل کر جنگ لڑنے پر آمادہ ہوگئے تو پھر ایٹمی طاقتوں کی یہ لڑائی پوری دنیا کو لمحوں میں مٹا کر رکھ سکتی ہے۔ امریکہ اور شمالی کوریا 2006ء سے اس نوعیت کی بڑھکیں مارتے رہے ہیں، لیکن اس مرتبہ ٹرمپ امریکہ کا صدر ہے، خدا خیر کرے۔ کوئی پیشن گوئی نہیں کی جاسکتی کہ امریکہ جنگ میں پہل کرے گا یا نہیں۔ البتہ خطہ کوریا دنیا کی بڑی طاقتوں کی لڑائی کی وجہ سے ایک بہت بڑے انسانی المیے کے دہانے پر ایک اور مرتبہ آکھڑا ہوا ہے۔
خبر کا کوڈ : 632067
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش