0
Wednesday 31 May 2017 13:12

فلسطین اور عرب دنیا

فلسطین اور عرب دنیا
تحریر: صابر کربلائی

ایک زمانے کی بات ہے کہ مائیں اپنے بچوں کو عرب قومیت اور حمیت کی لاجواب داستانیں سنایا کرتی تھیں اور کئی نسلیں یہی داستانیں سن سن کر پروان چڑھتی رہیں۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو واقعاً عرب حمیت و غیرت اور بہادری میں دوسری قوموں سے آگے ہی تھے، البتہ عجم بھی ایسی کئی خصوصیات رکھتے تھے، لیکن عرب معاشروں میں عربوں کی حمیت، قومیت اور دلیری و شجاعت کی داستانیں نئی نسل کو پروان چڑھاتے وقت گھول گھول کر پلائی جاتی تھیں۔ 1948ء سے قبل اور اس کے بعد، جب سرزمین فلسطین پر ناجائز صیہونی ریاست کے قائم کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی تو یہ عرب ہی تھے جنہوں نے صیہونی سازشوں کا نہ صرف اسرائیل کے غاصبانہ تسلط سے پہلے مقابلہ کیا بلکہ تسلط کے بعد بھی سینہ سپر رہتے ہوئے جوانمردی کا مظاہرہ کیا۔ انہی عربوں نے جن میں مسلمان، عیسائی اور دیگر مذاہب کے لوگ بھی شامل تھے، عرب قومیت پر اکٹھا ہو کر صیہونیوں کی نیندیں حرام کر دی تھیں، سنہ48ء میں بھی جب صیہونیوں نے بڑی طاقت اور بھاری اسلح کے ساتھ برطانوی و امریکی سامراج کی سرپرستی میں ان عرب فلسطینیوں پر حملہ کیا تو یہ اس وقت بھی ان کے سامنے ڈٹ گئے، جس کے نتیجہ میں انہیں بڑی سخت قسم کی قربانیاں بھی دینا پڑیں، جس میں فلسطینی خواتین کو برہنہ سڑکوں پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا، جوانوں کو سخت شکنجے دیئے گئے، بزرگوں کے ساتھ بھی سخت سے سخت سلوک کیا گیا، حتٰی کہ ماؤں کے پیٹ میں بچوں تک کو قتل کر دیا گیا۔ اس طرح کے اور کئی ایک مظالم ہیں، جو اس وقت ان کو برداشت کرنا پڑے، لیکن عرب حمیت بیدار تھی، اس نے کبھی بھی سامراجی قوتوں کے سامنے شکست تسلیم نہ کی۔

وقت گزرتا چلا گیا، یہاں تک کہ 1967ء میں انہی عربوں نے اپنی قوت کو مجتمع کرکے غاصب اسرائیل سے فلسطین آزاد کروانے کا عزم کیا اور چھ روز تک گھمسان کی لڑائی میں بالآخر عرب ایک مرتبہ پھر بغیر کسی بڑی کامیابی کے خالی ہاتھ ہی رہے، ہاں البتہ یہ ایک کامیابی ضرور تھی کہ اپنی پھنسی ہوئی فوجوں کو واپس نکال لے گئے اور اس سے بڑھ کر جو نقصان ان کو ہوا وہ یہ تھا کہ فلسطین کا تو ایک بڑا حصہ غاصب صیہونی ریاست کے تسلط میں گیا ہی ساتھ ہی ساتھ اس نے شام، مصر، اردن اور لبنان کے علاقوں پر بھی قبضہ کر لیا، پھر کچھ وقت گزرا تو اسرائیل نے 1982ء میں لبنان پر قبضہ کر ڈالا، صبرا و شاتیلا میں ہونے والا فلسطینیوں کا بدترین قتل عام بھی اسی سال میں صیہونیوں کے ہاتھوں انجام پایا، حتٰی کہ اسرائیل رفتہ رفتہ پورے لبنان پر قابض ہو بیٹھا اور اب اگلے شکار کے انتظار میں تھا، شاید شام یا کوئی اور سرزمین۔ بہرحال عربوں کی جو بہادری اور شجاعت قصوں اور داستانوں میں سنائی جاتی رہی، ان گذشتہ چند سالوں میں بس تھوڑی بہت ہی جھلک نظر آئی اور وہ بھی فلسطین کے باسیوں میں کہ جو نہتے پہلے روز سے اب تک صیہونیوں کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنے رہے۔

وقت پہلے کی طرح ہی گزرتا رہا، لبنان میں اسلامی مزاحمت نے حزب اللہ کے نام سے جنم لیا، اس تنظیم کی قیادت پہلے شیخ راغب حرب کر رہے تھے اور ان کی شہادت کے واقعہ کے بعد سید عباس موسوی نے قیادت سنبھال لی۔ اس تنظیم کے جوان لبنان سے فلسطین جا کر پاپولر فرنٹ کے جوانوں کے ساتھ مل کر اسرائیل کے خلاف کارروائیاں انجام دیتے تھے، اسی طرح اس تنظیم کا گروہ لبنان میں قابض اسرائیلی فوج کے خلاف بھی کارروائی پر مامور تھا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 2000ء میں عربوں نے اپنی سالہا سال سے کھوئی ہوئی طاقت اور عزت کو دوبارہ پا لیا اور عرب قومیت و حمیت کا لوہا منوا لیا، کیونکہ اس سال اسرائیل کو لبنان کے چند ہزار جوانوں نے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا اور اسرائیل لبنان کے علاقوں سے دستبردار ہوا اور رسوا ہوتی ہوئی ذلت کا نشان ماتھے پر سجائے فوجیں واپس لوٹ گئیں۔ اسی اثناء میں جہاں لبنان میں اسلامی مزاحمت جنم لے چکی تھی، وہاں فلسطین میں بھی اسلامی مزاحمتی تحریک حماس شیخ احمد یاسین جیسے عظیم اور باہمت مجاہد کی قیادت میں کھڑی ہوچکی تھی، جس نے اسرائیل کے لئے مشکل وقت پیدا کر رکھا تھا۔

اسرائیل بھی اپنی اس شکست سے نالاں تھا اور چاہتا تھا کہ بدلہ لیا جائے، لٰہذا اسرائیل ایک مرتبہ پھر 2006ء میں لبنان پر حملہ آور ہوا اور 33 روز تک اسلامی مزاحمت حزب اللہ کے ساتھ گھمسان کی لڑائی کے بعد شکست سے دوچار ہوا، بھاری جانی نقصان بھی اٹھانا پڑا، یہ ایک اور موقع تھا کہ جب عربوں نے ثابت کیا تھا کہ وہ واقعاً دلیری و بہادری میں اپنی مثال آپ ہیں۔اسی طرح اسرائیل سے جب یہ شکست بھی برداشت نہ ہوئی تو اس نے فلسطین کی پٹی غزہ پر ایک نہ ختم ہونے والی خطرناک جنگ کا آغاز کر دیا۔ یہاں بھی اسلامی مزاحمت حماس، عزالدین القسام اور جہاد اسلامی کے جوانوں نے اسرائیل کے سامنے ترنوالہ بننے کے بجائے اسرائیل کو اینٹ کا جواب پتھر سے دیا، جس کے نتیجہ میں اسرائیل اپنے جنگی اہداف حاصل کئے بغیر ہی جنگ بند کرنے پر مجبور ہوا اور اس طرح ایک اور فتح و کامرانی فلسطینی مظلوموں کے حصہ میں آئی۔ اگر دیکھا جائے تو 2000ء سے 2017ء تک یہ وہ چند سال ہیں کہ جب اسلامی مزاحمتی تحریکوں نے نہ صرف لبنان، مقبوضہ فلسطین بلکہ شام سمیت دنیا کے ہر اس مقام پر اسرائیلی ناپاک عزائم کو خاک میں ملایا ہے، جہاں صیہونیوں نے اپنے ناپاک منصوبوں کی تکمیل کے خواب دیکھے تھے اور ان چند سالوں کو عربوں کی کھوئی ہوئی طاقت کے پلٹنے اور عزت و کرامت کے سال بھی کہا جا سکتا ہے، کیونکہ ان چند سالوں میں ہی ماضی کی ان تمام جنگوں کا بدلہ بھی اسرائیل سے لیا گیا ہے، جو اس نے عالمی سامراج امریکہ اور برطانیہ سمیت مغربی قوتوں کی سرپرستی میں عرب ممالک کے ساتھ کی تھیں۔

بہرحال ایسے دور میں جب عرب کے کھوئے ہوئے عزت و وقار کو حماس، حزب اللہ اور جہاد اسلامی جیسی اسلامی مزاحمتی تحریکوں نے پوری عرب دنیا کو لوٹایا ہے، ایسے میں چند ناعاقبت اندیش عرب دنیا کے حکمران اپنی عزت کا سودا کئے بیٹھے ہیں اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مظلوموں کا دفاع کرنے والے ان اسلامی مزاحمتی گروہوں کو دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد امریکہ سرزمین مقدس حجاز میں بیٹھ کر مسلم دنیا کے حکمرانوں کے سامنے دہشت گرد کہتا ہے اور کسی بھی مسلمان حاکم میں جرات نہیں کہ وہ دنیا کے سب سے بڑے شیطان اور دہشت گرد امریکہ کی زبان کو لگام دے سکے اور بتائے کہ اگر دنیا میں کوئی دہشت گرد ہے تو وہ امریکہ اور اس کی ناجائز اولاد اسرائیل ہے، نہ کہ اسلامی مزاحمتی تحریکیں جو براہ راست اسرائیل اور اسرائیل کے پیدا کردہ دہشت گرد گروہوں داعش، جبھۃ النصرۃ اور دیگر کے ساتھ نبرد آزما ہیں، انہی اسلامی مزاحمتی تحریکوں کی بدولت آج شام میں اسرائیلی حمایت یافتہ دہشت گرد گروہوں کا خاتمہ ممکن ہوا ہے، عراق میں بھی صورتحال اسی طرح ہے، اگر یہ اسلامی مزاحمتی گروہ لیبیا میں بھی ہوتے تو شاید لیبیا کی صورتحال بھی ایسی نہ ہوتی جو امریکہ نے وہاں بنا رکھی ہے۔ عرب دنیا کے عزت و وقار میں ان اسلامی مزاحمتی تحریکوں نے اضافہ کیا ہے، جبکہ عرب دنیا کے حکمران امریکی و صیہونی کاسہ لیسی میں مصروف عمل ہیں۔ اپنی عزت و کرامت، اپنی حمیت و وقار کا سودا کرچکے ہیں۔ ڈر تو یہ ہے کہ جس طرح عرب دنیا امریکی شیطانی چالوں میں پھنس کر اسرائیل کے لئے راہیں ہموار کر رہی ہے، کہیں اسرائیل اپنے گریٹر اسرائیل کے منصوبے کے تحت سرزمین مقدس حجاز تک قابض ہی نہ ہو جائے، لیکن پھر ایک امید اسلامی مزاحمت باقی ہے، کیونکہ اسرائیل کا علاج صرف اور صرف اسلامی مزاحمت ہے۔
خبر کا کوڈ : 642213
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش