0
Wednesday 17 May 2017 10:45

پاراچنار، 2007 سے قبل کے دوراہے پر

پاراچنار، 2007 سے قبل کے دوراہے پر
تحریر: روح اللہ مھدوی

2007ء میں پیش آنے والے حالات اور کرم کا ایک خطرناک بحران سے دوچار ہونا کوئی اتفاقی حادثہ نہیں تھا۔ اہلیان پاراچنار میں سے اکثر کو شاید یاد ہو کہ پاراچنار میں 6 اپریل 2007ء اور اسکے کچھ ماہ بعد 16 نومبر 2007ء کو ہونے والے فسادات اتفاقی حادثہ یا خود بخود رونما نہیں ہوئے بلکہ 2005ء سے لیکر 2007ء تک کے عرصے میں طالبان کسی کی ایما پر یہاں خصوصاً لوئر اور سنٹرل کرم میں سیاہ و سفید کے مالک بن چکے تھے اور لوئر اور سنٹرل کرم میں مسلسل کارروائیاں کرتے رہے۔ اس عرصے کے دوران بچوں اور گاڑیوں کا اغوا، ڈکیتی، مسافر گاڑیوں کو نشانہ بنانا اور لوگوں کو مختلف طریقوں سے قتل کرنے پر مبنی واقعات تسلسل سے جاری تھے۔ کرم ایجنسی کے طوری بنگش اقوام نے حکام وقت سے ان زیادتیوں کی مسلسل شکایات کی تھیں، لیکن حکام نے خاموشی اختیار کرتے ہوئے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر اپنی بے بسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بظاہر تو ان واقعات سے اپنی لاتعلقی کا اظہار کیا، تاہم درپردہ گویا انہوں نے طالبان کی کارروائیوں کی حمایت کا اعلان کیا تھا اور سرکار کی لاتعلقی بلکہ کھلی چھٹی پر حالات اس نہج پر آگئے کہ شیعہ اکثریتی علاقے پاراچنار بازار میں طالبان نے باقاعدہ مسلح واک کرتے ہوئے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنا شروع کر دیا، حالانکہ 1987ء کے فسادات کے بعد سے پاراچنار بازار میں اسلحہ کی نمائنش تو کیا، چاقو تک پر پابندی ہے، جبکہ طالبان اور انکے مقامی کمانڈر عید نظر نے اتنی جرات کی کہ طوریوں کے بازار، یہاں تک کہ سرکاری دفاتر (کچہری) کے سامنے اسلحہ کی کھلم کھلا نمائش کی۔ اسکے بعد کرم خونریز فسادات کی لپیٹ میں آگیا اور پھر مسلسل پانچ سال تک فسادات کے نتیجے میں ہزاروں جانوں کے ضیاع کے علاوہ، سینکڑوں گھرانے نقل مکانی پر بھی مجبور ہوگئے۔

آج 10 سال بعد دیکھا جائے تو حالات نے ایک بار پھر وہی رخ اختیار کر لیا ہے۔ اہلیان پاراچنار کو پلانٹڈ اور خودکش دھماکوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، بڑے پیمانے پر انکی ٹارگٹ کلنگ کی جا رہی ہے۔ اور ذمہ داری بھی طالبان سمیت متعدد دہشتگرد گروہ قبول کر رہے ہیں، جبکہ تعجب کی بات یہ کہ پورے پاکستان میں طالبان کو ملک دشمن قرار دینے والی ہماری اپنی حکومت یہاں طالبان کے ایجنڈے کی تکمیل میں سب سے آگے ہے۔ دھماکہ کرانے والے افراد کا مقامی سرکار اور اداروں کو بخوبی علم ہے۔ سبزی منڈی اور عیدگاہ کباڑ والے دھماکوں کی منصوبہ بندی اور فٹنگ بوشہرہ جبکہ امامبارگاہ گیٹ والے دھماکے کی منصوبہ بندی تری منگل میں ہوئی تھی۔ اگرچہ اس حوالے سے یہ شکوک بھی پائے جاتے ہیں کہ اس موخر الذکر دھماکے میں کرنل اجمل ملوث ہے، تاہم سرکار نے 30 اپریل کو تری منگل سے اس حوالے سے مطلوب افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ بظاہر اتنی بڑی کامیابی کے باوجود حکومت نے اسکا تذکرہ خود تو کیا، میڈیا کو بھی اس حوالے سے کسی قسم کی خبر دینے سے سختی سے منع کر دیا۔ چنانچہ عوام میں اس حوالے سے نہایت بے چینی پائی جاتی ہے، کیونکہ پاکستان بھر میں سرکار کسی سے معمولی پستول یا بندوق، حتی چرس برآمد کرنے میں کامیابی حاصل کرتی ہے تو وہ میڈیا میں بڑی بڑی شہ سرخیوں کے ساتھ بیانات جاری کرتی ہے، لیکن معلوم نہیں، کیا وجہ ہے کہ اتنی بڑی کامیابی حاصل کرنے کے باوجود ہماری سرکار خود تو کیا دوسروں کو بھی بیان دینے سے روکتی ہے۔

مقامی مبصرین اسکی کئی وجوہات بیان کرتے ہیں
1۔ بعض کا خیال ہے کہ تری منگل میں ہونے والی گرفتاری کا تعلق دھماکے سے نہیں بلکہ گرفتار ہونے والا شخص افغانستان کا ایجنٹ تھا اور وہ بطور کلی پاکستان کو مطلوب تھا۔
2۔ بعض کا کہنا ہے کہ سرکار کو اگرچہ، دہشتگرد سے کوئی ہمدردی نہیں، تاہم اسے اہلیان تری منگل سے ضرور ہمدردی اور دلچسپی ہے، کیونکہ اگر وہ کھلم کھلا پریس کانفرنس یا بیان جاری کرتی تو اس سے تری منگل کے پورے علاقے اور منگل کے پورے قبیلے پر حرف آسکتا تھا۔ چنانچہ منگل اور تری منگل کو بچانے کے لئے اپنی شہرت کی قربانی دینا پڑی۔
3۔ تری منگل اور بوشہرہ کے عمائدین خصوصاً حاجی بخت جمال کے ذاتی اثر و رسوخ کی وجہ سے اس کام کو روک دیا گیا۔ جو کچھ بھی ہو، مگر پہلی بات کو تو حکومت نے مختلف مواقع پر خود ہی کہہ کر مسترد کر دی ہے۔ جس میں انہوں نے طوری بنگش عمائدین کے سامنے اس حوالے سے تری اور بوشہرہ سمیت متعدد کامیابیوں کا تذکرہ کیا ہے۔ چنانچہ یہ بات تو سرے سے غلط ہے، جبکہ دوسری اور تیسری بات میں سے جو بھی صحیح ہو، ہر ایک ہماری سرکار کی ناکامی بلکہ انکی جانبداری پر منتج ہوتی ہے۔

پولیٹیکل محرر سرفراز حسین کا بہیمانہ قتل:
دوسری جانب 14 مئی بروز اتوار لوئر کرم کے علاقے شورکی میں پولیٹیکل محرر سرفراز حسین اور اسکے دوسرے پولیس اہلکار ساتھی ممتاز حسین کا بہیمانہ قتل بھی پورے علاقے کے لئے ایک خطرناک نقشہ پیش کرتا ہے۔ جس علاقے میں موصوف قتل ہوئے، 2007ء میں بالکل اسی علاقے میں طالبان نے کئی وارداتیں کرکے طوریوں کے متعدد افراد کو قتل کر دیا تھا، انکی یہی کارروائیاں طوری بنگش اقوام کو اپنے دفاع کے لئے مسلح قیام کرنے پر آمادہ کرگئیں اور پھر نہ ختم ہونے والی ایک طویل لڑائی شروع ہوگئی، جس میں نان لوکل طالبان اور انکے مقامی سہولتکاروں کے اعداد و شمار کا تو صحیح اندازہ نہیں، جبکہ اس پورے عرصے کے دوران، سرکاری روڈ میں گاڑیوں پر فائرنگ، بم دھماکوں اور لڑائیوں میں 3000 سے زائد مقامی طوری و بنگش افراد شہید جبکہ دیگر ہزاروں افراد زخمی ہوگئے۔ سرفراز حسین اور ممتاز حسین کا قتل ایک بہت بڑے منصوبے کا مقدمہ نظر آرہا ہے۔ اہلیان علاقہ کے مطابق گذشتہ اتوار کی رات وہ ایک دعوت میں شریک تھے کہ اسی اثنا میں اسے فون کال کے ذریعے اطلاع دی گئی کہ فلاں مقام پر چند بندوں کو کسی نے مارا ہے، لہذا فوراً وہاں پہنچ جائیں۔ چنانچہ سرفراز حسین، اپنے ماتحت ایک پولیس اہلکار ممتاز حسین کو بھی اپنے ساتھ لیکر، مطلوبہ مقام (ڈنگ ڈنگ راغہ) پہنچ گئے، جہاں پر پہلے سے تاک میں بیٹھے افراد نے فائرنگ کرکے انہیں نہایت بیدردی کے ساتھ قتل کر دیا۔ عینی شاہدین کے مطابق سرفراز حسین کو 40 جبکہ ممتاز حسین کو 60 گولیاں لگی تھیں۔ فائرنگ پر ہی اکتفا نہیں کیا گیا تھا بلکہ پتھر مار مار کر انکی لاشوں کو بری طرح مسخ کیا گیا تھا۔ واقعے کی ذمہ داری بیک وقت دہشتگردوں کے کئی ٹولوں نے قبول کی۔ مقامی سرکاری ذرائع کے مطابق اسکی ذمہ داری لشکر جھنگوی نے قبول کی، جبکہ جماعت الاحرار نے الگ طور پر اپنے پیج پر اسکی ذمہ داری قبول کی، انکے علاوہ حکیم اللہ محسود گروپ نے بھی اس واقعے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ مگر حکومت نے اس حوالے سے مقامی مالی خیل اور شورکی کے مقامی طوری قبائل کو گرفتار کر لیا ہے۔

واقعے کا ذمہ دار کون ہوسکتا ہے؟
اس ضمن میں مبصرین کا کہنا ہے کہ باہر سے کوئی نہیں آسکتا، اس واقعے میں مخی زئی اور جنداڑی کے وڈیرے ہی ملوث ہیں، کیونکہ شورکی کے علاقے میں طوریوں کا وجود انکے لئے ناقابل برداشت ہے۔ تقریباً 2 ماہ قبل انہی کی ایما پر ایک جرگہ منعقد ہوا تھا، جس میں مینگک کی شیعہ آبادی کو بھی دعوت دی گئی تھی، جس کا ایجنڈا یہ تھا کہ شورکی کے علاقے سے اپر کرم کے طوری قبائل کے انخلاء کے لئے اقدامات کئے جائیں۔ جسے مینگک کے بعض مشران نے یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ پاراچنار میں ہمارا مرکز موجود ہے، اس حوالے سے ہمارا مرکز جو فیصلہ کرے گا، وہ ہمیں منظور ہوگا۔ ہم از خود کچھ بھی نہیں کرسکتے۔ چنانجہ جرگہ بغیر کسی نتیجے کے ختم ہوگیا۔ انکے لشکر جھنگوی وغیرہ سے پہلے ہی سے روابط ہیں۔ انکے کسی بھی فعل کی ذمہ داری قبول کرنا کوئی مشکل نہیں بلکہ انکی گندی شہرت میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔

حامد طوری کا قتل اور طالبان کی ذمہ داری
اس سے قبل بھی جتنے واقعات رونما ہوچکے ہیں، انکی ذمہ داری بھی انہی تنظیموں نے قبول کی ہے۔ اس سے قبل حامد حسین طوری کے قتل کی ذمہ داری بھی جماعت الاحرار ہی نے قبول کی تھی، جبکہ سرکار نے اس حوالے سے مقامی طوری افراد کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا، مگر آج تک اسکا کوئی خاص نتیجہ نہیں نکلا کہ کیا ان گرفتار افراد نے اپنے ذاتی مقصد کے تحت حامد حسین کو قتل کر دیا یا پھر طالبان کا آلہ کار بن کر اسے قتل کر دیا۔ جو کچھ بھی ہو، اس حوالے سے مکمل تفصیلات عوام کے سامنے لانا حکومت کا فرض بنتا ہے، مگر پتہ نہیں ہماری حکومت ایسا کرنے سے کیون کتراتی ہے۔ یہی نہیں جیسا کہ متذکرہ بالا سطور میں بھی عرض کی گیا کہ سبزی منڈی اور امام بارگاہ دھماکے کی معلومات کے حوالے سے کافی حد تک پیش رفت ہوئی ہے۔ بوشہرہ اور تری منگل میں اس حوالے سے گرفتاریاں عمل میں لائی جاچکی ہیں، جبکہ تری منگل میں تو ایک گھر سے خودکش جیکٹوں اور دیسی بموں کی ایک بڑی کھیپ بھی برآمد کی جاچکی ہے، مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ کرم انتظامیہ اس حوالے سے اپنی کامیابیوں اور پیش رفت کا کوئی تذکرہ نہیں کرتی۔

لہذا موجودہ صورتحال میں حکومت سے کسی قسم کی توقع رکھنا حماقت کے زمرے میں آئے گا۔ مقای قبائل کا فرض بنتا ہے کہ کسی پر تکیہ کئے بغیر، اپنے طور پر ہر طرح سے بھرپور تیاری کریں، نفاق اور پرانی ناچاقیوں کو طلاق بائن دیکر اور بقول انجنیئر محمد علی کے، چار تکبیریں پڑھ کر دفنا دیں۔ حکومت یا کسی پر تکیہ کرنے کی بجائے محمد و آل محمد علیہم السلام بالخصوص قائم آل محمد عجل اللہ تعالٰی فرجہ الشریف کو وسیلہ قرار دیکر اللہ تعالٰی سے اپنے مسائل و مشکلات کا حل طلب کریں۔ نیز ہمارے ذمہ دار افراد، عمائدین خصوصاً مرکزی اداروں (انجمن حسینیہ اور تحریک حسینی) کو چاہیے کہ چپ کا روزہ توڑ کر ملکی سطح پر احتجاج کی تیاری کریں۔ ہمارے پارلیمانی نمائندوں (ایم این اے اور سینیٹر صاحبان) کو چاہئے کہ پارلیمنٹ کی سطح پر، نیز اہم سرکاری حکام کے ساتھ ملاقات میں کرم کے موجودہ مسائل کو اٹھائیں، بلکہ ان تمام افراد کو، جو الیکشن کے دوران کرم کا رخ کرکے عوام سے ووٹ مانگتے ہیں، چاہئے کہ جس منہ سے  وہ ووٹ مانگتے ہیں، اسی منہ سے جاکر اعلٰی حکام سے اپنے اہل علاقہ کے مسائل کا تذکرہ کریں اور یوں خود کو اصل کرمیوال ثابت کرکے اہل علاقہ سے ووٹ کے لئے بھیک نہیں بلکہ سربلندی کے ساتھ ووٹ کا حق طلب کریں۔ انکی موجودہ خاموشی نہایت قابل افسوس بلکہ مجرمانہ ہے۔ ایک سال بعد انتخابات ہونے والے ہیں، وہ کس منہ سے عوام کا سامنا کرسکیں گے۔
خبر کا کوڈ : 637510
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش