0
Thursday 25 May 2017 11:40

امریکی فوجی امداد میں کمی، پاکستان کو بلیک میل کرنیکا حربہ

امریکی فوجی امداد میں کمی، پاکستان کو بلیک میل کرنیکا حربہ
تحریر: تصور حسین شہزاد

کہا جاتا ہے کہ امریکہ اور پاکستان نے دہشتگردی کیخلاف مل کر جنگ کی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکہ نے پاکستان سے دہشتگردی کیخلاف جنگ کروائی۔ یعنی پاکستان کو اس آگ میں جھونکا گیا، محض ڈالروں کا لالچ دے کر۔ لالچ تو بری بلا ہوتی ہے، اس بلا نے ہٹ کر پاکستانیوں کو ہی شکار کرنا شروع کر دیا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان طے شدہ مفاہمت کے تحت پاکستان کو مالی سال 2017-18 میں امریکہ سے 1.5 بلین ڈالرز ملنے ہیں، لیکن پاکستانی وزارتِ خزانہ کو اب تک امریکی انتظامیہ سے اس سلسلے میں مثبت اشارے نہیں ملے۔ موجودہ مالی سال کے پہلے 9 مہینوں میں اسلام آباد کو صرف 550 ملین ڈالرز ملے جب کہ وعدہ 880 ملین ڈالرز کا کیا گیا تھا۔ اس صورتحال نے ثابت کر دیا ہے کہ واشنگٹن کی طرف سے یہ دباؤ ڈالنے کے ہتھکنڈے ہیں۔ یہ زمینی حقائق ہیں کہ امریکہ افغانستان میں ناکام ہو رہا ہے، وہ ایک لاکھ 40 ہزار فوجیوں کو رکھنے کے باوجود بھی وہاں امن قائم نہیں کر سکا، خطیر رقم سے انہوں نے افغان نیشنل آرمی بنائی، جو بہت منقسم ہے اور اس میں کرپشن بھی عروج پر ہے۔ اس کے علاوہ اس میں گھوسٹ ملازمین بھی ہیں اور طالبان نے بھی اس میں اپنے بندے داخل کیے ہوئے ہیں۔ اب ان سارے مسائل کا ملبہ کسی اور طرف ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

اب پاکستان پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ حقانی نیٹ ورک کیخلاف بھی ایکشن لے اور اس کے علاوہ بھارت کو خوش کرنے کیلئے یہ بھی مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ جماعت الدعوة اور جیشِ محمد کیخلاف بھی کارروائی کی جائے۔ امریکہ کے اس طرح کے اقدامات سے پاکستان نہ صرف چین سے مزید قریب ہو جائے گا بلکہ وہ روس سے بھی اسٹریٹیجک پارٹنرشپ بڑھائے گا کیونکہ ماسکو نہ صرف داعش کے خطرے کی وجہ سے طالبان کی حمایت کرنا چاہتا ہے بلکہ وہ خطے میں امریکی اثر ورسوخ کم کرنے کا بھی خواہش مند ہے۔ اس صورتحال میں پاکستان کیلئے راستے کھلے ہیں۔ امریکہ کی جانب سے کولیشن سپورٹ فنڈ میں کمی کرنا ایک سوالیہ نشان ہے کیونکہ یہ تو وہ رقم ہے جو پہلے ہی سے کسی آپریشن پر خرچ کی ہوئی ہوتی ہے۔ وہ محض اس خرچ کی ہوئی رقم کو واپس لوٹاتے ہیں، امریکہ کیلئے ایسا کرنا آسان نہیں ہوگا۔

اب یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ امریکہ ایسا کیوں کر رہا ہے؟ اس ممکنہ اقدام کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اب امریکہ کو ہماری افغانستان میں ضرورت نہیں رہی۔ پہلے طالبان کو ہٹانے کیلئے اسے ہماری ضرورت تھی، پھر انہیں ختم کرنے کیلئے بھی اسے ہماری ضرورت پڑی لیکن ہم نے ڈبل گیم جاری رکھی، تو اس کیلئے ایک طرف تو اس نے افغان آرمی کو تیار کیا اور دوسری طرف بھارت کے اثر ورسوخ کو افغانستان میں بڑھایا۔ تو اب یہ ظاہر ہے کہ واشنگٹن کو ہماری ضرورت نہیں رہی اسی لیے وہ ایسے کام کر رہا ہے۔ امریکہ کے اس اقدام کی ایک وجہ سعودی عرب بھی ہو سکتا ہے۔ ہم نے یمن کے مسئلے پر ریاض کا ساتھ نہیں دیا۔ جس پر سعودی ہم سے نالاں ہیں۔ سعودی حکمرانوں کا امریکہ میں اثر ورسوخ ہے۔ وہ اپنی دولت کی بنیاد پر امریکی پالیسوں پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ تو یہ ممکن ہے کہ ریاض نے پاکستان کو سبق سکھانے کیلئے امریکہ کے کان بھرے ہوں اور کہا ہو کہ ہماری امداد کم کی جائے۔

امداد کی کمی پر پاکستان میں کچھ حلقے خوش بھی ہیں وہ کہتے ہیں کہ جب آپ امداد لیتے ہیں تو امداد کیساتھ ڈکٹیشن بھی آتی ہے۔ کولیشن سپورٹ فنڈ کے پیسے کیساتھ ڈومور کا مطالبہ بھی آتا ہے۔ ہمیں اس غلامانہ طرز زندگی کو ترک کرنا چاہیے۔ کب تک ہم امداد لیکر آپریشن کرتے رہیں گے۔ مسائل بات چیت کے ذریعے بھی حل کیے جا سکتے ہیں۔ یہ مغربی ممالک جب ہمارے پاس آتے ہیں تو آپریشن کا مطالبہ کرتے ہیں اور جب یہ اپنے لوگوں کے پاس جاتے ہیں تو مسائل کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی بات کرتے ہیں۔ ان حلقوں کا کہنا ہے کہ ہیلری کلنٹن وزیرِ خارجہ بننے کے بعد جب پہلی مرتبہ پاکستان آئیں تو انہوں نے کہا کہ آپ وزیرستان میں آپریشن کریں اور جب وہ برطانیہ گئیں تو آئی آر اے سے ہونیوالے ماضی میں معاہدے کے حوالے سے انہوں نے مذاکرات کا راستہ اپنانے کی بات کی۔ امریکہ مسلم ممالک کو آپس میں لڑوا رہا ہے اور ہم ان سے ہتھیار خرید کر ان کی جیبیں بھر رہے ہیں۔ ابھی ٹرمپ نے سعودی عرب سے اربوں ڈالرز کے معاہدے کئے اور پھر اسرائیل جاکر صیہونی حکومت کی امداد کا اعلان کر دیا۔ پاکستان سمیت تمام مسلم ممالک کو آپس کی لڑائیاں ختم کرنی چاہییں اور دوسرے ممالک پر انحصار نہیں کرنا چاہیے۔
خبر کا کوڈ : 640306
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش