0
Friday 2 Jun 2017 21:53

سعودی عرب اور قطر میں بڑھتے ہوئے اختلافات

سعودی عرب اور قطر میں بڑھتے ہوئے اختلافات
تحریر: محمد علی

سعودی عرب اور قطر کے میڈیا پر ایکدوسرے کے خلاف شدید رویہ اپنائے جانے کے بعد یہ خبر بھی ملی ہے کہ دونوں ممالک کی سرحد بند کر دی گئی ہے۔ سوشل میڈیا کی ویب سائٹ ٹویٹر استعمال کرنے والے 50 ہزار سے زائد افراد نے یہ خبر دی ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان سرحد بند کر دی گئی ہے۔ اگرچہ رسمی طور پر ریاض یا دوحہ کی طرف سے اس خبر کی تصدیق نہیں ہوئی۔ ایسے حالات میں قطر کے فرمانروا شیخ تمیم بن حمد آل ثانی نے کویت کا دورہ کیا ہے۔ اس دورے کا مقصد واضح نہیں اور مختلف حلقوں کی طرف سے کئی طرح کی چہ میگوئیاں کی جا رہی ہیں۔ بعض کا خیال ہے کہ اس دورے کا مقصد سعودی عرب کی سربراہی میں متحدہ عرب امارات اور بحرین کے اتحاد کے خلاف نئی صف بندی ایجاد کرنا ہے جبکہ بعض حلقے شیخ صباح احمد جابر الصباح سے امیر قطر کی ملاقات کا مقصد سعودی عرب سے تعلقات میں بہتری لانے کا راستہ تلاش کرنے کی کوشش قرار دیتے ہیں۔

قطری حکمرانوں کی جانب سے پاگل سعودی حکمرانوں کی جانب سے نگلے جانے کے خوف سے ایران کی جانب یو ٹرن ایسے حالات میں انجام پائی ہے جب کویت اور عمان نے بھی ایران کے بارے میں خلیج تعاون کونسل کے دیگر اراکین سے ہٹ کر موقف اپنا رکھا ہے۔ یہ امر اس کونسل اور نتیجتاً سعودی عرب کی سربراہی میں تشکیل پانے والے فوجی اتحاد کے ٹوٹ جانے کے امکان کو بڑھاوا دیتا ہے۔ مصر کا اخبار الاہرام لکھتا ہے کہ سعودی عرب اور قطر کی سرحدیں بند ہو جانے کا نتیجہ دونوں ممالک میں فوجی ٹکراو کی صورت میں نکل سکتا ہے جیسا کہ 1990ء کے عشرے میں بھی دونوں ممالک ایک بار آمنے سامنے آ چکے ہیں۔ سعودی عرب کے سیاسی ماہر حمد فراج کا کہنا ہے کہ قطری حکمرانوں کی جانب سے ایران کی جانب جھکاو دونوں ممالک میں تعلقات کے نئے باب کا آغاز ثابت ہو گا اور قطر عملی طور پر ایرانی بلاک میں شامل ہو چکا ہے۔ وہ مزید لکھتا ہے: "قطر سعودی عرب کے مقابلے میں جو امریکہ سے اسٹریٹجک تعلقات استوار کرنے کی کوشش میں مصروف ہے، ایران سے اسٹریٹجک تعلقات استوار کرنا چاہتا ہے۔"

امیر قطر سے منسوب بیان پر سعودی عرب میں معرض وجود آنے والی غصے کی لہر بدستور باقی ہے۔ سعودی میڈیا میں شائع ہونے والے کالمز اور کارٹونز میں مسلسل قطری حکام کی توہین کا سلسلہ جاری ہے۔ دوسری طرف قطری میڈیا بھی خاموش نہیں اور کارٹونز اور کالمز کے ذریعے سعودی میڈیا کا پورا مقابلہ کر رہا ہے۔ قطر اور خلیج تعاون کونسل کے بعض رکن ممالک خاص طور پر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں تناو اس وقت شدت اختیار کر گیا جب قطری کی سرکاری خبررساں ایجنسی نے امیر قطر کا ایک بیان جاری کیا جس میں خطے کے استحکام میں ایران کے کردار کو سراہا گیا تھا اور حزب اللہ لبنان کی ایک اسلامی مزاحمتی تحریک کے طور پر قدردانی کی گئی تھی۔ اگرچہ یہ بیان بہت جلد قطر کی سرکاری خبررساں ایجنسی کی ویب سائٹ سے ہٹا لیا گیا لیکن اور ویب سائٹ کے ایڈمن نے بھی یہ موقف اختیار کیا کہ ان کی ویب سائٹ ہیک کر لی گئی تھی لیکن اس کے باوجود سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے قطر کی سرکاری خبررساں ایجنسی کی ویب سائٹ پر پابندی عائد کر دی اور دونوں ممالک کے میڈیا نے خفیہ آڈیو فائلز شائع کرتے ہوئے قطر اور اس کے حکمران خاندان کے خلاف وسیع پروپیگنڈے کا آغاز کر دیا۔ مثال کے طور پر سعودی عرب کے اخبار الریاض نے امیر قطر کے خلاف توہین آمیز مقالہ شائع کرنے کے علاوہ ایک کارٹون بھی شائع کیا جس میں ایک درخت بنایا گیا تھا اور اس پر عبارت "خلیجی معاہدہ" لکھی گئی تھی۔ اس درخت کی ایک شاخ کا نام قطر تھا جو کلہاڑی سے خود کو درخت سے علیحدہ کرنے میں مصروف تھی۔

دوسری طرف قطری میڈیا بھی پیچھے نہ رہا اور حتی ملک سلمان کا بھی مذاق اڑا ڈالا جو خود کو خادم حرمین شریفین کہلاتا ہے۔ مڈل ایسٹ نیوز ویب سائٹ اور عربی 21، العرب الجدید اور الجزیرہ نیوز چینلز نے بھی ایک کارٹون شائع کیا جس میں ملک سلمان، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور مصری صدر عبدالفتاح السیسی کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف عالمی مرکز اعتدال کے افتتاح کو موضوع سخن بنایا گیا۔ ان کارٹونز میں ملک سلمان کو دکھایا گیا ہے جنہوں نے ٹرمپ اور السیسی کے ہمراہ ایک گیند نما چیز پر ہاتھ رکھے ہوئے ہیں اور اس گیند کے نیچے شیطانی روحیں اور چژیلیں ظاہر ہو کر کہتی ہیں: "ہم حاضر ہیں"۔ ان میں سے ایک شیطانی روح خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہے: "مشرق وسطی میں مزید تباہی و بربادی"۔ دوسری کہتی ہے: "اس کا مطلب مزید بچوں کا قتل ہونا ہے"۔ ایک اور شیطانی روح کہتی ہے: "مزید انسانوں کو قتل کریں"۔ اس سے قبل الجزیرہ نیوز چینل کی ویب سائٹ نے بھی ایک ایسا کارٹون شائع کیا تھا جس نے سعودی عرب اور خلیج تعاون کونسل کے دیگر رکن عرب ممالک میں ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ ردعمل اس قدر شدید تھا کہ یہ ویب سائٹ اس کارٹون کو ہٹانے پر مجبور ہو گئی۔ اس کارٹون میں دو افراد کو دکھایا گیا تھا جن میں سے ایک ملک سلمان بن عبدالعزیز سے شباہت رکھتا تھا جبکہ دوسرا مصری صدر عبدالفتاح السیسی کی مانند تھا۔ یہ افراد العربیہ نیوز چینل کی جھوٹی خبریں پڑھتے دکھائی دے رہے تھے۔ قطر کے اخبار ڈیلی الوطن نے امیر قطر تمیم بن حمد کی توہین کرنے پر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور لکھا کہ سعودی عرب اور قطر نے قبائلی طریقہ کار اختیار کر رکھا ہے جس کی توقع کسی بھی حکومت سے نہیں کی جا سکتی۔

ایسے وقت جب سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں اور قطر کے درمیان تعلقات شدید تناو کا شکار ہو چکے ہیں، قطر کے وزیر خارجہ نے اپنے ٹوئٹر اکاونٹ پر سعودی حکام کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ محمد بن عبدالرحمان آل ثانی نے اپنے ٹوئٹر پر امام علی علیہ السلام کی یہ حدیث لکھی کہ "ہر مرض کی دوا موجود ہے سوائے بداخلاقی کے جس کی کوئی دوا نہیں"۔ قطری وزیر خارجہ کی یہ ٹوئٹ سعودی عرب کے وہابی شیوخ کے اس اقدام کے صرف دو روز بعد سامنے آئی جس میں انہوں نے امیر قطر سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے ان سے خاندانی تعلق پر افسوس کا اظہار کیا۔ اسی طرح اس پیغام میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے امیر قطر کے خلاف شدید پروپیگنڈے کی جانب اشارہ کیا گیا ہے۔ قطری حکام خطے میں سعودی جارحانہ پالیسیوں کے خلاف ہیں۔

صرف سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ہی نہیں جنہوں نے قطر کے خلاف شدید موقف اپنایا ہے بلکہ بعض سابق امریکی حکام نے بھی قطر کو خبردار کیا ہے کہ وہ اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرے۔ امریکی جاسوسی ادارے سی آئی اے کے سابق سربراہ اور سابق امریکی وزیر خارجہ رابرٹ گیٹس نے قطر اور اخوان المسلمین کو خبردار کیا ہے کہ ان کی پالیسیوں کے نتیجے میں امریکہ العبید ہوائی اڈے کو خالی کر سکتا ہے۔ یاد رہے العبید ہوائی اڈہ خطے میں امریکہ کا سب سے بڑا فوجی اڈہ جانا جاتا ہے۔ امریکی کانگریس کی کمیٹی برائے امور خارجہ کے سربراہ ایڈ رائس جو ریپبلکن پارٹی سے وابستہ ہیں، نے بھی اعلان کیا ہے کہ اگر قطر اپنی پالیسیوں میں تبدیلی نہیں لاتا تو اس پر پابندیاں عائد کر دی جائیں گی اور اخوان المسلمین کی حمایت پر اسے سزا دی جائے گی۔ امریکی حکام کا یہ موقف ظاہر کرتا ہے کہ وہ قطر کی حالیہ پالیسی سے راضی نہیں اور ان دھمکیوں کے ذریعے اسے سعودی عرب کا ساتھ دینے پر مجبور کرنا چاہتے ہیں۔ خاص طور پر یہ کہ واشنگٹن النصرہ فرنٹ جیسے شدت پسند گروہوں سے قطر کے تعلقات سے بھی بخوبی آگاہ ہے۔

درحقیقت، طالبان، النصرہ فرنٹ یا اخوان المسلمین جیسے شدت پسند گروہوں سے تعلقات، قطر کے ہاتھ میں خطے میں اثرورسوخ بڑھانے کا اہم ترین ذریعہ ہیں۔ اخوان المسلمین سے قطر کے تعلقات اسٹریٹجک نوعیت کے ہیں۔ سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ قطر کی جانب سے اخوان المسلمین سے اسٹریٹجک تعلقات برقرار کرنے کا مقصد ملک میں سعودی عرب کی حمایت یافتہ وہابیت کی ترویج کو روکنا ہے۔ دوحہ اور اخوان المسلمین کے درمیان انتہائی قریبی تعلقات، سعودی عرب، مصر اور متحدہ عرب امارات سے قطر کے اختلافات کی بنیادی وجہ ہیں۔ مثال کے طور پر ریاض اور ابوظہبی کے برعکس، دوحہ نے مصر میں اخوان المسلمین کی حمایت کی تھی۔ لہذا جب سے عبدالفتاح السیسی نے صدر محمد مرسی کے خلاف فوجی بغاوت انجام دی، تب سے مصر اور قطر کے تعلقات شدید تناو کا شکار ہیں۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور مصر سے قطر کے بنیادی اختلافات کے پیش نظر یہ توقع کی جاتی ہے کہ دونوں کے درمیان فاصلے مزید بڑھ جائیں گے جس کے نتیجے میں حال ہی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی موجودگی میں سعودی عرب کی سربراہی میں تشکیل پانے والا فوجی اتحاد بڑے چیلنجز سے روبرو ہو گا۔
خبر کا کوڈ : 642738
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش