QR CodeQR Code

ڈان لیکس کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟

30 Apr 2017 09:22

خبر میں بتایا گیا تھا کہ سول حکومت کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی کرتی ہے مگر سکیورٹی اداروں کی جانب سے انہیں کام نہیں کرنے دیا جاتا اور راستے میں رکاوٹیں ڈالی جاتی ہیں، تاہم حکومت اور فوج نے بعدازاں اس خبر کو من گھڑت اور بے بنیاد قرار دے دیا۔ 10 اکتوبر کو وزیراعظم میاں نواز شریف نے خبر کا نوٹس لیتے ہوئے کہا تھا کہ ذمہ داروں کیخلاف سخت کارروائی کرنے کیلئے ان ذمہ داروں کی نشاندہی کی جائے۔


رپورٹ: ابو فجر لاہوری

پاکستان کے موقر انگریزی اخبار "ڈیلی ڈان" کے رپورٹر سرل المیڈا نے 6 اکتوبر 2016ء کو وزیراعظم ہاؤس میں ہونیوالے ایک اہم اجلاس کے حوالے سے خبر شائع کی۔ اس خبر میں غیر ریاستی عناصر (کالعدم تنظیموں) کے معاملے پر فوج اور سول حکومت کے درمیان موجود اختلافات کا ذکر کیا گیا تھا۔ خبر میں بتایا گیا تھا کہ سول حکومت کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی کرتی ہے مگر سکیورٹی اداروں کی جانب سے انہیں کام نہیں کرنے دیا جاتا اور راستے میں رکاوٹیں ڈالی جاتی ہیں، تاہم حکومت اور فوج نے بعدازاں اس خبر کو من گھڑت اور بے بنیاد قرار دے دیا۔ 10 اکتوبر کو وزیراعظم میاں نواز شریف نے خبر کا نوٹس لیتے ہوئے کہا تھا کہ ذمہ داروں کیخلاف سخت کارروائی کرنے کیلئے ان ذمہ داروں کی نشاندہی کی جائے۔

وزیراعظم ہاؤس سے جاری ہونیوالے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل رضوان اختر کے ہمراہ نوازشریف سے ملاقات کی ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ اجلاس کے شرکاء اس بات پر مکمل متفق تھے کہ خبر قومی سلامتی کے امور کے بارے میں رپورٹنگ کے مسلمہ اصولوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ 10 اکتوبر کو ہی سرل المیڈا نے ٹویٹر پر پیغام میں بتایا کہ ان کا نام ایگزیکٹ کنٹرول لسٹ میں ڈال دیا گیا ہے اور وہ اب ملک سے باہر نہیں جا سکتے۔ 13 اکتوبر کو وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے کہا کہ سرل المیڈا کی خبر سے دشمن ملک کے بیانیے کی تشہیر ہوئی، لہذا اس معاملے کی مکمل تحقیقات کی جائیں گی۔

صحافتی تنظمیوں اور میڈیا کے شدید دباؤ کے بعد 14 اکتوبر کو حکومت نے سرل المیڈا کے بیرون ملک جانے پر پابندی واپس لینے کا فیصلہ کیا۔ 30 اکتوبر کو وزیر اطلاعات پرویز رشید کو قومی سلامتی کے منافی خبر کی اشاعت رکوانے کے سلسلے میں کردار ادا نہ کرنے پرعہدے سے ہٹا دیا گیا۔ 7 نومبر کو حکومت نے جسٹس (ر) عامر رضا خان کی سربراہی میں 7 رکنی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی۔ 25 اپریل 2017 کو وزارت داخلہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ تحقیقاتی کمیٹی کی سفارشات کو وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے منظوری ملنے کے بعد عوام کے سامنے رکھ دیا جائے گا۔

29 اپریل کو وزیراعظم نے انکوائری کمیٹی کی سفارشات کی منظوری دے دی جس کے بعد مشیر خارجہ سید طارق فاطمی کو ہٹا دیا گیا اور محکمہ اطلاعات و نشریات کے پرنسپل انفارمیشن آفیسر راؤ تحسین کو او ایس ڈی بنا دیا گیا ہے۔ یہ نوٹیفکیشن وزیراعظم ہاؤس سے جاری ہوا ہے جس کو پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے اپنے ٹویٹ کے ذریعے مسترد کر دیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پاک فوج اس حوالے سے اپنی پالیسی پر غور کر رہی ہے اور بہت جلد اس حوالے سے باقاعدہ پالیسی بیان جاری کیا جائے گا۔ تاہم دوسری جانب حکومت نے نیوز لیکس کے حوالے سے تحقیقاتی رپورٹ کو منظرعام پر نہ لانے کا فیصلہ کیا ہے۔

ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اپنا نوٹیفکیشن واپس نہیں لے گی اور اس حوالے سے فوج کے تحفظات دور کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ تاہم غیر جانبدار حلقوں کا کہنا ہے کہ "بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی" کے مصداق اس وقت حکومت بری طرح پھنس چکی ہے اور اس کے پاس پاک فوج کو مطمئن کرنے کیلئے کوئی جواب نہیں۔ اب ڈان لیکس کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے اس کا اندازہ آئندہ چند روز میں ہو جائے گا۔


خبر کا کوڈ: 632144

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/632144/ڈان-لیکس-کا-اونٹ-کس-کروٹ-بیٹھے-گا

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org