0
Monday 29 May 2017 23:30
راجپوتانہ ہسپتال سے بحرین تک

دنیا بھر کے مظلومو! ایک ہوجاو

دنیا بھر کے مظلومو! ایک ہوجاو
تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@gmail.com

اتفاق سے راجپوتانہ ہسپتال اور بحرین میں انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف احتجاج منگل سے یعنی ایک ہی دن سے شروع ہو رہا ہے۔ بحرین کی طرح ہمارے ہاں کا بھی یہی مسئلہ ہے کہ عوام کی کوئی اہمیت نہیں۔ لہذا وہاں کی طرح ہمارے ہاں بھی آئے روز ہڑتالوں اور دھرنوں کی خبریں گشت کرتی ہیں، بحرین اور پاکستان میں گویا کوئی حکومت ہی نہیں اور اگر حکومت ہے بھی تو انہی لوگوں کی ہے، جو عوام کی فریاد اور شکایت پر کان نہیں دھرتے اور جو انسان کو انسان نہیں سمجھتے۔ جس طرح بحرین میں انسانی حقوق پامال ہو رہے ہیں، اسی طرح پاکستان میں بھی انسانی حقوق کی کوئی اہمیت نہیں۔ پاکستان کے ہسپتالوں میں انسانوں کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کیا جاتا ہے اور بحرین کی غیر جمہوری سلطنت میں بھی عوام کے ساتھ اسی طرح ہو رہا ہے۔ گذشتہ دنوں راجپوتانہ ہسپتال میں جو ہوا، وہ سب کے سامنے ہے اور سب لوگ جس کا مطالبہ کر رہے ہیں، وہ انجام نہیں پا رہا۔ اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ بحرین کی بادشاہت اور ہمارے ہاں کی نام نہاد جمہوریت میں کوئی فرق نہیں۔ جس طرح جمہوریت کے حصول کے لئے بحرین کے عوام نے جدوجہد کا آغاز کر دیا ہے، اسی طرح  اپنے جمہوری حقوق کو حاصل کرنے کے لئے ہمارے عوام کو بھی سڑکوں پر آنے کی ضرورت ہے۔ پاکستانی عوام کا مطالبہ ہے کہ ہسپتالوں میں لوگوں کو جعلی سٹنٹ ڈالنے والوں، لوگوں کے گردے نکال کر بیچنے والوں، ہسپتالوں کے سامنے پارکنگ کے نام پر مریضوں کو لوٹنے والوں، جعلی دوائیاں بنانے والوں اور مریضوں کو تڑپتا دیکھ کر توجہ نہ دینے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے، لیکن ایسا نہیں ہو رہا۔ بہت افسوس کی بات ہے کہ ہمارے اس نام نہاد جمہوری ملک میں انسانی جانوں پر ظلم ہو رہا ہے، لیکن مظلوم کی شنوائی نہیں ہو رہی۔

قارئین محترم! جس ملک کے اداروں میں، ظلم، کرپشن، دھونس اور سفارش چلتی ہو، اس  ملک میں وڈیرہ شاہی اور آمریت تو ہوسکتی ہے لیکن جمہوریت نہیں۔ راجپوتانہ ہسپتال کی نااہل انتظامیہ اور بے حس ڈاکٹروں کے خلاف یہ عوامی ہڑتال نام نہاد جمہوریت کے منہ پر طمانچہ ہے۔ یہ ہڑتال اس بات کی دلیل ہے کہ ہمیں اپنے ملی شعور کی سطح کو بلند کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ظالم اور کرپٹ حکام کے خلاف علاقائی و لسانی و فرقہ وارانہ دھڑے بندیوں سے بالاتر ہوکر ایک پاکستانی قوم اور ایک اسلامی ملت بننے کی ضرورت ہے۔ ہمیں یہ یقین کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم عوام ہی میڈیا، جمہوریت اور قومی طاقت ہیں، وڈیرے، سرمایہ دار، نواب، جاگیراد اور ڈکٹیٹر لوگ ہمیں عرب ممالک کے بادشاہوں کی طرح فرقوں، قوموں، علاقوں اور صوبوں میں تقسیم کرکے ہمارے حقوق پامال کرتے ہیں اور ہمارا استحصال کرتے ہیں۔ ہمیں مختلف گروہوں میں تقسیم کرکے شکار کیا جاتا ہے، ہم سمجھتے ہیں، کوئی بلوچ مارا گیا، کوئی پنجابی قتل ہوگیا، کوئی پٹھان بھون دیا گیا، کوئی شیعہ تختہ مشق بن گیا، کوئی سنی بم دھماکے میں اڑ گیا، کوئی مہاجر موت کے گھاٹ اتر گیا، لیکن ہم بھول جاتے ہیں کہ ہم سب مسلمان، پاکستانی اور مظلوم ہیں۔ اگر کسی کے ساتھ بھی زیادتی ہو اور ہم سب جسد واحد کی طرح اس کے درد کو محسوس کریں اور اس ظالم کی مذمت کریں تو ظالموں میں اصلاً ظلم کرنے کی جرات ہی نہیں رہے گی۔

آیئے ہم ان وجوہات کو تلاش کرتے ہیں، جن کی وجہ سے عوام بے بس ہو جاتے ہیں اور جن کی وجہ سے ظالم طاقتور اور مظلوم کمزور ہو جاتا ہے۔
1۔ پارٹیوں، تنظیموں اور سرکاری ملازمتوں میں میرٹ کی پامالی
جب کسی ادارے، تنظیم یا پارٹی میں صلاحیت اور اہلیت کے بجائے، رشوت، دھونس، چاپلوسی یا دوستی اور رشتے داری کی بنا پر مسئولیتیں تقسیم ہونے لگیں تو پھر مسئولین اپنی ذمہ داریوں کا احساس نہیں کرتے۔ جہاں پارٹیوں اور تنظیموں کی قیادتیں موروثی ہوں، باپ کے بعد بیٹا ہی پارٹی کا لیڈر بنتا ہو، وہاں عوام کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی، ایسے لوگ بظاہر لیڈر تو بن جاتے ہیں، لیکن عملاً کسی بھی مسئلے پر کوئی ایکشن نہیں لے سکتے۔ اگر کہیں پر کوئی واقعہ پیش آجائے تو بیان دے دیتے ہیں اور اسی کو اپنی کارکردگی بناکر پیش کرتے ہیں۔ ہم نے راجپوتانہ ہسپتال کے مسئلے میں بھی یہی دیکھا کہ بیانات تو دیئے گئے، لیکن عملاً ایکشن نہیں لیا گیا۔ جس ملک کی کلیدی پوسٹوں پر بیٹھنے والے فقط بیانات تک محدود ہو جاتے ہیں تو پھر اس ملک کے عوام کو احتجاج تو کرنا ہی پڑتا ہے۔ ایسے میں باشعور اور پڑھے لکھے لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ پارٹیوں اور تنظیموں کو موروثی نہ بننے دیں اور سرکاری عہدوں پر بغیر میرٹ کے افراد کو بھرتی نہ ہونے دیں اور ان مسائل کے خلاف بھی آواز اٹھائیں۔

2۔ عوام میں اتحاد اور جمہوریت کا شعور نہ ہونا
عوام کو ملکوں، فرقوں، علاقوں اور پارٹیوں سے بالاتر ہوکر متحد ہونے کا شعور دیا جائے۔ لوگوں کو سمجھایا جائے کہ اگر آپس میں متحد رہو گے تو تمہارے حقوق محفوظ رہیں گے، لیکن اگر آپس میں تقسیم ہو جاو گے تو یہ طاقتور طبقہ تمہارے خون سے نوالے تر کرکے کھاتا رہے گا۔ اسی طرح لوگوں کو الیکشن کی اہمیت بتائی جائے اور انہیں یہ شعور دیا جائے کہ جو تنظیمیں اور پارٹیاں خود موروثی اور خاندانی ہیں، وہ تمیں کیا جمہوریت دیں گی، لہذا پارٹیوں اور وڈیروں کے مقابلے میں تعلیم یافتہ، مہذب اور انسانیت دوست لوگوں کو ووٹ دیں، تاکہ وہ آپ کا درد بھی محسوس کریں۔
3۔ ظلم برداشت کرنے کی عادت
لوگوں کو یہ کہہ کر گمراہ کیا جاتا ہے کہ درخواستیں دینے، احتجاج کرنے اور شور کرنے سے کچھ نہیں ہوتا، لہذا چپ کرکے گھروں میں بیٹھ جاو۔ عوام کو یہ سمجھایا جائے کہ ظالموں کے خلاف اٹھنا ایک دینی عبادت ہے۔ جس طرح نماز پڑھنا ضروری ہے، اسی طرح ظلم کے خلاف بولنا اور ظالموں کے خلاف آواز اٹھانا بھی عبادت ہے۔ اس کا اخروی اجر خدا کی ذات دے گی اور اس کا دنیا میں کم سے کم فائدہ یہ ہے کہ ظالم کے پتلے جلتے ہیں، اسے عوامی غیض و غضب کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اسے عوامی طاقت کا احساس ہوتا ہے۔

4۔ باشعور لوگوں کے درمیان اختلافات
عوام دشمن لوگ، باشعور طبقے کے درمیان اختلافات ایجاد کرکے اپنے عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالتے ہیں۔ مثلاً اگر کسی کے ساتھ ظلم ہو اور صحافی یا کوئی دیگر پڑھا لکھا شخص اس مسئلے کو اٹھائے تو ظالم طبقہ پہلے تو کچھ باشعور لوگوں کو ڈرانے کی کوشش کرے گا کہ ہم ایسے ویسے کر دیں گے، کچھ کو ایک اچھا سا کھانا کھلا کر ان سے دوستی کر لی جائے گی، کچھ کو لفافہ تھما دیا جائے گا اور کچھ کے درمیان غلط فہمیاں پیدا  کر دی جائیں گی۔ ممکن ہے ایک دانشمند، ڈرے بھی نہیں، کھانے پر بھی نہ جائے، لفافہ بھی نہ لے، لیکن اسے  دوسروں سے بدظن کرنے کا حربہ بہت زیادہ موثر ہوسکتا ہے۔ مثلاً اسے کہا جائے گا کہ آپ تو اتنے پڑھے لکھے ہیں اور ان پڑھ لوگوں کے پیچھے چل رہے ہیں، یا فلاں پریس کلب کا صدر تو آپ کو ہونا چاہیے تھا یا یہ کہ فلاں نے آپ کے ساتھ فلاں زیادتی کی ہے یا۔۔۔۔ ایک دانشمند کے دانشمند اور باشعور ہونے کا تقاضا ہے کہ اگر اس کا اپنے کسی قلمکار دوست، تجزیہ نگار، رپورٹر یا کسی بھی صحافی یا کسی بھی دوسرے شعبے سے تعلق رکھنے والے پڑھے لکھے آدمی سے سے اختلاف ہو بھی جائے تو مظلوموں کی مدد و نصرت کے وقت اپنے اختلافات کو بیچ میں نہ لایا جائے۔ راجپوتانہ ہسپتال کے مظلوموں کے لئے احتجاج کرنے واے دانشمندوں اور عوام سے میری اپیل ہے کہ اس احتجاج میں بحرین کے مظلوموں کے لئے بھی آواز بلند کریں اور بحرین کے مظلوم عوام کو بھی پاکستان کے عوام کی طرف سے یہ یقین دلائیں کہ انسانی حقوق اور جمہوریت کی جدوجہد میں ہم سب ایک ہیں، چونکہ ہم سب مظلوم ہیں۔
خبر کا کوڈ : 641678
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش