0
Monday 29 May 2017 10:28

جنرل راحیل شریف۔۔۔ قوم آج بھی آپ سے محبت کرتی ہے

جنرل راحیل شریف۔۔۔ قوم آج بھی آپ سے محبت کرتی ہے
تحریر: ساجد مطہری

یوں تو پاکستان کی 69 سالہ تاریخ میں پاک فوج کے کئی آرمی سربراہ گزرے ہیں، لیکن جنرل (ر) رحیل شریف جیسی مقبولیت بہت کم فوجی افسران کو ملی ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ایک فوجی جنرل ہونے کے باوجود جنرل راحیل پاکستانی عوام کے دلوں پر راج کرتے تھے، ملک کی نجی محفلوں سے لے کر سوشل میڈیا تک ہر جگہ جنرل راحیل شریف کی شجاعت، ایمان داری اور حب الوطنی کو خراجِ تحسین پیش کیا جاتا تھا۔ دہشت گردی کے خلاف ضرب عضب سے لے کر ردّالفساد تک تمام عسکری کارروائیوں میں پاک فوج کی کامیابیوں کا کریڈٹ جنرل راحیل شریف کو جاتا ہے، جنرل راحیل شریف کی حکمت پر مبنی اور دانشورانہ پالیسیوں کے باعث ملک کے بیشتر حصوں میں دہشت گردوں کے گرد گھیرا تنگ ہوا تو دہشت گردوں کو اپنی پالیسیاں بدلنی پڑیں اور جہاد کے نام پر وطن عزیر کا تقدس پامال کرنے والے غیر ملکی کرایہ دار دہشت گردوں کو وزیرستان چھوڑنا پڑا۔ ان تمام کاموں کے لئے جنرل (ر) راحیل شریف اس حوالے سے بھی قابلِ ستائش ہیں کہ انہوں نے یہ تمام کام مسٹر نواز شریف جیسے آدمی کے وزیراعظم ہوتے ہوئے کیا۔

وقت گزرتا گیا، جنرل صاحب کی سپہ سالاری کا دورانیہ اختتام کو آپہنچا، انہوں نے ریٹائرمنٹ سے پہلے آپریشن ردّالفساد کا اعلان کرکے قوم کو مزید بہتری کی امید دلائی، پاکستانی عوام اپنے عسکری لیڈر کے فیصلے سے بہت خوش تھے، انہیں امید تھی کہ ملک سے اب دہشت گردی کا صفایا ہو جائے گا۔ عام لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس دوران جنرل صاحب کو سعودی عرب کی طرف سے ایک پرکشش آفر ہوئی، جس کے باعث وہ سعودی عرب کی سربراہی میں بننے والے برائے نام اسلامی فوجی اتحاد کی سربراہی کی کمان سنبھالنے سعودی عرب چلے گئے۔ یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے جتنی سادگی سے بیان کیا جاتا ہے، عالمی حالات حاضرہ پر نگاہ رکھنے والے جانتے ہیں کہ تقسیم برصغیر سے ہی بھارت اور سعودی عرب کے تعلقات مثالی رہے ہیں اور سال 2004ء کے بعد ان دونوں ممالک کے تعلقات میں بہت عروج آیا ہے۔ یہ بھارت اور سعودی عرب کے تعلقات کا ہی نتیجہ ہے کہ پاکستان اپنی کشمیر پالیسی سے پیچھے ہٹ گیا ہے۔ بھارت براہ راست پاکستان کو تو رام نہیں کرسکتا تھا چنانچہ بھارت نے پاکستان کو سعودی عرب کے ذریعے کنٹرول کیا ہے۔ اس وقت بھی ہمارے موجودہ وزیراعظم کی بھارت نواز پالیسیاں دراصل سعودی عرب کے ایجندے کی تکمیل ہیں۔

محترم جنرل راحیل کا سعودی اتحاد کا سربراہ بننا دراصل سعودی عرب کا نواز شریف حکومت سے ایک تقاضا تھا۔ چنانچہ ملازمت کے دوران ہی نواز شریف حکومت نے ان کے اور سعودی عرب کے معاملات طے کروائے اور یوں ریٹائرمنٹ کے بعد جنرل صاحب کو اس سعودی اتحاد کی سربراہی قبول کرنا پڑی۔ اس کے بعد جنرل صاحب پر کیا بیتی، وہ اپنی جگہ ایک تفصیل ہے۔ لیکن انہیں سعودی عرب کی ملازمت کے دوران اپنی اوقات کا اس وقت شدت سے احساس ہوا کہ جب گذشتہ دنوں ’’ریاض کانفرنس‘‘ میں شرکت کے لئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سعودی عرب تشریف لائے اور جنرل صاحب کو ایک معمولی سکیورٹی آفیسر کی طرح ڈیوٹی دینی پڑی۔ بات صرف یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ جنرل صاحب کے تمام اختیارات محدود کرکے انہیں امریکی فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ماتحت کر دیا گیا ہے۔ اب جنرل صاحب کو یقین ہوا ہے کہ اس فوجی اتحاد کے جومقاصد بتائے گئے تھے وہ کچھ اور تھے، لیکن اس فوج کو سعودی عرب اور امریکہ جس مقصد کے لئے استعمال کرنا چاہتے ہیں وہ کچھ اور ہے۔ ایسے میں جنرل صاحب کے لئے امریکی و سعودی ایجنڈے پر یس سر کہہ کر آگے بڑھتے رہنا مشکل ہے۔ ہم جنرل صاحب کو یقین دلاتے ہیں کہ آپ اپنی پیشہ وارانہ قابلیت اور دیانتداری کی وجہ سے آج بھی اپنی قوم کے دلوں میں بستے ہیں۔ اگر آپ سعودی و امریکی فوج کی حقیقت کو بے نقاب کرتے ہیں اور اسے ٹھکرا کر واپس آجاتے ہیں تو اس سے آپ کے اور پاکستان کے وقار میں اضافہ ہوگا۔ ویسے بھی پاکستان کے کسی بھی فوجی کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ غیروں کی جی حضوری کرتا پھرے۔
خبر کا کوڈ : 641574
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش