1
0
Friday 26 May 2017 22:30

امریکہ، سعودی عرب، اسرائیل اتحاد۔۔۔۔۔ گراوٹ کا مستقبل؟؟

امریکہ، سعودی عرب، اسرائیل اتحاد۔۔۔۔۔ گراوٹ کا مستقبل؟؟
تحریر: سید اظہار مہدی بخاری
izharbukhari5@hotmail.com

لوگ اس بات پر نجانے کیوں حیرت زدہ ہیں کہ حرمین شریفین کے خادم ہونے کا دعویٰ کرنے والے امریکی صدر کے تلوے چاٹنے پر مجبور ہیں۔ اللہ کے گھر ظاہری محافظ غیراللہ کے در پر جھکنے پر مجبور ہیں۔ شرک و بدعت کے بھاشن دینے والے یا ٹرمپ مدد کے نعرے لگانے پر مجبور ہیں۔ عرب سربراہان کے نالائق کلاس روم میں استاد ٹرمپ کا درس ہو رہا ہے۔ اپنے آپ کو اسلام کا والی و وارث گرداننے والے اسلام کی حفاظت امریکہ سے کروانے پر مجبور ہیں۔ پوری دنیا میں مخصوص نظریئے پر مبنی اسلام پھیلانے کا ٹھیکہ لینے والے خود امریکائی اسلام کے دست بیعت ہونے پر مجبور ہیں۔ کعبۃ اللہ کا حج کرنے والے دنیا بھر کے حجاج کو مخصوص ترجمہ و تفسیر پر زبردستی قرآن کا تحفہ تھمانے والے خود ٹرمپ کی لکھی ہوئی تفسیر پر عمل کر رہے ہیں۔ عقیدت مصطفٰے ؐ اور جذبہ عشق رسول ؐ میں سرشار اہل اسلام کو مکہ و مدینہ کے مختلف شعائراللہ کا بوسہ لینے پر توہین آمیز سلوک کرنے والے حتٰی کہ ڈنڈے مارنے والے منافق حکمران خود ٹرمپ اور اس کی بیٹی اور اس کی بیوی کے ہاتھوں کا لمس لے کر یا انہیں بوسہ دے کر اپنی دنیوی و اخروی نجات پکی کر رہے ہیں۔ دنیا کے تمام اہل اسلام کو اسلام سکھانے والے خود اسلام کی امن آفرین تعلیمات کا درس حضرت ٹرمپ مدظلہ العالی سے لے رہے ہیں۔

گراوٹ کی حد ہے کہ توحید توحید کی رٹ لگانے والوں کو وحدہ لاشریک یاد نہیں، بلکہ یا امریکہ مدد، یا ٹرمپ مدد کا سبق ازبر ہوچکا ہے۔ بے چارے سادہ لوح مسلمانوں کو اللہ کے علاوہ کسی کے در پر حتٰی کہ خاتم المرسلین رحمت اللعالمین کے در پر "اہل بیت عظام" صحابہ کرام اور خاصان خدا یعنی اولیا کرام کے دروں پر نہ جانے، نہ جھکنے اور نہ مانگنے کا بزور حکم کرنے والے اور نصیحت کرنے والے خود امریکہ اور اسرائیل کی چوکھٹ پر جھکنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔ کس ڈھٹائی سے دنیا کے سب سے جاہل اور مخبوط الحواس انسان کو اسلامی ممالک کے عوام کی نمائندگی کرنے والے فورم پر صدارتی ارشادات کے لئے بٹھانے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ پاکستان سمیت دنیا کے تمام اسلامی ممالک کے سربراہان کو معمولی پروٹوکول دینے والے اور سفارتی اخلاقیات و قوانین کی دھجیاں اڑانے والے حکمران ٹرمپ اور اسکی بیوی بیٹی کے لئے لال قالین کے ساتھ اپنے آپ کو بھی بچھانے پر مجبور ہوچکے ہیں۔ یہ تو کوئی اخلاقی یا میڈیائی رکاوٹ کا لحاظ آگیا تھا، ورنہ خانوادۂ ٹرمپ کی زلف اور حسن کے اسیر یہ حکمران اپنے جسموں کو لال قالین بنا کر بہت عزت اور فخر محسوس کرتے۔

عام اور سطحی انسان اور تاریخ سے ناآگاہ شخص یقیناً اس سعودی رویئے، اس انداز، اس پالیسی حتٰی کہ اس خوشامد برآمد پر حیرت زدہ ہوگا، لیکن تاریخ کا مطالعہ رکھنے والے آگاہ لوگ اور خوفزدہ انسانوں کی نفسیات جاننے والے انسان جانتے ہیں کہ جب اقتدار بچانا ہو، جب اپنی ذاتی و خاندانی حکمرانی محفوظ رکھنا ہو، جب بادشاہت کا تحفظ مقصود ہو، جب اسلام کو اپنے آپ کے ساتھ مشروط کرکے محفوظ کرنے کا نظریہ دے دیا جائے، جب کسی حق پرست کا خوف ذہنوں پر مسلط ہو جائے۔ جب خود کو ابرہہ کے مقام پر محسوس کرکے اپنا دفاع مقصود ہو۔ جب ابابیلوں کی کنکریاں ایٹم بم سے بھی زیادہ شدت سے اثر کرنے کا یقین ہو۔ جب کسی ان دیکھی قوت کے تسلط کا خطرہ بھانپ لیا جائے۔ جب یقین ہو جائے کہ لوگ بالخصوص اپنے وطن کے باسی اب تبدیلی کے سفر پر گامزن ہوچکے ہیں۔ جب اپنے سامنے خون اور جان کا نذرانہ پیش کرنے والوں کی تا حد نظر قطاریں نظر آنا شروع ہو جائیں۔ جب اپنے اقتدار کی مسند کمزور ہوکر ٹوٹنے کا یقین دل میں گھر کر جائے تو انسان بالخصوص حکمران اپنے آپ کو، اپنے قبیلے اور گروہ کو اور اپنے اقتدار کو بچانے کے لئے پست سے پست اور انسانیت و اخلاقیات سے دور اقدامات اور حرکات کرتے ہیں۔ عربوں کی تاریخ ایسے ہزاروں نہیں تو سینکڑوں واقعات سے مزین ہے، جس کا نیا اور تازہ باب ان دنوں سعودی عرب میں رقم ہو رہا ہے۔

اسرائیل کے ساتھ محبت کی پینگیں بڑھانے پر بھی ہمیں سعودی گراوٹ پر حیرت زدہ نہیں ہونا چاہیے، صاف ظاہر ہے جب ابا حضور کے ساتھ معاملات طے پا جائیں، جب آقا کے حکم پر ہمہ قسمی تعاون کا یقین دلا دیا جائے۔ جب صیہونی سرپرست کے ساتھ معاہدات کر لئے جائیں اور جب دنیا پر اسرائیلی تسلط قائم کرانے والوں کی غلامی اختیار کر لی جائے تو اسرائیل کو بھائی کہنا، بھائی جیسا احترام دینا، بھائی جیسا تعاون دینا بنتا تو ہے نا۔ چاہے اس کے لئے قبلہ اول کے قبضے کو نظر انداز کرنا پڑے، چاہے اس کے لئے بیت المقدس کی آزادی کو فراموش کرنا پڑے۔ چاہے اس کے لئے ہزاروں فلسطینی مسلمانوں، یتیموں، عورتوں اور بچوں کے خون سے غداری کرنا پڑے، چاہے اس کے لئے عالم اسلام کے مشترکہ موقف کو جوتے کی نوک پر رکھنا پڑے۔ کیا فرق پڑتا ہے؟؟ جب اس قدر پست فکری اور پست کرداری غالب آجائے تو ایسے اقدامات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ امریکہ و اسرائیل کی حفاظتی چھتری سعودیوں کو ابابیلوں سے بچا سکے گی۔؟

مفاد پرستی کی بنیاد پر بننے والے اتحاد کبھی دیرپا ثابت نہیں ہوسکتے، منفی بنیادوں پر منعقد کئے گئے اجتماعات کبھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکتے، ذاتی و خاندانی بادشاہت کو محفوظ کرنے کے لئے اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کام نہیں آسکتی، اسلام کے تحفظ اور حرمین شریفین کے دفاع کے ڈرامے زیادہ دیر دنیا کی اسکرین پر نہیں چل سکتے۔ تیل کے زور پر امریکہ و اسرائیل یا بے چارے عرب حکمرانوں کو زیادہ وقت تک نہیں خریدا جا سکتا۔ مالی مفادات کا لالچ دے کر اور مذہبی جذبات کا ہتھکنڈہ استعمال کرنے کا سلسلہ پاکستان سمیت دیگر ممالک میں زیادہ دیر نہیں چلایا جاسکتا۔ پاکستان کے منتخب وزیراعظم کا یادگار اور مثالی بے عزتی پروگرام اور چونتیس ممالک کے سپریم کمانڈر کے سکیورٹی پلان کی وقعت و حیثیت کے بعد مفادات پر قائم پاک سعودی کا پول جلد کھلنے والا ہے۔ سعودی عرب کی جیب جلد خالی ہونے والی ہے۔ اس کے ذخائر جلد ختم ہونے والے ہیں۔ اس کی بادشاہت جلد رخصت ہونے والی ہے۔ اس کا ناجائز اقتدار جلد زمین بوس ہونے والا ہے۔

عام سعودی سپاہی سے لے کر چونتیس ممالک کے چیف اور سپریم کمانڈر تک بہت جلد سب تتر بتر ہونے والے ہیں۔ ابابیلیں اپنی کنکریاں تیار کرچکی ہیں اور یہی ابابیلیں سعودی حکمرانوں کے رات کے خوابوں اور دن کے تاروں میں مسلسل نظر آرہی ہیں۔ انہیں ابابیلوں سے بچنے کے جتن ہو رہے ہیں۔ امریکہ ہو یا اسرائیل یا پھر چونتیس ملکی مفاداتی اتحاد کوئی بھی ابابیلوں نہیں بچا سکتا۔ جتنے لوگ ذخائر اور مال و منال کے لئے سعودیہ کے اردگرد جمع ہوچکے ہیں، وہ اپنی اپنی تجوریاں بھرتے جائیں گے اور نکلتے جائیں گے۔ آخر میں تنہائی پھر بھی مقدر ہے، جس کے بعد موت کا آنا بعید نہیں۔ میں اپنے وطن کی ناموس پر فکر مند ہوں، جس کی ریاست اسلامی نہیں، بلکہ سعودی سیاسی مفادات کا تحفظ کر رہی ہے اور جس کی حکومت ہزارہا یقین دہانیوں اور خوشامدی رویوں کے باوجود سعودی نظروں اور سعودی دلوں میں اتنا مقام بھی پیدا نہیں کرسکی کہ قربانیوں کے تذکرے میں پاکستان کا نام ہی لے لیا جائے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
خبر کا کوڈ : 640730
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

سید بابر علی
Pakistan
بخاری صاحب بہت عمدہ تجزیہ ہے، مگر چونکہ آپ نے پیش کیا ہے، اس لئے قابل قبول نہیں بہت سے لوگوں کی نظر میں۔
ہماری پیشکش