0
Friday 12 May 2017 18:31
نفاق اہل پاراچنار کی شہہ رگ کو کاٹ کر رکھ دے گا جبکہ اتحاد کے ذریعے وہ ہمیشہ سرفراز و سرخرو رہینگے

پاراچنار، 15 شعبان کے موقع پر علامہ سید جواد نقوی کا خطاب

آج اہلیان پاراچنار کے بلند حوصلوں کا میں نے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا تو مجھے نہایت اطمینان اور خوشی نصیب ہوئی
پاراچنار، 15 شعبان کے موقع پر علامہ سید جواد نقوی کا خطاب
تحریر: ایس این حسینی

آج 15 شعبان المعظم 1438ھ کا دن جہاں پوری دنیائے اسلام نے منجی عالم حضرت بقیۃ الاعظم امام مہدی عجل اللہ تعالٰی فرجہ الشریف کے یوم ولادت باسعادت کی مناسبت سے پورے جوش و جذبے سے منایا، وہاں سرزمین شہداء پاراچنار میں بھی ایک پروقار جلسے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اس جلسے کا انعقاد ہر سال عام طور پر مدرسہ جعفریہ کے طلاب کرتے ہیں۔ اس سال بھی مدرسہ جعفریہ کے طلبہ نے مرکزی امام بارگاہ میں اس جلسے کا انعقاد کیا تھا، لیکن جلسے کی اہم خوبی یہ تھی کہ اس مرتبہ جلسے سے خطاب کے لئے لاہور سے علامہ سید جواد نقوی کو دعوت دی گئی تھی۔ علامہ صاحب کل بعد از ظہر جب پاراچنار پہنچے تو ہزاروں کی تعداد میں عوام سمیت علمائے کرام اور انجمن حسینیہ کے ممبران نے انکا پرتپاک استقبال کیا۔ ان کے پہنچتے ہی علاقے کی تمام تنظیموں کے نمائندوں خصوصاً تحریک حسینی کے علماء اور رہنماؤں نیز مجلس علمائے اہلبیت، انصار الحسین، آئی او اور آئی ایس او کے رہنماؤں نے ان سے ملاقاتیں کیں اور کرم ایجنسی تشریف لانے پر اپنے معزز مہمان کو خوش آمدید کہا۔ یہاں تک کہ رات کا کھانا بھی سب نے آقائے محترم نیز آقائے شیخ فدا حسین مظاہری کے ساتھ اکٹھا مدرسہ جعفریہ میں تناول کیا۔

آج تقریباً صبح سوا 10 بجے جلسہ عید میلاد امام مہدی علیہ السلام کا آغاز تلاوت کلام پاک سے کیا گیا، جبکہ تلاوت کے فوراً بعد علامہ سید جواد نقوی کو خطاب کی دعوت دی گئی۔  جنہوں نے مسلسل دو گھنٹے یعنی اذان ظہر تک اپنا خطاب جاری رکھا۔ اپنے خطاب کے دوران انہوں نے فلسفہ ظہور و انتظار پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ظہور کا ایک مطلب ظاہر ہونا ہے، جبکہ اسکا دوسرا مطلب ہے غلبہ پانا۔ چنانچہ ظہور امام علیہ السلام سے مراد یہ ہے کہ مولا کی حکومت پوری دنیا پر قائم ہوگی اور پوری دنیا پر وہ مکمل تسلط اور غلبہ حاصل کر لیں گے۔ انہوں نے سعودی عرب میں ٹرمپ کی سربراہی اور صدارت میں ہونے والے 41 ملکی اتحاد کے اجلاس کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ نام کے لئے تو یہ اسلامی ممالک کا اتحاد ہے، لیکن اسکی سربراہی اسلام کا سب سے بڑا دشمن ملک امریکہ کر رہا ہے۔ گویا یہ اتحاد امریکہ کے اشارے پر ہی بنایا گیا ہے، جس کا واحد مقصد دنیا بھر میں آباد امریکہ مخالف مسلمانوں بالخصوص اہل تشیع کی نابودی ہے، حالانکہ اس اتحاد میں شامل ممالک نے اسرائیل کے مظالم کے خلاف نہ کوئی قدم اٹھایا، نہ ہی کوئی قرارداد پاس کی۔ تاہم یہ لوگ یاد رکھیں کہ جسطرح یزید اور یزیدیوں کا خیال تھا کہ حسین کو قتل کرکے ہمیشہ کے لئے انہیں ختم کیا جائے گا، مگر وہ حسین علیہ السلام کو ختم کرنے کے بجائے خود ہی نابود  ہوگئے۔ اسی طرح یہ تمام قوتیں شیعوں کو ختم کرنے کے بجائے خود ہی ختم ہوجائیں گی۔

دہشتگردوں کی جانب سے پوری دنیا میں شیعہ مناطق اور ممالک کو نشانہ بنانے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے علامہ صاحب کا کہنا تھا کہ امریکہ اور اسرائیل میں مہدویت پر ریسرچ کرنے کے لئے تحقیقاتی مراکز اور اکیڈمیز کا قیام میں عمل لایا جاچکا ہے۔ جن کا واحد مقصد امام مہدی علیہ السلام کے قیام اور انکے طرز حکومت پر تحقیق کرنا ہوتا ہے۔ ان اکیڈمیز کی پوزیشن اور سطح یہ ہے کہ اسلامی ممالک میں کہیں بھی ان کے معیار کی اکیڈمیاں موجود نہیں۔ یہی تو وجہ ہے کہ گذشتہ دنوں سعودی وزیر دفاع نے امام مہدی کے متعلق جو بیان دیا، وہ انکا اپنا نہیں تھا بلکہ یہ انہیں امریکی تحقیقاتی ادارے نے ڈکٹیٹ کیا تھا، گویا انہی کا بیان اس نے نقل کیا۔ امریکہ جانتا ہے کہ دنیا میں قائم تمام جابر اور مستکبر حکومتوں کیلئے واحد سد راہ اور رکاوٹ نظام امام مہدی علیہ السلام یعنی مہدویت ہے، جس کے لئے شیعہ اور شیعہ ممالک راہ ہموار کر رہے ہیں۔ چنانچہ انکے خیال میں شیعہ ہی آجکل انکی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاراچنار جو آجکل دہشتگردوں کے نشانے پر ہے، اسکی بھی اصل وجہ یہی ہے کہ پاراچنار میں اہل تشیع کے نہایت بیدار، بہادر اور باحوصلہ قبائل آباد ہیں، جو مستکبرین کی آنکھوں میں کھٹکتے ہیں۔ پاراچنار پاکستان کے تمام شیعوں کے لئے ایک نمونہ ہے، یہاں کے قبائل باحوصلہ اور بہادر ہیں، جو دھماکوں اور قتل و مقاتلے سے ڈرنے والے نہیں بلکہ دھماکوں اور لڑائیوں سے انکے حوصلے مزید بلند ہوگئے ہیں۔ آج اہلیان پاراچنار کے بلند حوصلوں کا میں نے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا تو مجھے نہایت اطمینان اور خوشی نصیب ہوئی۔ تاہم اہلیان پاراچنار اس بات کا خیال رکھیں کہ پاراچنار کے موجودہ تمام مسائل و مشکلات کا واحد حل یہاں آباد اقوام کے باہمی اتحاد میں مضمر ہے۔ اتحاد کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انکا کہنا تھا کہ دو بھائیوں کے درمیان بٹوارہ ہو جاتا ہے۔ مثلاً دونوں کے الگ الگ مکانات اور دکانیں ہوتی ہیں، مگر دکان اور مکان الگ ہونے کے باوجود انکی برادری میں کوئی فرق نہیں آتا اور یہ کہ اتحاد کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ایک علاقے میں موجود مختلف تنظیمیں ختم ہوکر ایک ہو جائیں، ایسا ہونا اگرچہ نہایت خوش آئند ہے، تاہم اسکو انضمام یعنی ضم ہونا کہا جاتا ہے، جبکہ اتحاد کا مطلب یہ ہے ہر گروہ یا پارٹی کا اپنا اپنا وجود برقرار ہو، لیکن ایک دوسرے کی مخالفت نہ کیا کریں۔ چنانچہ پاراچنار کے ساکینین اس بات کی طرف متوجہ رہیں کہ نفاق انکی شہہ رگ کو کاٹ کر رکھ دے گا جبکہ اتحاد کے ذریعے وہ ہمیشہ سرفراز و سرخرو رہیں گے۔
خبر کا کوڈ : 636047
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش