0
Wednesday 10 May 2017 11:04

بھارت و پاکستان کے درمیان مذاکرات کی بحالی واحد راہ حل

بھارت و پاکستان کے درمیان مذاکرات کی بحالی واحد راہ حل
رپورٹ: جے اے رضوی

اس وقت بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں اور کشیدگی اس وقت سے زیادہ بڑھ گئی جب جموں و کشمیر کے پونچھ سیکٹر میں کرشنا گھاٹی کے قریب دونوں ملکوں کی فوج کے درمیان گولہ باری ہوئی، جس میں دو بھارتی سپاہی مارے گئے۔ بھارت سے پاکستانی فوج پر الزام عائد کیا کہ اس نے ان دونوں فوجیوں کی لاشیں اپنی تحویل میں لینے کے بعد ان کے سر دھڑوں سے الگ کرکے ان کی لاشوں کی بے حرمتی کی ہے۔ اس سلسلے میں نئی دہلی میں مقیم پاکستانی ہائی کمشنر کو دفتر خارجہ پر طلب کر کے انہیں احتجاجی نوٹ تھما دیا گیا لیکن پاکستانی ہائی کمشنر نے وزارت خارجہ کے حکام کو بتایا کہ پاکستانی فوج نے بھارتی فوجیوں کی لاشوں کی کوئی بے حرمتی نہیں کی ہے اور یہ محض الزام ہے۔ یعنی پاکستان نے بڑے ہی ٹھنڈے اور مدبرانہ انداز میں اس مرتبہ بھی بھارت کے روایتی الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔

ادھر جب نئی دہلی میں مقیم پاکستانی ہائی کمشنر کو دفتر خارجہ پر طلب کیا گیا، اسی دن بھارت اور پاکستان کے اعلٰی فوجی حکام کے درمیان سرحد پر ہاٹ لائن پر رابطہ قائم ہوا، اس دوران بھی پاکستانی فوجی افسر نے اپنے بھارتی ہم منصب کے اس الزام سے انکار کردیا کہ پاکستانی فوج کسی بھی طرح اس قسم کی حرکتوں کی مرتکب ہوئی ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھارت کا ماننا ہے کہ پاکستانی فوج نے بھارتی فوجیوں کی لاشوں کی بے حرمتی کی ہے اور اب صورتحال اس حد تک بگڑ گئی ہے کہ فوج کا ہر چھوٹا بڑا افسر، سیاستدان اور دوسرے لوگ پاکستان کے خلاف زہر اگل رہے ہیں۔ بھارتی میڈیا مسلسل اس مسئلہ کو لے کر دو طرفہ پیچیدہ ماحول میں آگ لگانے کے لئے سنسنی خیز رپورٹیں پیش کرتے ہوئے پہلے سے پاکستان مخالف بھارتی رائے عامہ کو مزید آگ بگولہ کرتا جا رہا ہے۔ بھارتی فوج کے سربراہ بپن روات نے ہنگامی طور پر مقبوضہ کشمیر کا دورہ کرکے زمینی حالات کا جائزہ لیا اور اخباری نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے اشارہ دیا کہ اُن کی فوج بھی بدلے کی کارروائی کرے گی۔

دیکھنے میں آرہا ہے کہ بھارتی سیاست دان بالخصوص بی جے پی کا جارحانہ رویہ بھارتی فوج کو مشکل میں ڈال رہا ہے۔ اس مرتبہ پھر اپنے فوجیوں کی لاشوں کو مسخ کرنے کا پاکستان پر الزام ان کے لئے گلی کی ہڈی بنتا جارہا ہے۔ ادھر بھارتی ہندو انتہا پسند جماعت ’’ویشوا ہندو پریشد‘‘ کے جنرل سکریٹری پروین توگڑیا نے بھارتی فوجی جوانوں کے سر کاٹنے کے واقعہ پر شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی فوج کی جانب سے بھارت کے دو فوجیوں کے سر کاٹنے کا واقعہ دراصل ہندوستان کے خلاف اس کی غیر اعلانیہ جنگ ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کو چاہئے کہ پاکستان کے پچاس فوجیوں کے سر کاٹتے ہوئے اس کا اسی کی زبان میں موثر جواب دے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کشمیر (مقبوضہ) میں فوج پر کوئی بھی سنگباری کرتا ہے تو یہ حرکت بھی ہندوستان کے خلاف جنگ کی طرح ہے۔ انہوں نے کہا کہ فوج پر گولی تو دور پتھر پھینکنے والوں کو بھی اس کا مناسب جواب دینا چاہئے، تاکہ کوئی بھی ہندوستانی فوج پر حملہ کی ہمت نہ کرے۔ اس کے مقابلے میں پاکستان میں بھی بھارت کے خلاف پروپیگنڈا عروج پر ہے، وہاں بھی بھارت کے خلاف زبردست مہم چلائی جا رہی ہے۔ دونوں طرف سے نجی ٹی وی چینلوں کے ذریعے ایسا پروپیگنڈا کیا جارہا ہے، جس سے ایسا لگتا ہے کہ اب جنگ ہوکر ہی رہے گی۔ ٹی وی چینلوں کے زیر سایہ رہ کر ایسا محسوس ہورہا ہے کہ کوئی بھی یہ نہیں چاہتا ہے کہ لوگ امن و امان سے رہیں۔

سیاستدانوں کو صرف سیاست کرنی آتی ہے وہ ہر اس تاک میں رہتے ہیں کہ کب کوئی ایسا واقعہ خواہ وہ انتہائی دلدوز ہی کیوں نہ ہو پیش آئے اور وہ اخبارات میں بیانات داغ دیں اور ٹی وی چینلوں پر زہر اگلیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر دونوں ملک امن و شانتی کا مظاہرہ کرکے بات چیت کا سلسلہ شروع کریں گے تو کس قدر سرحد کے آرپار امن ہوگا۔ کس قدر خوشحالی ہوگی اور یہ دونوں ملکوں کی اقتصادیات کے لئے لازمی بھی ہے کیونکہ اگر ان کے درمیان خوشگوار تعلقات پیدا ہوں گے، تو ان کی مالی حالت مستحکم ہوگی اور پوری دنیا ان دونوں ملکوں کے ساتھ کاروبار کرنے کو ترجیح دے گی لیکن یہاں تو سیاستدان ایک دوسرے کے خلاف نفرتوں کے بیچ بوتے ہیں۔ یہ بیچ جب تناور درخت کا روپ دھار لیں گے تو ان درختوں پر ضد، و حسد کے پھل لگیں گے۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ دونوں ملک امن کی اہمیت کو سمجھیں اور اپنے عوام کی خواہشات کا احترام کر کے بات چیت کا سلسلہ فوری طور شروع کریں تاکہ برصغیر میں امن و سکون قائم ہوجائے۔

مبصرین کہتے ہیں کہ بھارت کی سیاسی قیادت نے اس واقعہ کو پاکستان کے ساتھ مذاکرات سے بھاگ جانے کا سنہری موقع خیال کرکے واویلا کرنا شروع کردیا، سیاسی لیڈروں کے تند و تیز بیانات نے بھی عوامی سطح پر نفرت کو ہوا دی ہوئی ہے اور بھارتی فوج پر دباؤ آن پڑا ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف بدلے کی کارروائی کرکے حساب پوار کر لے۔ کہا جارہا ہے کہ ہندوستان اور پاکستان پر جب بھی کبھی مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بیرونی دنیا دباؤ بڑھنے لگتا ہے تو اندرونِ خانہ جان بوجھ کر ایسے کڑوے حالات دفعتاً پیدا کئے جاتے ہیں کہ اصل مسئلے سے توجہ ہٹ جاتی ہے، رائے عامہ بٹ جاتی ہے اور کوئی دوسرا ہی مناقشہ اژدھا کی طرح پھن پھیلائے برصغیر کے امن کو ڈسنے لگتا ہے کہ اسی بیچ بھارتی حکومت اپنی تیوریاں تیکھی کر کے کشمیر پر مذاکراتی عمل سے فرار اختیار کرنے کا موقع بآسانی نکال لیتی ہے۔ کشمیری قوم کی بیش بہا قربانیوں کے نتیجے میں دنیا کی نظریں لازمی طور پر اس خطہ کی جانب مبذول ہوجاتی ہیں اور خطہ میں بڑھتے تناؤ کے پیش نظر دنیا کا فکرمند ہونا لازمی بات ہے کیونکہ دو جوہری طاقتوں کی تلخیاں کسی بھی وقت ایسا بھیانک رُخ اختیار کرسکتی ہیں، جس سے کروڑوں لوگوں کی زندگیاں خطرے میں پڑنے کا قوی احتمال ہے۔ حالیہ دنوں ایک مرتبہ پھر سرحدوں پر دونوں ممالک کی فوجیں آمنے سامنے آگئی ہیں اور ایک دوسرے پر الزامات عائد کئے جا رہے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 635089
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش