0
Thursday 25 May 2017 08:30

سعودی امریکی فوجی اتحاد کا بنیادی مقصد

سعودی امریکی فوجی اتحاد کا بنیادی مقصد
تحریر: ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی

وطن عزیز پاکستان اس وقت داخلی طور پر شدید ترین بحرانوں میں گھرا ہوا ہے. یہ سرزمین پاک شہداء ملت کی امانت، ہمارے آباء و اجداد کی انتھک جدوجہد کا ثمر اور ہماری آنے والی نسلوں کا مستقبل ہے۔ اس لئے جہاں حکمرانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کی سلامتی و حفاظت اور تعمیر و ترقی کو اپنا قومی فریضہ سمجھتے ہوئے اپنے ذاتی مفادات پر قومی مفادات کو ترجیح دیں اور ہر قسم کی قربانی کیلئے تیار رہیں، وہاں عوام کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ بھی بیداری اور احساس زمہ داری کے ساتھ اسکو بحرانوں سے نکالنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ باقی تمام مسائل اور مشکلات کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی تعلقات اور روابط کے تناظر میں ہمارے درمیان داخلی طور پر مزید دوریاں اور دراڑیں پیدا کرنے کی سازش پر بھی کام ہو رہا ہے، بالخصوص خطے کے مسائل اور بحرانوں اور یہاں جاری جنگوں میں پاکستان کی خاطر نہیں بلکہ دوسروں کی خاطر ہمیں ان جنگوں کا ایندھن بنانے کی کوششیں ہو رہی ہے. ہمیں جان لینا چاہیے کہ جب بھی پاکستان پر کوئی برا وقت آیا، ہماری خاطر کوئی بھی دوست ملک سرزمین پاکستان پر آکر نہیں لڑے گا۔ ممکن ہے کوئی دوست ملک ہماری مالی یا اخلاقی مدد کر دے، لیکن خون ہماری قوم کو ہی دینا پڑے گا، ماضی کی جنگیں اسکی واضح مثال ہیں۔

اگر آج ہمارے کسی برادر ملک پر کسی نے حملہ کیا ہے اور وہ وہ حملہ آور ہمارے دشمنوں میں سے ہے تو ہمیں بھی انکی مالی و اخلاقی مدد کرنی چاہیئے اور اگر جنگ کسی بھی وجہ سے ہمارے برادر ممالک کے مابین چھڑ چکی ہے، تو اللہ تعالٰی اپنی کتاب قرآن مجید ہمیں حکم دیتا ہے کہ "اگر مومنین کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ہمیں صلح کروانی چاہیئے اور جس نے زیادتی کرتے ہوئے ہمارے ایک بھائی نے دوسرے پر حملہ کیا ہے تو ہمیں اس حملہ آور کو روکنا چاہیے. حتی کہ وہ حکم خدا کی طرف لوٹ آئے اور جب وہ رک جائے تو ہمیں عدالت و انصاف سے انکے مابین صلح کروانی چاہیے۔" القران
مگر افسوس ہے کہ ایک طرف تو ہم خود بحرانوں کا شکار ہیں اور دوسری طرف ہمارے حکمران ذاتی مصلحتوں کی خاطر اپنی غلط پالیسیوں کی وجہ سے مزید مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔ جس کی واضح مثال پارلیمنٹ کے فیصلے کے بر خلاف اور قومی مفاد کو داو پر لگا کر اس فرقہ وارانہ بین الاقوامی فوجی اتحاد میں فقط شمولیت ہی اختیار نہیں کی بلکہ اس کی سربراہی قبول کرنا ہے اور اس اتحاد کی جانب بڑھنے والا ہمارا ہر قدم جہاں ہماری بدنامی کا سبب بنے گا، وہاں ہماری فوج بھی اندر سے کمزور ہوگی۔

امت مسلمہ پر ماضی میں بھی مختلف دور گزرے اور نشیب و فراز آئے۔ عصر حاضر کی تاریخ میں جب سے عالمی استکباری قوتوں کے تعاون سے سرزمین مقدس فلسطین پر صہیونی ریاست کی بنیاد رکھی گئی، اس وقت سے لیکر آج تک جنگوں نے اس خطے میں گھر کر لیا ہے۔ اسرائیل کے خلاف ابتداء میں پوری مسلم امہ متحد تھی اور یہ فلسطین کا مسئلہ او آئی سی کی تاسیس کا سبب بنا۔ جس کے ایک ابتدائی اجلاس کی میزبانی ستر کی دھائی میں پاکستان نے کی اور تمام اسلامی ممالک کے سربراہان اس بین الاقوامی سطح کی کانفرس میں شرکت کے لئے پاکستان آئے۔ حکومت پاکستان اور پاکستانی عوام نے مسئلہ فلسطین کو ایک مسلمان ملک ہونے اور مسلم امت میں دوسرا بڑا اسلامی ملک ہونے کے ناطے اپنا ذاتی مسئلہ قرار دیا۔ اسرائیل کے خلاف جنگوں میں ہماری مسلح افواج نے شرکت کی، بالخصوص ہمارے پائلٹوں نے یکے بعد دیگرے اسرائیلی طیارے گرا کر تمغے حاصل کئے اور جہان اسلام میں پاکستان کا سر فخر سے بلند کیا۔

دوسری طرف مغربی مداخلت اور پریشر میں بعض عرب ممالک کے سربراہان نے امت اسلامیہ کے اس مرکزی قضیہ سے خیانت کی اور اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کر لئے، جن پر پوری امت اسلامیہ نے لعنت کی اور انہیں خائن قرار دیا۔ لیکن پاکستان ایک آزاد اور خود مختار ملک ہونے کے ناطے اپنے اصولی موقف پر ڈٹا رہا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دشمن نے امت اسلامیہ میں ایک نیا فتنہ کھڑا کیا۔ جب ایران میں اس خطے کے سب سے زیادہ امریکی مفادات کی حفاظت کرنے والے شہنشاہ کے خلاف ایرانی عوام نے قیام کیا۔ جس کے نتیجے میں اسلامی انقلاب کامیابی سے ہمکنار ہوا، اس امریکی و اسرائیلی ایجنٹ کے اقتدار کا سورج غروب ہوا اور تہران میں سالہا سال سے قائم اسرائیلی سفارتخانے کو بند کرکے اسے فلسطینی سفارت خانے میں تبدیل کر دیا گیا اور اسرائیل کے پرچم کی جگہ تہران میں فلسطین کا پرچم لہرایا۔ امریکہ اور اسرائیل اسے کب برداشت کرسکتے تھے، انہوں نے اس انقلاب کو ختم کرنے اور اس حکومت کو گرانے پر کام شروع کر دیا۔

امریکہ اور غرب نے اس اسلامی انقلاب سے انتقام کے طور پر فتنوں کا آغاز کیا، عرب و عجم کے فتنہ کو ہوا دی اور ہمسایہ عرب ملک کے ذریعے ایران پر جنگ مسلط کی۔ پاکستان نے حکیمانہ پالیسی اختیار کرتے ہوئے اپنے تعلقات تمام اسلامی ممالک سے قائم رکھے۔ آخرکار یہ فتنہ اپنے منطقی انجام کو پہنچا، لیکن مسلمانوں کی توجہ امت اسلامیہ کے مشترکہ دشمن  اسرائیل کی طرف کم ہوئی اور اسرائیل فلسطینیوں پر ظلم کرتا رہا یہاں تک کہ 80% فلسطین پر قابض ہوگیا۔ فلسطینی مجبور ہوکر ہجرت کرتے رہے، یہودیوں کی آباد کاری ہوتی رہی اور مسئلہ فلسطین سکڑتا گیا۔ پہلے امت اسلامیہ کا مشترکہ مسئلہ تھا، پھر اسے عرب اسرائیل کا رنگ دینے پر کام ہوا۔ جتنا جتنا مسلمان اور عرب پسپائی کرتے رہے، اتنا ہی اسرائیل بڑھتا رہا۔ اس کے بعد اسے مشرق وسطٰی تک محدود کر دینے پر کام ہوا، لیکن پاکستان اپنے موقف پر قائم رہا، گو امریکہ و غرب کی خوشنودی اور رضایت کے لئے کچھ سیاستدان اور حکمرانوں شکست خوردہ ذہنیت کے ترجمان بنتے رہے۔

عرب و عجم فتنہ کی ناکامی، 2006ء میں اسرائیل حزب اللہ جنگ میں اسرائیل کے ذلیل ہونے اور حزب اللہ کی کامیابی کے بعد شیعی ہلال کو خطرے کا بہانہ بنا کر 2011ء سے اسلامی دنیا میں ایک نئے فتنے کو ہوا دی اور شیعہ سنی جنگ کے ذریعے ہر مسلمان گھر میں اس فتنے کی آگ بھڑکانے اور پھیلانے پر کام شروع کیا۔ لیکن اس کے ماوراء انکا مقصد اسرائیل کو محفوظ کرنا اور پوری امت اسلامیہ کو اسکے قدموں میں جھکانا تھا۔ تاکہ کمزوری و ناتوانی اور خوف و ہراس کی حالت میں وہ اپنے اپنے ملکوں میں اسرائیلی سفارت خانے کھولنے اور تعلقات بنانے میں سبقت لیں. امریکی تباہ کن ہتھیاروں اور پورے خطے میں پھیلے ہوئے فوجی اڈوں کے ڈر اور اقتدار و ریال و ڈالرز کے لالچ میں سعودی عرب کے ذریعے سنی ممالک کے فوجی اتحاد بنانے کا اعلان ہوا، یکے بعد دیگرے مسلم ممالک کی حمایت اور ہمدردیاں خریدی گئیں اور پھر اسکا پہلا اجتماع 20 مئی 2017ء کو ریاض میں ہوا، جس کی صدارت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرامپ نے کی۔

50 کے قریب اسلامی ممالک کے سربراہان نے اسلام کے موضوع پر ایک امریکی غیر مسلم صہیونی کا خطاب ہی نہیں سنا بلکہ عملی طور پر اسکی ولایت و سربراہی و سرپرستی میں شیعہ سنی جنگ ہی نہیں بلکہ خاموش حمایت سے اسرائیل کی اس خطے پر سرداری قبول کی۔ جس کا اظہار سعودیہ کے دورہ کے دوسرے دن اسرائیل پہنچ کر امریکی صدر نے فاتحانہ انداز سے کیا اور کہا کہ اب سارے مسلمان ممالک اسرائیل سے سفارتی طور پر تعلقات بنانے کے لئے تیار ہیں، اس طرح انکے حساب سے قانونی طور پر اسرائیل کا مسئلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے حل ہوگیا اور اب اگر کسی شیعہ یا سنی ملک یا تنظیم نے اسرائیل کی مخالفت کی یا اس کے وجود کے لئے خطرہ بنا تو اسرائیل کو فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں، کیونکہ اسکے نئے اتحادی اور امریکہ کے بقول سنی ممالک کا اسلامی اتحاد ان دہشتگردوں سے نپٹنے کے لئے جدید ترین امریکی و مغربی اسلحہ کے ساتھ تیار ہے، جس کے سربراہ پاکستانی جنسیت کے حامل سابق فوجی جنرل راحیل شریف ہیں۔
خبر کا کوڈ : 640238
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش