0
Monday 22 May 2017 10:16

ماضی کے جھروکے سے۔۔۔۔

ماضی کے جھروکے سے۔۔۔۔
تحریر: ارشاد حسین ناصر

قیام کا پس منظر اور آغاز سفر
ساٹھ اور ستر کی دہائی کو پاکستان میں نظریاتی سیاست کا دور کہا جاتا ہے، اس وقت چونکہ کمیونزم بھی اپنے عروج پہ تھا اور اس کے اثرات ہمارے اڑوس پڑوس کے ممالک پر بھی نمایاں طور پہ دیکھے جا رہے تھے، اسی وجہ سے یہاں بھی ایک بڑا طبقہ اس کا حامی پیدا ہوچکا تھا، جو پاکستان کے سیاسی ایشوز پر نظریاتی بحثیں کرتا تھا، اسی وجہ سے یہاں نوجوانوں بالخصوص طلباء میں بھی اس نظریاتی سیاست کا رنگ غالب دکھائی دیتا تھا، ان کے مدمقابل اسلام سے وابستہ گروہ بھی موجود تھے، جن کا ان سیاسی نظریاتی جماعتوں سے تناؤ رہتا تھا، اس زمانے میں طلباء تنظیمیں بھی بہت فعال، متحرک رہتیں اور طلباء کو اپنی جانب لانے کیلئے انقلابی نظریات کیساتھ ساتھ کارکردگی بھی دکھاتی تھیں، ایوب خان کیخلاف چلائی جانے والی تحریک میں طلباء بھی شریک تھے، گویا اس زمانے میں طلباء بھی دائیں اور بائیں بازو کی تقسیم کا شکار تھے، اس زمانے میں سوشلسٹ نظریات کالجز و یونیورسٹیز میں تیزی سے پھیل گئے تھے۔ یہی وہ زمانہ ہے جب ملت کے چند طلباء جو کہیں شیعہ اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کے نام سے کام کر رہے تھے تو کسی دوسرے کالج میں امامیہ اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے نام سے جدوجہد میں مصروف تھے، کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کیلئے 22 مئی 1972ء کے دن انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور میں کاروان امامیہ کا تاسیسی اجلاس ہوا۔

اسی اجلاس میں یہ فیصلہ ہوا کہ کہ آئندہ مختلف ناموں کے بجائے مشترکہ طور پر جدوجہد کی جائے گی، اس حوالے سے دستور العمل اور اصول و ضوابط طے کرنے کیلئے 11 جون کو میو ہسپتال میں واقع ڈاکٹر ماجد نوروز عابدی کے گھر پر اجلاس منعقد کیا گیا، اس اجلاس میں بزرگ علماء قبلہ مولانا مرتضٰی حسین صدرالافاضل، قبلہ آغا علی الموسوی، قبلہ صفدر حسین نجفی، قبلہ صادق علی نجفی بھی شریک ہوئے۔ اس اجلاس میں یہ طے ہوگیا کہ تمام تنظیموں کو ایک ہی نام سے، ایک ہی دستور کے تحت کام کرنا ہوگا، یہ نام علماء نے استخارہ کے ذریعے منتخب کیا، جو امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان تھا، اس اجلاس میں تنظیم کا عبوری سیٹ اپ بھی چنا گیا۔ برادر سید مرغوب حسین زیدی جو کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے طالبعلم تھے، کو عبوری مدت کیلئے صدر منتخب کیا گیا(عملی زندگی میں مرغوب حسین زیدی آرمی کی میڈیکل کور میں بطور بریگیڈیئر خدمات دیتے رہے، گویا امامیہ طلباء ملک کے اہم ترین شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کے ساتھ ملک کی تعمیر و ترقی اور دفاع کیلئے خدمات سرانجام دیتے)، جبکہ انجینئرنگ یونیورسٹی کے طالبعلم علی رضا نقوی مرکزی جنرل سیکرٹری منتخب ہوگئے، جو عملی زندگی میں ایک اہم سرکاری شعبہ سے وابستہ رہے، یوں اس کاروان الٰہی نے اپنا رخت سفر باندھا اور پھر اونچا رہے اپنا علم، حی علیٰ خیر العمل کی بلند صداؤں میں یہ کاررواں آگے ہی بڑھتا رہا۔

طلباء کی فلاح و تعلیم کیلئے سرگرمیاں
اس کاروان نے بلا شبہ طلباء تنظیم ہونے کے ناتے ہمیشہ طالبعلموں کی تعلیمی، فکری، روحانی تربیت کا ساماں کرنے میں اپنے وسائل اور دائرہ کو دیکھ کے سخت کوششیں کی ہیں، اگر ہم اس موقعہ پر تعلیمی حوالے سے اس تنظیم کی خدمات اور کارہائے نمایاں کو دیکھا جائے تو اس تنظیم نے اپنے آگاز سفر میں نوٹس کی فراہمی سے کام شروع کیا اور اب یہ کئی بڑے پراجیکٹ تعلیمی و تربیتی حوالے سے سرانجام دے رہی ہے۔ تنظیم کے تحت ہر ڈویژنل مقام پر "امتحان سے پہلے امتحان" کا خوبصورت آئیڈیا دیا ہے، جس سے طالبعلم امتحانی پیٹرن پر فائنل امتحان سے پہلے ہی اپنی کارکردگی کا جائزہ لے لیتے ہیں۔ اسیطرح لائق ذہین طالبعلموں کو مالی پر مشکلات اور پریشانیوں سے چھٹکارے کیلئے اور ان کے تعلیمی اخراجات کو پورا کرنے کیلئے تعلیمی وظائف کا اجرا بہت ہی منفرد اور مفید سلسلہ ہے، طالبعلموں کی صرف اسی خدمت کے باعث آپ کہہ سکتے ہیں کہ ایسی تنظیموں کو زمانے کی گرم ہواؤں کے تھپیڑے اور حالات کے جھکڑ نابود کرنے کی جتنی بھی کوششیں اور سازشیں کریں ناکام ہی رہتے ہیں، تعلیمی وظائف کا یہ سلسلہ مرکز کی سطح پر سالانہ کئی لاکھ تک جا پہنچا ہے، جبکہ ڈویژنل سطح پر یا بعض بڑے اور اہم یونٹس میں اپنے طور پر بھی یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔ اسی طرح ہم دیکھتے یں کہ دور دراز سرد علاقوں کے طلباء کی تعلیمی رہنمائی کیلئے موسم سرما میں ان کیلئے پنجاب میں کیمپ لگایا جاتا ہے، جس میں تعلیمی معاونت اور رہنمائی کا بہترین اہتمام کیا جاتا ہے، ان پروگراموں میں سینکڑوں طلباء شریک ہوتے ہیں اور ان کا مستقبل محفوظ ہوتا ہے۔

متحدہ طلبا محاذ میں اہم کردار
کالجز و یونیورسٹیز میں بعض سیاسی و مذہبی جماعتوں کی سرپرستی میں قبضہ گروپنگ اور تشدد کا ماحول طلباء تنظیموں کی بدنامی کا باعث بنا ہے، جس سے مختلف کالجز اور یونیورسٹیز میں جھگڑوں کیساتھ مار کٹائی اور تشدد کا ماحول سامنے آتا ہے، آئی ایس او بھی چونکہ کالجز و یونیورسٹیز میں مختلف ایام کی مناسبت اور دعاؤں و مناجات کے پروگرام تسلسل سے منعقد کرتی ہے، اس لئے کئی ایک مقامات پہ دیگر گروہوں کی طرف سے مسائل کھڑے کئے جاتے رہے ہیں، کئی بار تو اس تنظیم کے کارکنان کو فقط محفل دعا برپا کرنے کے جرم میں یا ایام محرم میں یوم حسین ؑ کا پروگرام کروانے کے جرم میں سخت اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا ہے، جبکہ یہ بات طے ہے کہ اس تنظیم کے کارکنان جو ایک نظم کے پابند ہوتے ہیں، کو کبھی بھی اس بات کی اجازت نہیں دی جاتی کہ وہ تشدد کے مقابلہ میں تشدد کی راہ اپنائیں۔ جس کے باعث کئی ایک تعلیمی اداروں کا ماحول اس کثافت و آلودگی سے بچ گیا ہے، جس کو کئی دیگر عناصر خراب کرکے اپنا الو سیدھا رکھنا چاہتے ہیں۔ طلبا کے درمیان باہمی روابط کو مستحکم رکھنے کیلئے اور فاصلوں کو مٹانے کے واسطے ایک پلیٹ فارم موجود ہے، جسے متحدہ طلباء محاذ کہا جاتا ہے۔ یہ بات بھی قابل فخر ہے کہ تنظیم کا تعلق طلباء تنظیموں کے اتحاد متحدہ طلباء محاذ سے بھی بہت گہرا ہے، ماضی میں اس کی صدارت بھی اس کاروان کے ایک مرکزی صدر سید ناصر عباس شیرازی کے پاس رہی ہے اور موجودہ صدارت کا دور بھی برادر سرفراز حسین نقوی کہ جو تنظیم کے مرکزی صدر بھی ہیں، کے پاس ہی ہے۔ اس محاذ میں آئی ایس او ایک فعال تنظیم کے طور پر موجود ہے۔ اس محاذ کے اہم اجلاس اس تنظیم کے مرکزی دفتر میں منعقد ہوتے رہے ہیں، علاوہ ازیں اسی محاذ کی بدولت یہ ممکن ہوا ہے کہ مختلف سطح پر ہونے والے باہمی جھگڑوں کو ختم کیا گیا اور کئی اہم ملکی و عالمی ایشوز پر مشترکہ موقف سامنے لایا گیا۔

تنظیمی توسیع اور موجودہ صورتحال
یہ بات حقیقت کے قریب تر ہے کہ موجودہ مضبوط پرائیویٹ تعلیمی نظام اور امتحانی درجہ بندی کے سسٹم کے باعث طلباء سیاست اور سرگرمیوں میں کافی کمی محسوس ہوتی ہے، مگر اس حوالے سے آئی ایس او یا کسی بھی دیگر نظریاتی طلباء تنظیم کیلئے یہ بات اس قدر پریشان کن نہیں ہونی چاہیئے کہ طالبعلم ان کے پاس نہیں آرہے اور ان میں نئی کھیپ کا اضافہ نہیں ہو رہا، نظریاتی تنظیموں کے نظریات اگر جامد نہ ہوں تو یہ فرق نہیں پڑتا، آئی ایس او پاکستان ان عالمی اسلامی تحریکوں اور نہضتوں سے مربوط ہے، جنہیں امت مسلمہ کے نوجوان اپنے دل و دماغ میں بسائے ہوئے ہیں بالخصوص فلسطین کی اسلامی تحریک، لبنان کی مزاحمت اسلامی، انقلاب اسلامی ایران اور مختلف اسلامی ممالک میں اسلام حقیقی کی ترویج و تبلیغ کیلئے کوشاں تحریکوں کی جدوجہد اس کے کارکنان کیلئے نظریاتی کشش کا باعث ہیں۔ یہ تنظیم اپنے اندر تنوع اور تبدیلی کی گنجائش رکھتی ہے۔ اس کے باوجود اس کی توسیع اور وسعت یا مضبوطی میں کافی کمی محسوس کی جا رہی ہے۔

لاہور میں کم از کم اس وقت آٹھ سابق مرکزی صدور قیام پذیر ہیں، ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو دو دو بار اس ذمہ داری پر فائز رہے ہیں، اسیطرح چیف اسکاؤٹ اور لاہور ڈویژن کے صدور بھی لاہور میں قیام پذیر ہیں، اس کے باوجود تنظیم کا نیٹ ورک اگر روز بروز کمزور ہو رہا ہو، یونٹس ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوں، تعلیمی اداروں اور لوکل شیعہ آبادیوں میں یونٹس کے قیام کیلئے روابط کرنا دشوار ہو تو صاحبان فکر و درد کو سوچنا چاہیئے اور اس چیز کا احتساب ہونا ازحد ضروری ہے۔ یاد آیا احتساب بھی کبھی تنظیم کا طرہ امتیاز ہوا کرتا تھا، وہ ہوتا ہوا نظر آتا تھا، اب بھی اس کی ضرورت ہے، اگر یہ ہوتا ہوا نظر آئے تو شائد تنظیم میں کوئی بہتری کی امید پیدا ہو جائے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ہمارے یہ ذمہ داران دوست جو تنظیمی ذمہ داریوں سے فراغت کے بعد یہاں لاہور جو مرکز ہے میں مقیم ہیں، کسی بڑے تعلیمی ادارے کے یونٹ میں لیکچر دیتے نظر نہیں آتے، لاہور میں مقیم سینیئرز برادران اگر ایک ایک تعلیمی ادارے کو اپنے ذمہ لے لیں اور طلباء کی رہنمائی اور تنظیمی مشکلات و مسائل کے حل کیلئے خود کو وقف کریں تو صورتحال بہت بہتر ہو جائے۔

مجھے پتہ نہیں کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ جہاں پچیس سال پہلے یونٹس ہوتے تھے، جب وسائل نہ ہونے کے برابر تھے اور ہمارے پاس سابقین، تجربہ کار اور صاحبان روزگار برادران کی قلیل تعداد تھی، اتنے زیادہ یونٹس اور فعال اسٹرکچر موجود تھے، آج ان ایریاز اور تعلیمی اداروں میں بھی تنظیمی روابط تک نہیں ہیں، ہاں میں اتنا جانتا ہوں کہ اگر مخلصانہ کام کرنے والے میدان میں موجود ہوں تو خدا کی مدد شامل حال ہوتی ہے، مشکلات پر قابو پا لیا جاتا ہے، راستے کی دیواریں گر جاتی ہیں، غیبی امداد کیلئے فرشتے نازل ہوتے ہیں اور اگر کام صرف نمود نمائش، کسی کی ضد، عناد اور مخالفت میں کیا جائے تو صورتحال الٹ ہو جاتی ہے، ہمیں اپنے رویوں اور انداز نیز طریقہ کار کو ری وزٹ کرنا چاہیئے، ہمیں جدید دور کے تقاضوں کو اور تعلیمی سیشنز نیز طلباء کی تعلیمی ضروریات کا خیال رکھتے ہوئے پروگرام مرتب کرنے چاہیئے، ایک وقت تھا جب بزرگان یہ محسوس کرتے تھے کہ ہم ایک جگہ آکر ٹھہر سے گئے ہیں اور اب یہ حال ہے کہ ایسا محسوس کیا جاتا ہے کہ ہم اپنی تمام تر بلندی کو چھو کر اب نیچے کی طرف رواں دواں ہے۔

ایثارگر و قربانیاں دینے والے
کسی بھی تنظیم یا پلیٹ فارم کیلئے اس کے نظریئے کی بقا، اہداف کے حصول اور مقاصد کی تکمیل کیلئے قربانیاں پیش کرنے والوں کی بے حد اہمیت اور قدر و منزلت ہوتی ہے، انہی کی بدولت پلیٹ فارم اور تنظیمیں یا تحریکیں پروان چڑھتی ہیں اور ان کو عوامی پذیرئی میسر آتی ہے، آئی ایس او پاکستان بھی اپنے آغاز سفر سے ہی ایسے ہی جذبوں سے سرشار نوجوانوں کا ایک پر عزم کاروان تھا، جس کے سائے تلے ہر ایک کارکن اپنی جان قربان کرنے کیلئے اور اپنے وقت و مال کی قربانی دینے کیلئے کمر بستہ دکھائی دیتا تھا۔ اس نحیف، نرم، نازک اور کمزور پودے کو زمانے کی بادِ مسموم سے بچانے اور توانا و مضبوط، طاقتور و قوی، سایہ دار و جاندار بنانے اور اس نوخیز پودے کو ٹوٹنے، جھکنے، بکھرنے سے بچانے کیلئے یوں تو ان پینتالیس برسوں میں ہزاروں نوجوانوں، بھائی بہنوں نے اس کی بنیادوں کو اپنے خون پسینے سے سینچا اور اپنی طاقت و قوت سے بڑھ کر اپنا دم اور زور لگایا، مگر اس کی بنیادوں کو اپنے خون سے سینچنے والوں میں سب سے بڑی قربانی تنظیم کے بانی اور ہم سب کی سب سے پسندیدہ شخصیت، سفیر انقلاب ڈاکٹر محمد علی نقویؒ نے دی۔ قربانیوں کے پیش کاروں میں راجہ اقبال حسین، سید تنصیر حیدر، ڈاکٹر قیصر عباس سیال، برادر اعجاز حسین رسول نگری، پروفیسر نزاکت علی عمرانی، برادر اسرار حسین، برادر ناصر صفوی، کے نام بھی روشن و تابندہ ہیں، جبکہ اس کاروان الٰہی کو آغاز سفر سے اپنے علم، شعور اور تقویٰ سے سیراب کرنے والے علماء کرام میں مرحوم آغا علی الموسوی، قبلہ مرتضٰی حسین صدرالافاضل، قبلہ مولانا صادق نجفی، قبلہ علامہ صفدر حسین نجفی، مولانا امیر حسین نقوی اور کچھ دیگر علماء کا نام ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

45 برس ہونے کو آئے ہیں، الحمدللہ اب یہ پودا خوبصورت، مہکتا، مضبوط، تناور، شجر سایہ دار کی صورت میں ہر سو نظر آتا ہے۔ اپنے کردار، عمل، نظریہ اور قوت کے بل بوتے پر آج پوری قوم اس تنظیم سے ایسے ہی مستفید ہو رہی ہے، جس طرح کسی تناور، مضبوط اور گھنے درخت کی چھاؤں سے تپتی دھوپ میں مستفید ہوتی ہے۔ اب یہ ایک ایسا کاررواں بن چکا ہے، جس میں شریک ہر ایک مسافر نے اسے منزل پر پہنچانے کے عہد کو نبھانے کی ٹھان لی ہے۔ گذشتہ پینتالیس برس گواہ ہیں کہ اس ملت پر جب بھی کڑا وقت آیا ہے تو امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان ہی قوم کی توقعات پر پورا اتری ہے اور مستقبل میں بھی یہی کارروان الٰہی امید کا مرکز و محور ہے۔ تنظیموں اور تحریکوں کے ذمہ داران کو یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ ان کے ایثار گر اور قربانیاں پیش کرنے والے ان کے محسن ہیں، جن کا نام اور ایثار گری کی داستانیں اگلی نسلوں تک پہنچانا، تاکہ وہ ان سے رشد و رہنمائی لیکر سچے جذبوں کیساتھ کام کو آگے بڑھائیں بے حد ضروری و واجب امر ہے۔ اس برس مرکزی کنونشن پر بھی بہت سے مخلصین نے ایسا ہی محسوس کیا تھا کہ تنظیم عدم فعالیت کا شکار ہے اور جو توسیع و پیش رفت نظر آنی چاہیئے، اس کا فقدان واضح ہے۔

اگر یہی سلسلہ چلتا رہا تو مستقبل میں اس کے اثرات بہت برے ہونگے، اس میں کوئی شک نہیں کہ تنظیم میں ادارہ جاتی کام ہو رہا ہے، مگر کیا فقط ادارے بنا کر ان کے خوشنما نام رکھ کر یہ تصور کر لیا جائے کہ ہم بہت مضبوط اور طاقتور ہیں، ہم بہت مضبوط ہیں، ہم بہت کامیاب ہیں، ہرگز ہرگز نہیں۔ اداروں کے بغیر آپ کی تنظیم کے پاکستان بھر میں پندرہ سو یونٹس ہوں اور اداروں کے وجود کیساتھ یہ یونٹس آدھے بھی نہ رہیں تو کیا کہا جائے گا۔ میری دعا اور شدید خواہش ہے کہ یہ تنظیم اپنے پرانے ادوار کی طرح ہر شیعہ آبادی میں لوکل یونٹ کی شکل میں اور ہر تعلیمی ادارے میں چاہے وہ اسکول ہو یا یونیورسٹی، کالج ہو یا انسٹی ٹیوٹ میں فعال، متحرک اور نمایاں مقام کیساتھ موجود ہو اور امامیہ طلباء کی نمائندگی کرتی نظر آئے، جس تنظیم کے بارے یہ نظریہ ہو کہ اس پہ صاحب العصرؑ کا خصوصی لطف و کرم ہے، اس کو ظہور سے پہلے عروج پر ہی ہونا چاہیئے، ظہور امام کی راہیں ہموار کرنے کا یہ خوبصورت پلیٹ فارم اور دل آویز راستہ روز بروز کشادہ ہونا چاہیئے، ہم دعا گو ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ کاروان مضبوط اور قوی ہو اور پھلتا پھولتا نظر آئے۔

تاریخ گواہ ہے کہ اس تمام عرصہ کے دوران اس ملت پر بڑے کٹھن دور بھی آئے ہیں، بہت مشکل اور کڑے لمحے، جب فیصلے کی قوت جواب دے جاتی ہے، جب مایوسیاں گھیر لیتی ہیں، جب ایمان کمزور پڑ جاتے ہیں بلکہ ایمان ڈول جاتے ہیں، جب ملت امتحان یا آزمائش کا سامنا کرتی ہے، جب قیادتیں اپنا اعتماد کھو بیٹھتی ہیں۔ ایسے ادوار اور مشکل لمحات کو بھی اس کارروانِ الٰہی نے بے حد خوبصورت انداز میں گذارا ہے، آج تک کئی ایک تاریخی بحرانوں سے کامیابی سے نکل جانے کے بعد اکثر ہمارے برادران اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ اس کاروانِ الٰہی پر یقیناً حضرت حجتؑ کا خاص لطف اور نظر ہے۔ اسی وجہ سے تمام تر مشکلات، مسائل، مصائب اور ناگفتہ بہ احوال کے باوجود یہ کاررواں "حی علیٰ خیر العمل" کا پرچم لہراتا آگے بڑھتا دیکھا جاسکتا ہے۔ ان شاء اللہ ہم آگے بڑھتے رہیں گے، اس منزل کی طرف جس کا وعدہ اللہ اور اس کے پاک پیغمبر ؐ نے کیا ہے، زمین کو عدل و انصاف سے بھر دینے کا وعدہ اور ظالمین کی ہمیشہ کیلئے نابودی کا وعدہ، یہ وعدہ جلد پورا ہوگا اور ہم جو ایک جیسے (iso) ہیں، اس وقت بھی حکم خدا کے نافذ کرنے والی ہستی کے ساتھ ایک ساتھ اور ایک جگہ ہوں گے کیا خوبصورت اور روحانی و معنوی کیفیات و لمحات ہوں گے، جب ہم شہید قائد اور شہید ڈاکٹر کی معیت میں حضرت حجتؑ کی بارگاہ میں موجود ہوں گے۔
خبر کا کوڈ : 639368
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش