0
Monday 1 May 2017 09:55

درخت

یومِ مزدور کی مناسبت سے لکھی گئی ایک تحریر
درخت
تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@gmail.com

مجھے درختوں سے محبت ہے اور شاید درخت بھی مجھ سے محبت کرتے ہیں، چونکہ محبت یکطرفہ نہیں ہوتی۔ مشینی دور آگیا ہے، کسی کے پاس درختوں کو دیکھنے کی فرصت اور وقت نہیں۔ بچپن کے ایّام میں جب میں ایک شوخ، چنچل اور شرارتی بچہ تھا تو ہمارے گھر کی دیوار کے ساتھ بھی ایک درخت تھا، گم سُم، خاموش، گونگا اور بہرہ۔ میں اکثر اس درخت کو محبت سے دیکھتا تھا۔ ان دنوں میری بچگانہ محبت درخت کے لئے اذیّت کا باعث تھی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں موقع پاتے ہی اس کی کونپلوں کو مسلتا، اس کی ٹہنیوں کو مروڑتا، اس کے پتوں کو نوچتا اور اس کی شاخوں کو توڑتا۔۔۔۔ رفتہ رفتہ میں بڑا ہوتا گیا اور درخت بوڑھا، میں مصروف ہوتا گیا اور درخت تنہا، میں سکول جانے لگا اور درخت وہیں بھدّا ہونے لگا، میں ملکوں ملکوں پھرا لیکن درخت وہیں پر مرجھاتا گیا۔ اب میں اس کی کونپلوں کو مسلتا، پتوں کو نوچتا اور شاخوں کو توڑتا نہیں تھا، لیکن اس کے باوجود اب اس پر نئی کونپلیں نہیں پھوٹتی تھیں، نئے پتّے نہیں اگتے تھے اور نئی شاخیں نہیں نکلتی تھیں۔ گویا اس گونگے اور بہرے درخت کے جذبات کا طوفان اس کے سینے میں ہی دب کر رہ گیا تھا۔ گرمی ہو یا سردی، بہار ہو یا خزاں، مجھے کئی کئی سال ہو جاتے تھے، اس درخت کو دیکھے ہوئے۔

وہ گرمیوں کی دھوپ میں جلتا اور جاڑے کی سردی میں ٹھٹھرتا رہتا تھا، لیکن میں اس کے حال سے بے خبر رہتا۔ کبھی کبھار راہ چلتے ہوئے اگر اس پر سرسری سی نظر پڑ بھی جاتی تو میرے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا تھا کہ اس کے بارے میں سوچوں۔ کہنے کو تو وہ ایک گونگا اور بہرہ درخت ہی تھا، لیکن میری طرح کے ہزارہا انسانوں سے بہتر تھا۔ وہ گونگا تھا مگر خوددار، وہ بہرہ تھا مگر غیرت مند، وہ خاموش تھا مگر غیّور۔ وہ اپنی خودداری، غیرت اور خاموشی کے عصا کے سہارے آخری دم تک کھڑا رہا، حالات سے لڑتا رہا۔۔۔ لڑتا رہا۔ مجھے کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ میں اس “موجود“ کی دلجوئی کی خاطر کبھی اپنی مصروفیات سے وقت نکالوں، اس کی سوکھی ہوئی شاخوں پر اپنی ایک مسکراہٹ ہی ڈال دوں یا کچھ دیر اس کے پاس بیٹھ کر اس سے غیرت، خودداری اور برداشت کا درس ہی سیکھ لوں۔ شاید میرے کچھ دیر اس کے پاس بیٹھنے سے اسے میرا بچپن یاد آجاتا، اسے اپنائیت کا احساس ہو جاتا اور اس کے دکھ کچھ دیر کے لئے کم ہو جاتے۔

وہ ریت، مٹی اور گارے کے ساتھ مشغول رہا اور میں کتابوں، کاغذوں اور کمپیوٹروں میں کھپتا رہا۔ وہ اپنے بوسیدہ جسم کے ساتھ سایہ دیتا رہا اور میں سر پر چھتری تان کر خاک چھانتا رہا، کچھ دن پہلے دیارِ غیر سے کسی نے ایک ویڈیو کلپ بھیجا۔ میں نے غور سے دیکھا تو ایک درخت گرا ہوا تھا، جس پر پرندے نوحہ کر رہے تھے، کلپ میں ریت، مٹی اور گارے میں لتھڑا ہوا ایک درخت تھا، جو مجھ سے پہچانا نہیں گیا۔ میرے پوچھنے پر مجھے یہ پیغام ملا کہ یہ آپ کا  فلاں مزدور ہمسایہ ہے۔ جو بچپن سے گونگا اور بہرہ بھی تھا، مزدوری کرتا تھا، ساری عمر مزدوری کرتا رہا اور بڑھاپے میں مزدوری کرتے کرتے مر گیا۔ مجھے ایک عرصے بعد وہ خود دار، خوش مزاج اور خوش اخلاق مزدور یاد آیا، جس نے ساری زندگی اپنے بچوں کو رزقِ حلال کما کر کھلایا تھا، وہ ایک شجرِ سایہ دار تھا، آج کٹ گیا تو مجھے خیال آیا کہ میں ساری زندگی اس کے کسی کام نہیں آسکا، میں نے کبھی گرمی و سردی میں اس کا حال نہیں پوچھا، بیماری و تنگدستی میں اس کی خبر نہیں لی۔

افسوس! آج وہ شجرِ سایہ دار، اپنے جفاکش ہاتھوں اور زحمت بھری زندگی کے ساتھ خالق حقیقی سے جا ملا ہے اور میں اپنے خالقِ حقیقی کے ہاں! سر جھکائے، ایک پچھتاوے اور شرمندگی کے ہمراہ کھڑا ہوں اور اس وقت اپنی مصروفیات سے وقت نکال کر اپنے معاشرے میں اپنے اردگرد لگے درختوں کو گِن رہا ہوں اور دیکھ رہا ہوں کہ یہ درخت کتنی تیزی سے سوکھ رہے ہیں۔ یہ درخت جو ہم سے کچھ نہیں مانگتے، سالوں بعد ایک سلام اور مہینوں بعد ایک مسکراہٹ ہی ان کے لئے کافی ہوتی ہے۔ اپنے دل سے پوچھئے، ہم سب کو درختوں سے محبت ہے اور درخت بھی ہم سے محبت کرتے ہیں، چونکہ محبت یکطرفہ نہیں ہوتی۔ مشینی دور آگیا ہے، کسی کے پاس درختوں کو دیکھنے کی فرصت اور وقت نہیں، لیکن محبت کا تقاضا ہے کہ فرصت نکالی جائے۔ جی ہاں! کم از کم یوم مزدور کے روز ہی سہی، کچھ فرصت نکال کر کسی درخت کی ٹیک لگا کر اور کسی درخت کے سائے میں بیٹھ کر، پرانی یادوں کو تازہ کرنا چاہیے۔
خبر کا کوڈ : 632472
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش