0
Thursday 15 Jun 2017 02:34

حضرت علیؑ کی مصالحت پسندی اور امن پروری

حضرت علیؑ کی مصالحت پسندی اور امن پروری
تحریر: فدا حسین بالہامی

انسان کی فطری کمزوری ہے کہ حیات و کائنات کا جو رنگ اس کے فکری میلانات، مخصوص فطری مزاج، قلبی رجحانات اور تمائلاتِ عقائد سے میل کھائے، وہ اپنی پوری عمر اسی کو دیکھنے میں کھپا دیتا ہے۔ جہاں کہیں بھی اس طرح کے عناصر دکھائے دیئے، انسان انہیں اپنے کسبِ علوم و معلومات کے دامن میں سمیٹنے کی فوراً لگ جاتا ہے۔ یہ عمل ہو بہو انسانی زندگی میں اسی طرح انجام پذیر ہوتا ہے کہ جیسے مقناطیس کا ایک ٹکڑا چیزوں کے انبار میں صرف اور صرف انہی اشیاء کو اپنی جانب کھینچتا ہے، جن میں قوتِ ثقل سے متاثر ہونے والے عناصر موجود ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ معمولاً ایک انسان اسی چیز کے بارے میں مائل بہ تفکر دکھائی دیتا ہے کہ جس میں اس کے لئے دلچسپی کا سامان پایا جاتا ہو۔ مثال کے طور پر ایک شخص کیلئے ریاضی کا ایک معمولی سا فارمولا چیستان کی حیثیت رکھتا ہے اور اس چیستان کی گھتیاں سلجھانا اس کے لئے کارے دارد والا معاملہ دکھائی دیتا ہے، جبکہ یہی شخص ہزاروں اشعار نہ صرف بآسانی ازبر کر لیتا ہے بلکہ ان کی تفہیم و تشریح کے حوالے سی بھی یدِ طولٰی رکھتا ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اس کی طبعیت ریاضی کے بجائے شعر و ادب کی جانب مائل ہے۔ اسی لحاظ سے اسے ریاضی اور سائنس کے موضوعات گنجلک اور خشک معلوم ہوتے ہیں۔ اس فطری کمزوری یا تخصیص کا ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ اسے انسان کو ارتکازِ فکر کا ملکہ حاصل ہوتا ہے، یعنی انسان کسی بھی شئے کے خاص پہلو کی جانب اپنے طبعی میلان کے عین مطابق متوجہ ہو تو لازمی ہے کہ وہ اس پہلو کی تہہ تک جا سکتا ہے۔ دوسری جانب اس فطری کمزوری کا انتہائی منفی پہلو یہ ہے کہ ہمہ گیر فلسفے یا کسی کثیرالجہت شخصیت کا ایک مخصوص زاویہ نگاہ سے مطالعہ کرے اور پھر جز کو کل سمجھ کر فاصلہ صادر کرے، بالفاظِ دیگر اس فلسفے یا شخصیت کے کسی مخصوص پہلو کو ہی مکمل فلسفہ یا مکمل شخصیت کے طور پیش کرے۔

ہمہ جہت شخصیت اور جزوی مطالعہ:
بدقسمتی سے اسلامی فلسفۂ حیات اور عظیم اسلامی شخصیات کے متعلق بھی یہ منفی رجحان جابجا نظر آتا ہے۔ مولائے کائنات جیسی ہمہ جہت اور متوازن شخصیت کے متعلق بھی یہ یک رنگی اور غیر متوازن مطالعہ علی شناسی میں سود مند ثابت نہ ہوا۔ اس کا نتیجہ بھی ایک عجیب و غریب صورت میں سامنے آیا۔ جس طرح قرآن سامت کی خود غرضانہ تاویلات کے حوالے سے یہ رسمِ ستم ظریفی امتِ مسلمہ میں خوب پھلی پھولی کہ جہاں کہیں اپنے عقیدے، رحجان اور خود ساختہ نظریات سے میل کھانے والی آیت دکھائی دی، اس کو خوب ازبر کیا اور وقتاً فوقتاً اپنے مفاد نظری کی قربان گاہ میں بھینٹ چڑھا دیا اور یوں بقولِ علامہ اقبالؒ قرآن کو ’’بازیچۂ تاویل بنایا گیا۔‘‘ اسی طرح قرآنِ ناطق کی سیرت و کردار کا مطالعہ بھی اپنی ذاتی رحجانات کے آئینے میں کرنے کا عمل قبیح مسلمانوں میں رائج ہوا۔ ایک گروہ نے علیؑ کو صرف اور صرف دنیائے اعجاز و کرامات کا سرخیل جانا اور ان کے زمینی اور زمانی روپ کو یکسر نظر انداز کر دیا۔ اس طرح کی طبیعت کے حامل افراد علیؑ کو صرف اور صرف سیرِ افلاک میں محو ایک ایسے ماورائی وجود کے طور دیکھنے کے قائل ہیں کہ جو اگر بھول کر بھی آسمانِ معجزہ سے اتر کر حقیقی دنیا کے عام معمولات میں مصروف ہو جائے تو وہ علیؑ ان کا مطلوبہ علیؑ نہیں رہتا ہے۔ یہ اس علیؑ کی مدح سرائی نہیں کرتے جو حقیقت کے فرشِ خاک پر کچھ اس طرح آرام فرما ہو کہ ابو تراب کہلایا جائے، جو اپنی اور اپنی دنیاوی زندگی کی مادی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے یہودیوں کی زمینوں کو بھی سیراب کر دے، بلکہ جس سے ہر وقت خارق عادات امور صادر ہوں۔ دراصل ان کے دیو مالائی مزاج کو حضرت علی ؑ کا ابو ترابی اور عملی ہیولا نہیں بھاتا ہے، حالانکہ گہری نگاہ سے دیکھا جائے تو مولائے کائنات کی زندگی کا بظاہر معمولی دکھائی دینے والا کام بھی غیر معمولی ہے۔ ان کی عملی زندگی کا ہر پہلو عظمت بکنار ہے۔ انسانی اقدار و اخلاق کی دنیا میں یہ عظمتِ کردار کسی کرامت و معجزہ سے کم نہیں ہے۔ عکس العمل اس کے کچھ کج فہم اذہان میں علی ؑ کا نورانی اور مظہرالعجائب والے پہلو نے ایک عجیب قسم کا ردعمل پیدا کر دیا ہے، جو بالآخر مبتذل خیالات پر منتج ہوا ہے، ان مبتذل خیالات کے مطابق علی ؑ کی شخصیت میں کوئی ایسی امتیازی شان نہیں پائی جاتی ہے، جس کی مدح سرائی کی جائے۔ صوفیت سے شغف رکھنے والے حضرات کے نزدیک علیؑ فقر و فاقہ میں گزر بسر کرنے والے ایک ایسے ولئ خدا ہیں، جو دنیاوی امور سے کوئی رغبت و میلان نہیں رکھتا اور ایک گروہ کے مطابق علی ؑ ایک ایسے مہم جو کا نام ہے، جو ہر وقت شمشیر بکف آمادہ بہ پیکار نظر آتے ہیں اور اپنے دشمنوں کے سر قلم کرنا ان کا مشغلہ ہے۔ ان کی قہر آلود شخصیت سے ہر سو لرزہ طاری ہے۔ ؂
قہر او کوہ را لرزۂ سیماب داد

اسلام اور جہاد و قتال:
اس بات میں شک و تردد کی کوئی گنجائش ہی نہیں کہ اسلام میں جہاد و قتال کی ناقابلِ انکار اہمیت ہے، نیز شیرِ خدا سے بڑھ کر کوئی مجاہد کون ہوسکتا ہے۔ آپ نے ایک مرتبہ اہلِ کوفہ سے مخاطب ہو کر کہا کہ یاد رکھو ’’جو جہاد سے ہاتھ اٹھا لیتا ہے، وہ تباہی و بربادی سے دوچار ہوئے بغیر نہیں رہتا، اٹھو اور ان لوگوں کے خلاف کمر بستہ ہو جاؤ جو اللہ اور اس کے رسول کے دشمن ہیں اور خدا کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں، یہ ظالم خطا کار اور راہِ حق سے برگشتہ ہیں۔ یہ نہ قرآن کو سمجھتے ہیں اور نہ دین میں سوجھ بوجھ رکھتے ہیں اور نہ خلافت کے اہل ہیں، خدا کی قسم اگر یہ اقتدار میں آگئے تو اسلامی قدروں کو پائمال کرکے ہر قلی و کسروی نظام قائم کریں گے، اٹھو اور ان دشمنانِ دین سے جنگ کرو۔‘‘ جہاد کی تشویق حضرتِ علی ؑ نے کسی ایسے حکمران کی طرح نہیں دلائی، جو خود محفوظ مقام یا محل میں بیٹھ کر اپنی سپاہ کو میدانِ جنگ میں بھیجنے سے قبل الوداعی خطبہ دے رہا ہو۔ وہ ہمیشہ میدانِ جنگ میں پیش پیش رہے۔ کبھی بھی میدانِ رزم سے راہِ فرار اختیار نہیں کی اور یوں کرار کا خطاب انہیں ملا۔ یہی وجہ ہے کہ شیرِ جبار کی شجاعت و بہادری کے قصے تو زبان زدِعام و خاص ہیں اور یقیناً شجاعت آپ کی شخصیت کا ایک تابناک اور جاذبِ نظر پہلو ہے۔ خاص طور سے دینِ اسلام کی ترویج و تطبیق کے سلسلے میں آپ کی جانبازی اور فداکاری اپنی مثال آپ ہے۔ دینِ اسلام کو غالب کرنے کے لئے خدائے ذوالجلال نے اسداللہ الغالب کا انتخاب بطور خاص کیا۔ یداللہ اور ذوالفقارِ حیدری نے بھی مل کر اس انتخاب کی ہر مشکل مرحلے میں لاج رکھی اور بدلے میں خدائے لم یزل نے علیؑ کے سر پر ’’لافتاہ الا علی لا سیف الا ذوالفقار" اس کا تاج سجایا۔ بجا کہا ہے کسی شاعر نے
گر نہ بودی دستِ حیدر ذوالفقار
کی بود اللہ اکبر آشکار


علیؑ۔۔۔۔۔ جامع الکمالات شخصیت:
گو کہ جوانمردی حضرتِ علی ؑ کی حیاتِ ثمر بخش کا ایک ایسا گوشہ ہے، جو ہر کس و ناکس پر واضح اور آشکار ہے۔ لیکن اس واضح اور آشکار گوشے کے جلو میں چند ایک مخفی گوشے ضرور موجود ہیں۔ جنہیں ہرگز ہرگز نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔ باعثِ استعجاب امر یہ ہے کہ یہ مخفی گوشے بظاہر نمایاں پہلو سے متضاد ہیں، مگر گہری نظر سے دیکھا جائے تو انہی متضاد صفات سے حیدرِ کرار کی صفتِ شجاعت جہاں بھر کی دلیری میں نمایاں و ممتاز ہے۔ برِصغیر کے مایہ ناز عالمِ دین، عظیم مفکر اور صاحبِ طرز ادیب و مصنف علامہ مفتی جعفر حسین اعلی اللہ مقامہ نے اپنے گوہر بار قلم سے ان صفات کا تذکرہ ایک خوبصورت پیرائے میں کیا ہے۔ چنانچہ نہج البلاغہ کے ایک حاشیے میں لکھتے ہیں کہ
’’دنیا میں ایسے انسان خال خال ہی نظر آتے ہیں کہ جن میں ایک آدھ صفت کمال کے علاوہ کوئی اور بھی فضیلت نمایاں ہو، چہ جائے کی تمام متضاد صفتیں کسی کے دامن میں جمع ہو جائیں، کیونکہ ہر طبیعت میں ہر کمال کے پھلنے پھولنے اور صفت کے ابھرنے کی صلاحیت نہیں ہوا کرتی، بلکہ ہر فضیلت ایک طبیعتِ خاص اور ہر کمال ایک مزاجِ مخصوص رکھتا ہے، جو انہی اوصاف و کمالات سے سازگار ہوسکتا ہے، جو اس سے یکسانیت و ہم رنگی رکھتے ہوں اور جہاں ہم آہنگی کے بجائے تضاد کی سی صورت ہو، وہاں پر طبیعی تقاضے روک بن کر کسی اور فضیلت کو ابھرنے نہیں دیا کرتے۔ مثلاً جود و سخا کا تقاضا یہ ہے کہ انسان میں رحمدلی و خدا ترسی کا ولولہ ہو، کسی کو فقر و افلاس میں دیکھے تو اس کا دل کڑھنے لگے اور دوسروں کے دکھ درد سے اس کے احساسات ٹرپ اٹھیں اور شجاعت و نبرد آزمائی کا تقاضا یہ ہے کہ طبیعت میں نرمی و رحمدلی کے بجائے خونریزی و سفاکی کا جذبہ ہو، ہر گھری لڑنے الجھنے کے لئے تیار اور مرنے مارنے کے لئے آمادہ نظر آئے اور ان دونوں تقاضوں میں اتنا بُعد ہے کہ کرم کی تبسم ریزیوں میں شجاع کے کڑے تیوروں کو سمویا نہیں جا سکتا اور نہ حاتم سے شجاعتِ رستم کی امید اور نہ رستم سے سخاوتِ حاتم کی توقع کی جاسکتی ہے۔

مگر علی ابن ابی طالب کی طبیعت ہر فضیلت سے پوری مناسبت اور ہر کمال سے پورا لگاؤ رکھتی تھی اور کوئی صفتِ حسن و کمال ایسی نہ تھی، جس سے ان کا دامن خالی رہا ہو اور کوئی خلعتِ خوبی و جمال ایسا نہ تھا، جو ان کے قد و قامت پر راست نہ آیا ہو اور سخاوت و شجاعت کے متضاد تقاضے بھی ان میں پہلو بہ پہلو نظر آتے تھے، اگر وہ داد و دہش میں ابرِ باراں کی طرح برستے تھے تو پہاڑ کی طرح جم کر لڑتے اور دادِ شجاعت بھی دیتے تھے، چنانچہ ان کے جودو کرم کی یہ حالت تھی کہ فقر و افلاس کے زمانے میں بھی جو دن بھر کی مزدوری سے کماتے تھے، اس کا بیشتر حصہ ناداروں اور فاقہ کشوں میں بانٹ دیتے تھے اور کبھی کسی سائل کو اپنے گھر سے ناکام واپس نہ جانے دیتے تھے۔ یہاں تک کہ اگر میدانِ جنگ میں دشمن نے تلوار مانگ لی تو آپ نے اپنے زورِ بازو پر پھروسا کرتے ہوئے تلوار اس کے آگے پھینک دی۔ شجاعوں کی من چلی طبیعتیں سوچ بچار کی عادی نہیں ہوا کرتیں اور نہ مصلحت بینی و مآل اندیشی سے انہیں کوئی لگاؤ رہتا ہے، مگر آپ میں شجاعت کے ساتھ ساتھ سوجھ بوجھ کا مادہ بھی بدرجۂ اتم پایا جاتا تھا، چنانچہ امام شافعی ؒ کا قول ہے کہ "ما اقول فی شخص اجمتعت لہ ثلاثہ مع ثلاثہ لا یجتعمن قط لاحد من بنی اٰدم الجود مع الفقر و الشجاعتہ مع الرائے والعلم مع العمل۔" یعنی میں اس ہستی کے بارے میں کیا کہوں، جن میں تین صفتیں ایسی تین صفتوں کے ساتھ جمع تھیں، جو کسی بشر میں جمع نہیں ہوئیں، فقر کے ساتھ سخاوت، شجاعت کے ساتھ تدبر و رائے اور علم کے ساتھ عملی کارگزاریاں۔‘‘(نہج البلاغہ مترجم مفتی جعفر حسینؒ ص۶۶ ،۶۷)

حاصل کلام یہ ہے کہ بیک وقت مختلف بلکہ متضاد خوبیوں کا ایک ہی شخض میں جمع ہونا بجائے خود ایک ایسی نعمت ہے، جو ہر کسی کے نصیب میں نہیں آتی۔ مگر خوبیوں کا ایک جگہ جمع ہونا ہی انسانی اخلاق و کردار کو رفعت و بلندی عطا نہیں کرتا، کیونکہ بسا اوقات پیدائشی یا فطری اعتبار سے مختلف النوع خوبیوں کے حامل انسان میں بھی ایک آدھ خوبی ہی نشو و نما پاتی ہے۔ دیگر گن اور ہنر اچھوتے رہ کر بالآخر اس کے وجود میں ہی دم توڑتے ہیں۔ لہٰذا خوبیوں کے ساتھ ساتھ ان میں متوازن نشو و نما بھی ایک اہم مرحلہ ہے۔ شہید مرتضٰی مطہریؒ نے اپنی معرکۃ الآرا کتاب ’’انسانِ کامل‘‘ میں اس نکتے کو نہایت ہی خوبصورت اور عام فہم مثال کے ذریعے الم نشرح کیا ہے۔ فرماتے ہیں ’’مثلاً جب ایک لڑکا بڑھتا ہے تو اس کے ہاتھ ہوتے ہیں، پاؤں ہوتے ہیں۔ سر ہوتا ہے، آنکھیں ہوتی ہیں، ناک ہوتی ہے منہ ہوتا، دانت ہوتے ہیں اور اس کے اندرونی اعضاء اور آنتیں ہوتی ہیں۔ پس ایک سالم لڑکا وہ ہے، جس کے تمام اعضاء بڑھیں اور ان کے بڑھنے میں ہم آہنگی بھی پائی جاتی ہو۔ اب ہم فرض کرتے ہیں کہ ایک انسان ایسے بڑھتا ہے، جیسے مضحکہ خیز کارٹون یعنی ایسا ہو کہ اس کے بدن کے باقی حصے تو نہ بڑھیں اور فقط اس کی ناک اتنی بڑھے کہ اس کے باقی بدن کے برابر ہو جائے یا اس کی آنکھیں یا سر بڑھے یا اس کے ہاتھ بڑھیں، لیکن پاؤں نہ بڑھیں یا پاؤں بڑھیں مگر ہاتھ نہ بڑھیں تو ایسا شخص بڑھتا ضرور ہے، لیکن اس کے بڑھنے میں ہم آہنگی نہیں، اس لئے وہ سالم انسان نہیں ہوتا۔‘‘(انسانِ کامل ۔۔ شہید مرتضیٰ مطہری ؒ ص ۔۴۰ مترجم محمد فضل حق)

ان مختلف النوع اور بظاہر متضاد خوبیوں سے آراستہ افراد کی زندگی میں بار بار ایسے فیصلہ کن مگر کٹھن مراحل آتے ہیں، جہاں ان خوبیوں کے مابین آپسی رسہ کشی پیدا ہو جاتی ہے، اس رسہ کشی کے ماحول میں ان افراد کی دیانت و ذہانت کا امتحان ہوتا ہے۔ حاملینِ صفات کو بحیثیتِ قاضی فیصلہ صادر کرنا ہوتا ہے کہ کس صفت کو فی الوقت دبایا جائے اور کس کو ابھارا جائے۔ بسا اوقات فیصلہ سازی میں خارجی عوامل مخل ہوتے ہیں، یعنی جیسا ماحول اور حالات ہوں تو اسی لحاظ سے انسان کے اندروں میں ایک صفت غالب آجاتی ہے اور اسی صفت کے مدِمقابل دوسری صفت مغلوب ہوتی ہے۔ انسانی تاریخ میں بہت کم ایسے نابغۂ روزگار افراد گزرے ہیں کہ جنہوں نے خارجی عوامل کو اپنے ضمیر و وجدان کے روبرو کیا۔ نیز ایمانی بصیرت اور خالص نیت سے فیصلہ صادر فرمایا۔ بعض اوقات یہ فیصلہ وقتی تقاضے اور ماحولی و معاشرتی دباؤ کے بھی بر خلاف ہوتا ہے۔ اس نکتہ کی وضاحت اُس مشہور واقعہ سے بآسانی ہوسکتی ہے، جو حضرت علیؑ سے منسوب ہے، چنانچہ مکتبہ دیوبند سے تعلق رکھنے والے ایک معروف عالم مفتی محمد تقی عثمانی نے اپنی ایک کتاب ’’اکابر دیوبند کیا کہتے تھے؟‘‘ میں ایک جگہ رقمطراز ہے ’’حضرت علی ؑ کا واقعہ مشہور ہے کہ کسی یہودی نے ان کے سامنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں کوئی گستاخی کر دی تھی تو وہ اس پر چڑھ دوڑے اور اْسے زمین پر گرا کر اس کے سینے پر سوار ہوگئے۔ یہودی نے جو اپنے آپ کو بے بس پایا تو کھسیانا ہوکر اْس نے حضرت علی ؑ کے روئے مبارک پر تھوک دیا۔ دیکھنے والوں نے دیکھا کہ حضرت علیؑ ؑ اْس کو چھوڑ کر فوراً الگ ہوگئے اور پوچھنے پر بتایا کہ میں پہلے آنحضرت ؐ کی محبت کی بناء پر اس یہودی سے اْلجھا تھا۔ اگر تھوکنے کے بعد کوئی اور کارروائی کرتا تو یہ اپنے نفس کی مدافعت ہو۔
(جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 646211
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش