0
Thursday 15 Jun 2017 23:46

صوبائی بجٹ میں جنوبی پنجاب ایک بار پھر نظرانداز

صوبائی بجٹ میں جنوبی پنجاب ایک بار پھر نظرانداز
رپورٹ: ایس اے زیدی

صوبہ پنجاب آبادی کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور ہمیشہ سے یہاں کیلئے بجٹ بھی سب سے زیادہ مختص کیا جاتا ہے، عام فہم خیال یہی آتا ہوگا کہ یہ سارا بجٹ پورے صوبہ پر یکساں طور پر خرچ ہوتا ہوگا، تاہم حقیقت یہ ہے کہ اس بجٹ کا سب سے بڑا حصہ، اگر یہ کہا جائے کہ ترقیاتی کاموں کا 50 فیصد فنڈ لاہور پر لگتا ہے تو غلط نہ ہوگا۔ اس بار پنجاب حکومت نے جو بجٹ پیش کیا وہ 19 کھرب 70 ارب روپے پر مشتمل ہے۔ صوبائی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ جنوبی پنجاب کیلئے بجٹ میں 213 ارب روپے رکھے گئے ہیں، بظاہر یہ بجٹ جنوبی پنجاب کیلئے انتہائی ناکافی ہے تاہم افسوس کا مقام یہ ہے کہ یہ اتنا بجٹ بھی پنجاب کے ان جنوبی علاقوں پر نہیں لگتا جوکہ اپنی پسماندگی، غربت، ناخوانگی اور تعلیمی لحاظ سے اپنا ایک مقام رکھتے ہیں۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق  مالی سال 18-2017ء کا 19 کھرب 70 ارب 70 کروڑ روپے کا بجٹ پیش کیا گیا ہے، جس میں سے ترقیاتی منصوبوں کے لئے 1017 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ ٹیکسز کی مد میں 230 ارب 98 کروڑ اور نان ٹیکسز ریونیو کی مد میں 117 ارب کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔

آئندہ مالی سال کے لئے تنخواہوں کی مد میں 258 ارب، پنشن 173 ارب، مقامی حکومتوں کیلئے 361 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ محصولات کی وصولی کا ہدف 1502 ارب روپے رکھا گیا ہے۔ صحت، واٹر سپلائی، ویمن ڈویلپمنٹ اور سوشل ویلفیئر کے لئے 201 ارب روپے مختص کئے گئے، جبکہ اسکول ایجوکیشن کے لئے 36 ارب 53 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔ سروس ڈیلیوری اخراجات کے لئے 228 ارب 10 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔ مجموعی طور پر شعبہ تعلیم کیلئے 345 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے، بجٹ میں ضلعی تعلیم کیلئے 230 ارب، اسکولوں کی تعمیر و ترقی کیلئے 28 ارب، ہائر ایجوکیشن کے شعبے کیلئے 44 ارب 60 کروڑ روپے مختص کرنے کی تجویز ہے، لیپ ٹاپ اسکیم کیلئے 7 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے، جبکہ صوبے کے 10 ہزار اسکولوں کو سولر سسٹم پر منتقل کیا جائے گا۔ بجٹ پیش ہونے کے بعد جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے منتخب نمائندوں نے وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف سے ملاقات کی۔ اس موقع پر وزیراعلیٰ صاحب نے کہا کہ جنوبی پنجاب کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کا عزم کر رکھا ہے اور جنوبی پنجاب سے پسماندگی کا خاتمہ حکومت کی اولین ترجیح ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے بڑے پروگرام کے لئے 25 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں اور اس پروگرام کا آغاز جنوبی پنجاب کی تمام تحصیلوں سے کیا جائے گا، 2018ء کے اوائل میں یہ پروگرام مکمل ہوگا، اسی طرح رحیم یار خان میں خواجہ فرید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جبکہ مظفرگڑھ سے ڈیرہ غازی خان اور علی پور پنجند تک دو رویہ روڈ کی تعمیر کے لئے فنڈز مختص کر دئیے ہیں، لودھراں خانیوال روڈ کی تعمیر کا آغاز ہو چکا ہے جس پر اربوں روپے صرف کئے جا رہے ہیں۔ بہاولپور ڈویژن کے لئے 45 ارب روپے کی خطیر رقم ترقیاتی منصوبوں کے لئے مختص کی گئی ہے۔ ملتان اور بہاولپور میں سیف سٹیز پراجیکٹس بھی شروع کئے جا رہے ہیں جبکہ پسماندہ علاقوں میں لڑکیوں کو تعلیم کے حصول کیلئے پیش آنے والی مشکلات کو ختم کرنے کیلئے ’’زیور تعلیم‘‘ پروگرام متعارف کرایا گیا ہے۔ شہباز شریف نے کہا کہ 6 موبائل ہیلتھ یونٹس پہلے ہی جنوبی پنجاب کے دور دراز علاقوں میں عوام کو معیاری طبی سہولتوں میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں اور مزید 16 موبائل ہیلتھ یونٹس جنوبی پنجاب کے اضلاع میں عوام کو صحت کی سہولتیں فراہم کریں گے۔ پنجاب حکومت 100 مزید موبائل ہیلتھ یونٹس منگوا رہی ہے اور یہ موبائل ہیلتھ یونٹس بھی جنوبی پنجاب کے دور دراز علاقوں میں عوام کو علاج معالجہ کی سہولتیں فراہم کریں گے۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ ’’خادم پنجاب دیہی روڈز پروگرام‘‘ کے تحت دیہی سڑکوں کی تعمیر و بحالی کے پروگرام پر اربوں روپے صرف کئے جا رہے ہیں، اس پروگرام کے تحت سڑکوں کی تعمیر و بحالی سے دیہی معیشت کو فروغ ملا ہے۔

درحقیقت صوبہ پنجاب کے 36 میں سے جنوبی علاقوں کے 12 اضلاع ایسے ہیں جہاں انفراسٹرکچر کی ترقی کی شرح باقی ضلعوں کی نسبت بہت پسماندہ ہے۔ جنوبی پنجاب کے زیادہ تر اضلاع نو زائیدہ بچوں کی شرح اموات، پینے کے صاف پانی اور سیوریج کے شعبوں میں بہت پیچھے ہیں۔ پنجاب حکومت کے مختلف سرکاری محکموں سے جمع کیے گئے ترقی کی شرح کے اعتبار سے پسماندہ ضلعوں میں بہاولپور، بہاولنگر، رحیم یار خان، ڈیرہ غازی خان، لیہ، مظفر گڑھ، راجن پور، ملتان، خانیوال، لودھراں، وہاڑی اور بھکر شامل ہیں۔ جنوبی پنجاب میں جاگیردرانہ نظام نے معاشرتی اور اقتصادی ڈھانچے کو کھوکھلا کیا ہے۔ اقتصادی پسماندگی اور غربت کی وجہ سے جنوبی پنجاب کے افراد میں احساس محرومی پیدا ہوا ہے۔ ان علاقوں میں غربت کی بات ہر دور میں کی جاتی رہی ہے لیکن اس کے خاتمے کے لیے وسائل برائے نام ہی دستیاب ہوتے ہیں، جس کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ مسلم لیگ نون کی صوبائی حکومت نے جنوبی علاقوں میں غربت کے خاتمے کے لیے انتہائی قلیل رقم مختص کی ہے۔ موجودہ بجٹ میں جنوبی پنجاب کیلئے مختص فنڈ بھی انتہائی ناکافی ہے اور اس اعلان کردہ فنڈ کا بھی اس علاقہ پر لگنا ایک مشکل ہے، اس علاقہ کی پسماندگی، غربت اور دیگر مسائل کو حل کرنے کیلئے اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کا اپنا فرض ادا کرنا ہوگا، سول سوسائٹی اور انسانی حقوق سے وابستہ تنظیمیں بھی اپنا اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔
خبر کا کوڈ : 646196
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش