0
Friday 9 Jun 2017 03:16

تہران میں دہشتگردانہ حملے۔۔۔۔۔ کیا امریکہ کو کامیابی ملی؟

تہران میں دہشتگردانہ حملے۔۔۔۔۔ کیا امریکہ کو کامیابی ملی؟
تحریر: محمد حسن جمالی

دنیا کے حالات سے آگاہ لوگ جانتے ہیں کہ ایران شروع دن سے ہی امریکہ کے مدمقابل کهڑا ہے۔ یہ وہ واحد ملک ہے جو امریکہ کے ظاہری رعب و دبدبے سے مرعوب نہیں ہوا بلکہ ہمیشہ اس کی غلط پالیسیوں کی مخالفت کرتا رہا ہے، اسے انسانیت کا حقیقی دشمن گردانتا رہا ہے، اس کے وجود کو روئے زمین پر لاعلاج کینسر کا پهوڑا قرار دیتا رہا ہے۔ ایران امریکہ کو دنیا کی سپر طاقت ماننے کے بجائے اسے انسانیت کے ماتهے پر بدنما داغ کہتا رہا ہے۔ انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی نے امریکہ کے غرور کا سر نیچا کر دیا۔ امام خمینی (رہ) کے انقلاب نے امریکہ کو ذلیل و رسوا کر دیا اور اس پر یہ واضح کر دیا کہ اسلام کی طاقت کے سامنے امریکہ کی حیثیت بدبودار کیچڑ میں رینگنے والے ناتواں مریض کیڑے مکوڑوں کی سی ہے۔ انقلاب اسلامی ایران سے کمرشکن شکست سے دوچار ہونے کے بعد سے لیکر آج تک امریکہ ایران اسلامی کی طاقت کو کمزور کرنے کے لئے کمربستہ ہے۔ وہ شب و روز کوشش کر رہا ہے کہ کسی نہ کسی طریقے سے ایران کو دنیا کی نظر میں حقیر دکهائے، ایران کی قدرت کو اس سے چهین لے، اس کی عزت کو ذلت میں، اس کی شجاعت کو بزدلی میں، اس کی امنیت کو خوف میں، اس کے استقلال کو محتاجی میں اور اس کی آزادی کو غلامی میں تبدیل کرے، مگر یہ خواب نہ پورا ہوا ہے اور نہ ہوگا۔ ایران امریکہ کی آنکهوں میں خار بنا رہے گا، جب تک کہ وہ صفحہ ہستی سے مٹ نہیں جاتا۔ ایرانی قوم صبح و شام "مرگ بر امریکہ" کا شعار بلند کرتی رہے گی۔ امریکہ کو تهوڑی سی بهی عقل ہوتی تو وہ انقلاب اسلامی ایران سے ملے والی ذلت و ناکامی سے عبرت لیتا اور ایران دشمنی سے ہاتھ اٹها لیتا، مگر اس نے اپنی حماقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایران کا پیچها کرنا نہیں چهوڑا۔ ہر لمحہ ایران کے خلاف سازشی جال بنتا رہا۔

اس کی مخالفت میں پالیسیز بناتا رہا، ایران کو اندرونی اور بیرونی جنگ میں گرفتار کرنے کے لئے وسیع پیمانے پر منصوبہ بندی کرتا رہا اور مختلف شکل و صورت میں سازشیں کرتا رہا، مگر ایران کے بابصیرت رہبر کے اشارے سے اس کی ساری سازشیں نقش برآب ہوتی رہی ہیں۔ حالیہ تہران کے دو اہم مقامات، امام خمینی (رہ) کے حرم اور پارلیمنٹ کے پاس ہونے والی دہشگردانہ کارروائیاں امریکہ کی بڑی سازشوں کا ایک اہم حصہ ہیں، جس کی وجہ پوری دنیا میں ایران کی ابهرتی ہوئی قدرت سے خوف ہونا اور اسلامی بیداری کو روکنا ہے۔ امریکہ نے ایران کو مختلف طریقوں سے آزمایا، اقتصادی پابندیاں لگائیں، شیعہ سنی میں تفرقہ ڈالا، پهوٹ ڈالو اور حکومت کرو کی پالیسی پر عمل کیا، منافقین کے ذریعے نظام اسلامی میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کی، مذاکراتی میز پر بلا کر ایران کو دنیا کے سامنے بےوقوف بنانے کی سعی لاحاصل کی، ہمسایہ ممالک کو ایران کے خلاف اکسایا، پاکستان اور ایران کے بارڈر پر دهماکے کروا کر ایک دوسرے سے لڑانے کی کوشش کی، مگر پوری دنیا جانتی ہے کہ ایران نے امریکہ کی ان تمام سازشوں کو ناکام بنا دیا ہے۔ اقتصادی پابندیوں سے ایران کو وقتی طور پر تھوڑی سی مشکلات کا سامنا ضرور ہوا، مگر ایران کو اس کا فائدہ اتنا زیادہ ہوا کہ امریکہ آج پریشان ہے۔ ایران پر اقتصادی پابندیاں لگانے سے امریکہ کو بڑی پشیمانی ہو رہی ہے، اس لئے کہ اس نے دیکها کہ اقتصادی پابندیوں کے باعث بہت مختصر مدت میں ایران اقتصادی میدان میں مضبوط ہوا۔ اپنے پاؤں پر کهڑا ہوا، اب ایران کسی کا محتاج نہیں رہا۔ زرعی پیداوار سے لیکر تمام ضروری اشیاء کے حوالے سے ایران خود کفائی سے مالامال ہوا۔

مذہبی اختلافات کا درخت بهی ثمرآور نہ ہوسکا۔ ایران کے غیور اور بابصیرت شیعہ اور سنی علماء و فقہاء نے امریکہ کی اس سازش کو بهی خاک میں ملایا دیا۔ ایرانی عوام کو تفرقہ و اختلافات کے برے نتائج سے بروقت آگاہ کیا اور سب مسلمانوں کو متحد و متفق اور شیر و شکر ہوکر پرسکون زندگی گزارنے کی تلقین و تاکید کرتے رہے، چنانچہ آج ایران میں شیعہ سنی ایک ہی گهرانے کے افراد کی مانند پیار و محبت سے رہتے ہیں۔ سب امریکہ کو اپنا اصلی دشمن سمجهتے ہیں، دونوں علم اور ٹیکنالوجی کے میدان میں پیشرفت کر رہے ہیں، داعش اور اس کے اتحادیوں سے سب نفرت کرتے ہیں، ایک دوسرے کے عقائد اور نظریات کا بہت احترام کرتے ہیں، ملک میں امن و امان کے قیام کے لئے سب اپنی جانیں قربان کرنے کے لئے تیار ہیں۔ ایران کے اطراف و اکناف میں مشکوک فرد یا افراد پر شیعہ یا سنی کی نظر پڑهنے کی صورت میں وہ فوراً مرکز امنیت کو خبر دینے میں کوئی دیر نہیں کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایران نے اب تک بے شمار دہشتگردوں کو ان کی کارروائیاں عملی ہونے سے پہلے ہی نابود کر ڈالا ہے یا ان کو زندان کے تاریک کمروں میں محبوس کر رکها ہے، جس کے نتیجہ میں شیعہ سنی کی ہمکاری، ہمفکری اور تعاون کی بدولت آج ایران میں شیعہ سنی کا اتحاد پوری دنیا کے لئے اسوہ اور قابل تقلید ہے۔ کاش پاکستان کے مسلمان بهی بیدار ہو کر آپس میں لڑنے کے بجائے اپنی صفوں میں اتحاد کو مستحکم کرنے کی کوشش کرتے اور ایرانی مسلمانوں کی طرح الفت اور محبت کے ساتھ پرامن زندگی بسر کرنے کے لئے جدوجہد کرتے۔

پاکسانیوں سمیت پوری دنیا کے مسلمانوں کے ذہن میں یہ سوال گردش کر رہا ہے کہ حالیہ ایران میں جو دہشتگردانہ حملے ہوئے ہیں، اس میں امریکہ کو کامیابی ملی یا شکست سے دوچار ہوا۔؟ اس کا جواب بالکل واضح ہے کہ امریکہ کو اپنے ناپاک اہداف میں ناکامی کا منہ دیکهنا پڑا۔ دلیل یہ ہے کہ ہر چیز میں کامیابی اور ناکامی کا معیار اس کا ہدف ہوا کرتا ہے، اگر ہدف پورا ہوا تو کامیابی اور دوسری صورت میں ناکامیابی متصور ہوتا ہے۔ اس معیار کے مطابق دیکها جائے تو امریکہ حالیہ تہران کے دہشتگردانہ حملوں میں کمرشکن شکست اور ناکامیابی سے دوچار ہوا ہے، کیونکہ امریکہ کا اصل ہدف ایرانی پارلیمنٹ پر حملہ کروانا تها، مگر سرتوڑ کوشش کرنے کے باوجود دہشتگرد پارلیمنٹ تک رسائی حاصل نہ کرسکے تو انہوں نے پارلیمنٹ کے باہر حفاظت پر مامور افراد پر حملہ کیا اور پارلیمنٹ کے اراکین و وزراء سے ملاقات کے لئے آئے ہوئے بے گناہ زن و مرد پر تیر باران کرکے بہت سوں کو خون ناحق میں نہلا دیا، مگر سکیورٹی اہلکاروں کی بروقت کارروائی کی وجہ سے حملہ آوروں کے عزائم خاک میں مل گئے اور کمال تو یہ ہے کہ پارلیمنٹ کا اجلاس ایک منٹ کے لئے بهی نہیں رکا۔ رہبر معظم انقلاب امام خامنہ ای کے فرمان کے مطابق یہ ایک پٹاخہ تها، جس کی کوئی حیثیت نہیں تهی۔ امریکہ کا دوسرا ہدف یہ تها کہ ارکان پارلیمنٹ اسے آل سعود کی بزدلانہ حرکت سمجھ کر اس پر برس پڑیں گے، یوں یہ حملے ایران اور سعودی عرب کے درمیان جنگی آتش بڑهکانے کے لئے تیل کا کردار ادا کریں گے، مگر ہوا یہ کہ ارکان پارلیمنٹ نے باہر نکل کر مرگ بر امریکہ کا نعرہ لگا کر امریکہ کی سازش کو ناکام بنا دیا۔

ممکن ہے ان حملوں کے لئے امریکہ نے آل سعود کو استعمال کیا ہو، مگر ایرانی بابصیرت لوگوں نے امریکہ پر اپنے غم و غصے نکال کر اصل دشمن کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملایا، آل سعود کو تو ایرانی جانتے ہی ہیں کہ وہ ایک خائن امریکہ کا ایک ادنٰی سا غلام ہے، جس کی کوئی اہمیت نہیں۔ ایران پر امریکہ کا تسلط اور غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کرنا ویسا ہی ناممکن اور لاحاصل ہے، جیسا اس لطیفے میں گوبر سے خوشبو آنا ناممکن ہے۔ لطیفہ یہ ہے کہ کسی دیہات میں کچھ گدھے تهے، جنہیں ان کے مالکان علی الصبح کهیتوں میں لے جاتے تھے اور دن بهر ان سے کام لیتے تهے۔ کهبی کهاد لادتے تهے تو کهبی خاک و گاس وغیرہ۔ غرض صبح سے شام تک ان کی پشت خالی نہیں رہتی، شام تک بوجھ اٹها اٹها کر وہ بے حال ہو جاتے تھے۔ ایک دن کسی کهیت میں ان گدھوں کو کچھ استراحت کرنے کا موقع ملا تو وہ سارے جمع ہوکر سب سے بڑے گدھے کے پاس جمع ہوگئے اور اس بڑے گدھے سے کہا کہ میاں آپ ہم سب سے بزرگ ہیں، ہم آپ سے مشورہ کرتے ہیں کہ ہمارے مالکان تو بڑے بے رحم ہیں، وہ ہمیں آرام سے ایک دن بهی نہیں رکهتے، صبح سے شام تک ہماری پشت پر کچھ نہ کچھ بوجھ رہتا ہی ہے، اس طرح سے تو ہماری زندگی نہیں بنتی ہے، ہم تو جلدی مر جائیں گے، ہمیں ان سے چهٹکارا پانے کے لئے کوئی تدبیر سوچنی چاہیے۔ میاں آپ اس حوالے سے کیا کہتے ہیں، آپ کے ذهن میں اس مشکل کا کوئی حل ہے، کیا ہمارے لئے ہمارے ظالم مالکان سے نجات ملنا ممکن ہے۔ بڑے گدھے نے ذرا خاموشی اختیار کرنے کے بعد کہا دوستو، ہمیں ان ظالموں سے اس دن ہی نجات ملنا ممکن ہے کہ جس دن ہمارے گوبر سے خوشبو آئے۔

آپ امریکہ کی تاریخ پڑهیں آپ پر یہ حقیقت عیاں ہوگی کہ اس نے ہمیشہ اپنے ناک پاک عزائم کی تکمیل کے لئے دوسروں کو استعمال کیا ہے۔ کبهی صدام سے کام لیا تو کبهی رضا شاہ کو اپنا آلہ کار بنایا۔ وہ پس پردہ رہ کر مسلمانوں کے خلاف پراپیگنڈہ کروانے میں بڑا ماہر ہے اور عالمی تجزیہ نگاروں کے مطابق جو پراپیگنڈہ امریکہ کے لئے سب سے زیادہ مفید و کارآمد ثابت ہوا، وہ ہے ایجاد تفرقہ۔ جتنا نقصان مسلمانوں کو عدم اتفاق اور انتشار سے ہوا ہے، کسی اور چیز سے نہیں ہوا۔ آج اپنے ملک پاکستان میں ذرا دیکهیں جگہ جگہ مسلمان تفرقے کا شکار ہیں، آپس میں الجهے ہوئے ہیں، ایک دوسرے کے جانی دشمن بنے ہوئے ہیں، مگر اصلی اور مشترکہ دشمن امریکہ سے ہم غافل ہیں۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہم پاکستانی مسلمانوں کو ابهی تک نہ اپنی شناخت ہوسکی ہے اور نہ اپنے دشمن کی پہچان۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم مسلمان ہونے کے دعویدار تو ہیں مگر اصل دین اور اسلامی تعلیمات سے ہم کوسوں دور ہیں۔ اسلام نے تو ہمیں یہ درس سکهایا ہے کہ مسلمان مسلمان کا بهائی ہے، مسلمانوں کی کامیابی کا راز اتحاد ہے، مسلمان وہ ہے جس کے فعل اور قول سے دوسرے محفوظ رہیں، قومی و لسانی تعصب بڑی بیماری ہے، مسلمانوں کو اس سے دور رہنا ضروری ہے۔ اسلام نے تو مسلمانوں کی گردن پر ایک دوسرے کے بہت سارے حقوق بهی رکهے ہیں۔ یہاں پر مسلمانوں کے حقوق کے بارے میں ایک حدیث نقل کرنا ضروری سمجهتا ہوں، تاکہ مسلمانوں کو پتہ تو چلے کہ اسلام کتنا پیارا دین ہے، مگر ہم کہاں کھڑے ہیں۔

معلٰی بن خنیس کہتے ہیں، میں نے امام جعفر صادق سے عرض کیا: ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر کیا حق ہے۔؟ آپ نے فرمایا: ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر سات حق واجب ہوتے ہیں، جن میں سے ہر ایک خود اس پر بھی واجب ہے، اگر وہ ان میں سے ہر حق ضائع کر دے گا تو خدا کی بندگی، حکومت اور سرپرستی سے باہر نکل جائے گا اور پھر خدا کی طرف سے اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔ میں نے کہا: میں آپ پر فدا ہو جاؤں، وہ حقوق کیا ہیں؟ آپ نے فرمایا: اے معلٰی! میں تجھ پر شفقت کرتا ہوں، مجھے ڈر ہے کہ تو کہیں یہ حقوق تلف نہ کرے، ان کی حفاظت نہ کرسکے اور انہیں سمجھتے ہوئے بھی ان پر عمل نہ کرسکے۔ میں نے کہا: خدا کے سوا کسی میں طاقت نہیں ہے، مجھے خدا کی مدد سے امید ہے کہ میں کامیاب ہو جاؤں گا۔ اس کے بعد امام جعفر صادق (ع) نے سات اہم حقوق یوں فرمائے، جو بالترتیب یہ ہیں:
1۔ اپنے مسلمان بھائی کے لئے وہ چیز پسند کرے، جو اپنے لئے پسند کرتا ہو اور جو اپنے لئے پسند نہیں کرتا، اس کے لئے بھی پسند نہ کرے۔
2۔ اپنے مسلمان بھائی کو ناراض کرنے سے بچا رہے، جو اس کی مرضی کے مطابق ہو، وہ کرے اور اس کا کہا مانے۔
3۔ اپنی جان، مال، زبان اور ہاتھ پاؤں سے اس کا ساتھ دے۔
4۔ اس کی آنکھ، رہنما اور آئینہ بن کر رہے۔
5۔ تو اس وقت تک پیٹ نہ بھر، جب تک وہ بھوکا ہے۔ اس وقت تک سیراب نہ ہو، جب تک وہ پیاسا ہے اور اس وقت تک کپڑے نہ پہن جب تک وہ ننگا ہے۔
6۔ اگر تیرے پاس ملازم ہے اور تیرے بھائی کے پاس نہیں ہے تو تجھ پر لازم ہے کہ اپنا ملازم اس کے پاس بھیج دے، تاکہ وہ اس کا لباس دھو دے، کھانے کا انتظام کر دے اور بستر لگا دے۔
7۔ اسے اس کے معاہدوں کی ذمے داری سے آزاد کر، اس کی دعوت قبول کر، اس کی بیماری میں مزاج پرسی کر، اس کے جنازے میں شریک ہو، اگر تو جانتا ہے کہ اسے کوئی ضرورت ہے تو فوراً اس کی ضرورت پوری کر۔ اس کی ضرورت پوری کرنے میں اس انتظار میں دیر نہ کر کہ وہ خود ضرورت ظاہر کرے بلکہ جلد سے جلد اس کی حاجت پوری کرنے میں لگ جا۔ جب تو نے یہ حقوق ادا کر دیئے تو اپنی محبت کا رشتہ اس کی محبت سے اور اس کی محبت کا رشتہ اپنی محبت سے جوڑ لیا۔
(وسائل الشیعہ، کتاب الجج ابواب احکام، احکام العشرۃ باب 122 حدیث7)
خبر کا کوڈ : 644432
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش