QR CodeQR Code

ایران میں داعش کی دہشتگردی کیوں؟

8 Jun 2017 22:22

اسلام ٹائمز: جہاں تک تہران میں دہشت گردی کی ٹائمنگ کی بات ہے تو ظاہر ہے کہ پیشگی منصوبہ بندی کے تحت یہ حملے ہوئے ہیں۔ کیا کوئی وثوق سے کہہ سکتا ہے کہ یہ حملے اپنے اصل وقت پر ہی ہوئے ہیں اور اس میں تاخیر نہیں ہوئی۔ لگتا یوں ہے کہ امریکہ اور اس کے ایران دشمن اتحادیوں نے جو کیلکیولیشن کی تھی، وہ یہ تھی کہ ایران میں الیکشن کے بعد دھاندلی کے الزامات لگیں گے اور ہارنے اور جیتنے والے فریقوں میں لڑائی ہوگی اور ایرانی انقلابی سیاستدان اور ان کے حامی باہم دست و گریباں ہوں گے، 2009ء جیسی صورتحال ہو جائے گی۔ دوسرا نکتہ ان کے پیش نظر یہ رہا ہوگا کہ امام خمینی کے حرم مطھر پر انقلابیوں کا اجتماع ہوگا تو وہاں زیادہ نقصان ہوگا۔


تحریر: عرفان علی

ایران میں داعش کی دہشت گردی کے بارے میں سحر اردو ٹی وی پر اظہار خیال کا موقع ملا۔ انداز جہاں ٹاک شو کے میزبان علی عباس رضوی صاحب نے اہم سوالات کئے، ان میں سے ایک سوال تھا کہ ان دہشت گرد حملوں کی ٹائمنگ اور دوسرا اہم سوال یہ کہ حملے کیوں کئے گئے، کونسے ممالک پس پردہ ملوث ہیں اور ایران سے کیا چاہتے ہیں۔ وہاں تفصیل سے بات نہیں ہوسکی اس لئے یہاں اس موضوع پر تفصیلی رائے پیش خدمت ہے۔ راقم الحروف کی نظر میں اس حملے کے اصل ذمے دار بنیادی طور پر دو ملک اور ایک جعلی ریاست یعنی اسرائیل ہیں۔ تکفیری دہشت گردی امریکہ اور سعودی عرب کی ٹیسٹ ٹیوب بے بی کا نام ہے، جس نے افغانستان میں 1980ء کے عشرے میں جنم لیا اور مختلف تنظیمی ناموں سے ارتقائی سفر جاری رکھا۔ قصہ مختصر کہ القاعدہ، القاعدہ ان عراق اور وہاں سے داعش کا ظہور، پھر شام میں جبھۃ النصرہ، احرار الشام، تحریر الشام سمیت ان گنت ناموں سے تکفیریت کے قبضے، حملے اور ان سب کے پیچھے مددگار اور سرپرستوں میں سرفہرست امریکہ اور سعودی عرب کے نام ہیں اور یہ بات مفروضہ نہیں بلکہ ناقابل تردید سچ ہے، جس کو ماضی میں بہت سے ریفرنس کے ساتھ بیان کیا جاچکا ہے۔ حتٰی کہ ان کی مدد کرنے والوں میں جعلی ریاست اسرائیل کا کردار بھی یہ ناچیز ماضی میں بیان کرچکا ہے۔ حال ہی میں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے دورہ سعودی عرب میں ایران پر انگشت نمائی کرکے اس کے خلاف کارروائی پر مسلمان ممالک کو بھی اکسایا اور اس سے قبل ٹرمپ نے ایران کو نمبر ون دشمن قرار دیا، سی آئی اے میں ایران دشمن مارک پومپیو کو سربراہ بنایا اور ایران کے خلاف کارروائی کے لئے حال ہی میں سی آئی اے کے مائیکل ڈی آندریا کو ٹیم کا سربراہ بنایا ہے۔

سعودی عرب کے وزیر دفاع اور نائب ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے العربیہ چینل میڈیا گروپ کو ایک انٹرویو میں ایران کے خلاف زہر افشانی کی اور کھلی دھمکی دی۔ اس سے قبل سابق سعودی جنرل انور عشقی نے امریکہ کے ایک تھنک ٹینک میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایران کا نظام حکومت اور ریاستی حکمران کی تبدیلی سعودی خارجہ پالیسی کا اولین ہدف ہے۔ وہابیت کے سعودی بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز نے بھی ایران کے نظام ولایت فقیہ پر شدید تنقید کرکے اس کی مخالفت کی۔ سعودی شہزادے نے تو کھل کر نظریہ مہدویت کی وجہ سے ایران کے ساتھ اچھے تعلقات کو ناممکن قرار دیا تھا۔ افغانستان، اٹلی سے لے کر براعظم امریکہ کے ممالک اور افریقی ممالک میں سعودی عرب اور جعلی ریاست اسرائیل نے ہی امریکہ کے استعماری منصوبوں کی مدد کی ہے۔ یہ معلومات اب ڈی کلاسیفائیڈ ہوچکی ہیں، یعنی انکے اس کردار کا ثبوت بھی موجود ہے اور یہ بھی ناقابل تردید حقیقت ہے کہ تکفیری دہشت گرد گروہوں نے امریکی سعودی و صہیونی مشترکہ نیابتی جنگ میں مہروں کا کردار ادا کیا ہے، جس کی تازہ مثال شام، یمن اور عراق ہیں۔ سابق امریکی وزیر دفاع اور سی آئی اے کے سربراہ لیون پنیٹا نے اعتراف کیا کہ لیبیا میں کرنل قذافی کا دھڑن تختہ کرنے والے دہشت گردوں کی امریکہ نے مدد کی۔ سابق امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے اپنی یادداشتوں پر مشتمل کتاب ہارڈ چوائسز میں شام میں بشار الاسد حکومت کے خلاف دہشت گردی کرنے والی نام نہاد اپوزیشن اور مسلح (تکفیری) گروہوں کو امریکی، سعودی اور یگر اتحادی ممالک کی جانب سے مدد کا اعتراف کیا۔ ثابت کیا ہوا؟ یہ حقیقت ثابت ہوئی کہ دھمکیاں امریکہ، سعودی عرب اور جعلی ریاست اسرائیل کی جانب سے دی جاتی ہیں، جیسا کہ ایران اور شام کیخلاف دھمکیاں ٹرمپ، محمد بن سلمان، شاہ سلمان، انور عشقی اور نیتن یاہو نے دیں، لیکن حملے نیابتی جنگ لڑ نے والے تکفیری گروہوں کے ذریعے کئے۔

تازہ مثال ایران کے دارالحکومت تہران میں امام خمینی کے حرم مطھر پر خودکش حملہ اور ایرانی پارلیمنٹ پر دہشت گردانہ حملہ تھا، جس کی ذمے داری داعش نے قبول کی۔ ضروری نہیں کہ صرف تکفیری گروہ ہی ہوں۔ امریکہ نے منافقین خلق کو بھی ایران میں دہشت گردی کے لئے تربیت دی ہے اور اس کا انکشاف نامور امریکی صحافی سیمور ہرش نے نیویارکر میں 5اپریل 2012ء کو کیا تھا۔ تفصیل کے لئے پڑھئے Our Men in Iran۔ تو ناموں سے فرق نہیں پڑتا، سیستان و بلوچستان میں ’’جیش العدل‘‘ نام رکھ لیں یا ’’جنداللہ‘‘ یا کردوں کے علاقے میں PJAK نام رکھ لیں یا خوزستان میں اہوازی عربوں کا نام استعمال کریں، یا آذریوں میں چہرگانی کا گروہ بنا ڈالیں، یہ سب امریکہ کے زرخرید ہیں۔ دھمکیاں امریکہ یا سعودی عرب دیتا ہے اور حملہ یہ گروہ کرتے ہیں اور اب ذمے داری قبول کرنے کا ٹھیکہ داعش کو ملا، جو اس نوعیت کا داعش کا پہلا حملہ ہے۔ اگر امریکہ، سعودی عرب داعش کے خلاف واقعی جنگ لڑ رہے ہیں، جیسا کہ ان کا دعویٰ ہے تو ایران میں دہشت گردی کے خلاف ایران کا ساتھ دینے کی یقین دہانی کرواتے، داعش کے خلاف ایران کی حکومت سے اظہار یکجہتی کرتے، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ قصہ مختصر یہ کہ داعش نام ہے پس پردہ امریکہ، سعودی عرب اور صہیونیت ہے۔

جہاں تک تہران میں دہشت گردی کی ٹائمنگ کی بات ہے تو ظاہر ہے کہ پیشگی منصوبہ بندی کے تحت یہ حملے ہوئے ہیں۔ کیا کوئی وثوق سے کہہ سکتا ہے کہ یہ حملے اپنے اصل وقت پر ہی ہوئے ہیں اور اس میں تاخیر نہیں ہوئی۔ لگتا یوں ہے کہ امریکہ اور اس کے ایران دشمن اتحادیوں نے جو کیلکیولیشن کی تھی، وہ یہ تھی کہ ایران میں الیکشن کے بعد دھاندلی کے الزامات لگیں گے اور ہارنے اور جیتنے والے فریقوں میں لڑائی ہوگی اور ایرانی انقلابی سیاستدان اور ان کے حامی باہم دست و گریباں ہوں گے، 2009ء جیسی صورتحال ہو جائے گی۔ دوسرا نکتہ ان کے پیش نظر یہ رہا ہوگا کہ امام خمینی کے حرم مطھر پر انقلابیوں کا اجتماع ہوگا تو وہاں زیادہ نقصان ہوگا۔ ممکن ہے کہ منصوبہ بندی ان دو نکات کے تحت کی گئی ہو، لیکن ملت شریف ایران نے باجود شکایات کے دھاندلی کے ایشو پر میر حسین موسوی و مہدی کروبی کی طرح کا بچگانہ ردعمل ظاہر نہیں کیا اور اداروں کو شکایات تک خود کو محدود رکھا۔ امام خمینی کے حرم مطھر پر سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی جانب سے سکیورٹی کے فول پروف انتظامات کی وجہ سے بھی دہشت گردوں کو برسی کے اجتماع میں دہشت گردی کا موقع نہیں مل سکا۔ لیکن چونکہ تنخواہ حلال کرنا تھی، آپشن نہیں تھا اس لئے 7 جون 2017ء کو شاید یہ سوچا ہو کہ رمضان المبارک اور گرمی کے ایام کی وجہ سے دن میں سکیورٹی شاید اتنی سخت نہ ہو۔ اس لئے یہ حملہ کیا گیا۔ ٹائمنگ کا دوسرا تعلق قطر کے مسئلے سے ہے کہ پوری دنیا کو قطر کے ایشو کی جانب متوجہ کیا اور حملہ قطر کی بجائے ایران پر کر دیا۔

یہ سوال کہ ایران پر حملہ کیوں کیا گیا؟ اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ ایران کو مستضعفین کی حمایت، آزاد و خود مختار باوقار خارجہ پالیسی کی سزا دینے کے لئے، اسے امریکہ مردہ باد، اسرائیل مردہ باد نعرے، فلسطینیوں کی حمایت اور مدد کرنے، یمن، بحرین اور نائیجیریا کے مظلوموں کی حمایت میں آواز حق بلند کرنے اور شام اور عراق کی حکومتوں کو فوجی مشاورت کے ذریعے دہشت گردوں کو نابود کرنے کی وجہ سے اسے سزا دینے اور سبق سکھانے کے لئے تہران میں پارلیمنٹ اور حرم امام خمینی کو نشانہ بنایا گیا۔ دشمن علی الاعلان یہ چاہتا ہے کہ ایران میں اسلامی جمہوریت نہ ہو، نظام ولایت فقیہ نہ ہو، امام مہدی عجل اللہ تعالٰی فرجہ الشریف کے ظہور کی زمینہ سازی کا کام نہ ہو، ایران امریکہ، سعودی عرب، جعلی ریاست اسرائیل کے انسانیت دشمن، اسلام دشمن، فلسطین دشمن، مستضعفین دشمن، استعماری و استکباری منصوبوں کی مخالفت نہ کرے، بلکہ شاہ ایران خائن کے دور کی طرح کی حکومت ہو جو ایران کو امریکہ کا دستر خوان بنا دے کہ جس کے وسائل امریکہ لوٹ کر لے جائے اور کوئی اف تک نہ کہے۔

لیکن ایران کا پیغام واضح ہے:
بعد از انقلاب اڑتیس برسوں میں ایران نے صدر مملکت، وزیر اعظم، چیف جسٹس، وزراء، علمائے کرام، اراکین پارلیمنٹ، سائنسدان، نیوکلیئر سائنسدانوں سمیت سترہ ہزار سے زائد انقلابی ایرانی مسلمانوں کی شہادتیں قبول کی ہیں، ایران عراق جنگ میں لاکھوں شہادتیں اور انقلابی جوانوں کی معذوری کو جھیلا ہے۔ اس کے فوجی حرمین شریفین آل رسول اللہ (ص) کا دفاع کرتے ہوئے شام اور عراق میں شہید ہو رہے ہیں، لیکن ایران اپنے اس عادلانہ موقف سے ایک انچ پیچھے ہٹنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ جس انقلابی ایران نے یہ سب مصائب برداشت کئے ہیں، اس کے استکبار شکن قائد انقلاب اسلامی امام خامنہ ای کو حق ہے کہ وہ تہران کے دہشت گردانہ حملوں کو پٹاخے بازی، آتش بازی سے تشبیہ دے کر دشمن کو یہ پیغام دے کہ ان پھلجڑیوں سے ملت انقلابی ایران و رزمندگان اسلام ناب محمدی کو ان کے الٰہی اہداف سے عقب نشینی پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ سپا ہ پاسداران انقلاب اسلامی نے تھوڑی سی دیر میں داعش کے دہشت گردوں کو واصل جہنم کرکے پاکستان کو پیغام دیا کہ جی ایچ کیو کو بھی سپاہ پاسداران جیسے جوانوں کی ضرورت ہے کہ اگر ایسے جوان ہوتے تو جی ایچ کیو میں دہشت گردی کرنے والے بھی اسی طرح جلد ہی بغیر مذاکرات کے ہی جہنم رسید کر دیئے جاتے۔ ایران کی پارلیمنٹ نے دنیا کو پیغام دیا کہ آتش بازی سے ان کا سیشن تک نہیں روکا جا سکتا۔ ایرانی پارلیمنٹ کے اراکین نے اس صورتحال میں سیلفی بناکر سوشل میڈیا پر پوسٹ کیں اور ان کے چہروں کی مسکراہٹ نے امریکہ، سعودی عرب اور جعلی ریاست اسرائیل کو پیغام دیا کہ
ستم کے بہت سے ہیں ردعمل
ضروری نہیں چشم تر کیجیے
وہی ظلم بار دگر ہے تو پھر
وہی جرم بار دگر کیجیے


خبر کا کوڈ: 644414

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/644414/ایران-میں-داعش-کی-دہشتگردی-کیوں

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org