0
Wednesday 10 May 2017 14:26

حماس کا نیا سیاسی منشور، چند غور طلب نکات

حماس کا نیا سیاسی منشور، چند غور طلب نکات
تحریر: عبدالباری عطوان [چیف ایڈیٹر رای الیوم]

اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ خالد مشعل کی جانب سے پیش کئے جانے والے نئے سیاسی منشور اور اس تنظیم کی بنیادی پالیسیوں میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے بارے میں بہت کچھ کہا اور لکھا جائے گا، لیکن ہم اسے تین مختلف پہلووں سے مدنظر قرار دینا چاہتے ہیں:

ایک: وہ فریق جسے یہ نیا سیاسی منشور پیش کیا جانا تھا اور اس نے علاقائی اور بین المللی سطح پر اس منشور کے نشر کیلئے دباو ڈال رکھا تھا۔ دوسری طرف اس نئے منشور میں جو اصلاحات انجام دی گئی ہیں ان کا مطلب گذشتہ منشور کا بالواسطہ بطلان ہے۔ اب یہ اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ مدمقابل اس حد تک راضی اور قانع ہوتا ہے یا نہیں؟

دوسرا: کیا حماس کے نئے منشور میں ذکر کئے گئے 42 نکات حتمی ہیں یا یہ مستقبل قریب میں انجام پانے والی براہ راست یا بالواسطہ دیگر اصلاحات کا مقدمہ ہیں؟

تیسرا: کیا نئے منشور کے بارے میں حماس کی تمام شاخوں، خاص طور پر فوجی شاخ یعنی القسام بریگیڈز کے درمیان اتفاق رائے پایا جاتا ہے؟

فلسطینی عوام کے درمیان اس بارے میں دو قسم کی رائے پائی جاتی ہے۔ پہلا گروہ موجودہ زمینی حقائق کو مدنظر قرار دیتا ہے اور اس عقیدے کا حامل ہے کہ عرب دنیا میں اور بین الاقوامی سطح پر رونما ہونے والی سیاسی تبدیلیوں کے پیش نظر حماس پر لگنے والے الزامات کو دور کرنے کی کوشش کی جانی چاہئے۔ ان الزامات کے تحت حماس کو یہودیوں کا دشمن اور اخوان المسلمین کے نظریات کی حامل دہشت گرد گروہ قرار دیا جاتا ہے اور یہ موقف اپنایا جاتا ہے کہ عرب ممالک میں ان کی سرگرمیوں کو غیر قانونی قرار دے کر ان پر پابندی عائد کر دینی چاہئے۔ یہ نقطہ نظر حماس کے منشور میں درج ذیل اصلاحی نکتے سے واضح ہو جاتا ہے کہ: "فلسطین میں جاری ٹکراو ایک مذہبی ٹکراو نہیں اور اس کا مطلب مذہب کی بنیاد پر یہودیوں سے دشمنی نہیں بلکہ اس ٹکراو کی حقیقی وجہ فلسطین پر یہودیوں کا غاصبانہ قبضہ ہے"۔ اس شق میں مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں قدس شریف کی مرکزیت میں مرحلہ وار حکومت کے قیام پر زور دیا گیا ہے اور تمام فلسطینی اقدار اور مبانی جیسے مقبوضہ فلسطین کی مکمل طور پر آزادی، مزاحمت کے دیگر طریقوں کے ساتھ ساتھ مسلح جدوجہد کو بھی جاری رکھنے اور جلاوطن فلسطینیوں کی وطن واپسی کو یقینی بنانے پر بھی زور دیا گیا ہے۔

دوسرے گروہ کی نظر میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس کے نئے سیاسی منشور میں انجام پانے والی اصلاحات سے ماضی میں مختلف اسلامی مزاحمت کی تنظیموں کی جانب سے مسلح جدوجہد سے پسماندگی اور اسرائیل کی موجودیت کو تسلیم کرتے ہوئے سیاسی سازباز اور مذاکرات کا طریقہ کار اختیار کئے جانے کی یاد تازہ کر دیتا ہے۔ البتہ مذکورہ منشور اس موضوع کو مسترد کر دیتا ہے۔ اس نقطہ نظر کے حامی کہتے ہیں کہ اگر حماس کا مقصد تنظیم برای آزادی فلسطین، پی ایل او کی راہ اپنانا ہے تو اس بارے میں اس کے محمود عباس سے اختلافات کیوں ہیں؟ اور کیا وجہ ہے کہ 2007ء میں غزہ کی پٹی پر حماس کی حکومت برقرار ہو جانے کے بعد اسرائیل سے اس کی تین جنگیں ہو چکی ہیں؟

اگر پی ایل او کی جانب سے اپنے ابتدائی موقف سے پسماندگی کا بغور جائزہ لیں تو دیکھیں گے کہ اس کا آغاز تنظیم کے سیاسی منشور میں اصلاحات سے ہوا تھا۔ اسرائیل کے ساتھ اکتوبر 1973ء میں جنگ کے بعد پی ایل او نے 1974ء میں اپنا سیاسی منشور پیش کیا جس میں واضح طور پر غاصب صہیونی رژیم سے آزادی کے بعد مقبوضہ سرزمین پر فلسطینی ریاست کے قیام پر زور دیا گیا تھا۔ لیکن آخرکار نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے قرارداد نمبر 242 میں اعلان کیا کہ فلسطینیوں کو صرف 1967ء کی آزاد شدہ فلسطینی سرزمین پر ریاست تشکیل دینے کا حق حاصل ہے۔ اس کے بعد اوسلو معاہدہ منعقد ہوا اور پی ایل او کا راستہ مکمل طور پر تبدیل ہو گیا۔ سب کو اچھی طرح یاد ہے کہ الجزائر کے دارالحکومت میں واقع صنوبر محل میں کس طرح فلسطینی ریاست کی خودمختاری کے اعلان پر جشن کا انعقاد کیا گیا۔ فلسطینی ریاست کی خودمختاری کا اعلامیہ ایڈورڈ سعید جیسے عرب مفکرین کی نظارت میں 1988ء میں تیار کیا گیا۔ اس اعلامئے میں خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کا اعلان کیا گیا اور اس مناسبت سے ایک بڑا جشن منعقد ہوا جو بین الاقوامی میڈیا کی خصوصی توجہ کا مرکز بنا اور ایک ہزار صحافیوں نے اس میں شرکت کی۔

خودمختاری کا یہ اعلامیہ بعد میں اوسلو معاہدے کے انعقاد، مسلح جدوجہد کو ترک کرنے، اسرائیل کو تسلیم کرنے اور مذاکرات کا راستہ اپنانے کا باعث بنا۔ ان مذاکرات میں جلاوطن فلسطینیوں کی وطن واپسی اور غزہ اور اریحا کی خودمختاری جیسے موضوعات زیر بحث لائے گئے۔ اوسلو معاہدہ ایسے حالات میں منعقد کیا گیا جب پی ایل او گوشہ نشینی کا شکار ہو چکی تھی اور کویت پر عراق کے قبضے کے باعث اس تنظیم کے مالی ذرائع مسدود ہو چکے تھے۔ اس معاہدے کی روشنی میں ڈیٹن فورس کا قیام عمل میں آیا اور پی ایل اور اسرائیلی انتظامیہ میں سکیورٹی تعاون کا آغاز ہو گیا۔ اس تعاون کا مقصد مغربی کنارے اور مقبوضہ بیت المقدس میں اسرائیلی بستیوں کے باسیوں کی حفاظت کرنا تھا جن کی تعداد 8 لاکھ کے لگ بھگ تھی۔ فلسطین اتھارٹی کے سربراہ یاسر عرفات پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے دوسرے فلسطینی انتفاضہ کے آغاز میں اہم کردار ادا کیا ہے لہذا اسرائیل کی جانب سے چند ماہ تک محاصرے اور پابندیوں کا شکار رکھنے کے بعد آخرکار انہیں زہر دے کر قتل کر دیا گیا۔

حماس کی جانب سے جاری کئے گئے نئے سیاسی منشور کا مطالعہ کرنے سے ماضی میں یاسر عرفات کی جانب سے جاری کردہ خودمختاری کے اعلامئے اور اس میں شامل دس شقوں سے اس کی مشابہت واضح ہو جاتی ہے۔ فلسطینی سرزمین کے ہر انچ کو آزاد کروانے کا عزم، جلاوطن فلسطینیوں کی وطن واپسی کا حق، مسلح جدوجہد اور مزاحمت کے تمام راستوں کو جاری رکھنے کی ضرورت جیسے موارد میں یہ مشابہت پائی جاتی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اگلے چند سالوں میں یہ نیا سیاسی منشور، اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس اور ملت فلسطین کن حالات سے روبرو ہو گی؟ ان تجربات کی روشنی میں درج ذیل نکات کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے:

اول: اسرائیل اور مغربی طاقتیں ہر گز فلسطین کی مرحلہ وار اور عبوری حکومت کے قیام کو تسلیم نہیں کریں گے مگر یہ کہ اسرائیل کی موجودیت کو تسلیم کیا جائے، مسلح جدوجہد ترک کر دی جائے اور جلاوطن فلسطینیوں کی وطن واپسی کا مطالبہ واپس لے لیا جائے۔
دوم: مغربی طاقتوں کی جانب سے اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس یا کسی دوسری جہادی تنظیم پر دہشت گردی کا الزام ختم کر کے بھرپور مذاکرات کا آغاز اس وقت تک ممکن نہیں جب تک وہ تنظیم مسلح جدوجہد کو ترک کر کے ہتھیار نہیں پھینک دیتی۔
سوم: اسرائیل سے براہ راست مذاکرات کیلئے اسرائیلی حکومت کو تسلیم کرنے، تمام بین الاقوامی قراردادوں کو ماننے اور اوسلو سمیت تمام معاہدوں کو قبول کرنے کی ضرورت ہے۔

مذکورہ بالا مطالب کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ غزہ کی پٹی میں بسنے والے 20 لاکھ سے زائد فلسطینی شہریوں کے خلاف محاصرے اور انہیں غذائی قلت کا شکار کرنے اور انہیں اپنے بنیادی حقوق سے محروم کرنے اور ان کی بجلی کاٹنے جیسے اقدامات ایک طے شدہ منصوبہ بندی کے تحت انجام پائے ہیں جن کا مقصد ماضی میں پی ایل او پر دباو ڈالنے کی طرح حماس پر بھی دباو ڈال کر انہیں مسلح جدوجہد کا راستہ ترک کرنے پر آمادہ کرنا ہے۔ اسرائیلی حکام اور ان کے یورپی اور امریکی اتحادی حماس کی جانب سے جاری کردہ اس نئے سیاسی منشور پر انتہائی خوش ہوں گے لیکن وہ یہ ضرور کہیں گے کہ اس حد تک کافی نہیں بلکہ حماس کو مزید پسماندگی پر مجبور کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ آخرکار اسرائیل کی موجودیت کو تسلیم کرنے اور مسلح جدوجہد ترک کرنے پر مجبور ہو جائے۔

سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ حماس پر اس کے اتحادی ممالک یعنی قطر اور ترکی کی جانب سے اعتدال پسندانہ رویہ اپنانے کیلئے بے پناہ دباو ڈالا جا رہا ہے۔ اس بارے میں ترکی کے وزیر خارجہ مولود چاوش اولو کا بیان قابل غور ہے جو انہوں نے واشنگٹن پریس کلب میں ایک خفیہ میٹنگ کے دوران دیا ہے۔ انہوں نے اپنے اس بیان میں تاکید کی ہے کہ ترک حکومت حماس پر اسرائیل کو تسلیم کرنے، ہتھیار ترک کرنے اور دو ریاستی راہ حل قبول کرنے کیلئے دباو ڈال رہی ہے۔ حماس کے ایک اعلی سطحی عہدیدار نے بھی اس بات کا اعتراف کیا ہے لیکن کہا ہے کہ حماس نے ترک حکومت کا مطالبہ مسترد کر دیا ہے۔ حماس کے نئے سیاسی منشور کی تشکیل میں سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر نے اہم کردار ادا کیا ہے اور انہوں نے اس مقصد کیلئے کئی بار دوحہ اور غزہ کے دورے بھی کئے ہیں۔ ہم نہیں سمجھتے کہ ٹونی بلیئر، جو عراق اور لیبیا کے خلاف جنگوں کا اہم کردار رہے اور ان دو جنگوں کے آغاز میں سرگرم کردار ادا کیا، ملت فلسطین اور حماس کے خیر خواہ ہیں۔ ان کی تمام تر سرگرمیاں اسرائیلی مفادات کی تکمیل اور یہودی بستیوں کی تعمیر کی تسہیل کیلئے ہیں۔ وہ ایسے شخص ہیں جو اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے انتہائی قریبی دوست تصور کئے جاتے ہیں۔

1967ء میں احمد الشقیری کی آرمی اور عرب تنظیم کی شکست کے نتیجے میں یاسر عرفات پی ایل او کے سربراہ کے طور پر سامنے آئے لیکن فتح آرگنائزیشن کی اعتدال پسندی اور اوسلو معاہدے کے باعث ایسا خلاء وجود میں آیا جسے اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس نے پر کیا۔ اب یہ دیکھنا ہے کہ کون سا گروہ یا تنظیم حماس کی جانب سے جہادی موقف میں تبدیلی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے خلاء کو پر کرنے کیلئے آگے بڑھے گا۔ غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے میں بسنے والے فلسطینی شہریوں کی نگاہیں حماس کے ملٹری ونگ القسام بریگیڈز کی جانب اٹھ رہی ہیں۔ ان کی نظر میں القسام بریگیڈز حماس کی طرح اپنے موقف میں پسماندگی اختیار نہیں کرے گا اور سازباز کا راستہ اختیار نہیں کرے گا۔ ان کی نظر میں اس راستے کا نتیجہ شکست اور ذلت کے سوا کچھ نہیں۔ یہ ایک اتفاقی امر نہیں کہ حماس نے اپنا نیا سیاسی منشور فلسطین اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس کے دورہ امریکہ سے صرف دو روز قبل شائع کیا ہے۔ آج مسئلہ فلسطین ایک انتہائی اہم اور تاریخی مرحلے سے عبور کر رہا ہے اور ہم دعاگو ہیں کہ خداوند متعال ملت فلسطین کی مدد کرے۔
خبر کا کوڈ : 635407
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش