0
Friday 19 May 2017 22:30

امریکہ اور مغرب ہمارا دشمن نہیں

امریکہ اور مغرب ہمارا دشمن نہیں
تحریر: سید اسد عباس

مغرب اور آل سعود کے مابین محبت کے رشتے اتنے ہی پرانے ہیں جتنی آل سعود کی حکومت۔ ہاں بس اتنا فرق پڑا کہ برطانیہ کی جگہ امریکہ نے لے لی، مگر برطانیہ بھی پیچھے نہیں ہٹا، اسی طرح آل سعود بھی اپنے اس محبت کے رشتے سے کبھی بھی دستبردار نہ ہوئے۔ دہائیوں پر محیط اس ملنساری کے سبب ہی مغرب اور عرب دنیا کے ان حاکموں نے مل کر سوویت یونین کا مقابلہ کیا۔ مال ہمارا خون تمہارا، حکمت ہماری دین تمہارا۔ بس یونہی یہ دوستی وقت کی پر پیچ گھاٹیوں سے گزرتی ہوئی آج ہمالیہ کی بلندیوں کو سر کر رہی ہے۔ حال ہی میں سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے متوقع دورہ سعودیہ پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ: اسلامی دنیا کے لئے بہت بھرپور پیغام ہے کہ امریکہ اور مغرب آپ کے دشمن نہیں ہیں۔ یہ مغرب کے لئے بھی بھرپور پیغام ہے کہ اسلام آپ کا دشمن نہیں ہے۔ انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ اس دورے سے اسلامی دنیا اور مغرب کے درمیان عموماً اور امریکہ کے درمیان خصوصاً مکالمہ بدل جائے گا۔ یہ شدت پسندوں کو تنہا کر دے گا، چاہے وہ ایران ہو، دولتِ اسلامیہ ہو یا القاعدہ ہو، جو کہتے ہیں کہ مغرب ہمارا دشمن ہے۔

سعودیہ کے فاضل وزیر خارجہ عادل الجبیر یا تو اسلامی دنیا کی تاریخ سے نابلد ہیں یا ہمیں نابلد رکھنے کی کوشش میں مشغول ہیں۔ آل سعود اور خلیجی ریاستوں کے حکمرانوں کے مغربی دنیا سے تعلقات کب برے تھے اور کب انہوں نے ان کے خلاف کوئی اقدام کیا؟ خلافت عثمانیہ کا خاتمہ اور اسلامی بلاک کی بربادی پر نظر دوڑائی جائے تو یہ سب اسی مغربی دنیا کا اسلامی دنیا کو تحفہ ہے۔ جب برطانیہ خلافت عثمانیہ کے ٹکڑے بانٹ رہا تھا تو اس وقت بھی آل سعود، آل خلیفہ اور آل ثانی کے حکماء اس بندر بانٹ میں پیش پیش تھے۔ اس وقت عرب قومیت کا نعرہ بلند کیا گیا اور ان حکماء کا کہنا تھا کہ عرب دنیا پر کسی اور کو حکومت کرنے کا حق نہیں ہے۔ عرب ریاستیں خود اپنے امور کو چلا سکتی ہیں۔ خلافت عثمانیہ خواہ کچھ بھی نہ تھی، امت کا ایک مرکز تھی۔ تاریخ کا ہر طالب علم بہت اچھی طرح سے جانتا ہے کہ امت کو اس مرکز سے دور کرنے اور نئے مراکز کی تشکیل میں کس کس کا ہاتھ تھا۔ امت مرحوم کی بدنصیبی کہیے یا شومی قسمت! آج عرب قومیت کا نعرہ بلند کرنے والے اسلامی دنیا کے علمبردار و خیر خواہ بن چکے ہیں۔ عرب قومیت سے اسلامی دنیا پر سرداری کا سفر ایک ایسا سفر ہے، جس کی راہ کا پہلے روز سے ہی تعین کر دیا گیا تھا۔ برطانوی سامراج کی 1916ء میں چلی جانے والی چال آج یعنی پورے ایک سو ایک برس بعد اپنا رنگ و روپ دکھا رہی ہے۔ مغرب ہمارا دشمن کیسے ہوسکتا ہے؟ بلاد حرمین سے اس صدا کا اٹھنا بھی کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے۔ برصغیر کے مسلمانوں کو تو اس بات کا اندازہ اسی وقت ہوگیا تھا، تاہم اخوت، برادری اور مروت آڑے آئی، بہرحال اب صورتحال بالکل واضح ہے۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اسلام کسی بھی قوم، ریاست، سلطنت کو خواہ مخواہ اپنا دشمن نہیں بناتا۔ ہاں مگر ظالموں، مستکبرین اور استعمار کو کسی صورت قبول نہیں کرتا۔ ابھی اس بات کو شاید اتنا عرصہ تو نہیں گزرا کہ برطانیہ، فرانس اور پرتگال دنیا میں استعمار اور استکبار شمار کئے جاتے تھے۔ پوری دنیا بالعموم اور اسلامی ممالک بالخصوص اس امر سے آگاہ ہیں کہ ان ممالک نے تیسری کی دنیا کے وسائل پر ڈاکہ ڈالا اور اس لوٹ مار سے اپنے خزانے بھرے نیز اپنی فیکٹریوں کے پہیے کو رواں دواں رکھا۔ اگر مغرب نے یہ سب دوستی میں کیا ہے تو خدا جانے دشمنی کس بلا کا نام ہوگا۔ آج سے سو برس قبل کی جانے والی سرمایہ کاری آج تک مغربی دنیا کو فوائد دے رہی ہے اور اس دنیا کا سرمایہ دار تیسری دنیا کی دولت پر امیر سے امیر تر ہو رہا ہے۔ اب اگر القاعدہ یا چند سر پھرے مسلمانوں کو یہ بات سمجھ آگئی اور وہ اس گھن چکر سے نکلنے کی بات کرتے ہیں تو وہ بھلا پرامن شہری اور اچھے مسلمان کیسے ہو سکتے ہیں۔؟

نوبت امریکہ تک پہنچی، خلیج کے عرب حاکموں کے کاروباری روابط تو پوری مغربی دنیا سے بدستور قائم رہے، تاہم سیاسی بادشاہت چونکہ امریکہ کے حصے آئی، لہذا اب نیا دوست امریکہ قرار پایا۔ لاکھوں ڈالر کا اسلحہ دہائیوں تک ان کو بیچا جاتا رہا، جنہوں نے گولی چلانا ہی نہیں سیکھی تھی۔ نہیں معلوم سوویت یونین کو کون سی بلا بنا کر عرب دنیا میں پیش کیا گیا، جس سے بچنے کے لئے پیسہ اور خون پانی کی مانند بہایا گیا۔ دشمن یعنی اسرائیل تو گھر میں بیٹھا تھا، لیکن جہادی جوانوں کو جوق در جوق افغانستان جہاد میں شریک کیا گیا، تاکہ سوویت بلا سے نمٹا جاسکے۔ باتیں اگرچہ تکراری ہیں، تاہم چارہ نہیں جب کچھ لوگ جان بوجھ کر تاریخ کو مسخ کرنے پر تلے ہوئے ہوں تو ضروری ہو جاتا ہے کہ تاریخ کے اوراق کو پلٹ پلٹ کر آئینہ دکھایا جائے۔ کیمونزم اور سوشلزم جو عرب دنیا میں شہنشاہیت سے چھٹکارے کی کرن کے طور پر دیکھا جا رہا تھا اور نوجوان جوق در جوق اس نظریئے کو اپنا رہے تھے، مسلم دنیا میں ایک خطرے کے طور پر دیکھا گیا۔ شہنشاہ اور دینی طبقہ لاٹھی لے کر سوویت یونین کے پیچھے پڑ گیا۔ شہنشاہوں کو اپنی شاہی پیاری تھی تو دینداروں کو اپنا دین۔

مسئلہ کو درست طریقے سے حل کرنے کے بجائے وہ راہ اپنائی گئی، جو امریکہ اور مغربی طاقتوں کی مرضی و منشاء کے مطابق تھی۔ بقول فاضل وزیر خارجہ ہمارے مغربی دوست نے اپنے دو دشمنوں کو ایک دوسرے سے ٹکرا دیا۔ ایک سے کھلی دشمنی اور دوسرے کی ہلہ شیری۔ سوویت جنگ کون جیتا میرے خیال میں فیصلہ کرنا زیادہ مشکل نہیں ہے۔ یہاں وہ محاورہ دہرا دیا جائے تو شاید بے جا نہ ہو کہ ’’ہینگ لگی نہ پھٹکڑی‘‘ سوویت یونین ٹکڑے ٹکڑے اور مسلمان جہادی اسرائیل سے بہت دور افغانستان کی پہاڑیوں میں مصروف جہاد۔ اگر مسلم حکمرانوں کو ذرا سی سمجھ بوجھ ہوتی تو اپنے معاشرے میں نظام حکومت میں اصلاحات کے ذریعے نوجوانوں میں پیدا ہونے والی نظام کے حوالے سے بے چینی کو رفع کرسکتے تھے، لیکن ایسا نہ ہوا۔ پھر یہ جوان جو سوویت یونین سے لڑتے لڑتے بوڑھے ہوگئے، کو دہشت گرد بنا دیا گیا۔ یہ بیچارے نہ گھر کے رہے نہ گھاٹ کے، ایسے میں یہ کسے اپنا دوست کہیں اور کس کو اپنا دشمن۔ گذشتہ دو دہائیوں سے مغرب اور ان کے مابین آنکھ مچولی جاری ہے۔

سوویت یونین کے بعد اب اگلا نشانہ خود مسلمان ہیں، باہر تو دشمن ہے نہیں یعنی اسرائیل بھی دوست، پس اندر سے دشمن تلاش کرو۔ اس جنگ کا بنیادی ہتھیار فرقہ بندی ہے۔ کرنا کچھ نہیں آپس میں لڑا بھڑا کر ان کی رہی سہی کسر نکال دو اور پھر نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری ہے۔ عراق، شام ، یمن، لبنان، پاکستان، افغانستان اور جہاں جہاں شیعہ و سنی آباد ہیں، ان خطوں کو میدان جنگ بنا دو۔ اگر یہی دوستی ہے تو یااللہ دشمنی کس کو کہیں گے۔ بقول غالب
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں

بہرحال ہم صدیوں سے دیکھتے آئے ہیں کہ ایک چال دشمن چلتا ہے اور ایک حکمت خدا کی ہے۔ یقیناً خدا کی حکمت ہی غالب آنے والی ہے۔
خبر کا کوڈ : 638410
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش