0
Thursday 18 May 2017 10:16

ایرانی انتخابات اور امریکہ کا جارحانہ رویہ

ایرانی انتخابات اور امریکہ کا جارحانہ رویہ
تحریر: قدرت اللہ چودھری

ایران میں کل صدارتی انتخابات ہو رہے ہیں، براہ راست مقابلہ موجودہ صدر ڈاکٹر حسن روحانی اور ابراہیم رئیسی کے درمیان ہے۔ اگرچہ ایران کے اندر قدامت پسند اور اعتدال پسند یا اصلاح پسند کی تقسیم اس طرح نہیں، جس طرح باہر بیٹھے لوگ محسوس کرتے اور اسے پروپیگنڈے کے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ ایران میں کوئی کتنا بھی اعتدالی یا اصلاحی ہو، وہ اگر سسٹم کے اندر رہ کر کام کر رہا ہے اور ولایت فقیہہ کے نظریئے پر پوری طرح یقین رکھتا ہے تو وہ سیاست کرسکتا ہے ورنہ نہیں۔ جو لوگ امام خمینی کے انقلاب اور نتیجے کے طور پر ان کے قائم کئے ہوئے نظام کو نہیں مانتے، ان کیلئے ایرانی سیاست میں کوئی جگہ نہیں۔ اس لئے اگر کوئی انتہا پسند ہے یا اصلاح پسند ہے تو اس نظام کے اندر ہے۔ جس روز صدارتی امیدواروں کے کاغذات نامزدگی داخل ہو رہے تھے تو ایک ہزار چھ سو کے لگ بھگ امیدواروں نے کاغذات جمع کرا دئیے تھے، لیکن یہ فیصلہ کہ کون الیکشن لڑے گا اور کون نہیں لڑے گا اس کا انحصار محض فنی طور پر درست کاغذات نامزدگی پر نہیں۔ کاغذات کی درستی کے بعد یہ فیصلہ شورائے نگہبان (گارڈین کونسل) کرتی ہے کہ جن امیدواروں نے کاغذات نامزدگی داخل کئے، ان میں سے کون صدارتی انتخاب لڑنے کا اہل ہے۔ یہ فیصلہ حتمی ہوتا ہے اس کیخلاف کوئی اپیل نہیں۔

الیکشن سے دو روز پہلے ایک بڑی اہم پیشرفت یہ ہوئی ہے کہ حسن روحانی کے نائب صدر اسحاق جہانگیری ان کے حق میں دستبردار ہوگئے ہیں۔ جنوبی تاریخی شہر شیراز میں اپنے حامیوں کے ایک بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے حسن روحانی کے حق میں دستبرداری کا اعلان کیا، اس سے 2 دن پہلے ایران کے مشہور میئر محمد باقر قالیباف نے ابراہیم رئیسی کے حق میں دستبرداری کا اعلان کیا تھا، جو میئر منتخب ہونے سے پہلے ایران پولیس کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں۔ باقی 2 امیدواروں میں مصطفٰی ہاشمی طبا اور مصطفٰی میر سلیم شامل ہیں۔ ایرانی صدارتی انتخابات میں صرف وہی امیدوار کامیاب قرار دیا جا سکتا ہے، جو 50 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کرے، اگر کوئی بھی امیدوار ایسا نہ کرسکے تو پھر رن آف الیکشن ہوتا ہے، جو پہلے اور دوسرے نمبر پر ووٹ حاصل کرنیوالے امیدواروں کے درمیان ہوتا ہے۔ حسن روحانی گذشتہ ٹرم میں 50.7 فیصد ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے۔ انہیں اعتدال پسند سیاست دان سمجھا جاتا تھا، کیونکہ وہ مغرب کیساتھ تعلقات بہتر کرنے کے حامی تھے۔

ان کا یہ بھی خیال تھا کہ امریکہ اور مغربی ملکوں نے ایران پر جو پابندیاں عائد کر رکھی ہیں، ان سے اسی صورت نجات حاصل کی جاسکتی ہے، جب مغرب کیساتھ معمول کے تعلقات قائم کئے جائیں، چنانچہ ان کے دور میں طویل مذاکرات کے بعد امریکہ اور 5 دوسرے مغربی ملکوں کیساتھ جوہری معاہدہ ہوا، ایران کے اعتدال پسندوں نے اسے اپنی بہت بڑی کامیابی قرار دیا اور معاہدے کے اعلان کے بعد سڑکوں پر آکر اظہار مسرت کیا، جبکہ ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی بھی تھی، جو اس معاہدے سے خوش نہیں تھے اور ان کے خیال میں امریکہ نے ایران کو نیو کلیئر پاور بننے کے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ کھڑی کر دی ہے۔ ایران میں اگر 2 نقطہ ہائے نظر کھل کر سامنے آ رہے تھے تو امریکہ میں بھی اس معاہدے کے حامی اور مخالفین کم نہیں تھے۔ صدر اوباما خوش تھے کہ انہوں نے ایران کی نیو کلیئر صلاحیت کو محدود کر دیا ہے، لیکن کانگریس میں ری پبلکن پارٹی اوبامہ سے خوش نہیں تھی۔

مخالف ارکان نے پہلے تو خبردار کیا کہ صدر اوبامہ اس معاہدے کی توثیق نہ کریں اور اگر انہوں نے ایسا کیا بھی تو وہ کانگریس سے اسے منظور نہیں ہونے دیں گے، لیکن اوباما نے کہا کہ جو معاہدہ طویل اعصاب شکن مذاکرات کے بعد وجود میں آیا ہے، اسے یوں بعض ارکان کی ضد اور ہٹ دھرمی کی نذر نہیں ہونے دیا جائے گا اور اگر کانگریس نے اسے منظور نہ کیا تو وہ اس فیصلے کو ویٹو کر دیں گے۔ اوباما کی دھمکی کام کر گئی ہے اور ڈیمو کریٹک اور ری پبلکن ارکان نے مل کر اس بل کو منظور کر لیا، لیکن اس کے بعد امریکہ میں 2 اہم پیشرفتیں ہوئیں، ایک تو یہ کہ ری پبلکن سپیکر نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کو کانگریس سے خطاب کیلئے بلا لیا، جنہوں نے صدر اوباما کو آڑے ہاتھوں لیا اور یہ دھمکی تک دے ڈالی کہ اسرائیل ایران پر حملے سے بھی گریز نہیں کرے گا، لیکن صدر اوباما اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔ دوسری اہم پیشرفت یہ ہوئی کہ تمام سفارتی نزاکتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے 70 کے قریب ارکان کانگریس نے براہ راست صدر حسن روحانی کو خط لکھ دیا کہ وہ اوباما کے ساتھ نیو کلیئر ڈیل نہ کریں، ورنہ اگلا صدر اسے منسوخ کر دے گا۔

ایرانی صدر نے بھی اپنے ملک کے اندر مخالفت اور ری پبلکن ارکان کی جارحانہ حکمت عملی کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے صدر اوباما سے معاہدہ کر لیا اور اب تک یہ معاہدہ موجود ہے۔ تاہم صدر ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے اعلانات کے مطابق پوزیشن اپنا رکھی ہے، لیکن تاحال معاہدہ قائم ہے، اب امریکہ کو بھی ایرانی صدارتی انتخاب کا انتظار ہے، حسن روحانی اب بھی معاہدے کے حامی ہیں، تاہم امریکی دھمکیوں کے بعد ایرانی سپریم لیڈر آیت العظمٰی سید علی خامنہ ای نے یہ کہا تھا کہ انہیں پہلے ہی امریکہ پر اعتبار نہیں تھا، اس لئے انہوں نے خبردار کیا تھا کہ کوئی بھی معاہدہ کرنے سے پہلے امریکہ کی بے اعتباری کو پیش نظر رکھا جائے۔ اس کا انحصار بہت کچھ اس بات پر ہے کہ امریکہ اور 5 دوسرے مغربی ملک اس بارے میں کیا سوچتے ہیں، ان ملکوں کو تو ایران سے کوئی شکایت نہیں، لیکن امریکہ کا رویہ بہرحال جارحانہ ہے۔
خبر کا کوڈ : 637937
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش